خدارا… امن کو خواب نہ بننے دیں

کوئٹہ کے دل خراش سانحے (9 اگست 2016ء) پر قوم ایک بار پھر شدید رنج و غم میں مبتلا ہے۔

کوئٹہ کے دل خراش سانحے (9 اگست 2016ء) پر قوم ایک بار پھر شدید رنج و غم میں مبتلا ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعے میں پاکستانی قوم کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی قابل شخصیات سے محروم ہوگئی۔ جاں بحق ہونے والے ہزاروں معصوم شہریوں کی فہرست میں مزید درد ناک اضافہ ہوگیا۔

وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ کوئٹہ کے اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔ وزیرِاعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے محفوظ بنائیں گے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ عدلیہ پر بزدلانہ حملہ ضربِ عضب کی کامیابیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ جمعے کو راولپنڈی میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ خامیوں کو دور کیے بغیردیرپا امن کا خواب پورا نہیں ہوگا۔

پاکستانی قوم 1979ء سے جنگی حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ جنگ کیونکر شروع ہوئی...؟ ہمارے سامنے دشمن کے روپ میں کون کھڑا ہوا ہے اور اس ظاہری دشمن کے پس پردہ کون کون سے ممالک یا کون کون سی قوتیں ہیں، یہ حکومتوں کی ذمے داری تھی کہ وہ ان سوالات پر مناسب انداز میں قوم کو اعتماد میں لیتیں۔ 1979ء سے اب تک پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں۔

ان میں دو فوجی حکومتیں اور پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ج اور ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ درمیان میں جنرل پرویز مشرف کی زیر سرپرستی ایک سرکاری مسلم لیگ (ق) سے وابستہ دو وزرائے اعظم بھی صدر کے ماتحت کام کرتے رہے۔ اس عرصے میں جنرل محمد ضیاء الحق، محمد خان جونیجو، غلام اسحق خان، بینظیر بھٹو (2 بار)، جنرل پرویزمشرف، میرظفر اللہ خان جمالی، شوکت عزیز، آصف علی زرداری، سید یوسف رضا گیلانی، چوہدری پرویز اشرف اور میاں محمد نواز شریف (3بار)ملک کے بااختیار صدر یا وزیر اعظم بنے۔ (نگراں وزرائے اعظم ان کے علاوہ ہیں)

کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ان میں سے کسی نے بھی پاکستان کے اردگرد ہونے والی انتہائی اہم تبدیلیوں پر قوم کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے کوئی واضح اور جامع پروگرام شروع نہیں کیا۔ بعض انتہائی اہم فیصلے ایک یا چند افراد نے مل کر کرلیے۔

ملک کا دفاع سرحدوں پر کیا جا رہا ہو یا اندرون ملک وطن دشمنوں سے مقابلہ کیا جارہا ہو، قوم کی حمایت حاصل کرنا لازمی ہے۔ اس اہم ترین کام کے لیے محض جذبات کو اْبھارنے والے جوشیلے نعروں، پرجوش الفاظ پر مشتمل تقریریں کافی نہیں۔ دفاع ہو، ملکی معیشت کا استحکام ہو یا دیگر اہم قومی معاملات ، قوم کی حمایت پانے کے لیے مختلف امور پر قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ میں فیصلے کرتے وقت مختلف اہم طبقات مثلاً اساتذہ، صحافیوں، دانشوروں، وکلاء ، صنعتکاروں، تاجروں، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کو ساتھ ملانا چاہیے۔ مختلف مسائل، مشکلات اور آپشنز سامنے رکھ کر ان طبقات سے مشورے مانگے جانے چاہئیں۔

ملک کے دفاع کی ذمے داری بنیادی طور پر مسلح افواج کی ہوتی ہے لیکن جنگیں ہمیشہ پوری قوم کی حمایت سے ہی جیتی جاتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم کو اپنی مسلح افواج کی دفاعی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ اور اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد ہو۔ جنگ کا سامنا کرنے اور کامیابی کے حصول کے لیے دفاعی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی و معاشی استحکام اور سماجی بہتری کے لیے کام کرنا بھی حکومتوں کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

پاکستانی قوم کو اپنی مسلح افواج کے جذبوںاور صلاحیتوں پر پورا اعتماد و اطمینان ہے۔ گزشتہ تقریباً چالیس برسوں میں مسلح افواج، ملکی سلامتی کے ذمے دار دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پولیس کے افسروں اور جوانوں نے دفاعِ وطن کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ تاہم ملک کی تعمیر وترقی کے لیے حکمت عملی اور ملک وقوم کودرپیش مختلف بحرانوں اورچیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتوں (بشمول فوجی حکومتوں) کی بصیرت ، معاملہ فہمی، سیاسی عزم اور دیگر محرکات محل نظر ہیں۔

