دیوانے کا خواب
پاکستان کا جھنڈا دل پر لگاتا ہے اور کسی کو پاکستان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرات نہیں ہوتی
ALABAMA:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کو صدارتی ایوارڈ لینے کا شوق پیدا ہو گیا ساری دنیا میں ملک و قوم کی عزت و شہرت میں اضافے کا باعث بننے والا یہ شخص بھی عجیب بے وقوف تھا کہ پہلے امریکا گیا کچھ عرصہ گزارا، وطن کی یاد آئی اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم لیے لاکھوں روپے، امریکی شہریت کا سنہرا موقع، دوست، بزنس سب کچھ چھوڑ دیا، کتابیں لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو ایک نہیں دو نہیں پوری دس کتابیں لکھ ڈالیں، کمنٹری کا شوق سر چڑھ کر بولا تو جنرل نصیر اللہ بابر سے کہا کہ بہت ہو گیا نوجوانوں کو بھی موقع ملنا چاہیے، فرحت اللہ بابر نے بھی تجویز کو سراہا اور مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو فون کر ڈالا کہ نوجوان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے وہ شخص کمنٹیٹر بن گیا اور پھر 268 بین الاقوامی میچوں کی کمنٹری کرنے کے بعد اسے مسلسل دو برس پاکستان کا بہترین کمنٹیٹر قرار دے دیا گیا۔
وہ شخص اخباروں میں لکھتا رہا، ٹی وی پر رپورٹیں بناتا رہا، صوبے میں دہشت گردی شروع ہوئی تو براہ راست بم دھماکوں کی کوریج کرتا رہا، گولیاں آر پار ہوتی اور ایک کے بعد دوسرا بم پھٹتا دیکھ کر بھی نہ گھبرایا، کئی دوست دہشت گردی کا شکار ہو گئے، اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے دیکر خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر گئے تو اس شخص نے شہیدوں کا نام زندہ رکھنے کا بیڑا اٹھا لیا، آج سارے صوبے میں اس شخص کو عزت و افتخار حاصل ہے، کھیل کے میدانوں میں اس کا ذکر احترام سے کیا جاتا ہے وہ کام جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ کر سکیں اس ایک شخص نے کر ڈالا اور کبھی کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دے کردوسروں کا مان بڑھایا۔
عالمی سطح کی ایک تنظیم کا ممبر بنا اور یہ دیوانہ تیسرے ہی سال ایگزیکٹو کمیٹی کے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروا بیٹھا جب کنوینسنگ کے لیے 104 ممالک کے نمایندوں کے گرد گھوما تو اکثر نے اسے طالبان کے ملک کا باشندہ قرار دے دیا اسے دہشت گرد کہا مگر دیوانہ بھی باز نہ آیا، محض 12 گھنٹوں میں حقائق کے ساتھ سامنے آیا اور ایسی تقاریر کیں کہ پاکستان کا وہ سافٹ امیج جو سفراء اور حکمران دنیا پر واضح نہ کر سکے اس شخص نے سب کے سامنے رکھ دیا اور اگلے دن 68 ممالک کے ووٹ لے کر بین الاقوامی تنظیم کی 90 سالہ اور پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر منتخب ہو گیا، آج وہ سالانہ کانگریس میں 204 ممالک کے نمایندوں کے سامنے اسٹیج پر بیٹھتا ہے۔
پاکستان کا جھنڈا دل پر لگاتا ہے اور کسی کو پاکستان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرات نہیں ہوتی، جب ایشیائی ممالک یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا نمایندہ عالمی سطح پر نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے تو وہ متفقہ طور پر بلامقابلہ اسے ایشیائی تنظیم کا سیکریٹری جنرل بنا لیتے ہیں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، انتخاب پر ترکمانستان کے صدر ٹیلی فون کرتے ہیں، تاجکستان، سری لنکا کے سربراہوں، چین کی کمیونسٹ پارٹی اور 30 سے زیادہ سفیر حضرات اسے مبارک باد دیتے ہیں، بحرین کی حکومت اسے شہرت دینے کا اعلان کرتی ہے، ایوارڈ اور انعام و کرام دینے کا وعدہ کرتی ہے اور وہ شخص سارے ایشیاء میں بھی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سر بلند رکھتا ہوا یہ ثابت کر دیتا ہے کہ پاکستانی دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند اور محبت کرنے والے ہیں، اب ایک طرف پاکستان کے حکمرانوں نے اس کامیابی پر اسے مبارک باد دینا گوارا نہ کی تو دوسری جانب اسے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی لینے کا شوق بڑھتا ہی چلا گیا اس کو یقین تھا کہ یہ ایوارڈ میرٹ پر دیا جاتا ہے۔
صوبے سے اس کی نامزدگی ہو گئی نام وفاقی حکومت کی ایک وزارت کے سیکریٹری کو ملا، موصوف خوش کہ ایوارڈ ملنے کو ہے کسی نے سمجھایا کہ اتنی آسانی سے ایوارڈ نہیں ملتے سفارش کروائیں وہ شخص سارے کام چھوڑ چھاڑ کے سفارش تلاش کرنے لگا اور پھر 25 اعلیٰ شخصیتوں سے رابطے کیے، بتایا کہ اگر حق دار ہوں تو ایوارڈ دلا دیں کہ لوگ کہتے ہیں ایوارڈ بغیر سفارش کے ملتا نہیں، پچیس کے پچیس نے یقین دلایا کہ بس کام ہو گیا!
