شاعر معرفت اثرؔ جونپوری
اس لحاظ سے ان کا تخلص حرف بہ حرف درست اورشایان شان ہے
شاعر معرفت شاہین اقبال اثرؔ جونپوری منفرد لب ولہجے اوراندازکے شاعر ہیں۔ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
عام ادبی حلقوں کے لیے وہ چھپے رستم ہیں لیکن دینی حلقوں میں وہ مدت درازسے مشہوراور مقبول ہیں کیونکہ ان کے شہ پارے ہفت روزہ ضربِ مومن، بچوں کا اسلام اورخواتین کا اسلام میں چھپ چھپ کر انھیں چھپے رستم کا خطاب دلاچکے ہیں۔ بڑے بڑے خطیب، مقررین اور نعت خواں جب ان کے پراثر اور اثر انگیز کلام کو مست و بے خود ہوکر پڑھتے ہیں تو سامعین جھوم جھوم اٹھتے ہیں۔ ان کا کلام سننے والوں کے دلوں کے تاروں کو یک دم چھو لیتا ہے کیونکہ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اس لحاظ سے ان کا تخلص حرف بہ حرف درست اورشایان شان ہے۔ جب وہ اپنا کلام اپنے دل کی گہرائیوں سے پڑھتے ہیں تو ایک پرکیف سماں بندھ جاتا ہے اورحاضرین وسامعین پروجد طاری ہوجاتا ہے جس سے ان کا کلام دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ ان پر رب کریم کا خصوصی کرم ہے۔ بقول شاعر:
اٰن سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اثرؔ جونپوری کا اختصاص اور امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری حمدیہ، نعتیہ اور مدحیہ کلام کے لیے وقف ہے جس کی دلالت کے لیے ان کا درج ذیل شعر پیش خدمت ہے جو انھوں نے آج سے تقریباً بیس بائیس برس قبل تخلیق کیا تھا:
حمدِ خدائے پاک کوئی سہل تو نہیں
اتنے عظیم کام کا میں اہل تو نہیں
حمد ونعت ہو یا منقبت، ان میں سے ہر صنف رب کریم کی خصوصی دین اورعطائے خاص ہے۔ سچ تو یہ ہے:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں
شاعری کے حوالے سے یہ تاثرعام ہے کہ اشعارکے پراثر اور پرسوز ہونے کے لیے شراب وشباب اور حسن و عشق مجازی کا چرچا لازم وملزوم ہے جس کے بغیر شاعری بے جان اور پھیکی پھیکی محسوس ہوگی اور اس میں سوزوگداز اورگرمی تاثیر پیدا نہیں ہوسکے گی، لیکن شعرائے اسلام کی شاعری اس مفروضے کی قطعی نفی کرتی ہے اور شاہین اقبال اثرؔ جونپوری کا سارا کلام اس حقیقت کا جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہے کہ اللہ اور رسولؐ اور ان کے پیاروں کی محبت میں ڈوب کر عشق حقیقی کے جذبے سے سرشار ہوکرکہے جانے والے اشعار عشق مجازی والے اشعار سے کہیں زیادہ پرسوز اور دل پذیر ہوتے ہیں۔
''روح سلوک'' اثرؔ جونپوری کی حمد، نعتوں اور پندوموعظت پر مشتمل ان کا اولین شعری مجموعہ ہے جس کا عنوان ان کے مرشد مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے مرصع ہے۔ طریقت کی اصطلاح میں سلوک الی اللہ، اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے والے راستے کوکہتے ہیں جس کا تعلق تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلوک کا راستہ بڑا پرخار اور دشوارگزار ہے کیونکہ اس میں سب سے کٹھن مرحلہ ہردم گناہ پر اکسانے والے نفس کے گلے پر چھری چلانے کا درپیش ہوتا ہے۔ شاہین اثرؔ نے اپنے پراثر اشعار میں راہ سلوک کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
باغ رہ سلوک میں ممکن نہیں اثرؔ
حاصل فنا کا پھول ہو خارِ انا کے ساتھ
