ارد شیر کائوس جی شہر کا شیر دل بیٹا
کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروان جی مہتا تھے۔ ان کے زمانے میں کراچی کی سڑکیں منہ اندھیرے پانی سے دھلتی تھیں۔
ISLAMABAD:
پاکستان میں رہنے والے پارسیوں کی کل تعداد 2 ہزار ہے۔ ان میں سے ایک ہزار نو سو اسّی (1980) لوگ کراچی اور باقی 20 افراد چند دوسرے شہروں میں رہتے ہیں۔ یہ وہ کمیونٹی ہے جس نے بٹوارے سے پہلے کراچی کی تعمیراتی اور سماجی ترقی میں اور سارے ہندوستان میں اردو ڈرامے کی بنیاد رکھنے اور اسے مقبول عام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان ہی میں خان صاحب نسروان جی، میروان جی، کنور جی ناظر، بہمن جی، کابراجی اور دوسرے تھے جنہوں نے 1860 سے اردو تھیٹر کے لیے مشکل دنوں میں جس جذبے سے کام کیا اس کے لیے ہم ان کے جتنے ممنون ہوں وہ کم ہے۔ ان کے مخیر حضرات نے کراچی میں بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے، اسپتال تعمیر کیے، جانوروں کے لیے پیائو (پانی کے حوض) بنوائے۔ کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروان جی مہتا تھے۔ ان ہی کی میئر شپ کے زمانے میں کراچی کی سڑکیں منہ اندھیرے پانی سے دھلتی تھیں اور عوامی فنڈز میں خیانت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نہ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور نہ لوگ سر عام قتل کیے جا سکتے تھے۔
یہ وہ سچے اور بات کے کھرے لوگ تھے جنہوں نے آج تک اپنی یہ روش نہیں چھوڑی۔ آنجہانی ارد شیر کائوس جی وہ شخص تھے جنھیں 'کراچی کا قابل فخر فرزند' اور' بوڑھا محافظ' کہا جاتا ہے۔ ایک بڑے اور امیر کبیر باپ کے بیٹے اردشیر کراچی میں 13 اپریل 1926 کو پیدا ہوئے اور 24 نومبر 2012 کو مینار خموشاں کی بلندیوں پر آرام کیا۔ بی وی ایس پارسی اسکول سے میٹرک کے بعد انھوں نے ڈی جے سائنس کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 22 برس کی عمر میں وہ اس وقت نمایاں ہوئے جب جنوری 1948کے کراچی میں ہندو مسلم بلوے شروع ہوئے اور بلوائی مہاتما گاندھی کے بی وی ایس اسکول میں نصب مجسمے کو نقصان پہنچانے کے لیے آئے تو یہ ارد شیر اور ان کے 4 دوسرے ساتھی تھے جنہوں نے اس مجسمے کو توڑ پھوڑ سے بچایا اور ارد شیر اسے باتھ آئی لینڈ میں اپنے آبائی گھر لے گئے جہاں برسوں تک یہ مجسمہ اس خاندان کی تحویل میں رہا۔ بہت دنوں بعد انھوں نے اسے کراچی میں انڈین قونصلیٹ کے سپرد کر دیا۔ کراچی میں انڈین قونصلیٹ جب مستقل بند ہو گیا تو ہندوستانی سفارتکار اسے اسلام آباد لے گئے۔ جہاں وہ ہائی کمیشن کے پیش دالان میں نصب ہے۔ یہ ارد شہر کائوس جی کی ہم پر عنایت ہے کہ انھوں نے ہماری پیشانی پر کلنک کا یہ ٹیکا نہ لگنے دیا کہ ہم تحریک آزادی کے ایک اہم ترین رہنما کے مجسمے کی بھی حفاظت نہ کر سکے۔
