زوال پذیر سیاسی قیادت
قیام پاکستان کے65 سال بعد ملکی سیاسی و دفاعی معاملات کی ذمے دار قیادت پر نظر ڈالیں تو دل کانپ جاتا ہے۔
یہ غالباً بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا ذکر ہے، مفتی اعظم فلسطین مولانا امین الحسینی رات کا بڑا حصہ گزرنے کے بعد مسجد الحرام میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہیں کہ ایک شخص رات کی خاموشی میں غلاف کعبہ ہاتھ میں تھامے سر بسجود ہے اور مولائے حقیقی، مالک و خالق کائنات کے آگے گڑگڑا رہا ہے ـ کہ اے کارساز عالم تو چاہے تو مجھے جہنم میں بھیج دے اور میری کوئی آرزو پوری نہ کر لیکن ایک مرتبہ خلافت راشدہ کا مبارک دور دکھا دے جسے ان کانوں نے تو سنا ہے مگر دیکھنے سے آنکھیں محروم ہیں، میرے مولا میرے وطن کو غیروں کی غلامی سے آزاد کر کے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کر دے۔
مفتی صاحب کا بیان ہے کہ جب اس شخص نے سجدے سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ زعیم مشرق مولانا محمد علی جوہر ہیں جن کا نورانی چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ معروف عالم دین عبد الماجد دریا بادی کا اصرار تھا کہ مولانا جوہر اپنے تاثرات کو کتابی شکل میں پیش کریں، ان کے نام ایک مراسلے میں محمد علی جوہر تحریر کرتے ہیں کہ یہ وقت تاریخ نگاری کا نہیں، تاریخ سازی کا ہے۔ اغیار تاریخ بنا رہے ہیں، اور آپ مجھے تاریخ لکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں، عالم اسلام کی بربادیوں نے دل و دماغ میں سکون ہی کب رہنے دیا جو میں تصنیف و تالیف پر توجہ دے سکوں۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر جبر و استبداد کی یلغار ہوتی تو مولانا تڑپ اٹھتے، مجاہدین کی فتح و نصرت کے لیے جامع مسجد دہلی کے منبر سے جمعے کی نماز کے بعد دعا مانگی تو اس وقت مولانا کی کیفیت یہ تھی کہ روتے روتے گھگھی بند گئی اور ساتھ ہی ہزاروں کا مجمع رو رہا تھا۔ مولانا جوہر کا اللہ کی ذات پر کامل یقین تھا، آپ کا تصور توحید اس قدر واضح تھا کہ فرمایا
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
شاید مولانا جوہر اپنے اس ہی شعر کی تفسیر تھے، ان کا خود کہنا تھا کہ میں مر جاؤں گا لیکن کس قومی غدار کو معاف نہیں کروں گا، سب میرا ساتھ آج چھوڑ دیں، میں نے کام ساتھیوں کے بھروسے پر نہیں اللہ کے بھروسے پر کیا ہے، اسے منظور ہو گا تو وہ نئے ساتھی پیدا کر دے گا، اصولوں کی خاطر اپنے عزیز دوستوں سے لڑ گئے لیکن سودے بازی نہ کی۔
مسلمانان ہند کے اس عظیم رہنما کے بارے میں معروف ادیب جارج برنارڈ شا نے عبد الماجد دریا آبادی کے نام خط میں اعتراف کیا کہ محمد علی جوہر کی شخصیت سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ جب مجھے ان کی وفات کا علم ہوا تو ایسا لگا کہ ان کی موت سے دنیائے اسلام سے ایک جاں فشاں، جاں نثار شخصیت اُٹھ گئی ہے۔ معروف مفکر اور مورخ ایچ جی ویلز نے مولانا جوہر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ محمد علی کا دل نپولین کا دل تھا، ان کی زبان ایڈمنڈ برک کی زبان تھی، اور ان کا قلم میکالے کا قلم تھا۔