خالقِ قلب بھلا قلب میں آئے کیسے
ہم نے جب قلب میں غیروں کو بسا رکھا ہے
وہیں ابلیس رکھ دیتا ہے بم لطفِ معاصی کا
جہاں تعمیر تقویٰ کی عمارت ہونے لگتی ہے
اثرؔ صاحب کی نعتوں کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اس حقیقت کو نہایت شدت سے اجاگر کیا ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی سچی محبت محض زبانی کلامی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اتباع اور سچی غلامی بھی لازمی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار پیش ہیں:
نبیؐ کے عشق کا دعویٰ سر آنکھوں پر مگر اے دوست
محبت کیا عمل کی قید سے آزاد ہوتی ہے
ہم ایسے خودغرض عشاق ہیں جو اپنے آقاؐ کی
اطاعت بھول جاتے ہیں شفاعت یاد ہوتی ہے
سرکارؐکی مدحت تو کیا کرتے ہو لیکن
سرکارؐکی سنت پہ چلا کیوں نہیں کرتے
راہ سلوک میں اپنے مرشد سے قلبی لگاؤ اور سچی محبت و عقیدت شرط اول ہے جس کی انتہائی منزل فنافی الشیخ ہوتی ہے۔ فنافی الرسول اور فنافی اللہ کی منزلیں بہ تدریج اس کے بعد طے ہوتی ہیں۔
نعت کہنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ تلوارکی دھار پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ حضورؐ کی شان میں افراط و تفریط دونوں ہی سے احتیاط لازمی ہے۔ یہ وہ نازک مرحلہ ہے جس کی جانب شبلی نعمانیؒ نے اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔
فرشتوں میں یہ چرچا تھا کہ حالِ سرورِ عالمؐ
دبیرِ چرخ لکھتا یا تو خود روح الامین لکھتے
ندا یہ بارگاہِ عالم قدوس سے آئی
کہ یہ کچھ اور ہی شے ہے اگر لکھتے ہمیں لکھتے
اسی حقیقت کو شاہین اثرؔ نے اپنے انداز میں اس خوبصورتی سے بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے:
فکر و فن الفتِ سرکار میں ہوجائے فنا
تب کہیں جاکے کوئی نعت لکھی جاتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے جس کے اعتراف کے لیے اس خاکسار اور بندہ گنہگار کی ایک نعت شریف کا یہ مطلع پیش خدمت ہے:
عالم اگر ہوجائے ثناخوانِ محمدؐ
ہوگی نہ بیاں تابہ ابد شانِ محمدؐ
زباں و بیاں کے لحاظ سے بھی اثرؔ جونپوری درجہ کمال پر فائز ہیں۔ الفاظ کے انتخاب نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ درحقیقت بیان میں ندرت اور تازگی اس وقت تک پیدا ہوہی نہیں سکتی جب تک شاعر کو زبان پرعبور حاصل نہ ہو۔ الفاظ کی مزاج شناسی مثالی شاعری کے لیے شرط اول ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو اقبال، جوش اورحفیظ جالندھری جیسے عظیم شاعروں کا طرہ امتیاز ہے۔ میر انیس کا کمال بھی یہی ہے۔ اچھا شعر اپنے منہ سے بولتا ہے اسے کسی کی داد وتعریف کی محتاجی نہیں ہوتی۔ شاہین اقبال اثرؔ جونپوری کے اشعارکی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ منہ سے بولتے ہیں۔ وہ ایک فطری شاعر اور Born Poet ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جن کی شاعری اہل اللہ کی محبت، برکت اور نسبت سے عشق مجازی کی آلودگی سے کوسوں دور اور بالکل پاک و صاف ہے اور عشق الٰہی کو جنھوں نے اپنے لیے ذریعہ نجات بنایا ہے۔
آج کے دور میں جب کہ نعتیہ شاعری کو روزگار کا ذریعہ بنالیا گیا ہے اثرؔ جونپوری جیسے لوگ لائق تحسین اور قابل تقلید ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں مزید ہمت و استقامت عطا فرمائے۔ مزید یہ کہ:
