گورے اور کالے ڈریکولا
اکثر لوگ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں، اپنے چہرے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار کی وجہ سے
اکثر لوگ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں، اپنے چہرے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کردار کی وجہ سے۔ ایک بحری جہاز میں ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار تھا، رات ہوتے ہی وہ جہاز پر سوار کسی انسان کا خون پیتا اور اپنی پیاس بجھاتا، ایک روز یہ بحری جہاز بیچ سمندر میں کسی چٹان سے ٹکرا گیا، لوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے، یہ ڈریکولا بھی ایک آدمی کی مدد سے ایک لائف بوٹ میں سوار ہو گیا، قسمت کی خرابی کہ اس کی لائف بوٹ پر صرف ایک ہی شخص تھا اور یہ وہی شخص تھا جس نے اسے بچایا تھا اور بوٹ میں آنے میں مدد کی تھی۔
رات ہوئی تو ڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی، ڈریکولا نے خود سے کہا کہ یہ تو بے شرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں، اس نیک بندے نے تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے، ایک دن، دو دن، تین دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا، بالآخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی، اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا تا کہ اس کی صحت پر کوئی واضح فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے، یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا، ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا تو اس شخص کا خون پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے، جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو تیرے لیے مچھلی پکڑتا ہے، جو شبنم کا پانی جمع کرتا ہے، اس میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے، یقیناً یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔ ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا۔
ایک رات گزری، دوسری رات گزری، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم میرا خون کیوں نہیں پیتے؟ ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمہارا خون پیتا تھا؟ محسن بولا جس دن میں نے تمہیں بچایا تھا اس دن تمہارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں ہو۔ ڈریکولا ندامت سے بولا دوست میں شرمندہ ہوں جو میں نے کیا، لیکن اب میرا وعدہ ہے میں مر جاؤں گا لیکن تمہیں نقصان نہیں پہچاؤں گا۔ محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو، پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہا تا کہ تمہیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاؤں، لیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے اور پچھلے دنوں سے عجیب بے چینی ہے، اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاؤں گا۔
ہماری ملکی کہانی بھی اس کہانی سے ملتی جلتی ہے، بس فرق ڈریکولا کی فطرت، حلیے، رنگت اور زبان کا ہے اور ساتھ ساتھ فرق طریقہ واردات کا بھی ہے۔ انگریزی ڈریکولا گورا چٹا اور سوٹ بوٹ میں ملبوس ہوتا تھا اور لال کلر کا ایپرن پہنے ہوتا تھا اور فرفر انگریزی بولتا تھا، جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا کالے پیلے اور شلوار قمیض میں ملبوس ہوتے ہیں اور اس کے اوپر واسکٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور انگریزی تو بہت دور کی بات ہے ٹھیک سے اردو بھی نہیں بول سکتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ انگریزی ڈریکولا صرف رات میں انسانوں کا خون پیتا تھا جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا نہ دن دیکھتے ہیں اور نہ ہی رات، ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔
انگریزی ڈریکولا کا پسندیدہ شکار ہمیشہ خوبصورت دوشیزائیں ہوتی تھیں جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا تو 80 سال کے بوڑھوں کو بھی نہیں بخشتے۔ دراصل ہمارے یہ دیسی ڈریکولا بھی شاگرد انگریزی ڈریکولا کے ہی ہیں، ہوا یہ تھا کہ انگریزی ڈریکولا بوڑھا ہوتا جا رہا تھا اور اس کی طبعیت بھی خراب رہنے لگی تھی اور اسے یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ مرنے کے بعد اس کا تو نام و نشان تک مٹ جائے گا تو پھر اس کے ذہن میں اپنے شاگرد بنانے کا خیال جاگا۔ اس کے خاص خدمت گار نے اسے یہ مشورہ دیا کہ آپ کا نام غیر ملکی بہت ہی زیادہ روشن رکھیں گے، اس لیے آپ غیر ملکیوں کا انتخاب کریں۔