ارد شیر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جن کا خاندانی کاروبار مرچنٹ شپنگ ہے اور جو 1947 سے پہلے کراچی کی سب سے بڑی مرچنٹ شپنگ کمپنی تھی، وہ اس کے علاوہ بھی کسی پیشے سے وابستہ ہوں گے۔ وہ شہر کی بگڑتی ہوئی، سماجی، تعلیمی، تعمیراتی اور ماحولیاتی نظام کی تباہی پر کڑھتے رہے۔ وہ ایک بے دھڑک اور بے ریا انسان تھے۔ شروع شروع میں وہ اپنے دل کا غبار ڈان اخبار میں 'مدیر کے نام خط' کے تحت نکالتے رہے اور یہیں سے انگریزی کے اس کالم نویس کا جنم ہوا جو 1988 سے 25 دسمبر 2011 تک ہر اتوار کو شہر اور ملک میں بااثر افراد کی اقربا پروری، رشوت خوری اور بدعنوانی کے بارے میں لکھتا رہا اور قدم قدم شہرت کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ کراچی میں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور دوسرے با اثر گروہوں نے شہر اور شہر والوں کے ساتھ جو کچھ کیا اپنی بساط بھر وہ ان لوگوں کے خلاف لڑتے رہے۔
'دی ہندو' کی نمایندہ نروپما سبرامینن نے 2010 میں ان کا ایک انٹرویو کیا تھا اور اس میں ارد شیر کو ''قوم کا ضمیر'' کہا تھا۔ ارد شیر صاحب نے نروپما جی کو رخصت کرتے ہوئے چند تحائف دیے تھے جن میں ایک دلکش پوسٹر بھی تھا۔ یہ شہرت یافتہ نیم برطانوی، نیم ہندوستانی انگریز ادیب رُڈیارڈ کپلنگ کی مشہور نظم 'اگر' تھی۔ کپلنگ کی یہ نظم اردشیر صاحب کو بہت محبوب تھی۔
یہ نظم دنیا میں نوجوانوں کے لیے کامیابی کا نسخہ سمجھی جاتی ہے۔ ارد شیر کو نوجوانوں کے معاملات سے گہری دلچسپی تھی۔ تب ہی انھوں نے 'کائوس جی فائونڈیشن' کے تحت متعدد نوجوانوں کو وظائف دیے۔ ان میں سے بہت سے وظائف غیر ملکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے تھے۔ کائوس جی ان سے کہتے کہ یہ 'قرض' ہے لیکن دوستوں سے کہتے 'مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے بہت کم اس قرض کو واپس کریں گے۔
وہ ملک کے ایک اہم کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر خدیجہ محبوب الحق نے جن 22 خاندانوں کی فہرست مرتب کی تھی ان میں سے ایک کائوس جی کا خاندان بھی تھا۔ اس حوالے سے اور سندھی ہونے کے ناتے ان کے بھٹو صاحب سے قریبی تعلقات تھے۔ ابتداء میں بھٹو صاحب نے انھیں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا ایم ڈی مقرر کیا لیکن ارد شیر صاحب ان کے طرز حکمرانی اور مطلق العنانی سے سخت اختلاف رکھتے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی چنانچہ ارد شیر کائوس جی 1976میں 'نامعلوم وجوہ' کی بناء پر گرفتار کیے گئے اور کراچی جیل کی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں انھوں نے 72 دن گزارے۔ وہ وہاں سے نکلے تو ان کے لہجے کی کڑواہٹ اور ملکی اور شہری معاملات سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے سب سے موقر انگریزی اخبار 'ڈان' کے لیے وہ ہفتہ وار کالم لکھنے لگے جن کا پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی لوگوں کو انتظار رہنے لگا۔ ان کے کاٹ دار جملے اور تیکھا طنز صرف ان کے دوستوں کو ہی نہیں، ان کے دشمنوں کو بھی لطف دیتا تھا۔
