اپنے بچوں کی حفاظت کیجیے ورنہ…
یہ فحش نظارے بھی دیکھنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں کہ یہ لڑکیاں کس کس طرح شکار پھانس رہی ہیں۔
PESHAWAR:
پہاڑی علاقوں میں عموماً لگڑ بگھے پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات رات کو یہ خطرناک جانورگھروں میں داخل ہو کر نومولود اور شیرخوار بچوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اسی لیے پہاڑی علاقوں کے مکین رات کو نہ صرف دروازوں کو مضبوطی سے بند کر کے سوتے تھے، بلکہ دن کو بھی بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انسان نما جانوروں نے لگڑ بگھوں کا روپ نہیں بھرا تھا، لیکن آج کے شتر بے مہار پاکستان میں انسانی روپ میں یہ لکڑ بھگے کھلے پھر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کو تحفظ دینے والے حکومت اور پولیس کے محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
کوئی بچہ یا بچی چیز لینے باہر گیا ہو یا گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں، محلے اور اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہا ہو، آناً فاناً تاک لگائے لگڑ بگھے انھیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کبھی کلوروفام سونگھا کر، کبھی بوری میں بند کر کے اور کبھی بہلا پھسلا کر اور پھر ان اغوا شدہ بچوں کو یا تو متحدہ عرب امارات اونٹوں کی ریس کے لیے بھیج دیا جاتا ہے یا بھیک منگوانے والے مافیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ بعض بے ضمیر اور سنگدل ڈاکٹرز بھی اس گھناؤنے کاروبار میں باقاعدہ شریک ہیں۔
بعض دفعہ جوان لوگوں کو بھی اغوا کیا جاتا ہے اور ان کا ایک ایک گردہ نکال کر لاکھوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے بچوں کے اغوا کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ مرنے والے کو اپنے ہاتھوں سے دفنا کر صبر آ جاتا ہے، کہ ایک دن سب کو جانا ہے، لیکن جیتے جاگتے بچے، نوجوان، لڑکے لڑکیاں لمحوں میں اس طرح غائب ہو جائیں کہ جیسے جنات اٹھا کر لے گئے تو لواحقین کو ساری عمر چین نہیں آتا۔
چند سال پہلے میرے عزیزوں میں سے ایک بالغ نوجوان اغوا ہو گیا۔ اس کے بھائیوں نے تلاش کرنے میں زمین آسمان ایک کر دیا، ملتان، لاہور اور دیگر جگہوں کے مزارات چھان مارے، اسپتالوں کے مردہ خانے کھنگال ڈالے۔ بھکاریوں کے اڈے تک نہ چھوڑے، لیکن وہ جوان جس کا نام جاوید تھا آج تک نہ ملا۔ اس کی بہن کو جب بھی بڑا بھائی یاد آتا ہے، آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں کہ جانے کہاں گیا اور کس حال میں ہے۔ زندہ ہے یا نہیں؟
کراچی اور لاہور کی مصروف شاہراہوں اور بازاروں میں آپ کو چھوٹے چھوٹے بچے، بارہ تیرہ سال کی لڑکیاں، ہر طرف بھیک مانگتے نظر آئیں گے، ذرا آس پاس نظریں دوڑایے تو ان پر نظر رکھنے والے کارندے بھی دکھائی دے جائیں گے۔ یہ پورا مافیا بے ضمیر ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے بچوں کے ہاتھ پاؤں تڑوا کر انھیں معذور بنا دیتے ہیں تا کہ لوگ ہمدردی میں زیادہ بھیک دے سکیں۔ پھر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ لڑکیاں جب بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہیں تو انھیں دیگر معیوب کاروبار میں لگا دیا جاتا ہے۔