اور ایک مولانا جوہر ہی کیا تقسیم ہند سے قبل اگر مسلمانوں کی قیادت پر نگاہ ڈالیں تو ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت نظر آتی ہے۔ جوہر، اقبال اور جناح کا تو کیا ہی ذکر، بہادر یار جنگ کی شخصیت کو دیکھیں، دور اندیش اس قدر کہ 1930 میں تل ابیب کی نئی بستی دیکھی تو کہا کہ یہودیوں کو اب فلسطین سے نکالنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا عربوں نے سمجھ رکھا ہے اور یہ بات سچ ثابت ہو کر رہی۔ 1948 میں اسرائیلی ریاست کا اعلان ہوا اور 1967 میں سقوط بیت المقدس ہوا۔ بہادر یار جنگ کو جب عہدے کی پیشکش ہوئی تو جواب دیا کہ مجھے کرسی وزارت پر بیٹھ کر امور مملکت پر غور کرنے کے لیے نہیں بلکہ گرد کوچہ و بازار بن کر قلوب کی دنیا میں طوفان برپا کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک بار دوران تقریر مسلم لیگ پلاننگ کمیٹی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی تجاویز مرتب کرے جو پاکستان میں اسلامی دستور حیات، اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی معاشی نظام رائج کرنے میں مددگار ہوں اور پھر قائداعظم کو اس انداز میں مخاطب کیا کہ اس کی جرات قائداعظم کی زندگی میں کسی اور کو نہ ہو سکی تھی، کہنے لگے کہ قائداعظم! میں نے پاکستان کو اسی طرح سمجھا ہے اور اگر آپ کا پاکستان یہ نہیں ہے تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے۔
قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی شخصیت دیکھیں، آپ کا شمار پورے ہندوستان کے چند بڑے جاگیر داروں میں ہوتا تھا، ہزاروں ایکڑ زمین چھوڑ کر پاکستان آئے تو ایک ایکڑ زمین بھی اپنے نام الاٹ نہ کرائی، شہادت کے وقت فقط چالیس روپے کے لگ بھگ رقم بینک اکاؤنٹ میں موجود تھی اور خدا پاکستان کی حفاظت کرے کے الفاظ زبان پر تھے۔ خاوند کی شہادت کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے پاس ایک ماہ کا خرچہ بھی نہ تھا لہٰذا انھیں ہالینڈ میں سفیر مقرر کرنا پڑا۔ دورہ امریکا کے دوران یہودی لابی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض تمام اقتصادی و دفاعی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش کی تو بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کے سامنے لیاقت علی خان نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے۔
محترمی! ہماری روحیں برائے فروخت نہیں ہیں۔ Gentelman our souls are not for sale
غرض ظفر علی خان، راجا صاحب محمود آباد اور سردار عبدالرب نشتر، تحریک پاکستان میں شامل کتنے ہی عظیم رہنماؤں کے نام ذہن میں آتے ہیں۔ یہ وہ قیادت تھی جس نے اندھیروں میں بھٹکتی کو قوم کو روشنی دکھائی، غلامی سے آزادی دلائی، ملک و ملت کے مفاد کو ہمیشہ عزیز رکھا، اپنی سوچ و فکر، قول و فعل، تحریر و تقریر، علمیت و لیاقت سے اپنوں کیا غیروں کو بھی متاثر کیا۔ محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب کسی اور نے نہیں بلکہ گاندھی جی نے دیا تھا۔
لیکن آج قیام پاکستان کے65 سال بعد ملکی سیاسی و دفاعی معاملات کی ذمے دار قیادت پر نظر ڈالیں تو دل کانپ جاتا ہے، اندیشوں کے سانپ نظروں کے سامنے لہرانے لگتے ہیں۔ سر احساس ندامت سے جھک جاتا ہے کہ ڈالروں کے عوض قوم کے کتنے ہی بیٹے اور بیٹیاں فروخت کر ڈالے، بزدل اس قدر کے ایک ٹیلیفون کال پر افغان مسلمانوں کا سودا کر لیا، خائن اتنے بڑے کہ ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں جمع کرا دی، احسان فراموش اس قدر کہ قوم کے محسن کو مجرم بنا دیا، سفاک اس قدر کہ آئے روز درجنوں افراد کو سیاسی مفادات کی خاطر موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ ایک وہ دور اندیش، جرات مند اور روشن ضمیر قیادت تھی جس نے جان و مال کی قربانی دے کر غلام قوم کو آزادی دلائی اور ایک یہ بے حس، سنگ دل اور بے ضمیر اشرافیہ ہے جس نے قیادت کا حقیقی کردار ادا کرنے کے بجائے چند ٹکوں اور ذاتی مفادات کے عوض آزاد قوم کو پھر غلام بنا دیا۔
