قیام پاکستان میں اردوہندی تنازع کا کردار

آل انڈیا مسلم لیگ نے1906 سے 1947 تک مختلف اجلاسوں میں پے در پے اردو کی حمایت و حفاظت میں قراردادیں منظور کیں

اردو کے خلاف ہندی کی یہ تحریک پہلے پہل بنارس کے ہندوؤں کی طرف سے اٹھائی گئی، فوٹو: فائل

مسلمانوں نے ہندوستان میں آکر یہاں کے باشندوں کو دو لافانی تحفوں سے نوازا۔ پہلے اسلام کا تحفہ، بعدازاں اردو زبان کا تحفہ دیا۔

مغلیہ عہد میں اردو کو برعظیم میں اور جنوبی ہند کی مسلم ریاستوں میں لنگوافرانکا کی حیثیت حاصل تھی۔ مدارس میں ذریعہ تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں بھی مروج تھی۔ اس کی ترقی و ترویج میں ہندو مسلمانوں دونوں نے حصہ لیا تھا اور دونوں ہی کی یہ مشترکہ زبان تھی لیکن اٹھارویں صدی کے آخر میں جیسے ہی مسلمانوں کے سیاسی اقتدار پر زوال آیا اور انگریزوں کا تسلط قائم ہونے لگا، ہندوؤں میں انگریزوں کے اشارے پر اپنی قومیت اور ہندومت کا ایک نیا احساس برتری پیدا ہوا۔ اس احساس کے باعث بجائے اس کے کہ وہ ہندو مذہب و قومیت کے برتر ہونے کے ثبوت و دلائل سامنے لاتے، انہوں نے ہر اس چیز کو جس کا تعلق مسلمانوں کی مذہبی و تہذیبی زندگی سے تھا اور جس کو اپنانے میں اس سے پہلے ہندو خود بھی ایک طرح کا فخر محسوس کرتے تھے، قابل ترک اور قابل نفرت سمجھا۔

اردو ہر چند کہ خالص دیسی زبان تھی۔ اس نے ہندو مسلم ملاپ کے نتیجے میں جنم لیا تھا اور مسلمانوں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی زبانوں عربی، فارسی اور ترکی کوخیرباد کہہ کر ہندو مسلم خیرسگالی جذبے کے تحت اسے اپنایا تھا۔ اس کے باوجود چونکہ اس کی پیدائش و پرورش مسلمانوں کے عہد میں ہوئی تھی، اس لیے اس سے بھی نفرت و بے زاری کا اظہار کیا گیا۔ وہی اردو جسے ایک مدت سے ہندوستان کی لنگوافرانکا کی حیثیت حاصل تھی اور جسے ہندو مسلم تہذیب کا سنگم و ستون خیال کیا جاتا تھا، سیاسی اغراض کے پیش نظر ہندوؤں کی نظر میں کھٹکنے لگی۔

1857ء کے بعد جیسے ہی ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے برطانوی استعمار کا سایہ ان کے سروں پر قائم ہوا، عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں اردو کی جگہ ہندی کو رائج کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔ یہ کوششیں صرف رجعت پسند یا پرانے خیال کے کٹر ہندوؤں کی طرف سے نہ تھیں، بلکہ اس کام میں وہ انگریزی تعلیم یافتہ پیش پیش تھے، جنہیں وسیع النظر اور روشن خیال سمجھا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ان میں وہ لوگ بھی شریک تھے جو خود اردو کے ادیب اور مصنف تھے۔ کچھ دن پہلے تک اردو کو ہندو اور مسلمان دونوں کی مشترک زبان جانتے تھے اور اس میں قابلیت پیدا کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے، لیکن سیاسی حالات کی تبدیلی کی بدولت ان میں ہندومت و ہندو قومیت کا جو نیا احساس پیدا ہوچلا تھا اس نے انہیں ہندی کے نام سے ایک قومی زبان کو بھی جنم دینے کی ترغیب دلائی۔ گویا فورٹ ولیم کالج میں اردو کے خلاف ہندی کی ایجاد و ترویج کے سلسلے میں جو کام 1800)ء) درپردہ شروع ہوا تھا، وہ پچاس سال کے بعد علی الاعلان ہندوؤں کی سیاسی اغراض کے حصول کا وسیلہ بن گیا۔

