اقلیتوں سے حسن سلوک

پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا مگر اس نظریے کی بنیاد اسلام پر ہے جو انسانوں کے درمیان تفریق کا قائل نہیں

ghalib1947@gmail.com

آصف ہاشمی نے قائد اعظم کے لبرل پاکستان کے نظریے کی عملی تعبیر پیش کردکھائی ہے۔قائد نے کہا تھا کہ پاکستان میں کوئی مسلمان نہیں ، کوئی عیسائی نہیں،کوئی ہندو نہیں ،کوئی سکھ نہیں ، سب پاکستانی ہیں اور ان کے حقوق مساوی ہیں۔

پاکستان ضرور دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا مگر اس نظریے کی بنیاد اسلام پر ہے جو انسانوں کے درمیان تفریق کا قطعی قائل نہیں۔ خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کی نگہبانی پر بہت زور دیتا ہے۔قائد اعظم نے اقلیتوں سے جو وعدہ کیا وہ انھی ارفعٰ اصولوں کی روشنی میں تھا۔تقسیم کے وقت خون کی ہولی ضرور کھیلی گئی اور یہ شرارت ریڈ کلف کی تھی جو بر صغیر میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان خون کی ایک مستقل دیوار کھڑی کرنا چاہتا تھا مگر پاکستان نے اس سازش کو ناکام بنا دیا اور اپنی اقلیتوں کو احساس تحفظ بخشا،جسٹس کارنیلیئس اعلیٰ ترین رتبے پر پہنچے، پی اے ایف میں سیسل چوہدری نے شجاعت کی لازوال داستان رقم کی، ایک سیسل چوہدری پر کیا موقوف، غیر مسلم ہوابازوں اور سرفروشوں کی ایک لمبی قطار ہے جنھیں شجاعت کے تمغوں سے نواز گیا۔اب جسٹس بھگوان داس کی جو عزت ہے، وہ کسی اور جج کی کیا ہو گی۔ بیرام ڈی آواری نے عزت دی ہے اور عزت کمائی ہے،مگرمعاشرے میں اونچ نیچ ضرور موجود ہے اور نفرت اور تعصب کے اکا دکا واقعات رونما ہو جاتے ہیں مگر ان کا مجموعی قومی سائیکی سے کوئی تعلق نہیں۔مسلم اور غیر مسلم دیوار کے ساتھ دیوار ملا کر رہائش پذیر ہیں، کوئی کسی میں تمیز نہیں، سماجی رشتے، دکھ، غم اور خوشیاں سب کی سانجھی ہیں۔

اتوار کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف لاہور آئے، آصف ہاشمی نے بہت بڑا اکٹھ کیا ہوا تھا،یہ بابا گورو نانک کے 544ویں جنم دن کی خوشیوں کا موقع تھا،دیال سنگھ کلچرل اینڈ ریسرچ فورم کے بینر تلے ۔۔اج سکھ قوم کتھے کھڑی اے۔۔کا موضوع زیر بحث تھا۔ ظاہر ہے سکھ قوم آج وہاں نہیں جہاں کبھی پہلے نظر آتی تھی، یہ قوموں کی برادری میں ممتاز مقام کی حامل ہے ، پوری دنیا میں اس کی ایک الگ پہچان ہے اور اس پہچان کو اس قوم نے قربانیوں سے منوایا ہے۔

اندار گاندھی نے پاپ کیا اور امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر فوج کشی کی۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والاکا لافانی کردار کون فراموش کر سکتا ہے۔اندرا گاندھی کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنا پڑی۔اس کے انجام کو دیکھ کر کون اقلیتوں پر ظلم کا خیال بھی دل میں لا سکتا ہے۔آصف ہاشمی کے استقبالیے میں وزیر اعظم نے بجا طور پر مذہبی ہم آہنگی پر زور دیا۔سکھ اصولوں کو امن کا پیغام کہا۔بھائی چارے کی فضا برقرار رکھنے پر زور دیا۔اور حکومت کے اس عزم کو دہرایاکہ پاکستان میں کسی مذہبی، لسانی، نسلی، گروہی طبقے کے ساتھ تعصب کا برتا ئو نہیں کیا جائے گا، انھوں نے متروکہ وقف املاک کے چیئر مین آصف ہاشمی کی خدمات کو سراہا جو اقلیتوں کے حقوق کی نگہداشت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ متروکہ وقف املاک کا محکمہ تو ایک عرصے سے موجود چلا آرہا ہے مگر ہاشمی صاحب نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اور اقلیتوں کو ایک نیا افتخار بخشا ہے۔پاکستان میں نہ صرف سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک اور ان کے ساتھیوں کی یادگاریں موجود ہیں بلکہ رنجیت سنگھ کی مڑھی بھی موجود ہے،حسن ابدال میں پنجہ صاحب کے آثار بھی سکھوں کے لیے متبرک ہیں۔پاکستان قدیم تہذیبوں کا امین ہے، ٹیکسلا اور موہن جو ڈرو میں ہزاروں سال قبل کے کھنڈرات اپنی عظمتوں کی داستانیں دہرا رہے ہیں۔بدھ مت کے ماننے والے بھی پاکستان کی طرف کھچے کھچے چلے آتے ہیں۔

