جعلی بم ڈیٹیکڑوں کی بھرمار

اب دولت کمانے کے لیے سفاک افراد انسانی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے

اب دولت کمانے کے لیے سفاک افراد انسانی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے : فوٹو : فائل

3 جولائی 2016ء کو بغداد کے علاقے' کرادہ میں ایک کار بم دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے نے 323 عراقی شہریوں کی جان لے لی۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ کار کئی سکیورٹی چیک پوسٹوں سے گزری تھی مگر وہاں اس کے اندر رکھا کئی کلو وزنی بم شناخت نہ ہو سکا۔ اس کو تاہی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سکیورٹی اہل کار ''جعلی'' بم ڈیٹیکٹر یعنی بارود شناخت کرنے والا آلہ، ADE 651استعمال کر رہے تھے۔

اب حال ہی میں ہونے والے کوئٹہ خودکش حملے کا جائزہ لیجیے ۔حملہ آور کے پاس سات آٹھ کلو بارود موجود تھا جو اس نے موقع ملتے ہی ہسپتال کے اندر پھاڑ دیا۔ سوال یہ ہے کہ حملہ آور ہسپتال کے اندر اتنا بھاری بارود کیسے لے کر گیا؟ کیا ہسپتال کے دروازے پر تعینات عملہ بھی جعلی بم ڈیٹیکٹر استعمال کر رہا تھا؟ مشہور فرانسیسی نیوز ایجنسی، اے ایف پی کی تازہ رپورٹ اسی سمت اشارہ کرتی ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو یہ عیاںکر رہی ہے کہ دولت کمانے کی د ھن میں انسان واقعی پاگل ہو چکا۔

جعلی ڈیٹیکٹر کی خود ساختہ ایجاد نے اس ہزاروں سال پرانے نظریے سے جنم لیا کہ انسانی جسم سمیت ہر شے مخصوص شعاعیں خارج کرتی ہے۔ انگریزی میں یہ نظریہ'' ریڈیستھیسیھا''(Radiesthesia) یا ''ڈاؤئزنگ'' (Dowsing) کہلاتا ہے۔ دور جدید میں اس نظریے کو امریکی و برطانوی فراڈیوں نے مقبول بنایا۔مثال کے طور پر امریکی ڈاکٹر البرٹ ابرامس (1864ء۔1924ء) نے ایسی مشینیں ایجاد کیں جن کے متعلق اسی کا دعویٰ تھا کہ وہ بذریعہ ریڈیستھیسیھا ہر بیماری کا علاج کر سکتی ہیں۔ مگر یہ ڈاکٹر بعدازاں دھوکے باز ثابت ہوا۔

دنیا کا پہلا جعلی بم ڈیٹیکٹر 1993ء میں ویڈ کویٹل بوم نامی شاطر امریکی نے ''ایجاد'' کیا۔ ریڈیستھیسیھا نظریے کی بنیاد پر بننے والے اسی ڈیٹیکٹر کا نام ''کواڈرو ٹریکر''(Quadro Tracker) تھا۔ ویڈ صاحب کا دعویٰ تھا کہ یہ گاڑیوں اور انسانوں کے کپڑوں میں چھپے بم' اسلحہ اور منشیات تلاش کر سکتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وہ پولیس' ہسپتالوں اور اسکولوں کو یہ ایک ہزار ڈیٹیکٹر فروخت کرنے میں کامیاب رہا۔ آخر 1996ء میں امریکی خفیہ ایجنسی،ایف بی آئی نے سراغ لگایا کہ یہ بم ڈیٹیکٹر تو جعلی ہے۔ویڈ کویٹل بوم ایک کار سیلز مین تھا۔

وہ لالچی اور ہوس پرست انسان تھا۔ راتوں رات دولت کمانے کے لیے ہی اسے جعلی ڈیٹیکٹر بنانے کا خیال آیا۔ ایسے ہوس پرست لوگ کسی اخلاقیات' قیمتی انسان جانوں اور قانون کی پرواز نہیں کرتے ۔ اس نے دیگر فراڈیوں کو ساتھ ملایا اور کمپنی کھول لی۔ ان فراڈیوں میں دو امریکی وکلا بھی شامل تھے جنہوں نے بھاری رشوت لے کر جعلی ڈیٹیکٹر کا لائسنس منظور کرایا تھا۔ گویا رشوت کا زہر امریکا میں بھی موجود ہے۔اب ایک اور انکشاف سنیے۔ ایف بی آئی نے آٹھ مجرموں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ مگر جب مقدمہ شروع ہوا' تو اثرو رسوخ اور دولت کے بل پر آٹھوں مجرم رہا ہو گئے۔ اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ امریکا میں بھی انصاف و قانون کا نظام مضبوط نہیں اور حسب منشا اس کا گلا گھونٹنا ممکن ہے۔

امریکا میں ڈھیلے ڈھالے نظام انصاف کا نتیجہ ہے کہ رہائی کے بعد ایک مجرم ' میلکم رو برطانیہ پہنچا اور وہاں ایک کمپنی کھول کر'' مول'' (MOLE programmable detection system) کے نام سے اپنا جعلی ڈیٹیکٹر بنانے لگا۔ یہ شخص ویڈ کی کمپنی میں نائب صدر تھا۔ میلکم رو ہی کی کمپنی نے بعدازاں GT200کے نام سے جعلی بم ڈیٹیکٹر بنایا۔ ہر ڈیٹیکٹر 22 ہزار پونڈ کے زر کثیر میں افغانستان ' عراق' تھائی لینڈ' بھارت' میکسیکو' کینیا وغیرہ کی حکومتوں نے خریدا۔


