الزامات اور تنقید کا شور

حیدرآباد شہر اور لطیف آباد کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے متحدہ قومی موومینٹ خاصی مطمئن نظر آتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں کی حیدرآباد میں بھی سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں. فوٹو: فائل

KARACHI:
گو کہ ملک میں عام انتخابات کے لیے تاریخ کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔

مسلم لیگ فنکشنل نے صوبائی اسمبلی میں خواتین اراکین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور ہڑتال کی۔ اس دوران مسلم لیگ فنکشنل کے راہ نما اور کارکنان سڑکوں پر نکل آئے، جن کا ساتھ پی پی پی کی مخالف قومی اور علاقائی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں اور عوام نے بھی دیا۔ 14 دسمبر کو مسلم لیگ فنکشنل نے حیدرآباد میں جلسے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس جلسے میں اگر ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں، تو سندھ کی سیاسی فضاء واضح ہو جائے گی، جس میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک طرف اور دیگر جماعتیں دوسری جانب نظر آئیں گی۔

حیدرآباد میں تین قومی اسمبلی اور چھے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے شہر اور لطیف آباد کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے متحدہ قومی موومینٹ خاصی مطمئن نظر آتی ہے جب کہ قاسم آباد اور ٹنڈو جام پر مشتمل قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں میں قاسم آباد کی نشست پی ایس 47 پر زبردست معرکے کا امکان ہے۔ اس نشست پی پی پی کے ضلعی صدر زاہد بھرگڑی جیتتے آ رہے ہیں۔ تاہم اب پارٹی میں جام خان شورو کی شمولیت سے امیدوار کے لیے پارٹی کو انتخابی عمل سے گزرنا ہوگا۔

پارٹی سے وابستہ دیگر سیاست داں بھی اس نشست پر الیکشن میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں اور پارٹی قیادت تک مختلف ذرایع سے اپنی خواہش پہنچا چکے ہیں۔ اس بار پی ایس 47 پر قوم پرست بھی متحد ہو کر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ اندرون سندھ کے مختلف حلقوں کے علاوہ پی ایس47 سے بھی الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اسی نشست پر فنکشنل لیگ کا امیدوار بھی سامنے آئے گا اور توقع ہے کہ سیٹ ایڈجسمینٹ کے فارمولے کے تحت اس نشست پر دو سے چار امیدوار آمنے سامنے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرست اور پی پی پی کے راہ نما بھی قاسم آباد میں سیاسی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلا رہے ہیں۔



پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں کی حیدرآباد میں بھی سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ وفاقی وزیر برائے سیاسی امور مولا بخش چانڈیو نے محرم الحرام حیدرآباد میں گزارا۔ اس دوران مختلف تقریبات میں شرکت اور پریس کانفرنس میں پنجاب کالا باغ ڈیم پر عدالتی حکم پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو عوام کے سامنے نہیں آنا چاہیے، غیر مقبول نعروں پر فیصلے دینے سے عدلیہ کا احترام ختم ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کالا باغ ڈیم اور سندھ کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

پی پی کے راہ نما فیاض شاہ، آفتاب خانزادہ، یامین سومرو، مرزا عاشق حسین کی موجودگی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ایسے تمام ریاستی معاملات عوام پر چھوڑنے چاہییں، ن لیگ کے راہ نماؤں کا بھی کہنا ہے کہ عدلیہ کو ان مسائل میں نہیں پڑنا چاہیے، جس ڈیم کی تعمیر کے خلاف شہید بے نظیر بھٹو نے سندھ، پنجاب کی سرحد پردھرنا دیا تھا، اسے ہم کبھی نہیں بننے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے یہ فیصلہ کروایا ہے تو یہ افسوس کی بات ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن سے قبل ایسے مسئلے کو اٹھایا جانا ایک سازش ہے۔