لہٰذا باہمی صلاح و مشورے اور تمام اونچ نیچ پر بحث و مباحثے کے بعد برصغیر کے لوگوں پر اتفاق ہوا۔ اس لیے کہ ایک تو برصغیر کے لوگ ہونہار شاگرد ثابت ہوتے ہیں اور دوسرے نقل کرنے میں ماہر بھی رہے ہیں۔ اس کے بعد برصغیر میں سے لوگوں کے انتخاب کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن ڈریکولا کی خوش قسمتی، یہ بھی مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا اور انتہائی دہشت ناک، وحشت ناک کامیاب ٹریننگ کے بعد دیسی ڈریکولاؤں کا جتھہ واپس ہندوستان میں خاموشی کے ساتھ داخل ہو گیا اور چپکے چپکے اکا دکا واردات کرنے میں مصروف ہو گیا اور پھر پاکستان بننے کے بعد انتہائی خاموشی سے زمینی راستوں، بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو گیا۔
ان میں سے کچھ سیاست دان بن گئے، کچھ سرمایہ دار، کچھ جاگیردار، کچھ بزنس مین بن گئے اور کچھ بیوروکریسی میں داخل ہو گئے اور باقی سب کے سب مختلف سرکاری محکموں میں ملازم بن کر اس میں روپوش ہو گئے اور سب نے اپنے اصلی کام کا آغاز کر دیا۔ یہاں تک کہ عوام کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ یہ سب انسانوں کے بھیس میں ڈریکولا ہیں اور وہ چپ چاپ ہنسی خوشی اپنا خون انھیں دیتے رہے اور یہ سلسلہ آج تک اسی طرح سے جاری و ساری ہے۔ ان کا استاد تو صرف خون پینے کا شوقین تھا، جب کہ یہ دیسی شاگرد خون پینے کے ساتھ کمیشن، رشوت، پلاٹوں، زمینوں، قبضوں کے تو حد سے زیادہ شوقین پائے گئے ہیں اور وزارت اور مشیری پر تو ان کی رال بہنا بند ہی نہیں ہوتی ہے۔
بقول ان کے خون پینا تو بس عادت کی وجہ سے جاری ہے لیکن اصل مزا نئے نوٹوں کی خوشبو میں، پلاٹوں اور زمینوں کی فائلوں میں، قبضوں میں اور کمیشن اور رشوت لینے میں آتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے استاد محترم تو زندگی بھر اصل مزے سے ناآشنا ہی رہے اور انھوں نے ساری زندگی یوں ہی بیکار اور بے مزہ کاموں میں گنوا دی۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے عوام بھی انھیں خون پلانے کے عادی بن گئے ہیں، وہ خون نہ پلائیں تو وہ بھی مر جائیں گے۔ ان کے سامنے اب انسانیت سے لبریز، دیانتدار، ایماندار، شریف، باکردار انسانوں کی کوئی حیثیت اور اہمیت باقی نہیں رہی ہے اور نہ ہی وہ ان ڈریکولاؤں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں، لہٰذا کوئی سمجھانے والا کرے تو کرے کیا، اس لیے باقی رہے نام ڈریکولا کا۔ عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں اور اپنا خون اسی طرح پلاتے رہیں۔
رات ہوئی تو ڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس ہوئی، ڈریکولا نے خود سے کہا کہ یہ تو بے شرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں، اس نیک بندے نے تو مجھے ڈوبنے سے بچایا ہے، ایک دن، دو دن، تین دن وہ اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا، بالآخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی، اس کے نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن انسان نیند میں ہو گا تا کہ اس کی صحت پر کوئی واضح فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس بھی تنگ نہ کرے، یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا، ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا تو اس شخص کا خون پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے، جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو تیرے لیے مچھلی پکڑتا ہے، جو شبنم کا پانی جمع کرتا ہے، اس میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے، یقیناً یہ بے شرمی کی انتہا ہے۔ ڈریکولا نے فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا۔
ایک رات گزری، دوسری رات گزری، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم میرا خون کیوں نہیں پیتے؟ ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں ڈریکولا ہوں اور تمہارا خون پیتا تھا؟ محسن بولا جس دن میں نے تمہیں بچایا تھا اس دن تمہارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم انسان نہیں ہو۔ ڈریکولا ندامت سے بولا دوست میں شرمندہ ہوں جو میں نے کیا، لیکن اب میرا وعدہ ہے میں مر جاؤں گا لیکن تمہیں نقصان نہیں پہچاؤں گا۔ محسن بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو، پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہا تا کہ تمہیں پتہ نہ چل جائے اور میں مارا جاؤں، لیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے اور پچھلے دنوں سے عجیب بے چینی ہے، اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاؤں گا۔
