ساون اور کشمیر

ہم لاکھ کہیں کہ کشمیر ایک جنت ہے جو کافر کو نہیں مل سکتی لیکن اب تو یہ جنت تقسیم ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

کبھی کسی باذوق مہربان کو خیال آتا ہے تو وہ چند سطریں اپنی طرف سے لکھ کر بھیج دیتا ہے اور یہ سطریں جس طرح میرے کسی مہربان کے دل میں اتر کر میرے پاس پہنچتی ہیں میں ایسے نایاب اور نادر روز گار تحفوں کو بھول نہیں پاتا اور جب بھی موقع ملتا ہے وہ آپ کو بھی منتقل کر دیتا ہوں۔

میں ایسے تحفوں کو جلد از جلد آپ تک بھیج دینا چاہتا ہوں کہ ایک تو اب میرا حافظہ وہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا اور پیار اور برہمی کی سبھی باتیں یاد رہتی تھیں دوسرے اس عمر رفتہ میں اب تکلفات کے زمانے گزر گئے کوئی خوش ہو تو اس کی مہربانی کوئی ناراض ہو تو اس سے معذرت۔ رسمی تکلفات وقت کے ساتھ ساتھ فرسودہ یا بے سود ہو گئے اور میں اس صورت حال پر مضطرب رہتا ہوں کہ وہ لمحے جو کبھی زندگی میں ہلچل مچا دیتے تھے اب وہ بے اثر ہو گئے ہیں یا میرے اندر وہ احساس کمزور پڑ رہا ہے کہ میں ان کو محسوس نہیں کر پاتا۔ بہر کیف یہ ایک یونہی سی بات ہے جو یاد نہ کی جائے تو اچھا ہے ورنہ کئی نئی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

بہر حال ابھی ابھی ایک مہربان کی بھیجی ہوئی چند سطریں پیش کر رہا ہوں جو میرے اس کرم فرماء کو اچھی لگیں تو اس نے مجھ تک منتقل کر دیں یہ اس کی مہربانی اور اب جب آپ یہ پڑھ کر قبول کر لیں گے تو میرے دل کی خوشی۔ ان چار پانچ سطروں میں آجکل کے رواں مہینے ساون کا ذکر ہے اور جس زبان پنجابی میں یہ سطریں ہیں ان میں ساون کو ''ساونڑ'' کہا گیا ہے۔ یہ پنجابی ہے اور ساون کے بارے میں۔ ذکر کیا گیا ہے۔

کہیں تے در تے آ کے

در کھڑکا کے نئیں آو سدا

ساؤنڑ رٹھڑے یار دے وانگوں


مناں کر مناؤنڑاں پوندے

ساونڑ آپ وساونڑاں پوندے

شعر و شاعری ہمیشہ ایک معما رہی ہے اور شاعر غیر معمولی ذہن والے لوگ۔ یہ شاعر قدرت کی طرف سے غیر شاعر عام انسانوں کے لیے ایک عطیہ اور تحفہ ہیں جو ان کے ذہنوں اور دلوں کو چین نہیں لینے دیتے بلکہ ان کے اندر نئی نئی سوچیں پیدا اور بیدار کرتے ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ انھی سوچوں سے انسانی زندگی میں کوئی رونق پیدا ہوتی ہے اور انسان آگے بڑھتا اور زندہ رہتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ محض جئے نہیں جا رہا کچھ کر بھی رہا ہے اور یہی کچھ کر لینے کا احساس ہی انسان کو زندہ رکھتا ہے۔ پھر انسان کی مدد کو اس کے ماضی کی یادیں بھی اس کے دل میں در آتی ہیں جو بعض اوقات دوسروں کو بھی کچھ راحت دیتی ہیں۔

میں یوم آزادی پر کچھ نہ لکھ سکا جب کہ ایسے موقعوں پر کچھ لکھنا میرے پیشے کا حصہ اور فرض ہے۔ اگر میں نہیں لکھتا تو اس کی دو ہی وجہ ہو سکتی ہیں یا تو میرے اندر احساس کمزور پڑ رہا ہے جو عمر بھر کی صحافت نے عطا کیا ہے اور جو ہر صحافتی موقع پر زندہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً وہ صحافی کیا ہوا جو یوم آزادی جیسے کسی قومی تہوار پر خاموش رہے اور اپنے تااثرات اور یادوں کو تازہ نہ کرے۔ یہ حرکت صحافت کے آداب کے خلاف ہے اور قارئین کی حق تلفی بھی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے اور مختصراً میں ماضی کی کچھ یادیں تازہ کرتا ہوں کہ وہ گرمیوں کی ایک خنک شام تھی اور گاؤں کی مسجد میں عصر کے بعد محفل جمی ہوئی تھی۔

گرمیوں کے موسم میں دور دور سے لوگ ہمارے خنک پہاڑی علاقے میں پہنچ جاتے تھے اور اگر رمضان کا مہینہ ہو جیسے یہ تھا تو ہمارا علاقہ خاصا آباد ہو جاتا تھا جن دنوں کی شام کا میں ذکر کر رہا ہوں اس شام کو بیربل شریف کے ایک عالم اور حالات حاضرہ سے واقف بزرگ بھی تھے۔ جب قیام پاکستان یعنی تقسیم کی باتیں معلوم ہونے لگیں تو وہ بزرگ بار بار پوچھتے کہ فلاں علاقہ کس کے پاس ہو گا جب ان سے دریافت کیا گیا کہ اس میں کیا خاص بات ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ کشمیر کا سب سے آسان راستہ ہے جو پاکستان کے پاس رہنا چاہیے ہم نو عمر اور نا پختہ لوگوں کو احساس ہوا کہ ہمارے کشمیر کو جانے والے راستے کس قدر اہم ہیں اور سوال یہ ہے کہ کشمیر کی طرف جانے والے یہ راستے کس کے قبضے میں ہوں گے۔

تب تو یوں لگتا تھا کہ اگر یہ راستے ہمارے یعنی پاکستان کے پاس آ گئے تو گویا کشمیر بھی ہم نے لے لیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بات صرف راستوں تک محدود نہیں تلوار کی طاقت ہے جو کشمیر کا فیصلہ کرے گی اور یہ فیصلہ اب تک معلق ہے اور ہماری برصغیر کی سیاست کشمیر کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ہم لاکھ کہیں کہ کشمیر ایک جنت ہے جو کافر کو نہیں مل سکتی لیکن اب تو یہ جنت تقسیم ہے۔ کچھ کافر کچھ مسلمان۔ بہرکیف ہمیں جس طاقت کی ضرورت ہے ہماری نجات اسی میں ہے۔
Load Next Story