شادی اور پچھتاوا
کراچی کے زمانے ہی سے اقبال رضوی کی ملاقات سنگیتا فیملی سے بہت اچھی رہی تھی۔
پاکستان کے لیجنڈ ہیرو وحید مراد نے جب باقاعدہ کراچی میں فلمسازی کے میدان میں قدم رکھا تو فلم آرٹس کے بینر تلے 1964ء میں فلم ''ہیرا اور پتھر'' سے آغاز کیا تھا، اس فلم کے مصنف اقبال رضوی تھے۔ اس زمانے میں کراچی میں دو ہی اچھے اور کامیاب فلم رائٹر فلمسازوں کی گڈ بک میں تھے، جن میں ایک آغا نذیر کاوش تھے اور دوسرے اقبال رضوی۔ آغا نذیر کاوش سماجی موضوع پر گھریلو کہانیاں لکھنے میں مہارت رکھتے تھے جب کہ اقبال رضوی ہر فن مولا تھے، ہر موضوع پر فلمی کہانیاں لکھتے تھے اور طنز و مزاح سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ رومانی فلموں کی کہانیاں بھی خوب لکھتے تھے۔ میری ان دنوں آغا نذیر کاوش اور اقبال رضوی دونوں سے اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
میں ان دنوں نیا نیا ''نگار ویکلی'' سے وابستہ ہوا تھا اور بطور ایک فلمی صحافی ایسٹرن اسٹوڈیو میں اچھا خاصا وقت گزارا کرتا تھا۔ فلم ''ہیرا اور پتھر'' ان دنوں سیٹ پر آچکی تھی اور ابتدا میں اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض بھی اقبال رضوی ہی انجام دے رہے تھے مگر پھر نہ جانے وحید مراد اور مصنف اقبال رضوی کے دوران کس بنا پر رنجش پیدا ہوگئی اور یہ رنجش اتنی بڑھی کہ وحید مراد نے اقبال رضوی کو فلم کی ڈائریکشن سے علیحدہ کردیا۔
انھی دنوں وحید مراد کے اسکول کے زمانے کے دوست پرویز ملک باہر سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے اور فلم ٹیکنالوجی کا بھی وہ تجربہ رکھتے تھے، وحید مراد نے پہلی فرصت میں فلم ہیرا اور پتھر کی ہدایت کاری کے فرائض انھیں سونپ دیے اور پھر ہیرا اور پتھر کی بے مثال کامیابی کے بعد فلم ارمان، احسان اور دوراہا کی ڈائریکشن بھی پرویز ملک ہی نے دی۔ جب کہ فلم ارمان کی شاندار کامیابی نے پرویز ملک کی شہرت میں بھی چار چاند لگا دیے تھے اور پرویز ملک بھی کراچی چھوڑ کر لاہور کی فلم انڈسٹری سے منسلک ہوگئے تھے۔ مصنف اقبال رضوی نے بھی پلٹ کر کبھی وحید مراد کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ کراچی کی بہت سی فلموں کے اسکرپٹ لکھے اور کئی کامیاب فلموں کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے اور پھر یہ بھی شہرت کے ہم سفر بن کر لاہور کی فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
کراچی کے زمانے ہی سے اقبال رضوی کی ملاقات سنگیتا فیملی سے بہت اچھی رہی تھی۔ جب یہ لاہور آئے تو سنگیتا اور کویتا فلمی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا چکی تھیں، جب کہ سنگیتا نے تو کافی شہرت حاصل کی تھی، شباب کیرانوی سے لے کر ہدایت کار ایس سلیمان کی فلموں میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرواچکی تھی، جب سنگیتا نے ''بہاروں کی منزل'' کے بعد اپنی دوسری ذاتی فلم ''تیرے میرے سپنے'' کا آغاز کیا تو اس کی کہانی و مکالمے کے ساتھ فلم کی ڈائریکشن بھی اقبال رضوی نے ہی دی تھی۔