وہ 1985 میں بشریٰ زیدی کی ہلاکت کو شہر میں پیش آنے والا سب سے سنگین سانحہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سانحے نے شہر کو حوادث کے سپرد کر دیا۔ چند برس پہلے ایک انٹرویو میں جب ان سے کراچی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بے دھڑک یہ جملہ کہا کہ ''شہر سڑ گیا ہے۔'' انٹرویو کرنے والا اس جواب کو سن کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا کہ کیا یہ بہت سخت رائے نہیں ہے جس کا آپ اظہار کر رہے ہیں۔ ارد شیر نے اسی بے باکی سے کہا کہ 'یہ سخت نہیں، میری بے لاگ رائے ہے۔''
وہ اس فراٹے سے گالیاں دیتے تھے کہ سننے والے کو پسینہ آ جائے۔ ان کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ کھردرے اور تلخ باتیں کرنے والے ارد شیر کے اندر کیسا میٹھا اور محبت کرنے والا شخص چھپا تھا۔ وہ قائداعظم کے عاشق تھے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیسا پاکستان ہے جس کا خواب انھوں نے دیکھا اور ارد شیر جیسے نوجوانوں کو دکھایا تھا۔ وہ قائد اعظم کے پاکستان کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھتے رہے۔ وہ انگریزی میں لکھتے تھے لیکن ان کے کالم اردو میں ترجمہ ہوکر مختلف اخباروں میں شایع ہوتے تھے لیکن جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی کھری باتوں کو اردو والے برداشت نہیں کر سکتے تھے اور اخبار والے ان پر سنسر کی قینچی چلاتے تھے۔ ارد شیر اور سنسر؟ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی؟ آخر کار یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔
انھوں نے 1953 میں نینسی ڈنشا سے شادی کی۔ ایک بیٹی اور بیٹے کے باپ بنے۔ نینسی اور اردشیر نے ایک طویل رفاقت کی زندگی گزاری۔ 1992میں نینسی رخصت ہوئیں تو ارد شیر نے کہا کہ ''نینسی بہت عمدہ عورت تھی۔ وہ مجھ ایسے شوہر سے کہیں بہتر شخص کی حق دار تھی لیکن اس نے زندگی میں اس بات کی کبھی شکایت نہ کی۔ میں نے اس کے ساتھ بہترین زندگی گزاری۔''
ان کی زندگی سے وابستہ بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن میں سے ایک ان کے دوست عزیز ڈوسل نے بیان کیا ہے کہ کئی برس پہلے ایک ٹیلی ویژن چینل سے وابستہ اینکر خاتون ان سے انٹرویو کے لیے ان کے گھر گئیں لیکن ان کے تین چہیتے کتوں کو دیکھ کر ان کے دیوتا کوچ کر گئے۔ انھوں نے اور ٹیم کے دوسروں لوگوں نے بہت چاہا کہ ان کتوں کو باندھ دیا جائے تا کہ انٹرویو ہو سکے لیکن ارد شیر اس پر راضی نہیں ہوئے۔ ان کے چہیتے کتوں کے سامنے ایک ٹی وی انٹرویو کی بھلا کیا حیثیت تھی؟ یہ وہی تھے جو اپنے محبوب قائد کی اس تصویر کو سامنے لائے جس میں وہ اپنے بہت پیارے کتے کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ تصویر ارد شیر کے طفیل ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی۔ بمبئی کے ان دنوں کی تصویر جس میں وہ صحت مند اور خوش باش نظر آ رہے ہیں۔
انھیں کراچی کے چپے چپے سے محبت تھی۔ کلفٹن کے صدی سوا صدی پرانے پیڑوں کو انھوں نے کٹنے سے بچایا۔ شہر کی ماحولیاتی تباہی، ناجائز اور غیر قانونی تعمیراتی کے خلاف انھوں نے لگ بھگ 100 مقدمے لڑے۔ اس وقت بھی کئی درجن مقدمے زیر سماعت ہیں۔ بد عنوان اور رشوت خور بااثر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہو گا کہ اردشیر جیسے دبنگ اور دلیر انسان سے ان کی نجات ہوئی۔