اردو کے خلاف ہندی کی یہ تحریک پہلے پہل بنارس کے ہندوؤں کی طرف سے اٹھائی گئی اور وہیں اس تحریک کا پہلا مرکز قائم ہوا۔ پھر اس مرکز کی شاخیں مختلف علاقوں اور صوبوں میں قائم کی گئیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں جگہ جگہ، اردو کے خلاف ہندی کے حمایتی ادارے وجود میں آگئے۔ مولانا الطاف حسین حالی کا بیان ہے کہ ''بنارس میں بابو فتح نرائن سنگھ کے مکان پر اردو کے خلاف پہلی مجلس قائم ہوئی۔ یہیں سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی۔ رفتہ رفتہ اس کے لیے کمیٹیاں، مجلسیں اور سبھائیں مختلف ناموں سے قائم ہوگئیں۔ ایک صدر مجلس الٰہ آباد میں قائم کی گئی جس کے ماتحت تمام مذکورہ بالا سبھائیں قائم ہوئیں۔

ہندوقومیت کے احیاء کی وہ سبھائیں جن کے توجہ دلانے پر، ایک قومی زبان کی ضرورت محسوس کی گئی اور اردو کے بجائے ہندی کو سرکاری دفتروں میں رائج کرنے کی کوشش کی گئی، ان سبھاؤں میں قدیم ترین راجہ رام موہن رائے کی برہمو سماج تھی جو 1828ء میں قائم ہوئی تھی۔ گویا یہ کام سیاسی بنیاد پر پچھلے کئی برسوں سے کیا جارہا تھا، لیکن بنارس کے ہندوؤں نے اجتماعی حیثیت سے قومی مسئلے کے طور پر، اردو کی مخالفت میں تقریر و تحریر کا سلسلہ شروع کیا۔

ہندوؤں کی طرف سے بحث میں حصہ لینے والے خصوصیت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو تھے اور ان سب نے اس کام کے لیے خود کو ایک تنظیم کی صورت میں ڈھال لیا تھا۔ مسلمانوں میں البتہ اس مسئلے کی اہمیت اور نزاکت کو محسوس کرنے والا سرسید کے سوا کوئی نہ تھا۔ سرسید ہی نے مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے، ہندوؤں کی اس سیاسی چال کو، جو لسانی تحریک کے بھیس میں تھی، سمجھا اور اس کی بحثوں میں حصہ لیا۔

سرسید کا کردار

جس زمانے میں بنارس میں یہ تحریک اٹھی کہ اردو رسم الخط کی بجائے بھاشا زبان اور ناگری رسم الخط کو سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں رائج کیا جائے، اس زمانے میں سرسید بنارس ہی میں تھے اور پڑھے لکھے ہندوؤں نے اردو کے خلاف جو شورش بپا کررکھی تھی، وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس سے پہلے ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف پیدا ہوگئے ہیں وہ ماضی قریب کے سیاسی و اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں۔

جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے دونوں قومیں پہلے کی طرح پھر ایک ہوجائیں گی۔ لیکن جب ہندوؤں کی طرف سے ایک جانی بوجھی سیاسی چال کے تحت، اردو کو ہٹا کر ہندی کو سرکاری کرسی پر بٹھانے کی کوششیں شروع ہوئیں اور ان کوششوں نے ہر طرف سے زور پکڑا تو ہندو مسلم اتحاد کی طرف سے سرسید مایوس ہوگئے۔ ان کو یقین ہوگیا کہ وہ اب ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے اور ان میں یگانگت اور اشتراک عمل کی وہ صورت زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتی جو ایک مدت سے چلی آرہی تھی۔

عام طور پر پر تاریخ کی کتابوں میں 1867ء کا سال ہندی اردو تنازع کے آغاز کا سال قرار پاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اردو کی مخالفت اور ہندی کے پرچار کا درپردہ کام اگرچہ پچاس ساٹھ سال پہلے شروع ہوگیا تھا، لیکن اجتماعی سطح پر ہندوؤں کی طرف سے اس کا اظہار اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ اس کا پہلا بیج بنارس کی سرزمین پر بویا گیا اور اس بیج سے اختلاف کا جو درخت نمودار ہوا، وہ سب سے پہلے 1867ء میں سرسید کی توجہ کا مرکز بنا۔ دو سال بعد اپریل 1869ء میں سرسید پونے دو برس کے لیے انگلستان چلے گئے۔ ان کے جانے سے مسلمانوں خصوصاً اردو کے حامیوں میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا۔

