قیاس آرائیاں عروج پر

ٹنڈو الہ یار میں پی پی پی کے نئے امیدوار انتخابی معرکے کے لیے سامنے آئیںتو کارکنوں کے تحفظات ختم ہونے کی توقع ہے ۔

ضیاء عباس رضوی پر کارکنوں کا الزام ہے کہ انھوں نے ملازمتیں اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کییں۔ فوٹو: فائل

عام انتخابات کے لیے مقامی سطح پر سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے راہ نمائوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لیے اپنی اعلیٰ قیادت سے رجوع کر لیا ہے، جب کہ پی پی پی سے جڑے مختلف خاندانوں کے درمیان رسہ کشی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں تقریباً تین ماہ قبل وفاقی وزیر مولا بخش چانڈیو کو ٹنڈو الہ یار کے سابق تعلقہ ناظم حاجی خیر محمد کھوکر نے اپنے گائوں میں دعوت پر بلایا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد مولا بخش چانڈیو، میر محمد غلام عرف میر پپّو کی دعوت پر میراں آباد آئے تھے، جس میں پی پی پی کے مقامی عہدے داروں نے شرکت کی تھی، لیکن صوبائی وزیر جنگلات سید علی نواز شاہ رضوی موجود نہیں تھے۔

ان کی غیر موجودگی سے یہ تأثر عام ہوگیا کہ عام الیکشن میں پی پی پی کے امیدوار میر محمد غلام عرف میر پپّو ہوں گے۔ دراصل سید علی نواز شاہ رضوی اور میر پپّو کا حلقۂ انتخاب ایک ہی تھا اور یہی بات انتخابی ٹکٹ کے بارے میں قیاس آرائیوں کا موجب بنی۔ اسی طرح گذشتہ سال حاجی خیر محمد کھوکر کی دعوت پر فریال تالپور کی آمد سے یہ تأثر عام ہوگیا تھا کہ پی ایس 52 پر پی پی پی امداد پتافی کے بجائے خیر محمد کھوکر کو اپنا امیدوار نام زد کرے گی۔ سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شمشاد ستاربچانی جس نشست پر کام یاب ہوئی ہیں، اس پر عام انتخابات میں فریال تالپور امیدوار ہوں گی۔

ٹنڈو الہ یار ضلع کے تینوں حلقوں میں پی پی پی کے نئے امیدوار انتخابی معرکے کے لیے سامنے آئے، تو کارکنوں کے تحفظات ختم ہونے کی توقع ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سید علی نواز شاہ رضوی نے میر پپّو کو جلسے کے لیے میراں آباد کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا، جس کا مقصد اس تأثر کو زائل کرنا تھا کہ اب صوبائی حلقہ 51 سے رضوی خاندان کا امیدوار ہوگا۔




آزاد مگسی اتحاد نے بھی گذشتہ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ضلع بھر میں ان کی سیاسی حیثیت خاصی مستحکم تھی، لیکن بار بار پارٹیاں بدلنے کی وجہ سے انھوں نے بڑی سیاسی پارٹیوں کا اعتماد کھو دیا ہے اور پی ایس51 پر مگسیوں کی پوزیشن مشکوک نظر آتی ہے۔ سید علی نواز شاہ رضوی کے بیٹے ضیاء عباس رضوی اور پی ایس 52 پر کام یاب ہونے کے بعد ایم پی اے بننے والے امداد پتافی پر پی پی پی کے مقامی کارکنوں نے الزام عاید کیا ہے کہ انھوں نے پارٹی قیادت کی جانب سے ملنے والی امداد اور ملازمتیں اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کی ہیں، جب کہ مبینہ طور پر نوکریاں فروخت کر دی گئی ہیں۔

دوسری جانب بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد مقامی سطح پر پی پی پی کی پوزیشن کم زور ہوئی ہے، جب کہ مسلم لیگ فنکشنل کے حمایتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سیاسی مبصرین یہاں کے انتخابی حلقوں پر کام یابی کو پی پی پی کے امیدوار کے لیے چیلنج قرار دے رہے ہیں۔ باخبر ذرایع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سید علی نواز رضوی اور میر پپّو کے درمیان پی ایس 51 کے حلقے پر پارٹی کے امیدوار کی مخالفت نہ کرنے کا معاہدہ ہوا ہے۔

تاہم سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ میر پپّو کا درپردہ مگسیوں سے بھی سیاسی اتحاد ہے۔ وہ پی پی پی کا ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں مگسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ آرڈننس کی مخالفت میں قوم پرستوں کے جلسوں میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں اور مسلم لیگ فنکشنل میں لوگوں کی شمولیت کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں پی پی پی کے ناراض کارکنوں کی طرف توجہ نہ دی گئی تو انتخابی معرکے میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Load Next Story