شہر غمزدہ ہے کہ اس کا شیر دل بیٹا چلا گیا۔
پاکستان میں رہنے والے پارسیوں کی کل تعداد 2 ہزار ہے۔ ان میں سے ایک ہزار نو سو اسّی (1980) لوگ کراچی اور باقی 20 افراد چند دوسرے شہروں میں رہتے ہیں۔ یہ وہ کمیونٹی ہے جس نے بٹوارے سے پہلے کراچی کی تعمیراتی اور سماجی ترقی میں اور سارے ہندوستان میں اردو ڈرامے کی بنیاد رکھنے اور اسے مقبول عام بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان ہی میں خان صاحب نسروان جی، میروان جی، کنور جی ناظر، بہمن جی، کابراجی اور دوسرے تھے جنہوں نے 1860 سے اردو تھیٹر کے لیے مشکل دنوں میں جس جذبے سے کام کیا اس کے لیے ہم ان کے جتنے ممنون ہوں وہ کم ہے۔ ان کے مخیر حضرات نے کراچی میں بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے، اسپتال تعمیر کیے، جانوروں کے لیے پیائو (پانی کے حوض) بنوائے۔ کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروان جی مہتا تھے۔ ان ہی کی میئر شپ کے زمانے میں کراچی کی سڑکیں منہ اندھیرے پانی سے دھلتی تھیں اور عوامی فنڈز میں خیانت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نہ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور نہ لوگ سر عام قتل کیے جا سکتے تھے۔
یہ وہ سچے اور بات کے کھرے لوگ تھے جنہوں نے آج تک اپنی یہ روش نہیں چھوڑی۔ آنجہانی ارد شیر کائوس جی وہ شخص تھے جنھیں 'کراچی کا قابل فخر فرزند' اور' بوڑھا محافظ' کہا جاتا ہے۔ ایک بڑے اور امیر کبیر باپ کے بیٹے اردشیر کراچی میں 13 اپریل 1926 کو پیدا ہوئے اور 24 نومبر 2012 کو مینار خموشاں کی بلندیوں پر آرام کیا۔ بی وی ایس پارسی اسکول سے میٹرک کے بعد انھوں نے ڈی جے سائنس کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 22 برس کی عمر میں وہ اس وقت نمایاں ہوئے جب جنوری 1948کے کراچی میں ہندو مسلم بلوے شروع ہوئے اور بلوائی مہاتما گاندھی کے بی وی ایس اسکول میں نصب مجسمے کو نقصان پہنچانے کے لیے آئے تو یہ ارد شیر اور ان کے 4 دوسرے ساتھی تھے جنہوں نے اس مجسمے کو توڑ پھوڑ سے بچایا اور ارد شیر اسے باتھ آئی لینڈ میں اپنے آبائی گھر لے گئے جہاں برسوں تک یہ مجسمہ اس خاندان کی تحویل میں رہا۔ بہت دنوں بعد انھوں نے اسے کراچی میں انڈین قونصلیٹ کے سپرد کر دیا۔ کراچی میں انڈین قونصلیٹ جب مستقل بند ہو گیا تو ہندوستانی سفارتکار اسے اسلام آباد لے گئے۔ جہاں وہ ہائی کمیشن کے پیش دالان میں نصب ہے۔ یہ ارد شہر کائوس جی کی ہم پر عنایت ہے کہ انھوں نے ہماری پیشانی پر کلنک کا یہ ٹیکا نہ لگنے دیا کہ ہم تحریک آزادی کے ایک اہم ترین رہنما کے مجسمے کی بھی حفاظت نہ کر سکے۔