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
عام ادبی حلقوں کے لیے وہ چھپے رستم ہیں لیکن دینی حلقوں میں وہ مدت درازسے مشہوراور مقبول ہیں کیونکہ ان کے شہ پارے ہفت روزہ ضربِ مومن، بچوں کا اسلام اورخواتین کا اسلام میں چھپ چھپ کر انھیں چھپے رستم کا خطاب دلاچکے ہیں۔ بڑے بڑے خطیب، مقررین اور نعت خواں جب ان کے پراثر اور اثر انگیز کلام کو مست و بے خود ہوکر پڑھتے ہیں تو سامعین جھوم جھوم اٹھتے ہیں۔ ان کا کلام سننے والوں کے دلوں کے تاروں کو یک دم چھو لیتا ہے کیونکہ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اس لحاظ سے ان کا تخلص حرف بہ حرف درست اورشایان شان ہے۔ جب وہ اپنا کلام اپنے دل کی گہرائیوں سے پڑھتے ہیں تو ایک پرکیف سماں بندھ جاتا ہے اورحاضرین وسامعین پروجد طاری ہوجاتا ہے جس سے ان کا کلام دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ ان پر رب کریم کا خصوصی کرم ہے۔ بقول شاعر:
اٰن سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اثرؔ جونپوری کا اختصاص اور امتیاز یہ ہے کہ ان کی شاعری حمدیہ، نعتیہ اور مدحیہ کلام کے لیے وقف ہے جس کی دلالت کے لیے ان کا درج ذیل شعر پیش خدمت ہے جو انھوں نے آج سے تقریباً بیس بائیس برس قبل تخلیق کیا تھا:
حمدِ خدائے پاک کوئی سہل تو نہیں
اتنے عظیم کام کا میں اہل تو نہیں
حمد ونعت ہو یا منقبت، ان میں سے ہر صنف رب کریم کی خصوصی دین اورعطائے خاص ہے۔ سچ تو یہ ہے:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں
شاعری کے حوالے سے یہ تاثرعام ہے کہ اشعارکے پراثر اور پرسوز ہونے کے لیے شراب وشباب اور حسن و عشق مجازی کا چرچا لازم وملزوم ہے جس کے بغیر شاعری بے جان اور پھیکی پھیکی محسوس ہوگی اور اس میں سوزوگداز اورگرمی تاثیر پیدا نہیں ہوسکے گی، لیکن شعرائے اسلام کی شاعری اس مفروضے کی قطعی نفی کرتی ہے اور شاہین اقبال اثرؔ جونپوری کا سارا کلام اس حقیقت کا جیتا جاگتا اور منہ بولتا ثبوت ہے کہ اللہ اور رسولؐ اور ان کے پیاروں کی محبت میں ڈوب کر عشق حقیقی کے جذبے سے سرشار ہوکرکہے جانے والے اشعار عشق مجازی والے اشعار سے کہیں زیادہ پرسوز اور دل پذیر ہوتے ہیں۔
''روح سلوک'' اثرؔ جونپوری کی حمد، نعتوں اور پندوموعظت پر مشتمل ان کا اولین شعری مجموعہ ہے جس کا عنوان ان کے مرشد مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے مرصع ہے۔ طریقت کی اصطلاح میں سلوک الی اللہ، اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے والے راستے کوکہتے ہیں جس کا تعلق تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلوک کا راستہ بڑا پرخار اور دشوارگزار ہے کیونکہ اس میں سب سے کٹھن مرحلہ ہردم گناہ پر اکسانے والے نفس کے گلے پر چھری چلانے کا درپیش ہوتا ہے۔ شاہین اثرؔ نے اپنے پراثر اشعار میں راہ سلوک کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
باغ رہ سلوک میں ممکن نہیں اثرؔ
حاصل فنا کا پھول ہو خارِ انا کے ساتھ
خالقِ قلب بھلا قلب میں آئے کیسے
ہم نے جب قلب میں غیروں کو بسا رکھا ہے
وہیں ابلیس رکھ دیتا ہے بم لطفِ معاصی کا
جہاں تعمیر تقویٰ کی عمارت ہونے لگتی ہے
