اولمپکس کے سوا سو سال پر محیط دلچسپ سفر اور ریکارڈز کی روداد

1896ء میں یونان کے تاریخی شہر ایتھنز سے شروع ہونے والے یہ مقابلے اب مقبولیت کی حدوں کو چُھو رہے ہیں

1896ء میں یونان کے تاریخی شہر ایتھنز سے شروع ہونے والے یہ مقابلے اب مقبولیت کی حدوں کو چُھو رہے ہیں فوٹو : فائل

اولمپکس کھیلوں کی ابتداء776قبل مسیح میں یونان کے شہر اولمپیا سے ہوئی۔شروع میں یہ مقابلے 100گز کی دوڑ تک محدود تھے اس دوڑ کو یونانی زبان میں ''اسٹیڈ'' کہتے ہیں اور اسی کھیل کے سے میدان کا نام ''اسٹیڈیم'' پڑ گیا۔ اولمپکس مقابلے تقریباً 12سو سال مسلسل ہر چار سال کے وقفے سے منعقد ہوتے رہے اور ان کے کھیلوں کے قوانین یونانیوں ہی کے بنائے ہوئے تھے۔یونانی ان کھیلوں کا جشن مذہبی تہواروں کی طرح مناتے تھے ، بعد میں عیسائی رومی شہنشاہ تھیوڈوس نے ان کھیلوں کو وحشیانہ قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی تھی۔



اس کے بعد صدیوں تک یہ کھیل منعقد نہ ہوسکے ۔ پھر ایک فرانسیسی بیرن پیری ڈی کوبرٹن نے ان کھیلوں کے انعقاد کے لیے بھرپور تحریک چلائی اور 1896ء میں یہ مقابلے ایک بار پھر شروع ہوگئے اور اس کے بعد سے اب تک مسلسل ہر چار سال بعد یہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں جن میں دنیا کے بیشتر ممالک حصہ لیتے ہیں۔ تاریخ میں صرف جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کے دوران ان مقابلوں میں تعطل آیا اس کے علاوہ مختلف ملکوں کی میزبانی میں یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔دوسری جانب عالمی سیاسی حرکیات اور تنازعات بھی کئی مواقع پر ان مقابلوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں بالخصوص سوویت یونین اور امریکا کے درمیان عشروں جاری رہنے والی سرد جنگ کی وجہ سے کئی بار یہ مقابلے متاثر ہوئے اور مختلف ممالک ان کا بائیکاٹ کرتے رہے۔ یہ اجمالی سا پس منظر ہے ذیل کی سطور میں اختصار کے ساتھ ہم اولمپکس کے تاریخی ارتقاء اور غیر معمولی ریکارڈز کا ذکر کریں گے۔

1896ء میں یونان کے شہر ایتھنز میں ہونے والے پہلے ماڈرن اولمپکس میں 14ممالک کے 241کھلاڑیوں نے حصہ لیا تھا۔ ان اولمپکس میں امریکی ایتھلیٹس کا دستہ 12میں سے 9ٹائٹلز کے ساتھ غالب رہا لیکن اس ایونٹ میں کوئی بھی عالمی ریکارڈ نہ بن سکا ۔ اس کی وجہ یہ تھی ان مقابلوں میں صرف چند ممالک کے دستوں نے حصہ لیا تھا اور وہاں دوڑ کا ٹریک بھی بہت مشکل اور پُر پیچ تھا۔ 100میٹر کی دوڑ ان جدید اولمپکس کا پہلا ایونٹ تھا۔

پہلے ماڈرن اولمپکس کے بعد یونانی مستقل طور پر اولمپکس کی میزبانی اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے لیکن چار سال بعد1900ء کے اولمپکس مقابلوں کے لیے انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی(IOC) نے پیرس کا انتخاب کیا۔ پیرس میں منعقد ہونے والے ان مقابلوں میں پہلی بار خواتین کھلاڑیوں کو بھی شامل کیاگیا۔ان گیمز میں 119ممالک کی 1066 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ ان گیمز میں امریکا کے ایتھلیٹ جان برے نے 1500میٹر کی دوڑ چار منٹ نو سیکنڈ میں مکمل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ برے سے قبل آسٹریلین ایتھلیٹ ایڈون فلیک کے پاس چار منٹ 22سیکنڈ میں یہ دوڑ مکمل کرنے کا اعزاز تھا۔

