کالے کوٹ
ایک تحریک چلی تھی’’ آزادی کی تحریک‘‘۔ وطن پر بیرونیے قابض ہوچکے۔
KARACHI:
ایک تحریک چلی تھی'' آزادی کی تحریک''۔ وطن پر بیرونیے قابض ہوچکے۔ چالاک نوسر باز بیرونیے انگریز اپنے ملک سے تاجر بن کر آئے تھے۔ ادھر اپنے وطن پر بادشاہی راج تھا۔ صدیاں بیت گئی تھیں بادشاہت قائم ہوئے۔ باپ کے بعد بیٹا اور یہ سلسلہ پورے جاہ و جلال سے جاری تھا۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، جگہ جگہ، قریہ قریہ، شہر شہر، بادشاہت کے نشان بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم تھے، کہیں شاہی قلعے، کہیں لال قلعے، کہیں تاج محل، کہیں قطب مینار، کہیں مقبرہ ہمایوں، کہیں مقبرہ جہانگیر۔
بادشاہ شاہی قلعوں، لال قلعوں، شیش محلوں میں رنگ و نور کی بارات سجائے دن رات مست رہتے تھے، انھیں مطلق احساس نہیں تھا کہ بیرون ملک سے آئے بیرونیے انگریز کس نیت سے آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ بادشاہ تو اس وقت جاگے جب انھیں انگریز نے ان کے شاہی محلوں سے پکڑ کر باہر نکالا۔
بادشاہت ختم ہوگئی، انگریز راج کرنے لگے، تو اپنے وطن کی آزادی کے لیے دھرتی ماں کے لال میدان میں آگئے۔ ''انگریزو! ہندوستان چھوڑ دو'' دھرتی کے لال یہ نعرہ بلند کیے ہوئے تھے، مگر انگریز اتنی آسانی سے ہندوستان چھوڑنے والے نہیں تھے۔ سو بڑا خون بہا، بڑی جانیں قربان ہوئیں۔
ہندوستان کی آزادی میں بڑے بڑے نام ہیں جنھوں نے بے مثل کردار ادا کیا۔ انھی بے مثالوں میں بہت سے ''کالے کوٹ'' والے بھی شامل تھے، جنھوں نے آزادی کی جنگ اگلی صفوں میں شامل رہ کر لڑی۔ یہی بیرسٹر موہن کرم چند گاندھی، بیرسٹر محمد علی جناح، ڈاکٹر راجندر پرکاش، حسین شہید سہروردی، جے پرکاش نرائن، جواہر لعل نہرو، سردار عبدالرب نشتر و دیگر۔
انگریز جانے لگے تو ایک کالے کوٹ والے نے ہی پاکستان کا خواب دیکھا، خواب تو خواب ہی ہوتا ہے، اس سے آگے کچھ نہیں ہوتا۔ بہرحال پھر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا کام بھی ایک کالے کوٹ والے نے سنبھال لیا اور بالآخر پاکستان بن گیا۔ کالے کوٹ والے محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 والی تقریر میں پاکستان کے خدوخال کھل کر بیان کردیے تھے۔ اس تقریر کو ''دشمنوں'' نے دبادیا، غرق کردیا۔ وہ تقریر پاکستان کی بقا و ترقی کا منشور تھی۔
پاکستان بن گیا اور کالے کوٹ والے ایک طویل جنگ کے لیے پھر باہر نکل آئے۔ مسند عدالت پر کالے کوٹ والے محمد رستم کیانی اور عدالت کے روبرو حسین شہید سہروردی، محمود علی قصوری، حیدر بخش جتوئی، سی آر اسلم، حسن حمیدی، میجر اسحاق ، حسن اے شیخ، ملک اسلم حیات، اعجاز حسین بٹالوی، بیرسٹر ایم انور، ملک حامد سرفراز، نورالدین سرکی، عابد حسن منٹو ودیگر آمروں کے خلاف لڑتے رہے، بعد کو آنے والے بھی اسی ڈگر پر چلے۔ پاکستان بنتے ہی انگریزوں کے دربانوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ یوں آزادی کے بعد بھی ہمیں آزادی نہ ملی۔ عوام کے حقوق سلب کیے گئے، فیصلے خلاف عوام کیے گئے، ضابطے خلاف عوام بنائے گئے اور ہمیشہ جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے کالے کوٹ والے آگے آگے نظر آئے۔