یہ ایک بڑی کاسٹ کی فلم تھی، اس میں سنگیتا، کویتا کے ساتھ محمد علی اور شاہد جیسے دو نامور ہیروز نے کام کیا تھا۔ فلم کا اسکرپٹ بہت اچھا تھا، فلم کی کاسٹ بہت خوب تھی اور پھر موسیقار کمال احمد نے فلم کی موسیقی بھی بڑی لاجواب دی تھی، اس فلم کے تمام گیت تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے تھے۔ صرف ایک آخری گیت ریکارڈ اور عکس بند ہونا رہ گیا تھا، فلم تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ سنگیتا نے مذکورہ فلم کا آخری گیت مجھ سے لکھوایا، فلم کے موسیقار کمال احمد تھے جن کے ساتھ میں فلمساز، ہدایت کار اور ہیرو رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے گیت لکھ چکا تھا اور فلم کی ہیروئن سنگیتا تھی۔
میرے لکھے ہوئے گیت اس پر فلم میں عکس بند ہوئے تھے اور اس نے ایک بار فلم کے سیٹ پر مجھے کہا بھی تھا کہ یونس ہمدم! میں فلم ''تیرے میرے سپنے'' کے لیے تم سے بھی گیت لکھواؤں گی مگر فلم کے شاعر تسلیم فاضلی تھے اور وہ شاید راضی نہیں ہورہے تھے مگر پھر سنگیتا کی والدہ مہتاب بیگم نے سنگیتا کے کہنے پر مجھے فلم کا آخری گیت لکھنے کا نہ صرف عندیہ دیا تھا بلکہ فیصلہ کرلیا تھا اور پھر سنگیتا اور اس کی والدہ کے فیصلے کے بعد کوئی شاعر، فلم کا ہدایت کار تو کیا سنگیتا کے والد طیب رضوی بھی اس فیصلے کے خلاف نہیں جاسکتے تھے۔ پھر یہی ہوا، میں نے فلم کا وہ آخری گیت لکھا جو اس وقت کی بالکل نئی گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے:
میں ہوگئی دلدار کی،ہونے لگی چبھن پیار کی
دل میں کانٹا سا چبھ گیا، چبھ گیا
اور پھر یہ بھی حسنِ اتفاق اور میری بھی خوش قسمتی تھی کہ فلم تیرے میرے سپنے نے پلاٹینم جوبلی کی اور میرا لکھا ہوا گیت فلم کا سب سے زیادہ سپر ہٹ گیت ثابت ہوا اور گلوکارہ ناہید اختر کا بھی یہ ابتدائی سپر ہٹ گیت تھا۔ اس فلم کے بعد میری مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی اور شاعر تسلیم فاضلی سے بھی نبھنے لگی۔ فاضلی سے رفتہ رفتہ بہترین دوستی ہوتی چلی گئی اور پھر تسلیم فاضلی اور میں، ہم دو شاعر (پی این آر) پروڈکشن کے اہم شاعر ہوگئے تھے۔ میں نے اور تسلیم فاضلی نے یکے بعد دیگرے آٹھ دس فلمیں مل کر لکھی تھیں۔ آدھے گیت فاضلی لکھتے تھے اور آدھے گیت میرے سپرد ہوتے تھی اور مصنف اقبال رضوی تو جیسے سنگیتا پروڈکشن فیملی ڈاکٹر کی طرح فیملی رائٹر ہوگئے تھے۔
اقبال رضوی نے سنگیتا پروڈکشن کی جتنی بھی فلمیں لکھیں وہ زیادہ تر کامیاب ثابت ہوتی تھیں۔ جن میں ''تیرے میرے سپنے''، ''محبت اور مہنگائی اور ''مٹھی بھر چاول'' جو راجندر سنگھ بیدی کے ناول ''اک چادر میلی سی'' سے ماخوذ تھی، ان تینوں فلموں نے تو باکس آفس پر نمایاں ترین کامیابی حاصل کی تھی اور مٹھی بھر چاول نے تو امریکا، لندن اور ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی تھی، اب اقبال رضوی جس فلم کی بھی کہانی لکھتے تھے اس میں سنگیتا، کویتا ان دونوں بہنوں کے کرداروں کو بڑا بیلنس کرکے لکھتے تھے اور فلم کے مکالموں میں بھی دونوں بہنوں کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔
انھی دنوں اقبال رضوی نے دو بہنوں کی زندگی پر مشتمل ایک کہانی سنائی جسے سنگیتا فیملی نے بڑا پسند کیا اور پھر اس کہانی کا نام رکھا گیا ''مہندی لگی میرے ہاتھ'' اس فلم میں دونوں بہنوں کے کردار بڑے جاندار تھے، سنگیتا کا کردار طربیہ تھا، جب کہ پہلی بار کویتا کو شوخ و چنچل کردار کے بجائے ایک المیہ کردار دیا گیا تھا جس میں کویتا کو بڑی معیاری اداکاری کا مظاہرہ کرنا تھا۔ کویتا نے اس فلم کے کردار کے لیے دن رات محنت کی تھی، فلم ڈائریکشن سنگیتا کررہی تھی اور اس کے کاندھوں پر ایک بڑی ذمے داری آگئی تھی کہ وہ اپنے کردار کو بھی جاندار بنائے اور اپنی بہن کویتا کے کردار کو خوب سے خوب تر بنانے میں وہ کسی طرح کی کوئی کسر نہ چھوڑے۔ اس فلم کے نغمات بھی تسلیم فاضلی اور میں مل کر لکھ رہے تھے، جہاں تسلیم فاضلی نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنی پسند کی سچویشنز پہلے منتخب کرلوں اور پہلے میرے لکھے ہوئے ہی گیت ریکارڈ کیے جائیں۔ اس بات کو سنگیتا نے بھی بہت سراہا اور پھر موسیقار کمال احمد کے ساتھ دو تین دن تک روزانہ بیٹھک رہی، اس دوران میں نے جو دو گیت لکھے ان میں ایک سنگیتا اور ندیم پر عکس بند کیا گیا تھا، جس کے بول تھے:
سنگ سنگ جینا ہے سنگ سنگ مرنا ہے
جب تک یہ جیون ہے جب تک یہ دنیا ہے
چاہت ہماری ہوگی نہ کم، میرے صنم میرے صنم
یہ گیت گلوکارہ مہناز کی آواز میں تھا اور دوسرا گیت جو المیہ رنگ لیے ہوئے تھا وہ دو آوازوں میں تھا، جسے ناہید اختر اور مہناز نے اور کورس کی لڑکیوں نے بھی گایا تھا۔ اس گیت کے انٹرول میوزک پیس کے دوران گیت کا کچھ حصہ رومانٹک تھا جو سنگیتا کلب میں گاتی ہے، گیت کا مکھڑا تھا:
جیون میں ہر سو اندھیرا
نہ چاہت خوشی کی نہ میں کسی کی
نہ کوئی ہے آج میرا، جیون میں ہرسو اندھیرا
اس گیت میں اداکارہ کویتا نے بڑی بھرپور جاندار اداکاری کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا اور ایک خاص بات اور بتاتا چلوں کہ فلم مہنگی لگی میرے ہاتھ کے بعد سنگیتا نے بڑی رازداری کے ساتھ اپنے والدین سے چھپ کر ایک پنجابی فلم کی شوٹنگ کے دوران پشاور میں فلم کے ہیرو ہمایوں قریشی سے شادی کرلی تھی مگر بعد میں سنگیتا کو اندازہ ہوا کہ اس کا یہ عجلت کا فیصلہ غلط تھا اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ سنگیتا اور ہمایوں قریشی میں طلاق ہوگئی تھی، سنگیتا کو آج بھی اپنی شادی کے اس غلط فیصلے پر ندامت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ کویتا نے شادی کرکے فلمی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا ہے مگر سنگیتا کو آج بھی پچھتاوا ہے۔
میں ان دنوں نیا نیا ''نگار ویکلی'' سے وابستہ ہوا تھا اور بطور ایک فلمی صحافی ایسٹرن اسٹوڈیو میں اچھا خاصا وقت گزارا کرتا تھا۔ فلم ''ہیرا اور پتھر'' ان دنوں سیٹ پر آچکی تھی اور ابتدا میں اس فلم کی ہدایت کاری کے فرائض بھی اقبال رضوی ہی انجام دے رہے تھے مگر پھر نہ جانے وحید مراد اور مصنف اقبال رضوی کے دوران کس بنا پر رنجش پیدا ہوگئی اور یہ رنجش اتنی بڑھی کہ وحید مراد نے اقبال رضوی کو فلم کی ڈائریکشن سے علیحدہ کردیا۔
انھی دنوں وحید مراد کے اسکول کے زمانے کے دوست پرویز ملک باہر سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے اور فلم ٹیکنالوجی کا بھی وہ تجربہ رکھتے تھے، وحید مراد نے پہلی فرصت میں فلم ہیرا اور پتھر کی ہدایت کاری کے فرائض انھیں سونپ دیے اور پھر ہیرا اور پتھر کی بے مثال کامیابی کے بعد فلم ارمان، احسان اور دوراہا کی ڈائریکشن بھی پرویز ملک ہی نے دی۔ جب کہ فلم ارمان کی شاندار کامیابی نے پرویز ملک کی شہرت میں بھی چار چاند لگا دیے تھے اور پرویز ملک بھی کراچی چھوڑ کر لاہور کی فلم انڈسٹری سے منسلک ہوگئے تھے۔ مصنف اقبال رضوی نے بھی پلٹ کر کبھی وحید مراد کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ کراچی کی بہت سی فلموں کے اسکرپٹ لکھے اور کئی کامیاب فلموں کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے اور پھر یہ بھی شہرت کے ہم سفر بن کر لاہور کی فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