یہ فحش نظارے بھی دیکھنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں کہ یہ لڑکیاں کس کس طرح شکار پھانس رہی ہیں۔ لڑکے جب بڑے ہو جاتے ہیں ۔ انھیں چوری چکاری کی طرف لگا دیا جاتا ہے یا جیب کاٹنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے بچوں کے اغوا کا غلغلہ اٹھا تو ہے لیکن حکومت کے کان پہ جوں بھی نہ رینگی۔ کیونکہ وزیر اعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے کانوں پر خوشامد کے ہیڈ فون لگے ہیں۔ جب کسی وزیر سفیر یا صنعت کار کا بیٹا اغوا ہوتا ہے تو پولیس کسی طرح دن رات ایک کر کے اسے بازیاب کروا لیتی ہے۔ اس لیے کہ ہماری پولیس کو اغوا کاروں کے ٹھکانوں کا بخوبی علم ہے۔
اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بیشتر اغوا کی وارداتوں میں خود پولیس اہل کار ملوث پائے گئے۔ افسوس کہ سب سے زیادہ بدنام محکمہ بھی یہی ہے۔ اس میں صرف کالی بھیڑوں کی کھپت ہے۔ اگر غلطی سے کوئی سفید بھیڑ نظر آ جائے اور وہ کالی بھیڑوں کے ریوڑ میں شامل نہ ہونا چاہے تو اس کا ٹرانسفر مختلف جگہوں پر ہوتا رہتا ہے۔ یا پھر اس کے خاندان پہ عذاب ڈھایا جاتا ہے۔ آخر کو جب وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے تب اسے رہائی ملتی ہے۔ زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ جب ایمان داری اور فرض شناسی کے عوض زندگی اجیرن کر دی جاتی ہو تو کون احمق ایمانداری اور فرض شناسی کی بھاری سل اپنے گلے میں لٹکائے گا۔
کوئی جوان مرد حکومت میں ایسا ہے جو ان کا حساب لے کہ نوکری کے وقت کیا تھا، اور کہاں رہتے تھے اور چند سال میں بینک بیلنس بھی بڑھ گیا۔ 80 گز کے گھر سے اٹھ کر 600 گز اور پھر ہزار گز کے بنگلے میں کیسے پہنچے؟ نہیں کوئی نہیں؟ کوئی نہیں حساب لے سکتا کہ بچوں کے اغوا کاروں سے، بھیک منگوانے والوں سے اور ابن آدم کے بنت حوا کی بروکری سے جو رقم ملتی ہے۔ اسی سے تو ان بے ضمیر لوگوں کے بچے بیرون ملک پڑھنے اور عیاشی کرنے جاتے ہیں۔
ان بھیک مانگتے بچوں کو بازاروں میں دیکھ کر کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ نہ جانے یہ کن بدنصیب ماں باپ کے جگر گوشے ہیں۔ حکومت کا کام صرف اتنا رہ گیا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑالے کہ بچے خود گھروں سے بھاگتے ہیں، لیکن کیا اس طرح حکومت کا بھرم قائم رہتا ہے۔ پولیس کو کچھ بھی کہنا بیکار ہے۔ سوائے اس کے کہ اگر پولیس کا محکمہ ہی ختم کر دیا جائے تو جرائم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ کون سا جرم ہے جس میں یہ وردی والے ملوث نہیں۔ آئے دن یہ خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ چند پولیس افسران اپنے ٹولے کے ساتھ مل کر نوجوانوں کو اغوا کرتے ہیں۔ جھوٹا الزام لگا کر ان کے خاندان سے پیسے بٹورتے ہیں اور دھمکی بھی دیتے ہیں کہ اگر ان کا نام بتایا تو پورے خاندان کو غائب کر دیں گے، لیکن کسی نے نوٹس لیا؟
اسی طرح بچے مسلسل اغوا ہو رہے ہیں، لیکن حکمران اگلے الیکشن کی کارروائیوں میں جٹے ہیں۔ جن گھروں کے بچے غائب ہوتے ہیں ان پر قیامتیں گزرتی ہیں، لیکن ان کے دل سے نکلی بددعائیں خدا جانے کیوں عرش تک نہیں پہنچتیں؟ آخر ظالموں کی رسی کب تک دراز ہو گی۔ بے زمیں بے آسماں، بدنصیب عوام کس کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں؟
