منی پاکستان امن کے لیے فریاد کناں
ارباب اختیار جس مفاہمانہ سیاسی کلچر کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں اس سے منی پاکستان میدان جنگ بن گیا ہے۔
KARACHI:
منی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ اعصاب شکنی کی ہولناک انتہا تک پہنچ چکا ہے،بلکہ یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے،اگر مسیحائوں نے اصلاح احوال میں دیر کردی تو جارحیت پر کمر بستہ داخلی و خارجی قوتیں منی پاکستان کے مقتل میں بھیانک کھیل کھیلنے سے باز نہیں آئیں گی۔ سب سے الم ناک حقیقت ارباب اختیار کا تجاہل عارفانہ اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کا رویہ ہے۔شہری حلقے سیاسی مفاہمت اور بدامنی کی جان لیوا صورتحال پر سخت مضطرب ہیں مگر عوام کو بربریت،قتل وغارت گری اور بدامنی سے بچانے کے بجائے نان ایشوز میں الجھایا جارہا ہے، لاشیں گررہی ہیں اور کراچی کی ڈیموگرافیکل ترقی،وژن اور سنہرے مستقبل کی داستانیں عام ہیں جب کہ حکمرانوں کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر رہتے ہوئے قانون شکنوں کا بلاتاخیر صفایا کرنا چاہیے۔
بیگناہ انسانوں کے قاتلوں سے اشرافیہ کے پیار کا ایک عجیب کلچر کراچی کے تہذیبی ماتھے پر چسپاں ہوگیا ہے جس پر عام آدمی کی پریشانی بڑھ رہی ہے،اسے بے بسی کا احساس چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ایک طرف ٹارگٹ کلر آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ دوسری جانب شہریوں کو کئی دنوں سے سی این جی کے بحران، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور اسٹریٹ کرائم نے دبوچ رکھا ہے، شہر کی مجموعی صورتحال تیزی سے طوائف الملوکی طرف جاتی نظر آتی ہے۔ادھر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں میڈیاکو بلا کر بتایا گیا کہ کراچی بدامنی کیس کے فیصلے پر عملدرآمدکے حوالے سے 5رکنی بینچ کی جانب سے عبوری حکم جاری کرنے کے فیصلہ کو موخر کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے پیر کو کیس کا عبوری حکم جاری کرنے کا اعلان کر رکھا تھا تاہم تمام پانچوں ججز کی جانب سے حکم پر دستخط نہ کرنے کے باعث عبوری حکم جاری نہیں کیا جا رہا۔بادی النظر میں لگتا ہے کہ بعض انتہا پسند عناصر بدامنی کا خاتمہ نہیں چاہتے اور انھیں شاید شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اذن عام ملا ہو۔جبھی تو پیر کو کراچی کی مصروف ترین شاہراہ پرہونے والی واردات سمیت 10 شہریوں کی دردناک ہلاکت کے باوجود کسی ایک علاقے سے کوئی ٹارگٹ کلر حراست میں نہیں لیا جاسکا جس کا مطلب یہ ہے کہ لاقانونیت اور غیر قانونی اسلحے سے لیس قوتوں کو غیر ملکی مالی امداد دھڑلے سے مل رہی ہے یا پھران کی سرپرستی بھی داخلی طور پر اتنی مضبوط ہے کہ قانون کے آہنی ہاتھ ان تک پہنچنے سے معذور ہیں ۔بہر حال اسے پولیس اور رینجرز کی بے بسی کہا جائے یا دہشت گردوں کی اسٹریٹجکل اور ٹیکٹیکل سبقت ، دہشت گرد بہر طور منی پاکستان کو خون میں نہلانے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور دو کروڑ کے شہر میں ملزمان قابو میں نہیں آتے ۔
اس لیے جب تک یہ معمہ حل نہیں ہوتا قتل و غارت بند ہونا ممکن نہیں۔ اندازہ لگائیے کہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ابوالحسن اصفہانی روڈ، گلشن اقبال راشد منہاس، یونیورسٹی روڈ اور سہراب گوٹھ سمیت ملحقہ علاقوں میں کشیدگی پھیل گئی اور تمام کارباری مراکز، پٹرول پمپ بند ہو گئے۔ سیکڑوں مشتعل افراد نے شدید احتجاج کیا، نامعلوم ڈنڈا بردار افراد نے 2 سرکاری گاڑیوں سمیت 5گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ۔ 3 گھنٹوں سے زائد جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے باعث متاثرہ علاقے میدان جنگ کا منظر پیش کرتے رہے ۔آخر پولیس اور رینجرز صورتحال کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام رہی جب کہ چند ہفتے قبل مدرسہ احسن العلوم کے 6 طلبا کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو لاقانونیت اور بدامنی سے بچانے کے لیے آئینی اور سیاسی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے، ارباب اختیار جس مفاہمانہ سیاسی کلچر کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں اس سے منی پاکستان میدان جنگ بن گیا ہے ادھر حکمرانوں پر اتحادیوں کی نازبرداری کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے ۔ اصل صورتحال جو بھی ہے اسے عوام کے سامنے لایا جائے۔ دن دہاڑے شہر کی مصروف شاہراہوں پر خونریزی، آتش زنی اور پر تشدد کارروائی کی کھلی اجازت ملنے کا تاثر شہر کی سیاسی صورتحال کا بھیانک رخ پیش کرتی ہے۔ارباب اختیار سے منی پاکستان اور کچھ نہیں صرف امن کی بھیک مانگ رہا ہے۔