اس کے بعد 1904ء میں سینٹ لوئس (امریکا) میں اولمپکس گیمز کا انعقاد کیا گیا لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی کیونکہ کئی طرح کی مشکلات کے باعث انگلینڈ ،فرانس اور سویڈن سمیت کئی ممالک کے کھلاڑی ان مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے تھے۔ 1904ء میں ہونے والے ان مقابلوں میں 16مختلف کھیل شامل کیے گئے تھے جن میں امریکا 78سونے، 82چاندی اور 79کانسی کے تمغوں کے ساتھ سرفہرست تھا۔ ان مقابلوں میں 681کھلاڑی شریک ہوئے تھے جن میں سے 100 سے کچھ زائد غیر امریکی تھے۔

اس کے بعد 1906ء میں ان کھیلوں کا انعقاد دوبارہ یونان کے شہر ایتھنزمیں کیا گیا اور امریکا کی ٹیم پہلی بار ان مقابلوں میں سرکاری طور پر شامل ہوئی اور انہوں نے سرکاری وردی پہن رکھی تھی۔ ان مقابلوں کی شاندار کامیابی کے بعد انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہر دو اولمپکس کے بعد یہ مقابلے اینتھز ہی میں منعقد کیے جائیں گے لیکن 1910ء میں بدقسمتی سے یونان کے سیاسی حالات کشیدہ ہونے کے باعث وہاں یہ مقابلے منعقد نہ ہوسکے۔

1908ء میںاٹلی کے شہر روم میں یہ گیمز ہونی تھیں لیکن انہیں بعد میں لندن منتقل کر دیا گیا۔ ان مقابلوں میں 22ملکوں کے 2ہزار کھلاڑی شریک ہوئے لیکن آئرلینڈ سمیت کچھ ممالک نے ان گیمز کا بائیکاٹ کیا اور پہلی بار امریکیوں نے اپنا پرچم برطانوی بادشاہ کے سامنے سرنگوں کرنے سے انکار کیا اور اس کے بعد سے یہ روایت جاری ہے۔ اس ایونٹ میں ڈائیونگ کو پہلی بارشامل کیا گیا اور خواتین کی میراتھن دوڑ کے لیے 26میل اور 365گز کا فاصلہ مقرر کیا گیا۔ان مقابلوں میں برطانیہ 146تمغوں کے ساتھ سرفہرست تھا جبکہ امریکا 47تمغوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔1908ء کی اولمپکس میں کوئی بھی عالمی ریکارڈ نہیں بن سکا تھا۔



1912ء میں سٹاک ہومز (سویڈن) میں منعقد ہونے والی اولمپکس گیمز کو آج تک کی بہترین گیمز شمار کیا جاتا ہے۔ انہیں (Games of the V Olympiad) بھی کہا جاتا ہے۔ ان گیمز میں 28ممالک کے 25سو کھلاڑیوں نے شرکت کی ،جن میں 48خواتین کھلاڑی بھی شامل تھیں۔ گھڑ سواری کو 1912ء میں پہلی بار اولمپکس گیمز کا حصہ بنایا گیااور اس کے لیے 55کلومیٹر طویل کورس بنایا گیا۔ ان گیمز میں 25سونے، 19چاندی اور19کانسی کے تمغوں کے ساتھ امریکا سرفہرست تھا۔ان گیمز میں امریکی ایتھلیٹ ڈونلڈ لیپیکوٹ نے 10.5سیکنڈ میں 100میٹر کی دوڑ مکمل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

1916ء میں اولمپکس گیمز نے جرمنی کے شہر برلن میں منعقد ہونا تھا لیکن پہلی عالمی جنگ چھڑ جانے کے باعث ان گیمز کا انعقاد نہ ہوسکا اور اس کے بعد برلن کو 1936ء تک ان گیمز کی دوبارہ میزبانی کا انتطار کرنا پڑا۔



1919ء میں پہلی جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچی تو اس کے فوراً بعد یعنی 1920ء میں اینٹورپ ،بیلجیئم میں ان کھیلوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔ایک تباہ کن جنگ کے بعد ان کھیلوں کا انعقاد ایک بڑا چیلنج تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کھلاڑی بیلجیئم پہنچے تو تعمیراتی کام ابھی تک نامکمل تھا۔ ان اولمپکس میں جرمنی ، بلغاریہ ، آسٹریا اور ہنگری کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ ان مقابلوں میں اٹلی کے نیڈو ناڈی نے فینسنگ میں چھ میں سے پانچ سونے کے تمغے حاصل کیے جبکہ امریکا کی کھلاڑی ایتھیلڈا بلیبٹری نے خواتین کی تیراکی کے مقابلے میں تینوں تمغے اپنے نام کیے۔ 1920ء کے ان اولمپکس میں سویڈن کے ایک 72سالہ شوٹر آسکر سواہن نے ڈبل شوٹ رننگ ڈئیر کے مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کر کے سب سے معمر ترین اولمپیئن فاتح ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