ہماری ملکی کہانی بھی اس کہانی سے ملتی جلتی ہے، بس فرق ڈریکولا کی فطرت، حلیے، رنگت اور زبان کا ہے اور ساتھ ساتھ فرق طریقہ واردات کا بھی ہے۔ انگریزی ڈریکولا گورا چٹا اور سوٹ بوٹ میں ملبوس ہوتا تھا اور لال کلر کا ایپرن پہنے ہوتا تھا اور فرفر انگریزی بولتا تھا، جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا کالے پیلے اور شلوار قمیض میں ملبوس ہوتے ہیں اور اس کے اوپر واسکٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور انگریزی تو بہت دور کی بات ہے ٹھیک سے اردو بھی نہیں بول سکتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ انگریزی ڈریکولا صرف رات میں انسانوں کا خون پیتا تھا جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا نہ دن دیکھتے ہیں اور نہ ہی رات، ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔
انگریزی ڈریکولا کا پسندیدہ شکار ہمیشہ خوبصورت دوشیزائیں ہوتی تھیں جب کہ ہمارے دیسی ڈریکولا تو 80 سال کے بوڑھوں کو بھی نہیں بخشتے۔ دراصل ہمارے یہ دیسی ڈریکولا بھی شاگرد انگریزی ڈریکولا کے ہی ہیں، ہوا یہ تھا کہ انگریزی ڈریکولا بوڑھا ہوتا جا رہا تھا اور اس کی طبعیت بھی خراب رہنے لگی تھی اور اسے یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ مرنے کے بعد اس کا تو نام و نشان تک مٹ جائے گا تو پھر اس کے ذہن میں اپنے شاگرد بنانے کا خیال جاگا۔ اس کے خاص خدمت گار نے اسے یہ مشورہ دیا کہ آپ کا نام غیر ملکی بہت ہی زیادہ روشن رکھیں گے، اس لیے آپ غیر ملکیوں کا انتخاب کریں۔
لہٰذا باہمی صلاح و مشورے اور تمام اونچ نیچ پر بحث و مباحثے کے بعد برصغیر کے لوگوں پر اتفاق ہوا۔ اس لیے کہ ایک تو برصغیر کے لوگ ہونہار شاگرد ثابت ہوتے ہیں اور دوسرے نقل کرنے میں ماہر بھی رہے ہیں۔ اس کے بعد برصغیر میں سے لوگوں کے انتخاب کا مسئلہ پیدا ہوا لیکن ڈریکولا کی خوش قسمتی، یہ بھی مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا اور انتہائی دہشت ناک، وحشت ناک کامیاب ٹریننگ کے بعد دیسی ڈریکولاؤں کا جتھہ واپس ہندوستان میں خاموشی کے ساتھ داخل ہو گیا اور چپکے چپکے اکا دکا واردات کرنے میں مصروف ہو گیا اور پھر پاکستان بننے کے بعد انتہائی خاموشی سے زمینی راستوں، بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو گیا۔
ان میں سے کچھ سیاست دان بن گئے، کچھ سرمایہ دار، کچھ جاگیردار، کچھ بزنس مین بن گئے اور کچھ بیوروکریسی میں داخل ہو گئے اور باقی سب کے سب مختلف سرکاری محکموں میں ملازم بن کر اس میں روپوش ہو گئے اور سب نے اپنے اصلی کام کا آغاز کر دیا۔ یہاں تک کہ عوام کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ یہ سب انسانوں کے بھیس میں ڈریکولا ہیں اور وہ چپ چاپ ہنسی خوشی اپنا خون انھیں دیتے رہے اور یہ سلسلہ آج تک اسی طرح سے جاری و ساری ہے۔ ان کا استاد تو صرف خون پینے کا شوقین تھا، جب کہ یہ دیسی شاگرد خون پینے کے ساتھ کمیشن، رشوت، پلاٹوں، زمینوں، قبضوں کے تو حد سے زیادہ شوقین پائے گئے ہیں اور وزارت اور مشیری پر تو ان کی رال بہنا بند ہی نہیں ہوتی ہے۔
بقول ان کے خون پینا تو بس عادت کی وجہ سے جاری ہے لیکن اصل مزا نئے نوٹوں کی خوشبو میں، پلاٹوں اور زمینوں کی فائلوں میں، قبضوں میں اور کمیشن اور رشوت لینے میں آتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے استاد محترم تو زندگی بھر اصل مزے سے ناآشنا ہی رہے اور انھوں نے ساری زندگی یوں ہی بیکار اور بے مزہ کاموں میں گنوا دی۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے عوام بھی انھیں خون پلانے کے عادی بن گئے ہیں، وہ خون نہ پلائیں تو وہ بھی مر جائیں گے۔ ان کے سامنے اب انسانیت سے لبریز، دیانتدار، ایماندار، شریف، باکردار انسانوں کی کوئی حیثیت اور اہمیت باقی نہیں رہی ہے اور نہ ہی وہ ان ڈریکولاؤں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں، لہٰذا کوئی سمجھانے والا کرے تو کرے کیا، اس لیے باقی رہے نام ڈریکولا کا۔ عوام مرتے ہیں تو مرتے رہیں اور اپنا خون اسی طرح پلاتے رہیں۔