ریاست سے محروم پاکستانی
ریاست پاکستان اس تمام عرصے میں کمال بے حسی کے ساتھ ایک خاموش تماشائی بنی رہی ہے
CAPE TOWN:
''یہ ایک بیمار ذہن کا کام تھا'' مقدونیہ (Macedonia) کی پولیس ترجمان Mirjana Konteska نے 30 اپریل 2004ء کو رپورٹرزکو بتایا۔ وہ دراصل سات بے گناہ تارکین وطن پاکستانیوں کی بات کر رہی تھی جنھیں 2 مارچ 2002ء دہشت گرد ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر مقدونیہ کی پولیس نے قتل کر دیا تھا۔ ''ہم نے سات مجاہدین ہلاک کر دیے'' اسی دن اس وقت کے مقدونی وزیرداخلہ Ljube Boskovski نے فخر سے یہ اعلان کیا تھا۔
یہ تو صرف ستمبر 2002ء کے انتخابات میں آنے والی نئی حکومت کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ سابق مقدونیہ حکومت ان بے گناہ پاکستانیوں کو دہشتگرد قرار دے کر قتل کر کے امریکا کی زیر قیادت دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا ''حصہ ڈالنا'' چاہتی تھی۔ ریاست پاکستان اس دوران ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے نمایاں رہی۔ 68 انسان جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے 18 فروری 2007ء کو پانی پت کے نزدیک سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں میں بم دھماکوں کے ذریعے زندہ جلا کر قتل کر دیے گئے۔ بھارتی میڈیا کے روایتی اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان ہسٹیریائی شور کم ہونے پر پتہ چلا کہ دہشتگردی کی اس مکروہ کارروائی میں بھارتی ہندو انتہا پسند دہشتگرد اور بھارتی فوج سے تعلق رکھنے والے ان کے مددگار شامل ہیں۔
27 فروری 2002ء میں بھارتی مغربی ریاست گجرات میں گودھرا ریلوے اسٹیشن کے قریب سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگانے کی وجہ سے ٹرین میں سوار 59 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے، جس کا الزام بی جے پی اور دوسری ہندو انتہا پسند پارٹیوں نے فوری طور پر مسلمانوں پر لگا دیا اور تین دن اس وقت کے گجراتی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حکومت میں بنا کسی روک ٹوک کے تقریباً 2000 سے زائد مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ ادھر سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث ہندو انتہا پسند دہشت گرد بہت سے ثبوتوں اور گواہیوں کے باوجود ''بے گناہ'' قرار پائے گئے جیسے نریندر مودی کو تین دن تمام آزادی کے ساتھ مسلمانوں کے قتل عام پہ بھارتی نظام انصاف کی جانب سے کلین چٹ دے دی گئی۔
ریاست پاکستان اس تمام عرصے میں کمال بے حسی کے ساتھ ایک خاموش تماشائی بنی رہی ہے بلکہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارتی موجودگی کے کھلے دستاویزی و افرادی ثبوت سامنے آنے پہ بھی حکمراں طبقے، ان کے اتحادی، درباری و چمچے وغیرہ بھارت کا نام زبان پہ لانا گناہ سمجھتے ہیں اور الٹا اپنی فورسز پہ کیچڑ اچھالتے ہیں۔ ادھر بھارت بمبئی اور پٹھانکوٹ حملوں سے لے کر ہوا میں اڑنے والے کبوتروں تک پر کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا طوفان اٹھائے رکھتا ہے۔