البتہ اسی زمانے میں اردو زبان کے تحفظ کے لیے ایک ادارہ بنام ''سنٹرل ایسوسی ایشن'' الٰہ آباد میں قائم کیا گیا۔ ادھر مختلف اخبارات نے جن میں نورالابصار، بنارس گزٹ اور علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ شامل تھے، اردو زبان کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور ان خطرات کی نشاندہی میں مصروف ہوگئے جو ''بنارس مطالبات'' کی منظوری کی صورت میں پیش آسکتے تھے۔

7 نومبر 1871ء کو لیفٹیننٹ گورنر بنگال مسٹر کیمپیل نے ''بھاگل پور سائنٹفک سوسائٹی'' کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر مولوی امداد علی نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں عربی اور فارسی کے الفاظ بکثرت استعمال کیے۔ بہاری تو پہلے ہی سے موقع کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے گورنر سے ''غیر ملکی زبان'' کی بجائے دیسی زبان ہندی کے اجراء کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ گورنر نے نہ صرف اردو زبان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ''غیر ملکی'' زبان قرار دیا، بلکہ وہ اردو کو نقصان پہنچانے کے اس قدر درپے ہوگیا کہ اس نے محکمہ تعلیم کو اردو کی نصابی کتب کی ممانعت کا حکم جاری کردیا۔

1882ء میں ''ہنٹر ایجوکیشن کمیشن'' کی تشکیل کے موقع پر ہندوؤں کو دوبارہ اردو زبان کو نقصان پہنچانے کا موقع میسر آیا۔ اس مرتبہ یہ فتنہ پنجاب اور یوپی میں اٹھا، جہاں بے شمار انجمنوں اور سوسائٹیوں نے کمیشن کو اردو کے خلاف لاتعداد قراردادیں پیش کیں۔ ایک مرتبہ پھر سرسید ہی اردو کی مدافعت کے لیے آگے بڑھے اور ہنٹرکمیشن کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ مسئلہ لسانی کی بجائے دراصل سیاسی نوعیت کا ہے۔

مارچ 1898ء میں یوپی کے متعصب گورنر انطونی میکڈانل کو یوپی کی عدالتوں میں ہندی زبان اور ناگری رسم الخط کے اجراء کے بارے میں ایک عرضداشت پیش کی گئی۔ یہ سرسید کے آخری ایام تھے، مگر ان کے نزدیک مسلمانان ہند کے لیے اردو زبان کس قدر اہمیت رکھتی تھی، اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات (27 مئی 1898ء) سے صرف نو دن قبل ''علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ'' میں اردو کے بارے میں ہندوؤں کی اس روش پر سخت تنقید کی۔

گورنر میکڈانل،مسلمانوں کے بارے میں سخت متشدد اور متعصب تھا اور اسے مسلمانوں سے ''غداری کی بو'' آتی تھی۔ اسی سبب اس نے گورنر جنرل کو لکھاتھا ''مسلمان سلطنت برطانیہ کے لیے خطرہ ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں ان کی مضبوط پوزیشن کو سیاسی طور پر جہاں تک ممکن ہو ختم کیا جائے۔ لہٰذا اس نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی خاطر نہ صرف یوپی کی عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں اردو ختم کرنے کے علاوہ ناگری رسم الخط جاری کرنے سے متعلق 18 اپریل 1900ء کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ آئندہ سے دفاتر میں مختلف آسامیاں پر کرتے وقت صرف انہی لوگوں کو مقرر کیا جائے جو فارسی اور ناگری رسم الخط دونوں سے واقف ہوں۔

اس حکم کے احیا کے وقت سرسید تو موجود نہیں تھے لیکن ان کے جانشین نواب محسن الملک علی گڑھ کالج کے آنریری سیکرٹری تھے۔ سرسید کی تمام قومی ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوگئی تھیں۔ اب وہی مسلمانوں کے رہنما تھے۔ مسلمانوں کے جذبات کا صحیح اندازہ کرکے انہوں نے 13 مئی 1900ء کو علی گڑھ کے ٹاؤن ہال میں ایک عام جلسہ کیا۔ ''اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن'' قائم کی اور مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ اپنی طرف سے قرارداد پیش کرنے کے لیے مسلمانان ہند کے نمائندوں کا ایک وفد گورنر سے ملاقات کرے۔ جلسے نے نواب محسن الملک کو یہ اختیار دیا کہ مسلمان نمائندوں کا جلسہ منعقد کریں۔

اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن


نئی تنظیم ''اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن'' کے صدر نواب محسن الملک تھے۔ نواب صاحب کے زیر ہدایت مختلف مقامات پر حکومت کے اس حکم کے خلاف جلسے منعقد ہونے لگے۔ نواب محسن الملک کی اس جسارت پر میکڈانل کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے صوبے کے ان امراء رؤسا کو جو علی گڑھ کالج کے معاون اور سرپرست تھے، اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود نواب محسن الملک نے 18 اگست 1900ء کو لکھنؤ میں مسلمانوں کا جلسہ منعقد کیا اور اس میں بڑی پر زور تقریر کی،جس پر گورنر مشتعل ہوکر 26 اگست 1900ء کو خود علی گڑھ آیا۔

کالج کے ٹریسٹیوں کا اجلاس طلب کیا۔ تقریر فرمائی۔ اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔ آخر میں دھمکی دی کہ اگر یہ طریقہ جاری رہا تو کالج کو حکومت سے جو امداد ملتی ہے، وہ بند کردی جائے گی۔ صرف اتنا ہی نہیں، گورنر نے صوبے کے بعض اضلاع کا دورہ کرکے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے ''اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن'' کی تائید کی تو ان کے لیے اچھا نہ ہوگا۔ کالج کو حکومت کے قہر سے محفوظ رکھنے کے لیے نواب محسن الملک نے کالج کے آنریری سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

گورنر نے 19 اکتوبر 1900ء کو انہیں ''محسن الملک'' کا خطاب استعمال کرنے کی ممانعت کردی۔ اس کے باوجود ''اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن'' کے تحت علی گڑھ کالج میں نہ سہی، ملک کے دوسرے حصوں میں جلسے منعقد ہوتے رہے۔ اہل الرائے نے اردو کے ساتھ انگریزوں اور نیشنل کانگرس کی بے سلوکی کے خلاف آواز بلند کی۔ 1918ء میں کراچی میں اردو کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت سندھی زبان کے مشہور شاعر و ادیب شمس العلماء مرزا اقلیچ بیگ نے کی۔ آپ نے اپنے خطبۂ صدارت میں اردو کو مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کی علامت اور دو قومی نظریے کی بنیاد قرار دیا۔

اگرچہ نئے گورنر سرجیمز لاٹوش کی آمد پر معاملہ وقتی طور پر دب گیا۔ لیکن بیسویں صدی کا آغاز اردو پر ہندی کی بالادستی سے شروع ہوا اور سی پی، بہار اور یوپی کی عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں ہندی کو باریابی حاصل ہوگئی۔ اب ساورکر، ہردیال، سمپورنانند، پنڈت مدن موہن مالویہ اور ٹنڈن جیسے متعصب ہندو لیڈروں کی سرپرستی میں یہ کوشش شروع ہوئی کہ کسی صورت ہندی کو پورے ہندوستان پر تھوپ دیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہندی ساہتیہ سملین'' (الہ آباد)، ہندی پرچارنی سبھا (بنارس) اور ہندومہاسبھا جیسی تنظیمیں قائم ہوئیں۔

کانگرسی وزارتوں کاعہد

1935ء کے قانون کے تحت فروری، مارچ 1937ء میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات منعقد ہوئے۔ کانگرس اور مسلم لیگ دونوں نے جداگانہ انتخاب کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لیا۔ مسلم لیگ چونکہ پچھلے کئی برسوں سے باہمی اختلافات کا شکار تھی اور اس کے پاس نہ تو پروپیگنڈے کے لیے ذرائع تھے اور نہ مالی وسائل، اس لیے کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی۔ البتہ کانگرس کے امیدوار کئی صوبوں میں اکثریت کے ساتھ منتخب ہوگئے اور انہوں نے کسی دوسری جماعت کے بغیر چھ صوبوں یعنی یوپی، سی پی، بہار، مدراس، اڑیسہ اور بمبئی میں اپنی وزارتیں بنالیں۔

