لیڈرکی متلاشی قوم

قوموں کی عزیز ترین متاع ان کی آزادی اور خود مختاری ہوتی ہے۔

KARACHI:
قوموں کی عزیز ترین متاع ان کی آزادی اور خود مختاری ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی خودی پر سمجھوتہ کرلیتی ہے وہ اپنی خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ 16 دسمبر والے ملک میں 14 اگست کے جشن ہماری دانست میں کمزور یادداشتوں کا نوحہ ہے۔ وطن عزیز میں متنازعہ پلاٹوں اورگھروں کے جھگڑے بہت عام ہیں ہر کوئی قبضہ گزار اسے اپنی ملکیت بتاتا ہے۔

افسوس کہ 69 برس گزرنے کے بعد بھی ہمارا ملک پاکستان ایک متنازعہ اسٹیٹ کے طور پر دنیا کے نقشے میں موجود ہے۔ یہ آج تک طے نہیں ہوسکا کہ پاکستان کے جملہ حقوق کس کے پاس یا کس کے نام ہیں؟ یہاں ہر بڑا خود کو مالک مکان اور دوسرے کوکرائے دار سمجھتا ہے اور یوں یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ بن گیا ہے جہاں گھر کے منشی سے لے کر چوکی دار تک ہر ایک خود کو مالک سمجھتا ہے مگر جو اس کے حقیقی مالک ہیں وہ کرائے داروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ہماری ریاست کے تمام مالکان سے دست بستہ اپیل ہے کہ ہم 19 کروڑ کرایہ داروں کی تو بس یہی التجا ہے کہ آپ ملکیت کا یہ جھگڑا جس قدر جلد ممکن ہو سلجھا لیتی کیونکہ آپ ماشا اللہ سمجھ دار ہیں اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ جس پراپرٹی کے ایک سے زیادہ مالک ہوں اسے ''متنازعہ پراپرٹی'' کہا جاتا ہے اور مارکیٹ میں اس کے دام بھی گر جاتے ہیں۔

69 سالوں میں ہم نے دنیا کے مقابلے میں اگر ترقی کی ہے تو صرف ''وزارتوں کے میدان'' میں کی ہے۔ چین کی آبادی 135کروڑ ہے اور وہاں صرف 14 وزارتیں ہیں۔ بھارت کی 121کروڑ آبادی کے لیے 26 وزیر ہیں۔ امریکا کی 32کروڑ آبادی کے لیے 14 وزیر اور برطانیہ کی 13کروڑ آبادی کے لیے 12 وزیر تعینات ہیں جب کہ ہمارے ملک پاکستان کی 19 کروڑ آبادی کے لیے 96 وزیر بھی کم پڑ رہے ہیں اور ان کے ''ٹھاٹ باٹھ'' کی طرف نظرکریں تو ہر وزیر واجد علی شاہ بنا بیٹھا نظر آتا ہے۔

افسوس ہماری ملکی سیاست سے وابستہ کوئی بھی سیاست داں 69 سال گزر جانے کے بعد بھی خود کو بدل نہیں سکا اور نہ ہی وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کیمطابق خود کو ڈھال سکا یوں وہ طویل برسوں سے خود کو بدلنے سے قاصر اورمعذور چلے آرہے ہیں ۔یہ ایک ناقابل حقیقت ہے کہ وردیاں، میڈل اور فوجیں لیڈروں کی طاقت نہیں ہوتیں۔ دنیا میں لیڈروں کی اصل طاقت ان کا کیریکٹر ہوتا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کے پاس کوئی وردی نہیں تھی اور نہ ہی فوج لیکن ان کے پاس کیریکٹر تھا، وژن تھا اور انھوں نے اپنے کیریکٹر کی اس طاقت سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اسٹیٹ بنالی تھی۔ کیا ملک تھا اور کہاں پہنچا دیا ہم نے اسے؟ اب تو نہ صلاحیت کے حامل لوگ ہیں نہ صلاحیت کو سموئے ہوئے افراد۔ بس قحط الرجال کا دور ہے۔ دراصل جب قومیں بددیانت، نافرض شناس اور بے عمل ہوجائیں تو ان کے اوصاف چھن جاتے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سیاستداں قوموں کا سر ہوتے ہیں، یہ بھی بجا ہے کہ معاشرے اپنے حکمرانوں، اپنے لیڈروں اور اپنے سیاستدانوں کے ہاتھوں گلنا سڑنا شروع ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک بنانے کے لیے تو شاید بے شمار لیڈروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اسے بچانے کے لیے صرف ایک لیڈر چاہیے ہوتا ہے اور ہم ایک ایسی بدقسمت قوم ہیں جس کے پاس ''حکمران'' تو بے شمار ہیں لیکن ''لیڈر'' ایک بھی نہیں ہے، ہم ایسے بدقسمت لوگ ہیں جن کا سر گل چکا ہے لیکن ان کے دھڑ کو اس خرابی کا علم تک نہیں اور ہم ایسے بد نصیب لوگ ہیں حکمران جن کے سروں کے سودے کر رہے ہیں اور ہم خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔


دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے تین چیزوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب آمدنی، عزت اور سماجی رتبہ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اکثریت کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زندگی مشکل سے مشکل ترہوتی جا رہی ہے پاکستان کے حوالے سے یہ ایک برہنہ سچائی ہے کہ اس میں چارکروڑ بیس لاکھ لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ کل کے لیے آٹا خرید سکیں۔

یہ لوگ روزمزدوری کے لیے نکلتے ہیں اور جب انھیں دو ڈھائی سو روپے کی دیہاڑی مل جاتی ہے تو یہ لوگ اس دن کا آٹا خرید لیتے ہیں بصورت دیگر یہ پانی کا پیالہ پی کر سو جاتے ہیں اور ان میں سے بے شمار لوگ تو ایسے ہیں جو سارا دن ٹرین کے آگے لیٹنے، سمندر میں چھلانگ لگانے اور زہر کھانے کی ترکیب سوچتے ہیں اور شام کو اپنے اس ارادے کو اگلے دن پر ملتوی کردیتے ہیں۔

جس ملک میں انصاف آنکھ کھولنے سے قبل مقتول کا سماجی رتبہ دیکھتا ہو اورناانصافی کا دور دورہ ہو، جہاں انسانی جانوں کا کوئی تحفظ نہ ہو، عزت نفس کی ضمانت نہ ہو، جہاں زیادتی سے بچنے کے لیے جیب میں الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا کارڈ رکھ کر باہر نکلنا پڑے اور جہاں زندہ رہنے کے لیے کسی بااختیار شخص کو دوست رکھنا پڑے وہ جگہ حساس لوگوں کے رہنے کے قابل کہاں رہ جاتی ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ہم نے کسی حکمران، کسی وزیر، مشیر اور سفیر کا محاسبہ ہوتے نہیں دیکھا یہاں اختیار اور طاقت صرف طاقتور ہاتھوں کی میراث ہے کمزور اور ناتواں لوگوں پر سبھی کا بس چلتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کا ایک ایسا انوکھا ملک ہے جس میں اب تک کسی سیاست دان نے کرپشن، اختیارات سے تجاوز، لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی بددیانتی کے جرم میں سزا نہیں پائی۔

قوموں کا سرمایہ کھیت، فیکٹریاں، ادارے اور نوٹوں سے لبالب بھرے صندوق اور تجوریاں نہیں ، لوگ ہوتے ہیں، اپنے ملک سے محبت کرنیوالے، محب وطن، ہنر مند۔ لیکن کیا ہے کہ اقتدارکی کرسی کی ہوس اتنی خراب ہوتی ہے کہ اسے حاصل کرنیوالے لوگ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں، اپنے اسلاف کے کارہائے فراموش کردیتے ہیں بلکہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی دھرتی اور قوم کو بھی بھول جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت شخصیات نہیں بلکہ ان کا نظریہ ہوتا ہے۔

افسوس ہماری جمہوریت کبھی کسی فیلڈ مارشل کے بوٹوں تلے روندی جاتی ہے توکبھی فیلڈ مارشل بننے کی خواہش میں مبتلا صاحبان کے غیظ و غضب کا شکارہوجاتی ہے۔ وقت نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں یا حکمرانوں کو سوائے ذاتی مفاد کے اورکسی چیز کی پرواہ نہیں افسوس لیلائے اقتدار کے ان حواس باختہ مجنوؤں نے عوام کو جی بھر کر مایوس کیا ہے۔

ہماری سیاست کے سینے میں دل تو پہلے سے نہیں تھا لیکن اب اس کی آنکھوں میں شرم بھی نہیں رہی ہمارے سیاستداں، ارکان پارلیمنٹ یا حکمراں ''القابات'' سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں، حکمران عوام کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو عوام کی نہیں صرف اپنی حفاظت اور بقا کی فکر ہوتی ہے، کوئی بھی مغربی ملک ہو یا مشرقی دنیا کے کسی بھی ملک میں مقامی باشندے کی جب پاکستانی پاسپورٹ پر نظر پڑتی ہے تو اس کا موڈ خراب ہوجاتا ہے۔ صرف ترکی ایسا ملک ہے جہاں کے باشندے کا موڈ خراب بھی ہو تو پاکستان کے پاسپورٹ پر نظر پڑتے ہی اس کا چہرہ کھل اٹھتا ہے۔ افسوس صد افسوس وطن عزیز میں اب وہی صادق اور امین رہ گیا ہے جس کے نام ان کے والدین نے صادق اور امین رکھے ہیں۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہماری قوم لیڈر کی بھوکی ہے، متلاشی ہے اور اس کے انتظار میں ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کو ''مقبول'' کی بجائے اگر کوئی ''معقول اور مخلص لیڈر'' مل جائے تو یہ مقروض ملک معاشرتی جن بن سکتا ہے اور اگر ہمارے کسی بھی حکمران یا ارباب اختیار نے ملک کو تخریب کاری، بدامنی یا دہشتگردی سے پاک کردیا تو اسے بانی پاکستان ثانی کی حیثیت سے یاد کیا جائے گا ورنہ تاریخ کے کولڈ اسٹوریج میں درجنوں لیڈروں کی لاشیں پڑی ہیں۔
Load Next Story