کراچی کے زمانے ہی سے اقبال رضوی کی ملاقات سنگیتا فیملی سے بہت اچھی رہی تھی۔ جب یہ لاہور آئے تو سنگیتا اور کویتا فلمی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا چکی تھیں، جب کہ سنگیتا نے تو کافی شہرت حاصل کی تھی، شباب کیرانوی سے لے کر ہدایت کار ایس سلیمان کی فلموں میں کام کرکے اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرواچکی تھی، جب سنگیتا نے ''بہاروں کی منزل'' کے بعد اپنی دوسری ذاتی فلم ''تیرے میرے سپنے'' کا آغاز کیا تو اس کی کہانی و مکالمے کے ساتھ فلم کی ڈائریکشن بھی اقبال رضوی نے ہی دی تھی۔
یہ ایک بڑی کاسٹ کی فلم تھی، اس میں سنگیتا، کویتا کے ساتھ محمد علی اور شاہد جیسے دو نامور ہیروز نے کام کیا تھا۔ فلم کا اسکرپٹ بہت اچھا تھا، فلم کی کاسٹ بہت خوب تھی اور پھر موسیقار کمال احمد نے فلم کی موسیقی بھی بڑی لاجواب دی تھی، اس فلم کے تمام گیت تسلیم فاضلی کے لکھے ہوئے تھے۔ صرف ایک آخری گیت ریکارڈ اور عکس بند ہونا رہ گیا تھا، فلم تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ سنگیتا نے مذکورہ فلم کا آخری گیت مجھ سے لکھوایا، فلم کے موسیقار کمال احمد تھے جن کے ساتھ میں فلمساز، ہدایت کار اور ہیرو رنگیلا کی فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے گیت لکھ چکا تھا اور فلم کی ہیروئن سنگیتا تھی۔
میرے لکھے ہوئے گیت اس پر فلم میں عکس بند ہوئے تھے اور اس نے ایک بار فلم کے سیٹ پر مجھے کہا بھی تھا کہ یونس ہمدم! میں فلم ''تیرے میرے سپنے'' کے لیے تم سے بھی گیت لکھواؤں گی مگر فلم کے شاعر تسلیم فاضلی تھے اور وہ شاید راضی نہیں ہورہے تھے مگر پھر سنگیتا کی والدہ مہتاب بیگم نے سنگیتا کے کہنے پر مجھے فلم کا آخری گیت لکھنے کا نہ صرف عندیہ دیا تھا بلکہ فیصلہ کرلیا تھا اور پھر سنگیتا اور اس کی والدہ کے فیصلے کے بعد کوئی شاعر، فلم کا ہدایت کار تو کیا سنگیتا کے والد طیب رضوی بھی اس فیصلے کے خلاف نہیں جاسکتے تھے۔ پھر یہی ہوا، میں نے فلم کا وہ آخری گیت لکھا جو اس وقت کی بالکل نئی گلوکارہ ناہید اختر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے:
میں ہوگئی دلدار کی،ہونے لگی چبھن پیار کی
دل میں کانٹا سا چبھ گیا، چبھ گیا
اور پھر یہ بھی حسنِ اتفاق اور میری بھی خوش قسمتی تھی کہ فلم تیرے میرے سپنے نے پلاٹینم جوبلی کی اور میرا لکھا ہوا گیت فلم کا سب سے زیادہ سپر ہٹ گیت ثابت ہوا اور گلوکارہ ناہید اختر کا بھی یہ ابتدائی سپر ہٹ گیت تھا۔ اس فلم کے بعد میری مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی اور شاعر تسلیم فاضلی سے بھی نبھنے لگی۔ فاضلی سے رفتہ رفتہ بہترین دوستی ہوتی چلی گئی اور پھر تسلیم فاضلی اور میں، ہم دو شاعر (پی این آر) پروڈکشن کے اہم شاعر ہوگئے تھے۔ میں نے اور تسلیم فاضلی نے یکے بعد دیگرے آٹھ دس فلمیں مل کر لکھی تھیں۔ آدھے گیت فاضلی لکھتے تھے اور آدھے گیت میرے سپرد ہوتے تھی اور مصنف اقبال رضوی تو جیسے سنگیتا پروڈکشن فیملی ڈاکٹر کی طرح فیملی رائٹر ہوگئے تھے۔