منی پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ اعصاب شکنی کی ہولناک انتہا تک پہنچ چکا ہے،بلکہ یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے،اگر مسیحائوں نے اصلاح احوال میں دیر کردی تو جارحیت پر کمر بستہ داخلی و خارجی قوتیں منی پاکستان کے مقتل میں بھیانک کھیل کھیلنے سے باز نہیں آئیں گی۔ سب سے الم ناک حقیقت ارباب اختیار کا تجاہل عارفانہ اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کا رویہ ہے۔شہری حلقے سیاسی مفاہمت اور بدامنی کی جان لیوا صورتحال پر سخت مضطرب ہیں مگر عوام کو بربریت،قتل وغارت گری اور بدامنی سے بچانے کے بجائے نان ایشوز میں الجھایا جارہا ہے، لاشیں گررہی ہیں اور کراچی کی ڈیموگرافیکل ترقی،وژن اور سنہرے مستقبل کی داستانیں عام ہیں جب کہ حکمرانوں کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر رہتے ہوئے قانون شکنوں کا بلاتاخیر صفایا کرنا چاہیے۔
بیگناہ انسانوں کے قاتلوں سے اشرافیہ کے پیار کا ایک عجیب کلچر کراچی کے تہذیبی ماتھے پر چسپاں ہوگیا ہے جس پر عام آدمی کی پریشانی بڑھ رہی ہے،اسے بے بسی کا احساس چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ایک طرف ٹارگٹ کلر آزادی سے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ دوسری جانب شہریوں کو کئی دنوں سے سی این جی کے بحران، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور اسٹریٹ کرائم نے دبوچ رکھا ہے، شہر کی مجموعی صورتحال تیزی سے طوائف الملوکی طرف جاتی نظر آتی ہے۔ادھر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں میڈیاکو بلا کر بتایا گیا کہ کراچی بدامنی کیس کے فیصلے پر عملدرآمدکے حوالے سے 5رکنی بینچ کی جانب سے عبوری حکم جاری کرنے کے فیصلہ کو موخر کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے پیر کو کیس کا عبوری حکم جاری کرنے کا اعلان کر رکھا تھا تاہم تمام پانچوں ججز کی جانب سے حکم پر دستخط نہ کرنے کے باعث عبوری حکم جاری نہیں کیا جا رہا۔بادی النظر میں لگتا ہے کہ بعض انتہا پسند عناصر بدامنی کا خاتمہ نہیں چاہتے اور انھیں شاید شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اذن عام ملا ہو۔جبھی تو پیر کو کراچی کی مصروف ترین شاہراہ پرہونے والی واردات سمیت 10 شہریوں کی دردناک ہلاکت کے باوجود کسی ایک علاقے سے کوئی ٹارگٹ کلر حراست میں نہیں لیا جاسکا جس کا مطلب یہ ہے کہ لاقانونیت اور غیر قانونی اسلحے سے لیس قوتوں کو غیر ملکی مالی امداد دھڑلے سے مل رہی ہے یا پھران کی سرپرستی بھی داخلی طور پر اتنی مضبوط ہے کہ قانون کے آہنی ہاتھ ان تک پہنچنے سے معذور ہیں ۔بہر حال اسے پولیس اور رینجرز کی بے بسی کہا جائے یا دہشت گردوں کی اسٹریٹجکل اور ٹیکٹیکل سبقت ، دہشت گرد بہر طور منی پاکستان کو خون میں نہلانے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور دو کروڑ کے شہر میں ملزمان قابو میں نہیں آتے ۔
اس لیے جب تک یہ معمہ حل نہیں ہوتا قتل و غارت بند ہونا ممکن نہیں۔ اندازہ لگائیے کہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ابوالحسن اصفہانی روڈ، گلشن اقبال راشد منہاس، یونیورسٹی روڈ اور سہراب گوٹھ سمیت ملحقہ علاقوں میں کشیدگی پھیل گئی اور تمام کارباری مراکز، پٹرول پمپ بند ہو گئے۔ سیکڑوں مشتعل افراد نے شدید احتجاج کیا، نامعلوم ڈنڈا بردار افراد نے 2 سرکاری گاڑیوں سمیت 5گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ۔ 3 گھنٹوں سے زائد جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے باعث متاثرہ علاقے میدان جنگ کا منظر پیش کرتے رہے ۔آخر پولیس اور رینجرز صورتحال کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام رہی جب کہ چند ہفتے قبل مدرسہ احسن العلوم کے 6 طلبا کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو لاقانونیت اور بدامنی سے بچانے کے لیے آئینی اور سیاسی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے، ارباب اختیار جس مفاہمانہ سیاسی کلچر کے فروغ کی باتیں کرتے ہیں اس سے منی پاکستان میدان جنگ بن گیا ہے ادھر حکمرانوں پر اتحادیوں کی نازبرداری کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے ۔ اصل صورتحال جو بھی ہے اسے عوام کے سامنے لایا جائے۔ دن دہاڑے شہر کی مصروف شاہراہوں پر خونریزی، آتش زنی اور پر تشدد کارروائی کی کھلی اجازت ملنے کا تاثر شہر کی سیاسی صورتحال کا بھیانک رخ پیش کرتی ہے۔ارباب اختیار سے منی پاکستان اور کچھ نہیں صرف امن کی بھیک مانگ رہا ہے۔