پہاڑی علاقوں میں عموماً لگڑ بگھے پائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات رات کو یہ خطرناک جانورگھروں میں داخل ہو کر نومولود اور شیرخوار بچوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔ اسی لیے پہاڑی علاقوں کے مکین رات کو نہ صرف دروازوں کو مضبوطی سے بند کر کے سوتے تھے، بلکہ دن کو بھی بچوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انسان نما جانوروں نے لگڑ بگھوں کا روپ نہیں بھرا تھا، لیکن آج کے شتر بے مہار پاکستان میں انسانی روپ میں یہ لکڑ بھگے کھلے پھر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کو تحفظ دینے والے حکومت اور پولیس کے محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
کوئی بچہ یا بچی چیز لینے باہر گیا ہو یا گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں، محلے اور اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہا ہو، آناً فاناً تاک لگائے لگڑ بگھے انھیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کبھی کلوروفام سونگھا کر، کبھی بوری میں بند کر کے اور کبھی بہلا پھسلا کر اور پھر ان اغوا شدہ بچوں کو یا تو متحدہ عرب امارات اونٹوں کی ریس کے لیے بھیج دیا جاتا ہے یا بھیک منگوانے والے مافیا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ بعض بے ضمیر اور سنگدل ڈاکٹرز بھی اس گھناؤنے کاروبار میں باقاعدہ شریک ہیں۔
بعض دفعہ جوان لوگوں کو بھی اغوا کیا جاتا ہے اور ان کا ایک ایک گردہ نکال کر لاکھوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے بچوں کے اغوا کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ مرنے والے کو اپنے ہاتھوں سے دفنا کر صبر آ جاتا ہے، کہ ایک دن سب کو جانا ہے، لیکن جیتے جاگتے بچے، نوجوان، لڑکے لڑکیاں لمحوں میں اس طرح غائب ہو جائیں کہ جیسے جنات اٹھا کر لے گئے تو لواحقین کو ساری عمر چین نہیں آتا۔
چند سال پہلے میرے عزیزوں میں سے ایک بالغ نوجوان اغوا ہو گیا۔ اس کے بھائیوں نے تلاش کرنے میں زمین آسمان ایک کر دیا، ملتان، لاہور اور دیگر جگہوں کے مزارات چھان مارے، اسپتالوں کے مردہ خانے کھنگال ڈالے۔ بھکاریوں کے اڈے تک نہ چھوڑے، لیکن وہ جوان جس کا نام جاوید تھا آج تک نہ ملا۔ اس کی بہن کو جب بھی بڑا بھائی یاد آتا ہے، آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں کہ جانے کہاں گیا اور کس حال میں ہے۔ زندہ ہے یا نہیں؟
کراچی اور لاہور کی مصروف شاہراہوں اور بازاروں میں آپ کو چھوٹے چھوٹے بچے، بارہ تیرہ سال کی لڑکیاں، ہر طرف بھیک مانگتے نظر آئیں گے، ذرا آس پاس نظریں دوڑایے تو ان پر نظر رکھنے والے کارندے بھی دکھائی دے جائیں گے۔ یہ پورا مافیا بے ضمیر ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے بچوں کے ہاتھ پاؤں تڑوا کر انھیں معذور بنا دیتے ہیں تا کہ لوگ ہمدردی میں زیادہ بھیک دے سکیں۔ پھر معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ لڑکیاں جب بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہیں تو انھیں دیگر معیوب کاروبار میں لگا دیا جاتا ہے۔