مفتی صاحب کا بیان ہے کہ جب اس شخص نے سجدے سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ زعیم مشرق مولانا محمد علی جوہر ہیں جن کا نورانی چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ معروف عالم دین عبد الماجد دریا بادی کا اصرار تھا کہ مولانا جوہر اپنے تاثرات کو کتابی شکل میں پیش کریں، ان کے نام ایک مراسلے میں محمد علی جوہر تحریر کرتے ہیں کہ یہ وقت تاریخ نگاری کا نہیں، تاریخ سازی کا ہے۔ اغیار تاریخ بنا رہے ہیں، اور آپ مجھے تاریخ لکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں، عالم اسلام کی بربادیوں نے دل و دماغ میں سکون ہی کب رہنے دیا جو میں تصنیف و تالیف پر توجہ دے سکوں۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر جبر و استبداد کی یلغار ہوتی تو مولانا تڑپ اٹھتے، مجاہدین کی فتح و نصرت کے لیے جامع مسجد دہلی کے منبر سے جمعے کی نماز کے بعد دعا مانگی تو اس وقت مولانا کی کیفیت یہ تھی کہ روتے روتے گھگھی بند گئی اور ساتھ ہی ہزاروں کا مجمع رو رہا تھا۔ مولانا جوہر کا اللہ کی ذات پر کامل یقین تھا، آپ کا تصور توحید اس قدر واضح تھا کہ فرمایا
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
شاید مولانا جوہر اپنے اس ہی شعر کی تفسیر تھے، ان کا خود کہنا تھا کہ میں مر جاؤں گا لیکن کس قومی غدار کو معاف نہیں کروں گا، سب میرا ساتھ آج چھوڑ دیں، میں نے کام ساتھیوں کے بھروسے پر نہیں اللہ کے بھروسے پر کیا ہے، اسے منظور ہو گا تو وہ نئے ساتھی پیدا کر دے گا، اصولوں کی خاطر اپنے عزیز دوستوں سے لڑ گئے لیکن سودے بازی نہ کی۔
مسلمانان ہند کے اس عظیم رہنما کے بارے میں معروف ادیب جارج برنارڈ شا نے عبد الماجد دریا آبادی کے نام خط میں اعتراف کیا کہ محمد علی جوہر کی شخصیت سے میں اس قدر متاثر ہوا کہ جب مجھے ان کی وفات کا علم ہوا تو ایسا لگا کہ ان کی موت سے دنیائے اسلام سے ایک جاں فشاں، جاں نثار شخصیت اُٹھ گئی ہے۔ معروف مفکر اور مورخ ایچ جی ویلز نے مولانا جوہر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ محمد علی کا دل نپولین کا دل تھا، ان کی زبان ایڈمنڈ برک کی زبان تھی، اور ان کا قلم میکالے کا قلم تھا۔
اور ایک مولانا جوہر ہی کیا تقسیم ہند سے قبل اگر مسلمانوں کی قیادت پر نگاہ ڈالیں تو ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت نظر آتی ہے۔ جوہر، اقبال اور جناح کا تو کیا ہی ذکر، بہادر یار جنگ کی شخصیت کو دیکھیں، دور اندیش اس قدر کہ 1930 میں تل ابیب کی نئی بستی دیکھی تو کہا کہ یہودیوں کو اب فلسطین سے نکالنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا عربوں نے سمجھ رکھا ہے اور یہ بات سچ ثابت ہو کر رہی۔ 1948 میں اسرائیلی ریاست کا اعلان ہوا اور 1967 میں سقوط بیت المقدس ہوا۔ بہادر یار جنگ کو جب عہدے کی پیشکش ہوئی تو جواب دیا کہ مجھے کرسی وزارت پر بیٹھ کر امور مملکت پر غور کرنے کے لیے نہیں بلکہ گرد کوچہ و بازار بن کر قلوب کی دنیا میں طوفان برپا کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک بار دوران تقریر مسلم لیگ پلاننگ کمیٹی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی تجاویز مرتب کرے جو پاکستان میں اسلامی دستور حیات، اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی معاشی نظام رائج کرنے میں مددگار ہوں اور پھر قائداعظم کو اس انداز میں مخاطب کیا کہ اس کی جرات قائداعظم کی زندگی میں کسی اور کو نہ ہو سکی تھی، کہنے لگے کہ قائداعظم! میں نے پاکستان کو اسی طرح سمجھا ہے اور اگر آپ کا پاکستان یہ نہیں ہے تو ہم ایسا پاکستان نہیں چاہتے۔
قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی شخصیت دیکھیں، آپ کا شمار پورے ہندوستان کے چند بڑے جاگیر داروں میں ہوتا تھا، ہزاروں ایکڑ زمین چھوڑ کر پاکستان آئے تو ایک ایکڑ زمین بھی اپنے نام الاٹ نہ کرائی، شہادت کے وقت فقط چالیس روپے کے لگ بھگ رقم بینک اکاؤنٹ میں موجود تھی اور خدا پاکستان کی حفاظت کرے کے الفاظ زبان پر تھے۔ خاوند کی شہادت کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے پاس ایک ماہ کا خرچہ بھی نہ تھا لہٰذا انھیں ہالینڈ میں سفیر مقرر کرنا پڑا۔ دورہ امریکا کے دوران یہودی لابی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض تمام اقتصادی و دفاعی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش کی تو بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کے سامنے لیاقت علی خان نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے۔
محترمی! ہماری روحیں برائے فروخت نہیں ہیں۔ Gentelman our souls are not for sale
غرض ظفر علی خان، راجا صاحب محمود آباد اور سردار عبدالرب نشتر، تحریک پاکستان میں شامل کتنے ہی عظیم رہنماؤں کے نام ذہن میں آتے ہیں۔ یہ وہ قیادت تھی جس نے اندھیروں میں بھٹکتی کو قوم کو روشنی دکھائی، غلامی سے آزادی دلائی، ملک و ملت کے مفاد کو ہمیشہ عزیز رکھا، اپنی سوچ و فکر، قول و فعل، تحریر و تقریر، علمیت و لیاقت سے اپنوں کیا غیروں کو بھی متاثر کیا۔ محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب کسی اور نے نہیں بلکہ گاندھی جی نے دیا تھا۔
لیکن آج قیام پاکستان کے65 سال بعد ملکی سیاسی و دفاعی معاملات کی ذمے دار قیادت پر نظر ڈالیں تو دل کانپ جاتا ہے، اندیشوں کے سانپ نظروں کے سامنے لہرانے لگتے ہیں۔ سر احساس ندامت سے جھک جاتا ہے کہ ڈالروں کے عوض قوم کے کتنے ہی بیٹے اور بیٹیاں فروخت کر ڈالے، بزدل اس قدر کے ایک ٹیلیفون کال پر افغان مسلمانوں کا سودا کر لیا، خائن اتنے بڑے کہ ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں جمع کرا دی، احسان فراموش اس قدر کہ قوم کے محسن کو مجرم بنا دیا، سفاک اس قدر کہ آئے روز درجنوں افراد کو سیاسی مفادات کی خاطر موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ ایک وہ دور اندیش، جرات مند اور روشن ضمیر قیادت تھی جس نے جان و مال کی قربانی دے کر غلام قوم کو آزادی دلائی اور ایک یہ بے حس، سنگ دل اور بے ضمیر اشرافیہ ہے جس نے قیادت کا حقیقی کردار ادا کرنے کے بجائے چند ٹکوں اور ذاتی مفادات کے عوض آزاد قوم کو پھر غلام بنا دیا۔