صرف مولا بخش چانڈیو ہی نہیں بلکہ حیدرآباد میں موجود پیپلزیوتھ ونگ سندھ کے صدر سینیٹر عاجز دھامراہ نے بھی حیدرآباد سرکٹ ہاؤس میں یوتھ ونگ کے صوبائی جنرل سیکریٹری تنویرآرائیں، ڈویژنل صدر احسان ابڑو، جاوید خانزادہ و دیگر کے ہم راہ پریس کانفرنس میں کالا باغ ڈیم کے معاملے پر کوئی سمجھوتا نہ کرنے کی بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ تین صوبے اس کے متعلق کئی بار اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں اور اس کی تعمیر وفاق اور پاکستان کی سالمیت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ انھوں نے سندھ میں میاں نواز شریف کی حمایتی قوم پرست جماعتوں سے سوال کیا کہ پیپلزپارٹی پر غداری کا الزام لگانے والے اب وزیراعلی پنجاب شہبازشریف اور چوہدری نثار کے کالا باغ ڈیم کی حمایت میں بیان کی مذمت کیوں نہیں کر رہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم پرستوں کا ن لیگ کے ساتھ اتحاد سندھ دشمنی پرمبنی ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف الیکشن لڑنا ہے۔

سندھ اسمبلی کے اسپیکر نثار کھوڑو نے بھی حیدرآباد میں کالا باغ ڈیم کے بارے میں چند باتوں کو حقائق کے نام سے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تین اسمبلیاں اس منصوبے کو دفن کر چکی ہیں، لیکن اس پر عدالت کا فیصلہ حدود سے تجاوز ہے۔ انھوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ایک آمر ضیاء الحق نے بنایا تھا، فنکشنل لیگ سمیت دیگر جماعتیں ان کی حکومت میں شامل تھیں، لیکن فنکشنل لیگ نے اس ڈیم کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا تھا۔ 1991 کے معاہدۂ آب کے وقت بھی فنکشنل لیگ حکومت میں شامل تھی۔



ان کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین کے مطابق پانی پر پہلا حق آخری سرے والوںکا ہوتا ہے اور دریائے سندھ کے آخری سرے پر صوبہ سندھ واقع ہے، اس لیے سندھ کی مرضی کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا۔ انھوں نے کہا کہ اس پر سندھ اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی گئی ہے اور سندھ کے عوام اپنے منتخب نمایندوںکے ذریعے ایک بار پھر فیصلہ سنا دیں گے کہ انھیں کسی بھی صورت میں کالا باغ ڈیم قبول نہیں ہے۔

نثار کھوڑو نے بھی قوم پرستوں پر تنقید کی اور کہ آج نواز شریف کا ساتھ دینے والے یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ بہ حیثیت وزیراعظم جب نواز شریف نے کالاباغ ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت پیپلزپارٹی نہیں بلکہ فنکشنل لیگ ان کے ساتھ تھی۔ قوم پرست، نواز شریف سے جواب طلب کریں کہ ان کے بھائی شہباز شریف نے کالا باغ ڈیم کی حمایت کیوں کی ہے۔ انھیں نواز شریف سے یہ بھی کہنا چاہیے کہ وہ کالا باغ ڈیم کے خلاف پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کرائیں، اگر قوم پرست یہ نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ سندھ کو فروخت کرنے کے لیے نوازشریف کے ساتھی بنے ہیں۔

عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو نے کالا باغ ڈیم ایشو کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عاید کیا کہ پیپلز پارٹی نے سازش کرتے ہوئے اپنے ہی آدمی کے ذریعے کالا باغ ڈیم کے متعلق پٹیشن داخل کی اور اس کا دفاع نہ کر کے کالا باغ ڈیم کے فیصلے کی صورت میں سندھ پر ایک بم گرایا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پی پی پی کالا باغ ڈیم کا مسئلہ اٹھا کر بلدیاتی نظام کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکم راں اور ادارے ایسے فیصلے کر رہے ہیں، جس سے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، یہ قانونی نہیں بلکہ دیرینہ سیاسی مسئلہ ہے، ماضی میں پی پی پی نے فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردوں سے اتحاد نہیں ہوگا اور بھاشا ڈیم بھی نہیں بنے گا، لیکن اتحاد بھی ہوا اور بھاشا ڈیم بھی بنایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں نافذ کیا جانے والا نظام سندھ کی تقسیم کی جانب پہلا قدم ہے، پی پی پی اپنے اقتدارکی خاطر اور اتحادی کو خوش کرنے کے لیے سندھ دشمن فیصلے کر رہی ہے۔
Load Next Story