کانگرس کی وزارتیں قائم ہوتے ہی ہندوؤں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کا راج آگیا۔ یوپی، بہار اور ہندو اکثریت کے دوسرے صوبوں میں اذان پر، نماز پر، قربانی پر، محرم کے جلوس پر حملے اپنے غلبے کے مظاہرے کے لیے انہوں نے ضروری قرار دے لیے۔ پولیس نے ان ہنگاموں میں بے نیازی اختیار کی۔ اگر وہ دباتی بھی تھی تو مسلمانوں ہی کو۔ خود کانگرسی حکومتوں نے سرکاری عمارتوں پرکانگرس کے جھنڈے لگوا دیئے۔ بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا۔ سرکاری سکولوں میں گانگرس کے جھنڈے کی سلامی جاری کی۔ کانگرسی حکومتوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو یہ محسوس کرایا کہ ان کی رائے اور مرضی کوئی چیز نہیں۔ ان کو اس ملک میں ہندوؤں کے تابع ہوکر رہنا ہوگا۔

گاندھی جی کا دوغلا کردار

مارچ 1940ء کی ''قرارداد لاہور'' سے لے کر 1945ء کے انتخابات تک، ہندو اور مسلمانوں کے درمیان بحث کا خاص موضوع دو قومی نظریہ رہا۔ قوم کسے کہتے ہیں؟ قومیت کیا ہے؟ اور اس کی تشکیل و تعمیر میں کون کون سے عناصر کام کرتے ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات کی تلاش میں جگہ جگہ مناظرے اور مباحثے ہوئے اور مضامین و مقالات لکھے گئے۔ قوم اور قومیت کے الفاظ کی لسانی و اصطلاحی تشریحات کا ایسا سلسلہ چھڑگیا کہ قیام پاکستان سے پہلے ختم نہ ہوا۔

ظاہر ہے کہ ایسے میں زبان، قومی زبان اور ہندی اردو کا مسئلہ بھی بطور خاص زیر بحث آیا۔ یوں تو اردو ہندی کا قضیہ ایک مدت سے چلا آرہا ہے، لیکن اب اس میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔ کوئی جلسہ ہو، کوئی سبھا ہو، کوئی انجمن ہو، کوئی میٹنگ ہو، اس کی پرچھائیں سے نہ بھاگ سکتی تھی۔ بحث میں الجھاؤ اور شدت دراصل اس وقت پیدا ہوئی جب ہندوؤں کے مہاگورو، مہاتما گاندھی نے حسب عادت انڈین نیشنل کانگرس کی قرارداد سے تجاوز کرکے بھارتیہ ساہتیہ پریشد ناگپور کے جلسے میں لفظ ''ہندوستانی'' پر ہندی کا اضافہ کیا اور ہندوستان کی مجوزہ قومی زبان کو ''ہندی ہندوستانی'' کا نام دیا۔ کانگرس کی قرارداد میں ''ہندوستانی'' کی تعریف یہ بتائی گئی تھی کہ ''یہ وہ زبان ہے جوشمالی ہند میں عام طور پر بولی اور سمجھتی جاتی ہے اور ناگری و فارسی رسم الخط دونوں میں لکھی جاتی ہے''

گاندھی جی نے اب جو پلٹا کھایا، تو اس کی تفصیل بابائے اردو مولوی عبدالحق کی زبانی سنیے ''اس ضمن میں اس واقعے کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتاہوں، جس نے انجمن (ترقی اردو) کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ اس کی مختصر روداد یہ ہے 1935ء میں مسٹر کنہیا لال منشی (جو 1951ء میں بھارت کے وزیرخوراک مامور ہوئے) مجھ سے حیدر آباد (دکن) آکر ملے اور بیان کیا کہ ہم ایک ایسی انجمن بنانا چاہتے ہیں جس میں ہر زبان کے ادیب شریک ہوں تاکہ ہمیں ایک دوسرے کے ادب کے حالات اور معلومات سے واقفیت ہوسکے۔

آپ اس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر ہوجائیں۔ چوں کہ یہ ادبی معاملہ تھا میں نے منظور کرلیا۔ 1936ء میں اس کا سالانہ اجلاس ناگپور میں گاندھی جی کی صدارت میں ہوا۔ اس انجمن کا نام ''اکھل بھارتیہ ساہتیہ پرشد'' تھا۔ اس میں ایک مسئلہ پیش ہوا کہ پرشد کی زبان کیا ہونی چاہیے۔مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا ''ہندوستانی'' گاندھی جی نے دریافت کیا کہ میں ہندوستانی کیوں تجویز کرتا ہوں۔ میں نے کہا، اس لیے کہ کانگرس کی یہ قرارداد ہے کہ گانگرس اور ہندوستان کی زبان ہندوستانی ہوگی۔ نیز کانگرس کے آئین کی دفعہ 21 میں صاف طور پر یہ درج ہے۔