اثرؔ صاحب کی نعتوں کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اس حقیقت کو نہایت شدت سے اجاگر کیا ہے کہ اللہ کے رسولؐ کی سچی محبت محض زبانی کلامی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اتباع اور سچی غلامی بھی لازمی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار پیش ہیں:
نبیؐ کے عشق کا دعویٰ سر آنکھوں پر مگر اے دوست
محبت کیا عمل کی قید سے آزاد ہوتی ہے
ہم ایسے خودغرض عشاق ہیں جو اپنے آقاؐ کی
اطاعت بھول جاتے ہیں شفاعت یاد ہوتی ہے
سرکارؐکی مدحت تو کیا کرتے ہو لیکن
سرکارؐکی سنت پہ چلا کیوں نہیں کرتے
راہ سلوک میں اپنے مرشد سے قلبی لگاؤ اور سچی محبت و عقیدت شرط اول ہے جس کی انتہائی منزل فنافی الشیخ ہوتی ہے۔ فنافی الرسول اور فنافی اللہ کی منزلیں بہ تدریج اس کے بعد طے ہوتی ہیں۔
نعت کہنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ تلوارکی دھار پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ حضورؐ کی شان میں افراط و تفریط دونوں ہی سے احتیاط لازمی ہے۔ یہ وہ نازک مرحلہ ہے جس کی جانب شبلی نعمانیؒ نے اپنی کتاب سیرۃ النبی میں ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔
فرشتوں میں یہ چرچا تھا کہ حالِ سرورِ عالمؐ
دبیرِ چرخ لکھتا یا تو خود روح الامین لکھتے
ندا یہ بارگاہِ عالم قدوس سے آئی
کہ یہ کچھ اور ہی شے ہے اگر لکھتے ہمیں لکھتے
اسی حقیقت کو شاہین اثرؔ نے اپنے انداز میں اس خوبصورتی سے بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے:
فکر و فن الفتِ سرکار میں ہوجائے فنا
تب کہیں جاکے کوئی نعت لکھی جاتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے جس کے اعتراف کے لیے اس خاکسار اور بندہ گنہگار کی ایک نعت شریف کا یہ مطلع پیش خدمت ہے:
عالم اگر ہوجائے ثناخوانِ محمدؐ
ہوگی نہ بیاں تابہ ابد شانِ محمدؐ
زباں و بیاں کے لحاظ سے بھی اثرؔ جونپوری درجہ کمال پر فائز ہیں۔ الفاظ کے انتخاب نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ درحقیقت بیان میں ندرت اور تازگی اس وقت تک پیدا ہوہی نہیں سکتی جب تک شاعر کو زبان پرعبور حاصل نہ ہو۔ الفاظ کی مزاج شناسی مثالی شاعری کے لیے شرط اول ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو اقبال، جوش اورحفیظ جالندھری جیسے عظیم شاعروں کا طرہ امتیاز ہے۔ میر انیس کا کمال بھی یہی ہے۔ اچھا شعر اپنے منہ سے بولتا ہے اسے کسی کی داد وتعریف کی محتاجی نہیں ہوتی۔ شاہین اقبال اثرؔ جونپوری کے اشعارکی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ وہ منہ سے بولتے ہیں۔ وہ ایک فطری شاعر اور Born Poet ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جن کی شاعری اہل اللہ کی محبت، برکت اور نسبت سے عشق مجازی کی آلودگی سے کوسوں دور اور بالکل پاک و صاف ہے اور عشق الٰہی کو جنھوں نے اپنے لیے ذریعہ نجات بنایا ہے۔
آج کے دور میں جب کہ نعتیہ شاعری کو روزگار کا ذریعہ بنالیا گیا ہے اثرؔ جونپوری جیسے لوگ لائق تحسین اور قابل تقلید ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں مزید ہمت و استقامت عطا فرمائے۔ مزید یہ کہ:
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