کارونجھر کنارے

ان پہاڑوں میں خوبصورت تیرتھ (عبادت گاہیں) ہیں۔ مہا بھارت میں پانڈوں اورکوروں کی لڑائی کا ذکر ہے

shabnumg@yahoo.com

کارونجھر پہاڑوں میں ایک گہری کشش ہے۔ ہم ہر سال بارشوں کے زمانے میں بے اختیار ان حسین پہاڑوں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ننگر پار کر میں واقع یہ پہاڑ شہر کے اردگرد 16 میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ پہاڑ بارشوں کے بعد حسین منظر پیش کرتے ہیں۔ جن پر جنگلی پھول، جڑی بوٹیاں اور قدیم پودے لہلہاتے ہیں۔ ان پھولوں پر تتلیاں اور شہد کی مکھیاں منڈلاتی ہیں۔ ان پودوں کی صحت بخش تاثیر ہے کہ یہاں سے دریافت ہونے والا شہد اپنی افادیت میں بہترین مانا جاتا ہے۔ یہ جڑی بوٹیاں ادویات میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مقامی لوگ ان کی افادیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، چونکہ اس علاقے میں طب کی سہولتیں میسر نہیں ہیں، لہٰذا اس علاقے کے مکین فطری علاج میسر ہونے کی وجہ سے چاق و چوبند رہتے ہیں۔

بارش کے موسم میں ان پہاڑوں سے پانی کے چشمے بہہ نکلتے ہیں۔کارونجھر کی دو چوٹیاں آپس میں جہاں ملتی ہیں، ان کی شبیہہ گائے جیسی دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں گؤ مکھ کہا جاتا ہے۔ بارش کے دنوں میں یہاں سے پانی کا حسین آبشار بہتا ہے۔ پانی کا یہ جل ترنگ مدتوں حواسوں کو سرسبز و شاداب رکھتا ہے۔

ان پہاڑوں میں خوبصورت تیرتھ (عبادت گاہیں) ہیں۔ مہا بھارت میں پانڈوں اورکوروں کی لڑائی کا ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جلاوطنی کے دوران پانڈوں نے ان پہاڑوں کواپنی پناہ گاہ بنا لیا تھا۔ ان مقامات کو 'بھیم گوڈو، گؤ مکھ، ساڑدرو اور انچلسریا کہا جاتا ہے۔ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے سرسبز راستے اور چھوٹے چھوٹے جھرنے راہ میں آتے ہیں۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، ہواؤں کے سر، بھنوروں کے پروں کا آہنگ دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر بارشوں کے بعدکارونجھرکی خوبصورتی قابل دید ہوتی ہے۔ ہم بھی بارشوں کے بعد پہنچے ہیں۔

ہوا جڑی بوٹیوں کو چھو کر آتی ہے، توخوشبو سے مہکتی ہوا، زندگی کی پیامبر بن جاتی ہے۔ روح میں سبزہ بکھر جاتا ہے اور ذہن موتیوں جیسا شفاف۔ تضادات اور الجھنیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ میٹامارفوسس (تبدیلی) کا یہ عمل ایک نئے وجود کو تشکیل دیتا ہے اور یہ نیا پن اور شفاف احساس لے کر آپ شہروں کی طرف واپس لوٹ جاتے ہیں۔ توایک طویل عرصے تک کارونجھرکے پہاڑوں کے درمیان گزارے ہوئے لمحے، تھکے احساس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ لوکرام ڈوڈیچا لکھتے ہیں ''دنیا کے اوائلی گرنتھ، وید ہیں۔


جس کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان میں پوترگنگا اور جمنا کا ذکر ایک بار آتا ہے مگر سندھو ندی کا ذکر کئی بار ملتا ہے۔ کیونکہ اعلیٰ وید کی آریا تہذیب کی ابتدا اس ندی کے کنارے بسنے والے رشیوں و منیوں نے کی تھی'' ان قدیم یوگی و صوفیوں کا عقیدہ تھا کہ وحدت سے کثرت ہوئی اورکثرت وحدت کل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ویدوں کا یہ گیان سندھو تہذیب کی بنیاد میں شامل ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دھرتی ایک خاندان کی مانند ہے۔ اصول کو عمل کی تاثیرکی ضرورت ہے۔ فقیر کوکبھی خالی ہاتھ لوٹایا نہیں جاتا تھا۔کھانا تیار نہ ہونے کی صورت میں اسے آٹا یا کھجور دے کر رخصت کرتے۔ یکساں تقسیم اور عطا کرنا زمین کا ہنر تھا۔ جو مکینوں نے اپنا رکھا تھا۔