چند سال پہلے بے لگام حکمرانوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان پر شدید ترین حملہ کردیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو زبردستی ہٹا دیا گیا۔ یہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کی جنگ تھی۔ اس جنگ میں لڑنے کے لیے ایک بار پھر کالے کوٹ والے میدان میں نکل آئے۔ مسند عدالت پر جسٹس رانا بھگوان داس نے بے خوف ہوکر قانون کا جھنڈا بلند رکھا اور تحریک بحالی اعلیٰ عدلیہ کے لیے کشمور سے لنڈی کوتل تک فتح کے جھنڈے گاڑ دیے گئے۔ حکمرانوں کے تمام ظالمانہ حربے ناکام ہوگئے۔ وہ فولادی کنٹینر جو رستہ روکنے کے لیے کھڑے کیے گئے تھے، خس و خاشاک ثابت ہوئے اور بالآخر کالے کوٹ والے بہت بڑی جنگ جیت گئے۔
تصور پاکستان اور قیام پاکستان میں کالے کوٹ والے ہی پیش پیش تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری چند دن بلوچستان میں گزارے۔ پورے پاکستان میں بے شمار صحت افزا مقامات تھے، مگر قدرت نے زیارت کا انتخاب کیا۔ بلوچستان پاکستان کا بہ لحاظ آبادی سب سے چھوٹا صوبہ مگر یہاں کا ایک ایک فرد سیکڑوں پر بھاری۔ بلوچستان نے جمہوری تحریکوں میں ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح، جنرل ایوب کے خلاف میدان میں اتریں، بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کی قیادت میں پورا بلوچستان محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے بلوچستان کے کالے کوٹ والے بڑے ہی پرجوش تھے، وہ کوئٹہ سے نکلے، انھیں اسلام آباد پہنچنا تھا، مگر انھیں سندھ میں داخلے سے روک دیا تھا، مگر بلوچستان کے کالے کوٹ پیچھے نہیں ہٹے، دن رات وہیں سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر ڈٹے رہے اور بالآخر رستے کی رکاوٹیں ہٹ گئیں۔
بلوچستان کے پہاڑوں کی طرح مضبوط اور بلند حوصلے والے انھی کالے کوٹ والوں کے لیے 8 اگست 2016 کا سورج ایک اور امتحان لے کر طلوع ہوا۔ دہشت گردوں نے پیر کی صبح منوجان روڈ کوئٹہ پر بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ بناکر مارا، ان کی میت سول اسپتال کوئٹہ لائی گئی۔ بلال انور کاسی کے قتل کی خبر پورے کوئٹہ شہر میں پھیل چکی تھی۔ کالے کوٹ والے اپنے ساتھی کا جسد خاکی وصول کرنے سول اسپتال پہنچے تو پہلے سے موجود دہشت گرد نے خود کو اڑا دیا اور اس کے ساتھیوں نے فائرنگ شروع کردی۔ ایک قیامت برپا تھی۔
مرنے والے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جان دے رہے تھے۔ بارود کا دھواں چھٹا تو 60 کالے کوٹ والے لاشیں بن چکے تھے، کل 71 شہید زمین پر پڑے تھے۔ وہ جو اپنے صدر کی لاش لینے آئے تھے، خود لاش بن چکے تھے۔ صوبہ بلوچستان کے بہترین کالے کوٹ مار دیے گئے تھے۔ یہی تو جمہوری تحریکوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے تھے۔ گویا جوش و ولولہ مار دیا گیا۔ ''اب تو سوچو'' یہ میں نے کس سے کہا ''اب تو سوچو'' ہاں میں عوام پاکستان سے کہہ رہا تھا ''اب تو سوچو'' فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ یہ کیسی گھڑی ہے یہ کون سی منزل ہے، اس گھڑی ذہن میں اپنا ہی ایک شعر بول رہا ہے:
یہ کس منزل پہ ہم آئے ہوئے ہیں
کہ مہر و ماہ گہنائے ہوئے ہیں
کل 14 اگست ہماری آزادی کا دن تھا۔ انشاء اﷲ اصلی آزادی کا دن بھی آئے گا، جب ''نہ رہے گا کوئی قاتل، نہ رہیں گی قتل گاہیں'' ہاں یہ مصرعہ جالب کا ہے۔ ابھی تو ہم انگریز کی قید سے نکل کر ''کالے انگریز'' کی قید میں ہیں۔ ان کالے انگریزوں کا ہمارے وسائل پر قبضہ ہے۔ یہ قبضہ چھڑانا ہوگا۔ آئیے ایک کالے کوٹ والے کے کندھے لگ کر کچھ کہہ لیں:
تونے کہا تھا اب نہ چلے گا محلوں کا دستور
بنے گا وہ قانون جو ہوگی بات ہمیں منظور
ہر اک چہرے پر چمکے گا آزادی کا نور
لیکن ہم کو بیچ رہا ہے اک جابر سلطان
قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
کتنے سر کٹوا کر ہم نے ملک بنایا تھا
دار پہ چڑھ کے آزادی کا گیت سنایا تھا
اس دھرتی سے انگریزوں کو دور بھگایا تھا
اس دھرتی پر آج مسلط ہیں ان کے دربان
قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
جنگ چھڑے تو ہم نردھن ہی ان کے بینک بچائیں
دولت والے مری میں بیٹھے تھر تھر کانپے جائیں
ملک کی خاطر ہم اپنے سینوں میں گولی کھائیں
پھر بھی بھوکے ننگے بابا ہم مزدور کسان
قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
(یہ نظم 25 دسمبر 1980 کے دن حبیب جالب نے کراچی پریس کلب میں پہلی بار پڑھی تھی)۔
ایک تحریک چلی تھی'' آزادی کی تحریک''۔ وطن پر بیرونیے قابض ہوچکے۔ چالاک نوسر باز بیرونیے انگریز اپنے ملک سے تاجر بن کر آئے تھے۔ ادھر اپنے وطن پر بادشاہی راج تھا۔ صدیاں بیت گئی تھیں بادشاہت قائم ہوئے۔ باپ کے بعد بیٹا اور یہ سلسلہ پورے جاہ و جلال سے جاری تھا۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، جگہ جگہ، قریہ قریہ، شہر شہر، بادشاہت کے نشان بڑی مضبوطی کے ساتھ قائم تھے، کہیں شاہی قلعے، کہیں لال قلعے، کہیں تاج محل، کہیں قطب مینار، کہیں مقبرہ ہمایوں، کہیں مقبرہ جہانگیر۔
بادشاہ شاہی قلعوں، لال قلعوں، شیش محلوں میں رنگ و نور کی بارات سجائے دن رات مست رہتے تھے، انھیں مطلق احساس نہیں تھا کہ بیرون ملک سے آئے بیرونیے انگریز کس نیت سے آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ بادشاہ تو اس وقت جاگے جب انھیں انگریز نے ان کے شاہی محلوں سے پکڑ کر باہر نکالا۔
بادشاہت ختم ہوگئی، انگریز راج کرنے لگے، تو اپنے وطن کی آزادی کے لیے دھرتی ماں کے لال میدان میں آگئے۔ ''انگریزو! ہندوستان چھوڑ دو'' دھرتی کے لال یہ نعرہ بلند کیے ہوئے تھے، مگر انگریز اتنی آسانی سے ہندوستان چھوڑنے والے نہیں تھے۔ سو بڑا خون بہا، بڑی جانیں قربان ہوئیں۔
ہندوستان کی آزادی میں بڑے بڑے نام ہیں جنھوں نے بے مثل کردار ادا کیا۔ انھی بے مثالوں میں بہت سے ''کالے کوٹ'' والے بھی شامل تھے، جنھوں نے آزادی کی جنگ اگلی صفوں میں شامل رہ کر لڑی۔ یہی بیرسٹر موہن کرم چند گاندھی، بیرسٹر محمد علی جناح، ڈاکٹر راجندر پرکاش، حسین شہید سہروردی، جے پرکاش نرائن، جواہر لعل نہرو، سردار عبدالرب نشتر و دیگر۔
