جنرل راحیل کی مستقل مزاجی سیاسی چالوں کی راہ میں حائل
آرمی چیف اسلامی ممالک کی افواج کی کمانڈ سنبھالنے کی پیشکش مسترد کر چکے ہیں
BAHAWALPUR:
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مستقل مزاجی بعض حلقوں کی جانب سے چلائی گئیں دانستہ سیاسی چالوں کی کامیابی کی راہ میں آڑے آ گئی ۔
'' ایکسپریس انوسٹی گیشن سیل'' نے کچھ حلقوں میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل کاعہدہ دینے کے حوالے سے جاری بحث و مباحثے اورخاص طور پر فائیو اسٹار جنرل کے اس عہدے کے کردار کے حوالے سے چھان بین اورماہرین کی رائے جانی ہے جس کے مطابق جب تک فوج کے سربراہ نے ایک سے زائد (آرمی)کی کمانڈ کی ہو یا جنگ کے دوران کسی آرمی کی کمانڈ کرتے ہوئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیاہو ہرگزفیلڈ مارشل کے عہدے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاک فوج کے امور پرگہری نظر رکھنے والوں کاکہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی اب تک کی بڑی کامیابی ان کی مستقل مزاجی ہے اورانھوں نے اپنی اس غیر معمولی صلاحیت کے ذریعے ہی بعض حلقوں کی جانب سے چلائی گئی دانستہ سیاسی چالوں کوناکام بنایا ہے۔
جنرل راحیل شریف کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اسلامی ممالک کی افواج کے اتحاد کی فوجی کمانڈ سنبھالنے کی پیشکش کو مسترد کر چکے ہیں کیونکہ وہ پاکستان آرمی کے سپہ سالار ہونے کے ناطے اپنی خدمات وطن عزیز کیلیے دینا ہی بہتر سمجھتے ہیں اور وہ اپنے گھرانے کو ملنے والے 2 نشان حیدر کے اعزازات کے حوالے سے بھی گہری سو چ رکھتے ہیں۔ سابق کور کمانڈر منگلا جنرل (ر)غلام مصطفی نے اس حوالے سے موقف میں '' ایکسپریس انوسٹی گیشن سیل '' کو بتایا کہ خاص ایجنڈے کے تحت اس حوالے سے بات شروع کرائی گئی جس میں 14اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی جو گزر چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کے حوالے سے ٹیکنیکل معاملات ہیں اوراس کیلیے آرگنائزیشن لیول پر معاملات طے کیے جاتے ہیں، موجودہ حالات میں اکیلے صدر یا وزیر اعظم کے دستخطوں سے یہ عہدہ دینا ممکن نہیں۔ معروف سینئر قانون دان ایس ایم ظفر نے اپنے موقف میں کہا کہ یہ کوئی آئینی یا قانونی عہدہ نہیں تاہم اس کو دنیا میں سرمونیئل انداز میں جانچا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کسی ایسے جرنیل کو دیاجاتاہے جس نے کسی جنگ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مستقل مزاجی بعض حلقوں کی جانب سے چلائی گئیں دانستہ سیاسی چالوں کی کامیابی کی راہ میں آڑے آ گئی ۔
'' ایکسپریس انوسٹی گیشن سیل'' نے کچھ حلقوں میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل کاعہدہ دینے کے حوالے سے جاری بحث و مباحثے اورخاص طور پر فائیو اسٹار جنرل کے اس عہدے کے کردار کے حوالے سے چھان بین اورماہرین کی رائے جانی ہے جس کے مطابق جب تک فوج کے سربراہ نے ایک سے زائد (آرمی)کی کمانڈ کی ہو یا جنگ کے دوران کسی آرمی کی کمانڈ کرتے ہوئے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیاہو ہرگزفیلڈ مارشل کے عہدے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاک فوج کے امور پرگہری نظر رکھنے والوں کاکہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی اب تک کی بڑی کامیابی ان کی مستقل مزاجی ہے اورانھوں نے اپنی اس غیر معمولی صلاحیت کے ذریعے ہی بعض حلقوں کی جانب سے چلائی گئی دانستہ سیاسی چالوں کوناکام بنایا ہے۔
جنرل راحیل شریف کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اسلامی ممالک کی افواج کے اتحاد کی فوجی کمانڈ سنبھالنے کی پیشکش کو مسترد کر چکے ہیں کیونکہ وہ پاکستان آرمی کے سپہ سالار ہونے کے ناطے اپنی خدمات وطن عزیز کیلیے دینا ہی بہتر سمجھتے ہیں اور وہ اپنے گھرانے کو ملنے والے 2 نشان حیدر کے اعزازات کے حوالے سے بھی گہری سو چ رکھتے ہیں۔ سابق کور کمانڈر منگلا جنرل (ر)غلام مصطفی نے اس حوالے سے موقف میں '' ایکسپریس انوسٹی گیشن سیل '' کو بتایا کہ خاص ایجنڈے کے تحت اس حوالے سے بات شروع کرائی گئی جس میں 14اگست کی ڈیڈ لائن دی گئی جو گزر چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل کے عہدے کے حوالے سے ٹیکنیکل معاملات ہیں اوراس کیلیے آرگنائزیشن لیول پر معاملات طے کیے جاتے ہیں، موجودہ حالات میں اکیلے صدر یا وزیر اعظم کے دستخطوں سے یہ عہدہ دینا ممکن نہیں۔ معروف سینئر قانون دان ایس ایم ظفر نے اپنے موقف میں کہا کہ یہ کوئی آئینی یا قانونی عہدہ نہیں تاہم اس کو دنیا میں سرمونیئل انداز میں جانچا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کسی ایسے جرنیل کو دیاجاتاہے جس نے کسی جنگ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