عام پاکستانیوں سے ریاست پاکستان کی مستقل و حقارت آمیز بے اعتنائی و لاپروائی نے عام پاکستانیوں کو نہ صرف اپنے وطن میں بلکہ وطن سے دور بھی بے یارومددگار بے وطن شہریوں کا سا عملی درجہ دیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس سال 29 جولائی کو ذوالفقارعلی کا انڈونیشیا میں فائرنگ اسکواڈ سے بچ نکلنا تقریباً انہونی ہی ہے خصوصاً انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو کے منشیات کے مقدموں میں ہر حال میں سزائے موت برقرار رکھنے کے اٹل عزم کو دیکھتے ہوئے 20 اکتوبر 2014ء کو صدر ویدودو کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے انڈونیشیا برازیل، ہالینڈ اور آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک کے شہریوں کو منشیات سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے پر سزائے موت دے چکا ہے۔
آسٹریلیا نے تو انڈونیشیا پہ دباؤ ڈالنے کے لیے 2015ء میں انڈونیشیا سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا اور انڈونیشیا کو دی جانے والی اپنی امداد گھٹا دی مگر انڈونیشین حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ یہ پاکستان سے خاصا مختلف معاملہ ہے جہاں غیر ملکی بھرے بازار میں پاکستانی شہریوں کو کھلم کھلا قتل کر کے VIP پروٹوکول کے ساتھ ہنستے کھیلتے اپنے ملکوں کو سدھارتے ہیں۔ ذوالفقار علی اور دیگر نو افراد کے کیسز کو انڈونیشن حکومت نے دوبارہ اور تفصیلی طور پر جانچنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذوالفقار علی کے لیے موجودہ حکومت کی کوششوں کی بہرحال تعریف کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی کچھ دوسرے عوامل کو بھی دیکھ لینا چاہیے مثلاً (1)۔ ذوالفقار علی کو نومبر 2004ء میں محض ایک شخص کے بیان پہ گرفتار کیا گیا۔
(2)۔ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ نے 2005ء میں اس کو سزائے موت دی جسے ایک اعلیٰ عدالت نے 2006ء میں برقرار رکھا۔ (3)۔ ذوالفقار علی کے خلاف کیس اتنا کمزور تھا کہ (JPP) Justice Project Pakistan کے مطابق خود انڈونیشیا کے قانون اور انسانی حقوق کے ماہرین نے کیس کی تحقیقات میں مدد دینے کے لیے 2009ء میں رپورٹ پیش کی۔ (4)۔ تاہم کیس کی دوبارہ عدالتی تحقیقات کے لیے ذوالفقارعلی کی 2008ء اور 2013ء کی اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔ (5)۔ جب کہ اس دوران جس کے محض ایک بیان پر انڈونیشین حکومت نے ذوالفقار علی کو سزائے موت کے لیے منتخب کیا تھا اس نے اپنا بیان بھی واپس لے لیا تاہم ذوالفقار علی کی سزائے موت برقرار رہی۔
اس سارے عرصے میں ہمیں ریاست پاکستان، اس کی وزارت خارجہ اور قانون اور سفارت خانے کہیں نظر نہیں آتے جو ان 12 سالوں میں انڈونیشیا کی کرپشن اور تشدد کے ذریعے اقبال جرم کرانے والی پوری دنیا میں مشہور کرپٹ پولیس کی ناقص تحقیقات کی بدولت ایک پاکستانی شہری کو سزائے موت کی انتہائی متنازعہ سزا سے بچانے کے لیے کچھ کرتے اور اگر ابھی بھی میڈیا شور نہ مچاتا تو شاید بلکہ یقیناً ابھی بھی ذوالفقار علی کے لیے کچھ نہ کیا جاتا۔
مگر یہ صرف ریاست پاکستان کی عام پاکستانیوں سے بے اعتنائی نہیں جس نے انھیں پوری دنیا میں ریاستی و غیر ریاستی زیادتیوں کے لیے ایک آسان شکار بنا رکھا ہے بلکہ بہت سے عام پاکستانیوں کے کرتوتوں نے بھی دنیا بھر میں پاکستانیوں کے لیے انتہائی منفی تاثر پیدا کیا ہوا۔ 1970ء کی دہائی تک دنیا بھر میں پاکستانیوں کا انتہائی مثبت تاثر تھا اور امریکا، یورپ سمیت تقریباً ہر ملک کا ویزا پاکستانیوں کو مل جاتا تھا۔ دنیا بھر میں جس ملک نے بھی معاشی ترقی کی ہے وہ اپنے صنعتوں کے پھیلاؤ، برآمدات میں اضافے اور کرپشن میں کمی سے کی ہے۔