گاندھی جی نے فرمایا: ''اس کا یہ مطلب نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ہر دس سال کے بعد مطلب بدلتا رہا تو کام کیسے چلے گا۔ گاندھی جی ہندی کے حق میں تھے۔ جب بحث زیادہ بڑھی تو گاندھی جی نے پینترا بدلا اور ایک نئی زبان اورنیا نام تجویز کیا، یعنی ''ہندی ہندوستانی''۔ میں نے پوچھا، ہندی سے آپ کی کیا مراد ہے۔ فرمایا، وہ زبان جو کتابوں میں ہے، بول چال میں نہیں۔ پھر میں نے پوچھا، ہندوستانی سے آپ کا مطلب کیا ہے؟ تو فرمایا، وہ زبان جو بول چال میں ہے، کتابوں میں نہیں۔ اس پر میں نے دریافت کیا، تو پھر ہندوستانی زبان کیا ہوئی۔ فرمایا وہ زبان جو آگے چل کر ہندوستانی ہوجائے گی۔

میں نے عرض کیا کہ جب ہندوستانی پہلے سے موجود ہے تو پچاس سال اور انتظار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس پر انہوں نے جھنجھلا کر کہا کہ میں ہندی نہیں چھوڑ سکتا۔ میں نے عرض کیا، جب آپ ہندی نہیں چھوڑ سکتے تو ہم اردو کیوں چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ایسا غلط اور عجیب و غریب جواب دیا کہ جس کی ان سے توقع نہیں ہوسکتی تھی۔ فرمایا، مسلمان چاہیں تو اردو رکھ سکتے ہیں۔ یہ ان کی مذہبی زبان ہے۔ قرآن کے حرفوں میں لکھی جاتی ہے۔ مسلمان بادشاہوں نے پھیلائی۔ اس کے بعد بحث کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی اورمیں نے ''اکھل ساہتیہ پرشد'' کی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔''

مسلمانوں کا ردعمل

اردو زبان اور دو قومی نظریے کے بارے میں حکومت کی واضح جانبداری اور ناانصافی اور ہندو جماعتوں اور لیڈروں کی واضح جارحیت کے جواب میں مسلمان رہنماؤں نے ابتدا ہی سے دانشمندانہ، مفاہمانہ اور معتدل رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ سرسید، نواب محسن الملک، انجمن ترقی اردو، انجمن حمایت اسلام اور آل انڈیا مسلم لیگ نے اردو زبان کے تحفظ و بقا کے لیے بھر پور کوششیں کیں۔

جب قومی زبان کی بحث خاص سیاسی دائروں سے نکل کر عوامی حلقوں تک پہنچ گئی اور دو قومی نظریے کے بارے میں علمائے کرام کی اختلافی بحثوں نے ہندی، اردو کے مسئلے کو پیچیدہ تر بنا دیا تو بعض مسلمانوں نے استفسار و استفتا کے لیے علمائے دین سے رجوع کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی نے مسلمانوں کے مغالطے کو دور کرنے کے لیے اردو زبان کی حمایت میں مندرجہ ذیل فتوی دیا: ''خدانخواستہ اگر اردو زبان ضائع ہوگئی تو مسلمانوں کا تمام اسلامی ذخیرہ ضائع ہوجائے گا۔ چونکہ تمام دینی کتابیں جوکہ فارسی اور عربی میں تھیں، اب ان کا ترجمہ اردو میں ہوگیا ہے، لہٰذا اگر یہ زبان ضائع ہوگئی تو مسلمان بالخصوص عوام کے لیے حصول دین کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہے گا، تو کیا کوئی مسلمان اس بات کو گوارا کرسکتا ہے کہ یہ ذخیرہ ضائع ہو جائے؟ پس نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت اردو زبان کی حفاظت، دین کی حفاظت ہے۔ اس لیے یہ حفاظت حسب استطاعت واجب ہوگی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجب مواخذہ ہوگا۔''

آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے سال قیام 1906ء سے 1947ء تک مختلف اجلاسوں میں پے در پے اردو کی حمایت و حفاظت میں قراردادیں منظور کیں اور بالآخر اسے تحریک پاکستان کا بنیادی حصہ قرار دیتے ہوئے جدوجہد کی شناخت بنایا۔
Load Next Story