ننگر پارکر سے چلیں گے تو سبزے کے درمیان مور گھومتے نظر آئیں گے۔ چودہ میل کے فاصلے پر پاری بندر واقع ہے۔ یہ کسی زمانے میں سندھ کی قدیم بندرگاہ تھی۔ پہلی صدی عیسوی میں اس کی بنیاد ڈالی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ دسویں صدی میں جب سندھ میں شدید زلزلہ آیا تو یہ سمندر پیچھے کھسک گیا اور کَچھ کا صحرا وجود میں آیا۔ ارتقائی عمل سے گزرتی ہوئی صحرا کی یہ زمین، اپنی گہرائی میں تاریخ کے کئی حوالے سمیٹے ہوئے ہے۔ جین مت اور بدھ ازم کا سحر آج بھی عمارتوں سے جھلکتا ہے۔ مراقبے جیسا عجیب سکون، جیسے وقت ٹھہر گیا ہو۔ سندھ میں قدیم زمانے میں بدھ ازم کا دور دورہ تھا۔ چینی سیاح ہیون سانگ642ء میں سندھ میں آیا تھا۔ اس کے سفر نامے میں درج ہے کہ اس وقت سندھ میں دس ہزار بھکشو تھے۔ جنھیں شرمن کہا جاتا تھا۔ لہٰذا اس خطے کا مزاج کسی یوگی کی عبادت جیسا ہے۔ روح میں اترتی ہوئی خاموشی، جو قدامت سے جڑی ہوئی ہے۔

جین مت کے پیروکار ذہن، دل و روح کی رکاوٹوں سے نجات کا راستہ تلاش کرتے۔ کیونکہ ذہن، دل و روح کے مسئلے اگر حل ہونے سے رہ جائیں، تو بنتے ہوئے راستے بھی بگڑ جاتے ہیں۔ انسان کو جو چیز بھی عطا ہوتی ہے، وہ من کی سچائی کی روشنی سے ملتی ہے۔ خوشیوں کی راہ میں انسانی ذہن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ذہن جو تفریق اور انا پرستی کے جال میں بری طرح سے الجھ جاتا ہے۔ ہر الجھاؤ خودساختہ ہے۔ جسے محبت اور یقین کی طاقت سے سلجھایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ قدیم مذاہب سکون، سکوت اور ارتکاز پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ ذہن میں اطمینان ہے تو بیرونی طوفان، انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ذہن کے طوفان سے بڑی تباہی شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔

یہی وجہ ہے کہ جب میں اس خطے میں داخل ہوتی ہوں تو فضائیں کسی دھیان و گیان میں محو دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے وقت گزرا نہ ہو۔ ان پہاڑوں، جھرنوں اور سبزے کے درمیان ٹھہر سا گیا ہو۔ جذبوں سے بھرپورخوبصورت لمحے مناظر میں جذب ہوجاتے ہیں۔ آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہاں کس قدر حسین لوگ بستے تھے۔ جو توازن، ہم آہنگی اور لازوال حسن کو سوچتے تھے۔ وہ اپنی بنیاد کو کھوجتے تھے۔ روح کے خالص پن کے شیدائی تھے۔ یہی انداز فکر سندھ کی سرزمین کا قیمتی سرمایہ ہے بقول کنفیوشیس کے کہ ہزار میلوں کا سفر اس سمت اٹھائے گئے پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔ بارش کا پہلا قطرہ ہریالی کی طرف پیش رفت ہے۔ سورج کی پہلی کرن روشنی کا دروازہ زمین کے لیے کھول دیتی ہے۔ فقط ایک شعور بھرا احساس، لمحے میں پوری کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔ کارونجھر لمحے کا عرفان سمیٹے ہوئے ہے ۔
Load Next Story