آپ امریکا سے جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائشیا سے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا تک کسی بھی معیشت کا جائزہ لیں، تاہم پاکستان میں معیشت کو غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے پاسپورٹ کا نہ صرف حاصل کرنا ہی ہر شخص کے لیے ممکن بنا دیا گیا بلکہ ایک انتہائی خام حالت کی افرادی قوت کو کسی بھی قسم کی عملی تعلیمی، سماجی، ٹیکنیکل اور شہری تربیت کے بغیر جوق در جوق باہر جانے دیا گیا نتیجتاً بہت سے ایسے لوگ بھی جنھوں نے زندگی میں کبھی ٹوائلٹ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور جن کے کلچر میں 10 روپے کے نوٹ سے لے کر زمین کے ایک ایکڑ تک کے لیے لوگوں یہاں تک کے بھائی بہنوں، ماں باپ تک کو قتل کر دینا ایک عام سی بات تھی پاکستان سے باہر پہنچ کر پاکستان کے لیے ایک نیا بالکل 1971ء کے ''نئے پاکستان'' سا امیج پیدا کرنا شروع کر دیا۔
معیشت کی یہ خدمت جس پہ جمہوریت پسند مفکر آج بھی تعریف کے ڈونگرے برساتے ہلکان نظر آتے ہیں کچھ ایسی ہی معیشت کی خدمت تھی کہ جیسی پاکستان میں صنعتوں، کاروبار اور مالیاتی اداروں کو قومیا کر کی گئی جس کے نتیجے میں بیورو کریسی اور سیاسی لوگوں کے لیے لوٹ مار کے وسیع دروازے چوپٹ کھل گئے۔
نااہل افراد اداروں پہ مسلط ہوئے۔ ملک میں ایک صنعتی شہری کلچر کا خاتمہ اور جاگیرداری کو فروغ حاصل ہوا کہ جاگیرداری کے خلاف دکھاوے کی قومیانے کی پالیسی اختیار کی گئی، چنانچہ پاکستان کی وہ معیشت جو جنوبی کوریا جیسے ملکوں کے لیے مثال تھی اپنے گھٹنوں پہ گر گئی اور آج تک نہیں اٹھ سکی۔ اب ہماری حکومتیں غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان سے باہر خصوصاً نوکری کرنے اور پڑھنے کے لیے جانے والوں کے لیے چند بنیادی شہری اور سماجی تعلیمی کورسز کا ہی اہتمام کر دیں تو وقت کے ساتھ دنیا میں پاکستانیوں کا امیج کچھ بہتر ہو سکے ورنہ......
''یہ ایک بیمار ذہن کا کام تھا'' مقدونیہ (Macedonia) کی پولیس ترجمان Mirjana Konteska نے 30 اپریل 2004ء کو رپورٹرزکو بتایا۔ وہ دراصل سات بے گناہ تارکین وطن پاکستانیوں کی بات کر رہی تھی جنھیں 2 مارچ 2002ء دہشت گرد ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر مقدونیہ کی پولیس نے قتل کر دیا تھا۔ ''ہم نے سات مجاہدین ہلاک کر دیے'' اسی دن اس وقت کے مقدونی وزیرداخلہ Ljube Boskovski نے فخر سے یہ اعلان کیا تھا۔
یہ تو صرف ستمبر 2002ء کے انتخابات میں آنے والی نئی حکومت کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ سابق مقدونیہ حکومت ان بے گناہ پاکستانیوں کو دہشتگرد قرار دے کر قتل کر کے امریکا کی زیر قیادت دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا ''حصہ ڈالنا'' چاہتی تھی۔ ریاست پاکستان اس دوران ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے نمایاں رہی۔ 68 انسان جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے 18 فروری 2007ء کو پانی پت کے نزدیک سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں میں بم دھماکوں کے ذریعے زندہ جلا کر قتل کر دیے گئے۔ بھارتی میڈیا کے روایتی اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان ہسٹیریائی شور کم ہونے پر پتہ چلا کہ دہشتگردی کی اس مکروہ کارروائی میں بھارتی ہندو انتہا پسند دہشتگرد اور بھارتی فوج سے تعلق رکھنے والے ان کے مددگار شامل ہیں۔
