پاکستان پر افغان حکام کے الزامات اور زمینی حقائق

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر حملے جاری رہے تو...

گزشتہ ایک سال میں 15 مرتبہ افغان علاقوں سے عسکریت پسندوں نے پاکستانی علاقوں میں حملے کیے جس 100 سے زائد فوجی جوان اور سول افراد ہلاک ہوئے۔ فوٹو: فائل

افغان حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان کے مشرقی صوبوں نورستان اور کنڑ پر پاکستانی علاقوں سے سیکڑوں گولے اور راکٹ داغے گئے جن میں اکثر مکانات پر گرنے سے 4 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جب کہ پاکستان کے عسکری حکام نے افغان حکام کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج نے صرف سرحد پار سے حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائی کی تھی۔

افغانستان کے علاقے میں مبینہ طور پر گولے و راکٹ پھینکے جانے پر افغانستان کے حکام کی جانب سے احتجاج اور صدر کرزئی کی جانب سے تحقیقات کا حکم مناسب ہے' تاہم ان کی جانب سے افغان شرپسندوں کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر حملوں' یہاں کے پہاڑی قبائلی لوگوں کو قتل و زخمی کرنے' ان کی املاک کو نقصان پہنچانے اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے حکام کو اغوا اور بعد ازاں انھیں شہید کرنے کے واقعات کا بروقت نوٹس لے لیا جاتا تو ممکن ہے یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی لیکن ہوتا یہ رہا ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد پاکستان کی جانب سے کیے گئے ہر احتجاج کو نظرانداز کر دیا گیا۔


یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران 15مرتبہ افغان علاقوں سے عسکریت پسندوں نے بارڈر کراس کر کے پاکستانی علاقوں میں حملے کیے جن میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں اور سول آبادی کو نشانہ بنایا گیا، ان حملوں میں 100 سے زائد فوجی جوان اور سول افراد شہید ہوئے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے گزشتہ دنوں اپنے دورہ کابل کے دوران بھی یہ معاملہ پرزور انداز میں افغان صدر حامد کرزئی کے سامنے اٹھایا تھا جب کہ پاکستان' برطانیہ اور افغانستان کے مابین سہ فریقی اجلاس میں بھی اس بارے میں بات ہوئی اور عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ افغان اور نیٹو حکام کی طرف سے پاکستان کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اس طرح کے حملوں کا تدارک کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا جس کا نتیجہ ایک اور افسوسناک واقعہ کی صورت میں نکلا ہے اور آیندہ بھی اگر معاملات کو درست نہج پر نہ لایا گیا تو حالات کا ٹھیک ہونا ممکن نہ ہو گا۔

افغان وزارت خارجہ کے ترجمان جانان موسیٰ زئی نے یہ بات بالکل درست کہی ہے کہ یہ حملے اسی طرح جاری رہے تو اس سے پاکستان اور افغانستان کے دوستانہ تعلقات متاثر ہوں گے چنانچہ ایسے حالات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان حملوں کے پس منظر میں کارفرما قوتوں اور مقاصد کا بالکل درست ادراک کیا جائے۔ اس بارے میں سوچ بچار کرتے ہوئے اس معاملے کو اس حوالے سے بھی پرکھا جانا چاہیے کہ کہیں دونوں طرف کی انتہاپسند قوتیں ایسی شرانگیز کارروائیاں کر کے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانا تو نہیں چاہتی ہیں؟

ہمارے خیال میں اگر اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب تلاش کر لیا جائے تو دونوں ملکوں کی کافی مشکلات اور ایک دوسرے سے شکایات کم ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا یہ کہنا ایک بہت بڑی حقیقت تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ ان کے ملک میں امن کا راستہ امریکا نہیں پاکستان سے گزرتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس خطے میں پاکستان کے کردار کے بارے میں ایک بار پھر غور کر لیا جائے' افغانستان اور امریکا بھی اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور نبھائیں تبھی حالات کو دلخواہ حد تک ٹھیک کیا جا سکے گا۔
Load Next Story