اولمپکس میں بھارت کی ہزیمت

یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ بھارت نے اولمپکس میں ایک بھی میڈل نہیں جیتا

یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ بھارت نے اولمپکس میں ایک بھی میڈل نہیں جیتا، حتیٰ کہ کانسی کا تمغہ بھی نہیں۔ بھارت کے کھلاڑیوں کا دستہ سب سے بڑا تھا جس کے ساتھ لوگوں کی امیدیں بھی سب سے زیادہ تھیں لیکن جہاں تک اس دستے کی کارکردگی کا تعلق ہے تو وہ تمام توقعات سے افسوس ناک حد تک کم تھی۔ ہاکی جو ہم نے مغرب والوں کو سکھائی تھی اب پورے برصغیر میں اس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔

مغرب والوں نے اس کھیل کو زیادہ پر کشش بنانے کے لیے اس کے قوانین و ضوابط میں کافی تبدیلی کر دی ہے جس کے بعد اس کھیل پر ان کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے لیکن صرف کھیل کے ضوابط کی تبدیلی پر سارا الزام دھرنا بجا نہیں۔ اس کھیل میں اصل خامی ہمارے کھلاڑیوں کی ہے جن میں اتنا اسٹیمنا نہیں اور نہ ہی ان کا طرز عمل سائنسی ہے۔

لگتا ہے کہ خواتین کھیلوں میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں حالانکہ ان کے لیے بڑی سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ آیندہ چند سالوں میں ہماری خراب کارکردگی چھوٹی قوموں کے مقابلے میں بھی پستی کا شکار ہو جائے گی۔ ان چھوٹی قوموں کو دنیا کے نقشے پر تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ان کا حجم محض ایک نقطے جتنا ہوتا ہے۔ جہاں تک آبادی کا تعلق ہے اولمپک کھیلوں میں تمغے جیتنے والوں میں بھارت غالباً سب سے نیچے تھا جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

بھارت میں ہر ریاست کے لیے کھیلوں کا بجٹ 250 کروڑ روپے ہے جب کہ مرکزی بجٹ 1500 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ چند ریاستوں میں کھیلوں کا انفراسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ) ضرور قائم ہے لیکن ان کی باقاعدگی سے نگہداشت کا کوئی انتظام نہیں۔ کھیلوں کے بارے میں ریاستوں اور مرکزی حکومت کے مابین کوئی ہمہ گیر طریق کار بھی نہیں ہے۔ نتیجتاً کھیلوں کو بجٹ میں محض ایک شِق کی حیثیت حاصل ہے لیکن کسی کھیل میں انتہائی مہارت پیدا کرنے کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

کرکٹ البتہ عوامی جنون کا آئینہ دار ہے جیسے کہ کچھ سال پہلے ہاکی تھی۔ اس سے صرف یہی حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں کھیلوں کی مناسب منصوبہ بندی اور سائنٹیفک طرز عمل پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ 1980ء تک ہاکی بھارت کا مقبول ترین کھیل تھا جب بھارت نے ماسکو گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا جو کہ اس کا آخری تمغہ ثابت ہوا۔ اور یہ بھارت کی مسلسل آٹھویں جیت تھی لیکن اس کے بعد بھارت کبھی اولمپکس میں سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ سکا۔ واضح رہے کہ بھارت نے 1983ء میں کرکٹ کا پہلا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ اس کے بعد سے اس کھیل میں مسلسل کامیابیاں جاری ہیں۔