ارد شیر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جن کا خاندانی کاروبار مرچنٹ شپنگ ہے اور جو 1947 سے پہلے کراچی کی سب سے بڑی مرچنٹ شپنگ کمپنی تھی، وہ اس کے علاوہ بھی کسی پیشے سے وابستہ ہوں گے۔ وہ شہر کی بگڑتی ہوئی، سماجی، تعلیمی، تعمیراتی اور ماحولیاتی نظام کی تباہی پر کڑھتے رہے۔ وہ ایک بے دھڑک اور بے ریا انسان تھے۔ شروع شروع میں وہ اپنے دل کا غبار ڈان اخبار میں 'مدیر کے نام خط' کے تحت نکالتے رہے اور یہیں سے انگریزی کے اس کالم نویس کا جنم ہوا جو 1988 سے 25 دسمبر 2011 تک ہر اتوار کو شہر اور ملک میں بااثر افراد کی اقربا پروری، رشوت خوری اور بدعنوانی کے بارے میں لکھتا رہا اور قدم قدم شہرت کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ کراچی میں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور دوسرے با اثر گروہوں نے شہر اور شہر والوں کے ساتھ جو کچھ کیا اپنی بساط بھر وہ ان لوگوں کے خلاف لڑتے رہے۔
'دی ہندو' کی نمایندہ نروپما سبرامینن نے 2010 میں ان کا ایک انٹرویو کیا تھا اور اس میں ارد شیر کو ''قوم کا ضمیر'' کہا تھا۔ ارد شیر صاحب نے نروپما جی کو رخصت کرتے ہوئے چند تحائف دیے تھے جن میں ایک دلکش پوسٹر بھی تھا۔ یہ شہرت یافتہ نیم برطانوی، نیم ہندوستانی انگریز ادیب رُڈیارڈ کپلنگ کی مشہور نظم 'اگر' تھی۔ کپلنگ کی یہ نظم اردشیر صاحب کو بہت محبوب تھی۔
یہ نظم دنیا میں نوجوانوں کے لیے کامیابی کا نسخہ سمجھی جاتی ہے۔ ارد شیر کو نوجوانوں کے معاملات سے گہری دلچسپی تھی۔ تب ہی انھوں نے 'کائوس جی فائونڈیشن' کے تحت متعدد نوجوانوں کو وظائف دیے۔ ان میں سے بہت سے وظائف غیر ملکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے تھے۔ کائوس جی ان سے کہتے کہ یہ 'قرض' ہے لیکن دوستوں سے کہتے 'مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے بہت کم اس قرض کو واپس کریں گے۔
وہ ملک کے ایک اہم کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر خدیجہ محبوب الحق نے جن 22 خاندانوں کی فہرست مرتب کی تھی ان میں سے ایک کائوس جی کا خاندان بھی تھا۔ اس حوالے سے اور سندھی ہونے کے ناتے ان کے بھٹو صاحب سے قریبی تعلقات تھے۔ ابتداء میں بھٹو صاحب نے انھیں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا ایم ڈی مقرر کیا لیکن ارد شیر صاحب ان کے طرز حکمرانی اور مطلق العنانی سے سخت اختلاف رکھتے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی چنانچہ ارد شیر کائوس جی 1976میں 'نامعلوم وجوہ' کی بناء پر گرفتار کیے گئے اور کراچی جیل کی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں انھوں نے 72 دن گزارے۔ وہ وہاں سے نکلے تو ان کے لہجے کی کڑواہٹ اور ملکی اور شہری معاملات سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے سب سے موقر انگریزی اخبار 'ڈان' کے لیے وہ ہفتہ وار کالم لکھنے لگے جن کا پاکستان اور پاکستان سے باہر بھی لوگوں کو انتظار رہنے لگا۔ ان کے کاٹ دار جملے اور تیکھا طنز صرف ان کے دوستوں کو ہی نہیں، ان کے دشمنوں کو بھی لطف دیتا تھا۔
وہ 1985 میں بشریٰ زیدی کی ہلاکت کو شہر میں پیش آنے والا سب سے سنگین سانحہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سانحے نے شہر کو حوادث کے سپرد کر دیا۔ چند برس پہلے ایک انٹرویو میں جب ان سے کراچی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بے دھڑک یہ جملہ کہا کہ ''شہر سڑ گیا ہے۔'' انٹرویو کرنے والا اس جواب کو سن کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا کہ کیا یہ بہت سخت رائے نہیں ہے جس کا آپ اظہار کر رہے ہیں۔ ارد شیر نے اسی بے باکی سے کہا کہ 'یہ سخت نہیں، میری بے لاگ رائے ہے۔''