یہ فحش نظارے بھی دیکھنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں کہ یہ لڑکیاں کس کس طرح شکار پھانس رہی ہیں۔ لڑکے جب بڑے ہو جاتے ہیں ۔ انھیں چوری چکاری کی طرف لگا دیا جاتا ہے یا جیب کاٹنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے بچوں کے اغوا کا غلغلہ اٹھا تو ہے لیکن حکومت کے کان پہ جوں بھی نہ رینگی۔ کیونکہ وزیر اعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے کانوں پر خوشامد کے ہیڈ فون لگے ہیں۔ جب کسی وزیر سفیر یا صنعت کار کا بیٹا اغوا ہوتا ہے تو پولیس کسی طرح دن رات ایک کر کے اسے بازیاب کروا لیتی ہے۔ اس لیے کہ ہماری پولیس کو اغوا کاروں کے ٹھکانوں کا بخوبی علم ہے۔
اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بیشتر اغوا کی وارداتوں میں خود پولیس اہل کار ملوث پائے گئے۔ افسوس کہ سب سے زیادہ بدنام محکمہ بھی یہی ہے۔ اس میں صرف کالی بھیڑوں کی کھپت ہے۔ اگر غلطی سے کوئی سفید بھیڑ نظر آ جائے اور وہ کالی بھیڑوں کے ریوڑ میں شامل نہ ہونا چاہے تو اس کا ٹرانسفر مختلف جگہوں پر ہوتا رہتا ہے۔ یا پھر اس کے خاندان پہ عذاب ڈھایا جاتا ہے۔ آخر کو جب وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے تب اسے رہائی ملتی ہے۔ زندگی کس کو پیاری نہیں ہوتی۔ جب ایمان داری اور فرض شناسی کے عوض زندگی اجیرن کر دی جاتی ہو تو کون احمق ایمانداری اور فرض شناسی کی بھاری سل اپنے گلے میں لٹکائے گا۔
کوئی جوان مرد حکومت میں ایسا ہے جو ان کا حساب لے کہ نوکری کے وقت کیا تھا، اور کہاں رہتے تھے اور چند سال میں بینک بیلنس بھی بڑھ گیا۔ 80 گز کے گھر سے اٹھ کر 600 گز اور پھر ہزار گز کے بنگلے میں کیسے پہنچے؟ نہیں کوئی نہیں؟ کوئی نہیں حساب لے سکتا کہ بچوں کے اغوا کاروں سے، بھیک منگوانے والوں سے اور ابن آدم کے بنت حوا کی بروکری سے جو رقم ملتی ہے۔ اسی سے تو ان بے ضمیر لوگوں کے بچے بیرون ملک پڑھنے اور عیاشی کرنے جاتے ہیں۔
ان بھیک مانگتے بچوں کو بازاروں میں دیکھ کر کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ نہ جانے یہ کن بدنصیب ماں باپ کے جگر گوشے ہیں۔ حکومت کا کام صرف اتنا رہ گیا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑالے کہ بچے خود گھروں سے بھاگتے ہیں، لیکن کیا اس طرح حکومت کا بھرم قائم رہتا ہے۔ پولیس کو کچھ بھی کہنا بیکار ہے۔ سوائے اس کے کہ اگر پولیس کا محکمہ ہی ختم کر دیا جائے تو جرائم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ کون سا جرم ہے جس میں یہ وردی والے ملوث نہیں۔ آئے دن یہ خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ چند پولیس افسران اپنے ٹولے کے ساتھ مل کر نوجوانوں کو اغوا کرتے ہیں۔ جھوٹا الزام لگا کر ان کے خاندان سے پیسے بٹورتے ہیں اور دھمکی بھی دیتے ہیں کہ اگر ان کا نام بتایا تو پورے خاندان کو غائب کر دیں گے، لیکن کسی نے نوٹس لیا؟
اسی طرح بچے مسلسل اغوا ہو رہے ہیں، لیکن حکمران اگلے الیکشن کی کارروائیوں میں جٹے ہیں۔ جن گھروں کے بچے غائب ہوتے ہیں ان پر قیامتیں گزرتی ہیں، لیکن ان کے دل سے نکلی بددعائیں خدا جانے کیوں عرش تک نہیں پہنچتیں؟ آخر ظالموں کی رسی کب تک دراز ہو گی۔ بے زمیں بے آسماں، بدنصیب عوام کس کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں؟