آج کرکٹ کے کھیل کو بہت سی سہولتیں اور مواقع حاصل ہیں اور اس کھیل میں اچھے کھلاڑیوں کو عالمی شہرت ناموری اور مال و دولت کی ریل پیل میسر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ہمارے ملک میں ایک طرح کا مذہبی تقدس حاصل ہو گیا ہے۔ بھارت کا بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ (بی سی سی آئی) حد سے زیادہ دولت کما رہا ہے جسے کہ حکومت کی مدد کی کوئی ضرورت درکار نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کھیل میں بہت زیادہ سیاست بھی شامل ہو گئی ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر ہر قومی فیڈریشن میں کسی نہ کسی اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ لیکن اس کا کھیلوں کے اوپر خاصا منفی اثر مرتب ہوتا ہے کیونکہ سیاستدان ان کھیلوں کو اپنے نام اور شہرت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے صورت حال اتنی خراب ہے کہ بعض وزراء اور چوٹی کے بیورو کریٹس کھیلوں کی ہر فیڈریشن میں کسی نہ کسی اہم مقام پر متمکن ہیں جس سے انھیں بے تحاشا مالی منفعت حاصل ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے حال ہی میں بی سی سی آئی پر جسٹس لودھا پینل رپورٹ کے بعد، جو کہ خاصی چشم کشا رپورٹ تھی، مختلف سفارشات پیش کی ہیں جن کو لازمی طور پر نافذ العمل کرنا چاہیے۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نہ صرف بی سی سی آئی بلکہ کسی اور فیڈریشن میں بھی سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کو کوئی اعلیٰ عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ یہ کھلا راز ہے کہ شرد پوار' ارون جیٹلی' فاروق عبداللہ' راجیو شکلا اور بہت سے دیگر سیاستدان کھیلوں کے اس نظام کے جزو لاینفک بن چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکاری حکام اور دیگر ذرایع سے فنڈز اکٹھے کرنا انھی کے بس کا کام ہے۔ ایک دفعہ ان لوگوں کو ہٹا دیا جائے تب فیڈریشنز کو اپنے فنڈز خود اکٹھا کرنے پڑیں گے کیونکہ ریاست کی طرف سے بہت کم مالیاتی سپورٹ ملتی ہے۔

کارپوریٹ شعبہ بھی زیادہ فنڈز نہیں دیتا سوائے کرکٹ کے۔ لیکن بھارت کے کھیلوں میں پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کھیلوں کی ترویج و ترقی پر قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جا رہی حالانکہ اصل ٹیلنٹ وہیں سے دستیاب ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ہمیں چین میں کھیلوں کے عروج پر ایک نظر ڈالنا ہو گی جہاں انھوں نے ساری توجہ نوجوان ٹیلنٹ پر مرکوز کر رکھی ہے جب کہ ہم نے اولمپکس کھیلوں کے لیے صرف 300 کروڑ روپے کی رقم مختص کی تھی اور وہ بھی ریو اولمپکس سے صرف تین مہینے قبل۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ خاصی معقول رقم سال ہا سال کے لیے کھیلوں کی خاطر مختص کی جائے۔ چین بہت چھوٹی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کو منتخب کرتا ہے اور اس کے بعد ان کی غور پرداخت پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ قومی کھیلوں کے لیے منتخب کیے جانے والے کھلاڑیوں کو بعد میں کوئی مشکل نہیں رتہی اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی تعلیم' صحت' رہائش سب حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن بھارت میں کھلاڑیوں کی تعلیم و تربیت کا خرچہ کھیلوں کے بجٹ سے نکالا جاتا ہے۔

ہمارا ملک کھیلوں کے تمغوں کے لیے ترس رہا ہے۔ لندن میں ہم نے چھ تمغے جیتے تھے جن میں دیپا کرماکر پہلی بھارتی لڑکی تھی جس نے اولمپکس کی سطح کا تمغہ حاصل کیا نیز پول والٹ کے فائنل میں اس کی چوتھی پوزیشن آئی ہے جب کہ بھارت کے لیے اسے بھی میڈل جیتنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس لڑکی کا تعلق پسماندہ ریاست تری پورہ سے ہے۔ بھارت اگر مستقبل میں کھیلوں کے حوالے سے کوئی اونچا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے انھی پسماندہ علاقوں سے نیا ٹیلنٹ تلاش کرنا ہو گا۔ اولمپکس میں 28 کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں لہٰذا کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ ہر کھیل کے کھلاڑیوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اب ہمیں ریو اولمپکس کو بھول جانا چاہیے اور آیندہ ہونیوالے ٹوکیو اولمپکس کے لیے آج سے ہی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story