اقبال رضوی نے سنگیتا پروڈکشن کی جتنی بھی فلمیں لکھیں وہ زیادہ تر کامیاب ثابت ہوتی تھیں۔ جن میں ''تیرے میرے سپنے''، ''محبت اور مہنگائی اور ''مٹھی بھر چاول'' جو راجندر سنگھ بیدی کے ناول ''اک چادر میلی سی'' سے ماخوذ تھی، ان تینوں فلموں نے تو باکس آفس پر نمایاں ترین کامیابی حاصل کی تھی اور مٹھی بھر چاول نے تو امریکا، لندن اور ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی تھی، اب اقبال رضوی جس فلم کی بھی کہانی لکھتے تھے اس میں سنگیتا، کویتا ان دونوں بہنوں کے کرداروں کو بڑا بیلنس کرکے لکھتے تھے اور فلم کے مکالموں میں بھی دونوں بہنوں کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔
انھی دنوں اقبال رضوی نے دو بہنوں کی زندگی پر مشتمل ایک کہانی سنائی جسے سنگیتا فیملی نے بڑا پسند کیا اور پھر اس کہانی کا نام رکھا گیا ''مہندی لگی میرے ہاتھ'' اس فلم میں دونوں بہنوں کے کردار بڑے جاندار تھے، سنگیتا کا کردار طربیہ تھا، جب کہ پہلی بار کویتا کو شوخ و چنچل کردار کے بجائے ایک المیہ کردار دیا گیا تھا جس میں کویتا کو بڑی معیاری اداکاری کا مظاہرہ کرنا تھا۔ کویتا نے اس فلم کے کردار کے لیے دن رات محنت کی تھی، فلم ڈائریکشن سنگیتا کررہی تھی اور اس کے کاندھوں پر ایک بڑی ذمے داری آگئی تھی کہ وہ اپنے کردار کو بھی جاندار بنائے اور اپنی بہن کویتا کے کردار کو خوب سے خوب تر بنانے میں وہ کسی طرح کی کوئی کسر نہ چھوڑے۔ اس فلم کے نغمات بھی تسلیم فاضلی اور میں مل کر لکھ رہے تھے، جہاں تسلیم فاضلی نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنی پسند کی سچویشنز پہلے منتخب کرلوں اور پہلے میرے لکھے ہوئے ہی گیت ریکارڈ کیے جائیں۔ اس بات کو سنگیتا نے بھی بہت سراہا اور پھر موسیقار کمال احمد کے ساتھ دو تین دن تک روزانہ بیٹھک رہی، اس دوران میں نے جو دو گیت لکھے ان میں ایک سنگیتا اور ندیم پر عکس بند کیا گیا تھا، جس کے بول تھے:
سنگ سنگ جینا ہے سنگ سنگ مرنا ہے
جب تک یہ جیون ہے جب تک یہ دنیا ہے
چاہت ہماری ہوگی نہ کم، میرے صنم میرے صنم
یہ گیت گلوکارہ مہناز کی آواز میں تھا اور دوسرا گیت جو المیہ رنگ لیے ہوئے تھا وہ دو آوازوں میں تھا، جسے ناہید اختر اور مہناز نے اور کورس کی لڑکیوں نے بھی گایا تھا۔ اس گیت کے انٹرول میوزک پیس کے دوران گیت کا کچھ حصہ رومانٹک تھا جو سنگیتا کلب میں گاتی ہے، گیت کا مکھڑا تھا:
جیون میں ہر سو اندھیرا
نہ چاہت خوشی کی نہ میں کسی کی
نہ کوئی ہے آج میرا، جیون میں ہرسو اندھیرا
اس گیت میں اداکارہ کویتا نے بڑی بھرپور جاندار اداکاری کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا اور ایک خاص بات اور بتاتا چلوں کہ فلم مہنگی لگی میرے ہاتھ کے بعد سنگیتا نے بڑی رازداری کے ساتھ اپنے والدین سے چھپ کر ایک پنجابی فلم کی شوٹنگ کے دوران پشاور میں فلم کے ہیرو ہمایوں قریشی سے شادی کرلی تھی مگر بعد میں سنگیتا کو اندازہ ہوا کہ اس کا یہ عجلت کا فیصلہ غلط تھا اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ سنگیتا اور ہمایوں قریشی میں طلاق ہوگئی تھی، سنگیتا کو آج بھی اپنی شادی کے اس غلط فیصلے پر ندامت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ کویتا نے شادی کرکے فلمی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا ہے مگر سنگیتا کو آج بھی پچھتاوا ہے۔