پاکستان کے دل لاہور میں گلاب دیوی، گنگا رام اور جانکی دیوی جیسے اسپتال غریب عوام کی خدمت اور علاج معالجے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ ہیں،ہم لوگوں نے اسپتال تو بنائے مگر کاروباری اداروں کے طور پر، جہاں علاج کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، فلاحی اور سوشل کام کوئی غیر مسلموں سے سیکھے حالانکہ سبق تو ہمیں دیا گیا تھا کہ پل بنا، چاہ بنا، فیض کے اسباب بنا ، عمل اس پر غیر مسلم بھائیوں نے کیا۔ اور مستقل بنیادوں پر کیا، ہم فلاحی کام کرتے ہیں تو کھالیں اکٹھی کرنے لگ جاتے ہیں ، زکواۃ، صدقات کے لیے بینر سجا دیتے ہیں، دکانوں پر چندوں کی صندوقچیاں رکھ دیتے ہیں، غیر مسلموں نے اسپتالوں کے ساتھ وسیع جائیدادیں وقف کیں، انھیں چندے جمع کرنے کی ضرورت اس وقت بھی نہیں پڑی جب ان کے بانی اس دنیا میں نہیں رہے۔اس پر ہمارے سران کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جھک جاتے ہیں۔

آصف ہاشمی نے بڑا مجمع لگایا۔وزیر اعظم تو مہمان خصوصی کے طور پر آئے، مگر سردار من موہن سنگھ خالصہ،سردار رشم سنگھ،اور سردار بہادر جنگ سنگھ نے بھی اس اجلاس کو رونق بخشی، گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے بھی خصوصی شرکت کی۔آصف ہاشمی جی دار انسان ہیں ، پرانے اور اصلی جیالے ہیں ، انھوں نے میاںمنظور وٹو کو للکارا اور بھرے مجمع میں للکارا، اب وٹو صاحب اپنی الگ منڈلی لگاتے ہیں مگر جیالے نہیں ہوتے تو مزہ نہیں آتا، جیالا کلچر کا اپنا ایک مزہ ہے، میزوں پر چڑھ کے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنا جیالوں کا وطیرہ ہے۔میڈیا اس جیالا کلچر کا مذاق اڑاتا ہے مگر بھٹو پر جانیں قربان کرنے والے کسی اور کو کیسے مانیں، آصف ہاشمی بھی انھی میں سے ایک ہیں اور دبنگ انسان ہیں۔ دل میں کچھ نہیں رکھتے،منہ پر دے مارتے ہیں۔پسے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنا ان کا شعار ہے۔

انھوںنے اپنے لیے جو حلقہ منتخب کیا ہے ، اس کی پسماندگی کے بارے میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا،شاہدرہ لاہور کا گیٹ وے ہے مگر پرانے لاہور کے دروازوں کی طرح اس کی حالت بڑی خستہ ہے۔ جدید دور کی سہولتیں ناپید، نہ کوئی اسپتال، نہ کوئی دانش اسکول اور نہ کوئی ایچی سن کالج،نہ کوئی بڑی مل ،نہ کوئی کارخانہ، تاریخی دریا ئے راوی کے کنارے واقع مگر ایسا دریا جس کا اپنا پاٹ پانی کی بوند تک کو ترستا ہے۔چاروں طرف ریت اور دھول اڑتی ہے۔ہاشمی صاحب اس علاقے کی قسمت سنوارنے کی دھن میں مبتلا ہیں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا انھیں کامیاب کرے، پنجاب اور وفاق کی کشمکش میں یہاں کوئی اسکیم سرے پروان نہیں چڑھ سکتی۔ہاشمی صاحب ایک اعلان کرتے ہیں ، اگلے ہی لمحے یہ اعلان ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے مگر وہ مایوس نہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

اقلیتوں سے بدسلوکی کے لیے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جاتا ہے، مگر سامنے کی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں ناطقہ پاکستانیوں کا بند ہے۔کوئی ہوائی اڈہ، کوئی سرحد، کوئی سازش، ہر جگہ پاکستانی نشانہ بنتے ہیں اور پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ تو بے گناہ نکلے۔اس پس منظر میں، میں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کی اقلیتیں ہماری کچھ مدد کریں، پاکستانیوں کی جان بخشی کے لیے اپنا کردار ادا کریں ، یہ اقلیتیں جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہماری دیوار کے ساتھ دیوار ملا کے رہ رہی ہیں اور اچھی طرح ہمارے کردار کو جانتی اور پہچانتی ہیں، وہ دنیا کو باور کرائیں کہ پاکستانی قوم سے زیادہ کوئی قوم پر امن نہیں۔آصف ہاشمی کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت تو ضرور کریں لیکن ان اقلیتوں سے بھی داد فریاد کریں کہ وہ ہم پاکستانیوں کے حقوق کی نگہداشت کے لیے آگے بڑھیں ، ہمارے بارے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات رفع کرانے میں مدد کریں۔ ہم پاکستانیوں پر قیامت کا وقت آن پڑا ہے اور اگر ہم نے اپنی اقلیتوں سے ذرا بھی حسن سلوک روا رکھا ہے تو اس کا صلہ دینے کی ضرورت جتنی آج ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔یقین جانیے ہم لوگ اتنے برے تو نہیں ، آصف ہاشمی کو تو آپ روز دیکھتے ہیں، ہم میں سے ہر کوئی آصف ہاشمی کی طرح نرم دم گفتگو ہے۔
Load Next Story