انگریز جانے لگے تو ایک کالے کوٹ والے نے ہی پاکستان کا خواب دیکھا، خواب تو خواب ہی ہوتا ہے، اس سے آگے کچھ نہیں ہوتا۔ بہرحال پھر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا کام بھی ایک کالے کوٹ والے نے سنبھال لیا اور بالآخر پاکستان بن گیا۔ کالے کوٹ والے محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 والی تقریر میں پاکستان کے خدوخال کھل کر بیان کردیے تھے۔ اس تقریر کو ''دشمنوں'' نے دبادیا، غرق کردیا۔ وہ تقریر پاکستان کی بقا و ترقی کا منشور تھی۔
پاکستان بن گیا اور کالے کوٹ والے ایک طویل جنگ کے لیے پھر باہر نکل آئے۔ مسند عدالت پر کالے کوٹ والے محمد رستم کیانی اور عدالت کے روبرو حسین شہید سہروردی، محمود علی قصوری، حیدر بخش جتوئی، سی آر اسلم، حسن حمیدی، میجر اسحاق ، حسن اے شیخ، ملک اسلم حیات، اعجاز حسین بٹالوی، بیرسٹر ایم انور، ملک حامد سرفراز، نورالدین سرکی، عابد حسن منٹو ودیگر آمروں کے خلاف لڑتے رہے، بعد کو آنے والے بھی اسی ڈگر پر چلے۔ پاکستان بنتے ہی انگریزوں کے دربانوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ یوں آزادی کے بعد بھی ہمیں آزادی نہ ملی۔ عوام کے حقوق سلب کیے گئے، فیصلے خلاف عوام کیے گئے، ضابطے خلاف عوام بنائے گئے اور ہمیشہ جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے کالے کوٹ والے آگے آگے نظر آئے۔
چند سال پہلے بے لگام حکمرانوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان پر شدید ترین حملہ کردیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو زبردستی ہٹا دیا گیا۔ یہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کی جنگ تھی۔ اس جنگ میں لڑنے کے لیے ایک بار پھر کالے کوٹ والے میدان میں نکل آئے۔ مسند عدالت پر جسٹس رانا بھگوان داس نے بے خوف ہوکر قانون کا جھنڈا بلند رکھا اور تحریک بحالی اعلیٰ عدلیہ کے لیے کشمور سے لنڈی کوتل تک فتح کے جھنڈے گاڑ دیے گئے۔ حکمرانوں کے تمام ظالمانہ حربے ناکام ہوگئے۔ وہ فولادی کنٹینر جو رستہ روکنے کے لیے کھڑے کیے گئے تھے، خس و خاشاک ثابت ہوئے اور بالآخر کالے کوٹ والے بہت بڑی جنگ جیت گئے۔
تصور پاکستان اور قیام پاکستان میں کالے کوٹ والے ہی پیش پیش تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری چند دن بلوچستان میں گزارے۔ پورے پاکستان میں بے شمار صحت افزا مقامات تھے، مگر قدرت نے زیارت کا انتخاب کیا۔ بلوچستان پاکستان کا بہ لحاظ آبادی سب سے چھوٹا صوبہ مگر یہاں کا ایک ایک فرد سیکڑوں پر بھاری۔ بلوچستان نے جمہوری تحریکوں میں ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح، جنرل ایوب کے خلاف میدان میں اتریں، بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کی قیادت میں پورا بلوچستان محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی کے لیے بلوچستان کے کالے کوٹ والے بڑے ہی پرجوش تھے، وہ کوئٹہ سے نکلے، انھیں اسلام آباد پہنچنا تھا، مگر انھیں سندھ میں داخلے سے روک دیا تھا، مگر بلوچستان کے کالے کوٹ پیچھے نہیں ہٹے، دن رات وہیں سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر ڈٹے رہے اور بالآخر رستے کی رکاوٹیں ہٹ گئیں۔