27 فروری 2002ء میں بھارتی مغربی ریاست گجرات میں گودھرا ریلوے اسٹیشن کے قریب سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگانے کی وجہ سے ٹرین میں سوار 59 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے، جس کا الزام بی جے پی اور دوسری ہندو انتہا پسند پارٹیوں نے فوری طور پر مسلمانوں پر لگا دیا اور تین دن اس وقت کے گجراتی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حکومت میں بنا کسی روک ٹوک کے تقریباً 2000 سے زائد مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ ادھر سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث ہندو انتہا پسند دہشت گرد بہت سے ثبوتوں اور گواہیوں کے باوجود ''بے گناہ'' قرار پائے گئے جیسے نریندر مودی کو تین دن تمام آزادی کے ساتھ مسلمانوں کے قتل عام پہ بھارتی نظام انصاف کی جانب سے کلین چٹ دے دی گئی۔
ریاست پاکستان اس تمام عرصے میں کمال بے حسی کے ساتھ ایک خاموش تماشائی بنی رہی ہے بلکہ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بھارتی موجودگی کے کھلے دستاویزی و افرادی ثبوت سامنے آنے پہ بھی حکمراں طبقے، ان کے اتحادی، درباری و چمچے وغیرہ بھارت کا نام زبان پہ لانا گناہ سمجھتے ہیں اور الٹا اپنی فورسز پہ کیچڑ اچھالتے ہیں۔ ادھر بھارت بمبئی اور پٹھانکوٹ حملوں سے لے کر ہوا میں اڑنے والے کبوتروں تک پر کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا طوفان اٹھائے رکھتا ہے۔
عام پاکستانیوں سے ریاست پاکستان کی مستقل و حقارت آمیز بے اعتنائی و لاپروائی نے عام پاکستانیوں کو نہ صرف اپنے وطن میں بلکہ وطن سے دور بھی بے یارومددگار بے وطن شہریوں کا سا عملی درجہ دیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس سال 29 جولائی کو ذوالفقارعلی کا انڈونیشیا میں فائرنگ اسکواڈ سے بچ نکلنا تقریباً انہونی ہی ہے خصوصاً انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو کے منشیات کے مقدموں میں ہر حال میں سزائے موت برقرار رکھنے کے اٹل عزم کو دیکھتے ہوئے 20 اکتوبر 2014ء کو صدر ویدودو کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے انڈونیشیا برازیل، ہالینڈ اور آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک کے شہریوں کو منشیات سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے پر سزائے موت دے چکا ہے۔
آسٹریلیا نے تو انڈونیشیا پہ دباؤ ڈالنے کے لیے 2015ء میں انڈونیشیا سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا اور انڈونیشیا کو دی جانے والی اپنی امداد گھٹا دی مگر انڈونیشین حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ یہ پاکستان سے خاصا مختلف معاملہ ہے جہاں غیر ملکی بھرے بازار میں پاکستانی شہریوں کو کھلم کھلا قتل کر کے VIP پروٹوکول کے ساتھ ہنستے کھیلتے اپنے ملکوں کو سدھارتے ہیں۔ ذوالفقار علی اور دیگر نو افراد کے کیسز کو انڈونیشن حکومت نے دوبارہ اور تفصیلی طور پر جانچنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذوالفقار علی کے لیے موجودہ حکومت کی کوششوں کی بہرحال تعریف کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی کچھ دوسرے عوامل کو بھی دیکھ لینا چاہیے مثلاً (1)۔ ذوالفقار علی کو نومبر 2004ء میں محض ایک شخص کے بیان پہ گرفتار کیا گیا۔