وہ اس فراٹے سے گالیاں دیتے تھے کہ سننے والے کو پسینہ آ جائے۔ ان کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ کھردرے اور تلخ باتیں کرنے والے ارد شیر کے اندر کیسا میٹھا اور محبت کرنے والا شخص چھپا تھا۔ وہ قائداعظم کے عاشق تھے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیسا پاکستان ہے جس کا خواب انھوں نے دیکھا اور ارد شیر جیسے نوجوانوں کو دکھایا تھا۔ وہ قائد اعظم کے پاکستان کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھتے رہے۔ وہ انگریزی میں لکھتے تھے لیکن ان کے کالم اردو میں ترجمہ ہوکر مختلف اخباروں میں شایع ہوتے تھے لیکن جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی کھری باتوں کو اردو والے برداشت نہیں کر سکتے تھے اور اخبار والے ان پر سنسر کی قینچی چلاتے تھے۔ ارد شیر اور سنسر؟ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی؟ آخر کار یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔
انھوں نے 1953 میں نینسی ڈنشا سے شادی کی۔ ایک بیٹی اور بیٹے کے باپ بنے۔ نینسی اور اردشیر نے ایک طویل رفاقت کی زندگی گزاری۔ 1992میں نینسی رخصت ہوئیں تو ارد شیر نے کہا کہ ''نینسی بہت عمدہ عورت تھی۔ وہ مجھ ایسے شوہر سے کہیں بہتر شخص کی حق دار تھی لیکن اس نے زندگی میں اس بات کی کبھی شکایت نہ کی۔ میں نے اس کے ساتھ بہترین زندگی گزاری۔''
ان کی زندگی سے وابستہ بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن میں سے ایک ان کے دوست عزیز ڈوسل نے بیان کیا ہے کہ کئی برس پہلے ایک ٹیلی ویژن چینل سے وابستہ اینکر خاتون ان سے انٹرویو کے لیے ان کے گھر گئیں لیکن ان کے تین چہیتے کتوں کو دیکھ کر ان کے دیوتا کوچ کر گئے۔ انھوں نے اور ٹیم کے دوسروں لوگوں نے بہت چاہا کہ ان کتوں کو باندھ دیا جائے تا کہ انٹرویو ہو سکے لیکن ارد شیر اس پر راضی نہیں ہوئے۔ ان کے چہیتے کتوں کے سامنے ایک ٹی وی انٹرویو کی بھلا کیا حیثیت تھی؟ یہ وہی تھے جو اپنے محبوب قائد کی اس تصویر کو سامنے لائے جس میں وہ اپنے بہت پیارے کتے کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ تصویر ارد شیر کے طفیل ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی۔ بمبئی کے ان دنوں کی تصویر جس میں وہ صحت مند اور خوش باش نظر آ رہے ہیں۔
انھیں کراچی کے چپے چپے سے محبت تھی۔ کلفٹن کے صدی سوا صدی پرانے پیڑوں کو انھوں نے کٹنے سے بچایا۔ شہر کی ماحولیاتی تباہی، ناجائز اور غیر قانونی تعمیراتی کے خلاف انھوں نے لگ بھگ 100 مقدمے لڑے۔ اس وقت بھی کئی درجن مقدمے زیر سماعت ہیں۔ بد عنوان اور رشوت خور بااثر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہو گا کہ اردشیر جیسے دبنگ اور دلیر انسان سے ان کی نجات ہوئی۔
شہر غمزدہ ہے کہ اس کا شیر دل بیٹا چلا گیا۔