جعلی بم ڈیٹیکٹروںکی تاریخ میں سب سے زیادہ شہرت ADE 651 کو ملی۔ یہ ''آلہ'' ایک برطانوی سیلز مین ' جم مکورمک نے 2006ء میں ایجاد کیا۔ عراقی حکومت نے یہ آلہ بڑی تعداد میں خریدا۔ مزید براں یہ آلہ لبنان' چین' تھائی لینڈ' بھارت' ہانگ کانگ اور پاکستان نے بھی خریدا۔ 2010ء میں انکشاف ہوا کہ یہ تو جعلی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ نظریہ ریڈیستھیسیھا کی بنیاد پر بنے جعلی بم ڈیٹیکٹروں کی تیاری میں بہ مشکل چند ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ مگر اسے لاکھوں روپے مالیت پر بیچا گیا۔ چناںچہ یہ آلہ بنانے والی ہر دھوکے باز کمپنی نے کروڑوں روپے کما لیے۔یہ آلہ پستول سے ملتا جلتا ہے۔ تاہم اس میں نالی کی جگہ انٹینا لگا ہوتا ہے۔ یہ آلہ بیٹریوں سے نہیں بلکہ انسان کی ''جسمانی بجلی'' سے چلتا ہے۔ چناںچہ یہ آلہ استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی اہل کار چلتا پھرتا رہے۔ نظریہ ریڈیستھیسیھا پر مبنی یہ آلہ ایجاد کرنے والوں کا دعویٰ ہے:''زمین کا مقناطیسی میدان (Electromagnetic field) ' بم کا بارود' آلہ اور انسانی جسم مخصوص شعاعیں خارج کرتے ہیں ۔یہ آلہ ان شعاعوں کو دریافت کر کے لوہے یا کنکریٹ کے پیچھے رکھا بم یا منشیات دریافت کر سکتا ہے۔''

سائنس یہ تو دریافت کر چ کی کہ ہر شے کم یا زیادہ طور پر شعاعیں خارج کرتی ہے' مگر اب تک کوئی ایسا آلہ دریافت نہیں ہو سکا جو انسانی جسم' بارود یا منشیات کی شعاعیں شناخت کر لے۔ ماہرین کے مطابق ان اشیاء کی شناخت صرف ان سے آنے والی ''بو'' سے ممکن ہے اور یہ بو صرف کتا ہی سونگھ سکتا ہے۔ اسی لیے بموں اور منشیات کا سراغ لگانے میں کتوں سے مدد لی جاتی ہے۔

ماہرین کی رو سے جعلی بم ڈیٹیکٹر بنانے والوں نے انسانی نفسیات کی ایک خامی سے فائدہ اٹھایا... یہ کہ بالکل نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ یعنی بے خبر سیکورٹی اہل کار جعلی بم ڈیٹیکٹر تھام کر بھی خود کو محفوظ اور بااختیار سمجھنے لگتا ہے۔

پاکستان کا جعلی بم ڈیٹیکٹر
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 2009ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے ADE 651 بم ڈیٹیکٹر خریدے تھے جو ہوائی اڈوں میں اے ایس ایف (ایئرپورٹ سکیورٹی فورس) استعمال کرنے لگی۔ جب 2010ء میں افشا ہوا کہ یہ تو جعلی ہیں' تب اے ایس ایف نے ان کا استعمال ترک کر دیا۔ طرفہ تماشایہ ہے کہ بعد ازاں یہ سرکاری تنظیم اپنا ''جعلی بم ڈیٹیکٹر '' تیار کر کے فی آلہ ستر ہزار روپے میں فروخت کرنے لگی۔ اس کو ''کھوجی '' کا نام دیا گیا۔ یہ بھی ریڈیستھیسیھا کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ایک پاکستانی سائنس داں اس کا موجد بتایا جاتا ہے۔

تقریباً پندرہ ہزار کھوجی سرکاری عمارات کے علاوہ نجی اسپتالوں،شاپنگ مالوں وغیرہ میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔اے ایف پی کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس فراڈ کے پیچھے طاقتور شخصیات کا ہاتھ ہے جو مال کمانے میں مصروف ہیں۔ حتیٰ کہ انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ جعلی بم ڈیٹیکٹروں نے بے گناہ اور معصوم پاکستانیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں۔ بااثر ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی میں کوئی بھی ان کا نام لینے کے لئے تیار نہیں انھیں قانون کے شکنجے میں لانا تو دور کی بات ہے۔اے ایف پی کے علاوہ راقم نے بھی کوشش کی کہ اے ایس ایف کا کوئی ذمے دار اس سنگین معاملے پر روشنی ڈال سکے مگر کامیابی نہ ہو سکی۔

اگر اے ایف پی کی رپورٹ درست ہے تو یہ نہایت خوفناک معاملہ ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ چند بااختیار ہستیوں نے دولت کمانے کی خاطر اپنے ہم وطنوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ رپورٹ کی رو سے دو سرکاری افسروں نے تسلیم کیا کہ طالبان اور دیگر پاکستان دشمن تنظیمیں ان جعلی بم ڈیٹیکٹروں کی حقیقت سے آگاہ ہیں۔اب حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ ''کھوجی'' بم ڈیٹیکٹروں کی مستند سائنس دانوں سے پڑتال کرائے تاکہ سچائی سامنے آ سکے۔ اگر یہ جعلی بم ڈیٹیکٹر ثابت ہوا تو اس کا مطلب ہے ، پچھلے چھ برس میں یہ ہزار ہا پاکستانیوں کی شہادت کا سبب بن چکے ہوں گے۔ تب یہ فراڈ کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے تاکہ وہ عبرت کا نشان بن سکیں۔
Load Next Story