چار ماہ بعد پتہ چلا کہ موصوف کا نام ایوارڈ کی فہرست میں شامل ہی نہیں وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کی نامزدگی اسپورٹس یا صحافت کی بجائے سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے غور کرنے والی کمیٹی کو بھجوا دی گئی تھی جنہوں نے اس پر غور کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا اب وہ سفارشیوں سے پوچھنے کے لیے کہ یہ کیا ہوا، فون کرنا شروع ہوا تو کسی نے فون نہ اٹھایا لیکن موصوف نے حقیقت جان ہی لی کہ ہمارے ہاں صدارتی ایوارڈ اسے ملتا ہے جو اس کا حق دار نہ ہو، پاگل کہیں کا چلا تھا ملک و قوم کی خدمت کے بدلے ایوارڈ لینے!
یہ ہے بدقسمتی ہمارے ملک کی جہاں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں شاید ہی میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب باصلاحیت شخص کچھ الٹ کرنے کی سوچ اور منفی پہلوؤں پر سوچنا شروع کر دیتا ہے کیا یہی وجہ نہیں کہ آج ہزاروں ڈاکٹر پاکستان کی بجائے بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں؟ باصلاحیت کھلاڑی کھیلوں کی سیاست کے باعث ملک و قوم کی نمایندگی کی بجائے لاتعداد ممالک میں کوچ بن گئے ہیں؟ اگر صاحب اقتدار اپنی سوچ وسیع کرتے ہوئے محض یہ جان لیں کہ جب کسی کو اس کا حق نہیں ملتا تو وہ باغی ہو جاتا ہے اور پھر وہ ہر کسی کے لیے برا سوچنے لگتا ہے ممکن ہے قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو کہ انھیں قومی دھارے میں لانے کی بجائے ان کے لیے ملنے والی اربوں روپے کی رقم خورد برد کر لی جاتی ہو ،جب وہاں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہو انھیں حقیر سمجھا جاتا ہو توکیا وہ باغی نہ ہوں گے چھوٹے چھوٹے معاملے جب اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر کچھ اچھا نہیں ہوتا ۔
اب شنید ہے کہ صوبہ خیبر پختون حکومت کو کسی نے تجویز دی ہے کہ صدارتی ایوارڈز کی طرز پر چیف منسٹر پرفارمنس ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ اس سال بھی اجلاسوں اور سفارشوں کی بجائے مختلف شعبوں میںصوبے کی قابل فخر شخصیات کو نہ صرف ایوارڈز بلکہ نقد انعامی رقم سے بھی نوازا جائے، یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اسی طرح چودہ اگست کو ناموں کا اعلان کیا جائے اور یوم پاکستان کے موقع پر انھیں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایوارڈز سے نوازا جائے ۔وزیر اعلیٰ کو تمام تفصیل سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا میں اس قسم کے ایوارڈز کے اجراء سے سارے ملک میں ایک بہترین پیغام جائے گا اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی شخصیات کا احساس محرومی بھی ختم ہو گا ۔یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ان ایوارڈز کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو یہ بہت سوں کے لیے خوشی کی خبر ہو گی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص کو صدارتی ایوارڈ لینے کا شوق پیدا ہو گیا ساری دنیا میں ملک و قوم کی عزت و شہرت میں اضافے کا باعث بننے والا یہ شخص بھی عجیب بے وقوف تھا کہ پہلے امریکا گیا کچھ عرصہ گزارا، وطن کی یاد آئی اور ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم لیے لاکھوں روپے، امریکی شہریت کا سنہرا موقع، دوست، بزنس سب کچھ چھوڑ دیا، کتابیں لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو ایک نہیں دو نہیں پوری دس کتابیں لکھ ڈالیں، کمنٹری کا شوق سر چڑھ کر بولا تو جنرل نصیر اللہ بابر سے کہا کہ بہت ہو گیا نوجوانوں کو بھی موقع ملنا چاہیے، فرحت اللہ بابر نے بھی تجویز کو سراہا اور مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو فون کر ڈالا کہ نوجوان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے وہ شخص کمنٹیٹر بن گیا اور پھر 268 بین الاقوامی میچوں کی کمنٹری کرنے کے بعد اسے مسلسل دو برس پاکستان کا بہترین کمنٹیٹر قرار دے دیا گیا۔