پاکستان کے دفاع کو مضبوط تر بنانے کے لیے دفاعی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ملک میں غریبی اور بیروزگاری کو کم سے کم کرنا سب سے پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ غریبی کئی محرومیوں کا سبب بنتی ہے۔ یہ محرومیاں کئی افراد کو بے بسی، احساس کمتری، تنہائی اور پیچیدہ نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیتی ہیں تو کئی لوگ جرائم کی طرف جا نکلتے ہیں۔ غربت، جرائم کی پیدائش اور نشوونما کے لیے زرخیز زمین کا کام کرتی ہے۔


دوسرا اہم فیکٹر تعلیم ہے۔

کسی ملک میں مراعات یافتہ، خوش حال گھرانوں کے لیے مہنگی تعلیم کا اہتمام ہو اور غریب اور لوئر مڈل کلاس بچوں کے لیے تعلیم کی سہولتیں بآسانی دستیاب نہ ہوں وہ ملک صرف اقتصادی ہی نہیں بلکہ سماجی ترقی میں بھی ہمیشہ پیچھے رہے گا۔ پاکستان کودرپیش کئی مسائل کا ایک بڑا سبب ایک مخصوص مائنڈ سیٹ بھی ہے۔ پاکستانی معاشرہ زیادہ تر فیوڈل ازم کے زیراثر رہا ہے۔ فیوڈل ازم سے صنعتی خصوصیت والے معاشرے کی طرف ہماری پیش رفت سست ہے۔ اس راہ میں بعض قوتوں کی طرف سے کئی رکاوٹیں اور مزاحمتیں بھی ہیں۔ فیوڈل ازم میں وڈیرے یا سردار کو اس کے اوپر انحصار کرنے والے فرمانبردار اور اطاعت شعار لوگ درکار ہوتے ہیں۔ وڈیرا سوچ ، تعلیم کے فروغ اور صنعتی ترقی سے خوف کھاتی ہے۔

آپ پاکستان میں عام آدمی تک تعلیمی سہولتوں کی حالت زار اور لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی صنعتوں کو درپیش بعض مشکلات کودیکھ لیجیے۔ وڈیرہ سوچ کی بالادستی اور جبروتسلط کے منفی اثرات نمایاں طور پر نظر آجائیں گے۔

جنگ لڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کو قدرت نے کئی قیمتی وسائل سے نوازا ہوا ہے۔ سیاست دانوں کی حکومتیں ہوں یا فوجی حکمرانوں کی، ان وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے قومی آمدنی میں اضافے اور ملک کی مالی خودمختاری کے لیے کیا کوششیں کی گئیں یہ ہم سب کے سامنے ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی دنیا بھر میں بہت مانگ ہے۔

ٹیکسٹائل ملوں کو بلکہ ملک کی ساری انڈسٹری کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ سستی بجلی تو رہی ایک طرف لاکھوں لوگوں کو روزگار دینے والی اور ملک کے لیے قیمتی زر مبادلہ حاصل کرنے والی انڈسٹریز کو بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑا۔ ملک میں بجلی کی قلت کسی قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں۔ اس بحران کی وجہ مستقبل کی ضروریات کو نہ سمجھ پانے کی اہلیت، ناقص منصوبہ بندی، ایڈہاک ازم، سیاسی مصلحتیں، ذاتی مفادات کو ترجیح جیسے امور شامل ہیں۔

پاکستان میں غربت اور بیروزگاری کی وجوہات میں صنعتی شعبوں میں افرادی قوت کی ڈیمانڈ کا نہ بڑھنا بھی شامل ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اگر آج پاکستان میں بجلی چار یا پانچ روپے فی یونٹ دستیاب ہوتی تو ہمارے ہاں ٹیکسٹائل، ایگرو انڈسٹری اور دیگر صنعتیں کس تیزی سے فروغ پا رہی ہوتیں۔

پاکستان کی مسلح افواج نے سوات آپریشن اور بعد ازاں آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے قوم کا حال اور مستقبل بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہماری فوج میں لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل سے لے کر سپاہی تک ہر رینک کے افسر اور جوانوں نے قربانی کی نہایت متاثر کن مثالیں پیش کی ہیں۔ دہشت گردوں اورامن دشمنوں سے مقابلے میں پولیس بھی نہایت محدود وسائل کے باوجود پیچھے نہیں۔ پولیس میں بھی ڈی آئی جی سے لے کر سپاہی تک کئی افسروں اور جوانوں نے شہریوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔

پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کے لیے سب کو مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک روشن اور تابناک مستقبل پاکستانی قوم سے چند برس کے فاصلے پر ہے۔ ماضی کی کئی غلطیوں نے ہماری ترقی کی رفتار کو شدید متاثر کیا ہے۔ توقع ہے کہ سیاست دان اور تمام متعلقہ ادارے، عوام کو اعتماد میں لے کر پاکستان کے استحکام اور تیزرفتار ترقی کے لیے اپنا اپنا قومی کردار پوری یکسوئی اور دیانت داری کے ساتھ ادا کریں گے۔

آج ہمارے سامنے روشن امکانات کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہمارے پاس زیادہ غلطیوں کی گنجائش بھی نہیں ہے۔
Load Next Story