بلوچستان کے پہاڑوں کی طرح مضبوط اور بلند حوصلے والے انھی کالے کوٹ والوں کے لیے 8 اگست 2016 کا سورج ایک اور امتحان لے کر طلوع ہوا۔ دہشت گردوں نے پیر کی صبح منوجان روڈ کوئٹہ پر بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ بناکر مارا، ان کی میت سول اسپتال کوئٹہ لائی گئی۔ بلال انور کاسی کے قتل کی خبر پورے کوئٹہ شہر میں پھیل چکی تھی۔ کالے کوٹ والے اپنے ساتھی کا جسد خاکی وصول کرنے سول اسپتال پہنچے تو پہلے سے موجود دہشت گرد نے خود کو اڑا دیا اور اس کے ساتھیوں نے فائرنگ شروع کردی۔ ایک قیامت برپا تھی۔
مرنے والے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے جان دے رہے تھے۔ بارود کا دھواں چھٹا تو 60 کالے کوٹ والے لاشیں بن چکے تھے، کل 71 شہید زمین پر پڑے تھے۔ وہ جو اپنے صدر کی لاش لینے آئے تھے، خود لاش بن چکے تھے۔ صوبہ بلوچستان کے بہترین کالے کوٹ مار دیے گئے تھے۔ یہی تو جمہوری تحریکوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتے تھے۔ گویا جوش و ولولہ مار دیا گیا۔ ''اب تو سوچو'' یہ میں نے کس سے کہا ''اب تو سوچو'' ہاں میں عوام پاکستان سے کہہ رہا تھا ''اب تو سوچو'' فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ یہ کیسی گھڑی ہے یہ کون سی منزل ہے، اس گھڑی ذہن میں اپنا ہی ایک شعر بول رہا ہے:
یہ کس منزل پہ ہم آئے ہوئے ہیں
کہ مہر و ماہ گہنائے ہوئے ہیں
کل 14 اگست ہماری آزادی کا دن تھا۔ انشاء اﷲ اصلی آزادی کا دن بھی آئے گا، جب ''نہ رہے گا کوئی قاتل، نہ رہیں گی قتل گاہیں'' ہاں یہ مصرعہ جالب کا ہے۔ ابھی تو ہم انگریز کی قید سے نکل کر ''کالے انگریز'' کی قید میں ہیں۔ ان کالے انگریزوں کا ہمارے وسائل پر قبضہ ہے۔ یہ قبضہ چھڑانا ہوگا۔ آئیے ایک کالے کوٹ والے کے کندھے لگ کر کچھ کہہ لیں:
تونے کہا تھا اب نہ چلے گا محلوں کا دستور
بنے گا وہ قانون جو ہوگی بات ہمیں منظور
ہر اک چہرے پر چمکے گا آزادی کا نور
لیکن ہم کو بیچ رہا ہے اک جابر سلطان
قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
کتنے سر کٹوا کر ہم نے ملک بنایا تھا
دار پہ چڑھ کے آزادی کا گیت سنایا تھا
اس دھرتی سے انگریزوں کو دور بھگایا تھا
اس دھرتی پر آج مسلط ہیں ان کے دربان
قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
جنگ چھڑے تو ہم نردھن ہی ان کے بینک بچائیں
دولت والے مری میں بیٹھے تھر تھر کانپے جائیں
ملک کی خاطر ہم اپنے سینوں میں گولی کھائیں
پھر بھی بھوکے ننگے بابا ہم مزدور کسان
قائداعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
(یہ نظم 25 دسمبر 1980 کے دن حبیب جالب نے کراچی پریس کلب میں پہلی بار پڑھی تھی)۔