وہ شخص اخباروں میں لکھتا رہا، ٹی وی پر رپورٹیں بناتا رہا، صوبے میں دہشت گردی شروع ہوئی تو براہ راست بم دھماکوں کی کوریج کرتا رہا، گولیاں آر پار ہوتی اور ایک کے بعد دوسرا بم پھٹتا دیکھ کر بھی نہ گھبرایا، کئی دوست دہشت گردی کا شکار ہو گئے، اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے دیکر خود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر گئے تو اس شخص نے شہیدوں کا نام زندہ رکھنے کا بیڑا اٹھا لیا، آج سارے صوبے میں اس شخص کو عزت و افتخار حاصل ہے، کھیل کے میدانوں میں اس کا ذکر احترام سے کیا جاتا ہے وہ کام جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں نہ کر سکیں اس ایک شخص نے کر ڈالا اور کبھی کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اسے ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دے کردوسروں کا مان بڑھایا۔
عالمی سطح کی ایک تنظیم کا ممبر بنا اور یہ دیوانہ تیسرے ہی سال ایگزیکٹو کمیٹی کے انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروا بیٹھا جب کنوینسنگ کے لیے 104 ممالک کے نمایندوں کے گرد گھوما تو اکثر نے اسے طالبان کے ملک کا باشندہ قرار دے دیا اسے دہشت گرد کہا مگر دیوانہ بھی باز نہ آیا، محض 12 گھنٹوں میں حقائق کے ساتھ سامنے آیا اور ایسی تقاریر کیں کہ پاکستان کا وہ سافٹ امیج جو سفراء اور حکمران دنیا پر واضح نہ کر سکے اس شخص نے سب کے سامنے رکھ دیا اور اگلے دن 68 ممالک کے ووٹ لے کر بین الاقوامی تنظیم کی 90 سالہ اور پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر منتخب ہو گیا، آج وہ سالانہ کانگریس میں 204 ممالک کے نمایندوں کے سامنے اسٹیج پر بیٹھتا ہے۔
پاکستان کا جھنڈا دل پر لگاتا ہے اور کسی کو پاکستان کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرات نہیں ہوتی، جب ایشیائی ممالک یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا نمایندہ عالمی سطح پر نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے تو وہ متفقہ طور پر بلامقابلہ اسے ایشیائی تنظیم کا سیکریٹری جنرل بنا لیتے ہیں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، انتخاب پر ترکمانستان کے صدر ٹیلی فون کرتے ہیں، تاجکستان، سری لنکا کے سربراہوں، چین کی کمیونسٹ پارٹی اور 30 سے زیادہ سفیر حضرات اسے مبارک باد دیتے ہیں، بحرین کی حکومت اسے شہرت دینے کا اعلان کرتی ہے، ایوارڈ اور انعام و کرام دینے کا وعدہ کرتی ہے اور وہ شخص سارے ایشیاء میں بھی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سر بلند رکھتا ہوا یہ ثابت کر دیتا ہے کہ پاکستانی دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند اور محبت کرنے والے ہیں، اب ایک طرف پاکستان کے حکمرانوں نے اس کامیابی پر اسے مبارک باد دینا گوارا نہ کی تو دوسری جانب اسے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی لینے کا شوق بڑھتا ہی چلا گیا اس کو یقین تھا کہ یہ ایوارڈ میرٹ پر دیا جاتا ہے۔
صوبے سے اس کی نامزدگی ہو گئی نام وفاقی حکومت کی ایک وزارت کے سیکریٹری کو ملا، موصوف خوش کہ ایوارڈ ملنے کو ہے کسی نے سمجھایا کہ اتنی آسانی سے ایوارڈ نہیں ملتے سفارش کروائیں وہ شخص سارے کام چھوڑ چھاڑ کے سفارش تلاش کرنے لگا اور پھر 25 اعلیٰ شخصیتوں سے رابطے کیے، بتایا کہ اگر حق دار ہوں تو ایوارڈ دلا دیں کہ لوگ کہتے ہیں ایوارڈ بغیر سفارش کے ملتا نہیں، پچیس کے پچیس نے یقین دلایا کہ بس کام ہو گیا!