(2)۔ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ نے 2005ء میں اس کو سزائے موت دی جسے ایک اعلیٰ عدالت نے 2006ء میں برقرار رکھا۔ (3)۔ ذوالفقار علی کے خلاف کیس اتنا کمزور تھا کہ (JPP) Justice Project Pakistan کے مطابق خود انڈونیشیا کے قانون اور انسانی حقوق کے ماہرین نے کیس کی تحقیقات میں مدد دینے کے لیے 2009ء میں رپورٹ پیش کی۔ (4)۔ تاہم کیس کی دوبارہ عدالتی تحقیقات کے لیے ذوالفقارعلی کی 2008ء اور 2013ء کی اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔ (5)۔ جب کہ اس دوران جس کے محض ایک بیان پر انڈونیشین حکومت نے ذوالفقار علی کو سزائے موت کے لیے منتخب کیا تھا اس نے اپنا بیان بھی واپس لے لیا تاہم ذوالفقار علی کی سزائے موت برقرار رہی۔
اس سارے عرصے میں ہمیں ریاست پاکستان، اس کی وزارت خارجہ اور قانون اور سفارت خانے کہیں نظر نہیں آتے جو ان 12 سالوں میں انڈونیشیا کی کرپشن اور تشدد کے ذریعے اقبال جرم کرانے والی پوری دنیا میں مشہور کرپٹ پولیس کی ناقص تحقیقات کی بدولت ایک پاکستانی شہری کو سزائے موت کی انتہائی متنازعہ سزا سے بچانے کے لیے کچھ کرتے اور اگر ابھی بھی میڈیا شور نہ مچاتا تو شاید بلکہ یقیناً ابھی بھی ذوالفقار علی کے لیے کچھ نہ کیا جاتا۔
مگر یہ صرف ریاست پاکستان کی عام پاکستانیوں سے بے اعتنائی نہیں جس نے انھیں پوری دنیا میں ریاستی و غیر ریاستی زیادتیوں کے لیے ایک آسان شکار بنا رکھا ہے بلکہ بہت سے عام پاکستانیوں کے کرتوتوں نے بھی دنیا بھر میں پاکستانیوں کے لیے انتہائی منفی تاثر پیدا کیا ہوا۔ 1970ء کی دہائی تک دنیا بھر میں پاکستانیوں کا انتہائی مثبت تاثر تھا اور امریکا، یورپ سمیت تقریباً ہر ملک کا ویزا پاکستانیوں کو مل جاتا تھا۔ دنیا بھر میں جس ملک نے بھی معاشی ترقی کی ہے وہ اپنے صنعتوں کے پھیلاؤ، برآمدات میں اضافے اور کرپشن میں کمی سے کی ہے۔
آپ امریکا سے جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائشیا سے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا تک کسی بھی معیشت کا جائزہ لیں، تاہم پاکستان میں معیشت کو غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے پاسپورٹ کا نہ صرف حاصل کرنا ہی ہر شخص کے لیے ممکن بنا دیا گیا بلکہ ایک انتہائی خام حالت کی افرادی قوت کو کسی بھی قسم کی عملی تعلیمی، سماجی، ٹیکنیکل اور شہری تربیت کے بغیر جوق در جوق باہر جانے دیا گیا نتیجتاً بہت سے ایسے لوگ بھی جنھوں نے زندگی میں کبھی ٹوائلٹ کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور جن کے کلچر میں 10 روپے کے نوٹ سے لے کر زمین کے ایک ایکڑ تک کے لیے لوگوں یہاں تک کے بھائی بہنوں، ماں باپ تک کو قتل کر دینا ایک عام سی بات تھی پاکستان سے باہر پہنچ کر پاکستان کے لیے ایک نیا بالکل 1971ء کے ''نئے پاکستان'' سا امیج پیدا کرنا شروع کر دیا۔
معیشت کی یہ خدمت جس پہ جمہوریت پسند مفکر آج بھی تعریف کے ڈونگرے برساتے ہلکان نظر آتے ہیں کچھ ایسی ہی معیشت کی خدمت تھی کہ جیسی پاکستان میں صنعتوں، کاروبار اور مالیاتی اداروں کو قومیا کر کی گئی جس کے نتیجے میں بیورو کریسی اور سیاسی لوگوں کے لیے لوٹ مار کے وسیع دروازے چوپٹ کھل گئے۔
نااہل افراد اداروں پہ مسلط ہوئے۔ ملک میں ایک صنعتی شہری کلچر کا خاتمہ اور جاگیرداری کو فروغ حاصل ہوا کہ جاگیرداری کے خلاف دکھاوے کی قومیانے کی پالیسی اختیار کی گئی، چنانچہ پاکستان کی وہ معیشت جو جنوبی کوریا جیسے ملکوں کے لیے مثال تھی اپنے گھٹنوں پہ گر گئی اور آج تک نہیں اٹھ سکی۔ اب ہماری حکومتیں غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان سے باہر خصوصاً نوکری کرنے اور پڑھنے کے لیے جانے والوں کے لیے چند بنیادی شہری اور سماجی تعلیمی کورسز کا ہی اہتمام کر دیں تو وقت کے ساتھ دنیا میں پاکستانیوں کا امیج کچھ بہتر ہو سکے ورنہ......