چار ماہ بعد پتہ چلا کہ موصوف کا نام ایوارڈ کی فہرست میں شامل ہی نہیں وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کی نامزدگی اسپورٹس یا صحافت کی بجائے سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے غور کرنے والی کمیٹی کو بھجوا دی گئی تھی جنہوں نے اس پر غور کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا اب وہ سفارشیوں سے پوچھنے کے لیے کہ یہ کیا ہوا، فون کرنا شروع ہوا تو کسی نے فون نہ اٹھایا لیکن موصوف نے حقیقت جان ہی لی کہ ہمارے ہاں صدارتی ایوارڈ اسے ملتا ہے جو اس کا حق دار نہ ہو، پاگل کہیں کا چلا تھا ملک و قوم کی خدمت کے بدلے ایوارڈ لینے!
یہ ہے بدقسمتی ہمارے ملک کی جہاں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں شاید ہی میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب باصلاحیت شخص کچھ الٹ کرنے کی سوچ اور منفی پہلوؤں پر سوچنا شروع کر دیتا ہے کیا یہی وجہ نہیں کہ آج ہزاروں ڈاکٹر پاکستان کی بجائے بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں؟ باصلاحیت کھلاڑی کھیلوں کی سیاست کے باعث ملک و قوم کی نمایندگی کی بجائے لاتعداد ممالک میں کوچ بن گئے ہیں؟ اگر صاحب اقتدار اپنی سوچ وسیع کرتے ہوئے محض یہ جان لیں کہ جب کسی کو اس کا حق نہیں ملتا تو وہ باغی ہو جاتا ہے اور پھر وہ ہر کسی کے لیے برا سوچنے لگتا ہے ممکن ہے قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو کہ انھیں قومی دھارے میں لانے کی بجائے ان کے لیے ملنے والی اربوں روپے کی رقم خورد برد کر لی جاتی ہو ،جب وہاں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہو انھیں حقیر سمجھا جاتا ہو توکیا وہ باغی نہ ہوں گے چھوٹے چھوٹے معاملے جب اس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر کچھ اچھا نہیں ہوتا ۔
اب شنید ہے کہ صوبہ خیبر پختون حکومت کو کسی نے تجویز دی ہے کہ صدارتی ایوارڈز کی طرز پر چیف منسٹر پرفارمنس ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ اس سال بھی اجلاسوں اور سفارشوں کی بجائے مختلف شعبوں میںصوبے کی قابل فخر شخصیات کو نہ صرف ایوارڈز بلکہ نقد انعامی رقم سے بھی نوازا جائے، یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ اسی طرح چودہ اگست کو ناموں کا اعلان کیا جائے اور یوم پاکستان کے موقع پر انھیں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایوارڈز سے نوازا جائے ۔وزیر اعلیٰ کو تمام تفصیل سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا میں اس قسم کے ایوارڈز کے اجراء سے سارے ملک میں ایک بہترین پیغام جائے گا اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی شخصیات کا احساس محرومی بھی ختم ہو گا ۔یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ان ایوارڈز کی تعداد تیس کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو یہ بہت سوں کے لیے خوشی کی خبر ہو گی۔