اس کے بعد 1924ء میں اولمپکس مقابلے پیرس میں منعقد ہوئے۔ان گیمز میں 44ممالک کے 3089 کھلاڑیوں نے شرکت کی ۔ان مقابلوں میں بھی جرمنی ، بلغاریہ ، آسٹریا اور ہنگری کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی۔ اس وقت کمیونسٹ ممالک کاسرد جنگ کے نتیجے میں وجود میں آنے والا اتحاد بھی اولمپکس گیمز میں شریک نہیںہوا۔اس طرح سوویت یونین 1952ء تک اولمپکس مقابلوں سے دور رہا ۔ 1924ء میں انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے صدر پیئر ڈی کوبرٹن ریٹائر ہونے لگے تو ان کے اعزاز میں ایک بار پھر اولمپکس گیمز منعقد کی گئیں اور اس کے بعد ٹینس کو اولمپکس مقابلوں سے نکال دیا گیا اور 1988ء میں دوبارہ ٹینس کی اولمپکس میں واپسی ہوئی۔ ان مقابلوں میں امریکی ایتھلیٹ ٹیڈ میریڈتھ نے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ انہی گیمز میں برطانیہ کے ایرِل لِڈل کی شاندار کارکردگی کے پیش نظر ہالی وُوڈ نے اُن پر ایک فلم "Chariots of Fire" بنائی جسے بعد میں آسکر ایوارڈ بھی ملا۔

اس کے بعد 1928ء میں ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں اولمپکس کا انعقاد ہوا جس میں 46ممالک کے 3 ہزار سے زائد کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ اس بار خواتین کی کھیلوں میں ٹریک اینڈ فلیڈ اور جمناسٹک کے مقابلوں کو بھی اولمپکس میں شامل کیا گیا۔ان اولمپکس میں اس وقت ایک جذباتی منظر دیکھا گیا جب آسٹریلوی کشتی ران ہنری پیرس نے کوارٹر فائنل مقابلے کے دوران سامنے سے گزرنے والی بطخوں کی ایک ڈار کے لیے اپنی کشتی روک دی تھی لیکن پھربھی فتح اس کے نام ہوئی اور اس نے سونے کا تمغہ حاصل کیا۔



1932ء میں اولمپکس گیمز کا میزبان امریکا کا شہر لاس اینجلس بنا جہاں 37ملکوں سے 1300کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ ان کھیلوں میں پہلی بار اولمپکس ویلیج تیار کیا گیا جس میں مرد کھلاڑیوں کو قیام کی اجازت تھی جبکہ خواتین کو چیپمین پارک ہوٹل میں رہائش مہیا کی گئی ۔ 1932ء کے اولمپکس کے مختلف ایونٹس میں 9نئے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے جن میں سے مرد کھلاڑیوں نے چھ جبکہ چار خواتین کھلاڑیوں نے بنائے۔اس بار فٹ بال کو اولمپکس مقابلوں سے نکال دیا گیا اور کچھ مشہور کھلاڑیوں کو پروفیشنل قرار دے کر ان اولمپکس میں شمولیت سے روک دیا گیا تھا۔

1936ء میں جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والی اولمپکس گیمز میں 46ممالک کے 4ہزار کھلاڑی شریک ہوئے۔ ان کھیلوں میں پہلی بار مقابلے ٹیلی وژن پر دکھائے گئے۔ ان مقابلوں میں 20نئے اولمپک جبکہ 6نئے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے۔ ان چھ عالمی ریکارڈز میں سے چار جرمنی کی خواتین کھلاڑیوں نے اپنے نام کئے۔ ان اولمپکس کا ہیرو افریقی النسل امریکی سپرنٹر جیسے اوینز کو کہا جاتا ہے جس نے 100, 200 اور 4X200میٹر کی دوڑ میں 4سونے کے تمغے حاصل کیے۔ اولمپکس کھیلوں میں پہلی بار باسکٹ بال اور فیلڈ بال کی انٹری ہوئی۔ اس کے بعد 1940ء سے 1944ء تک دوسری عالمی جنگ برپا ہوجانے کی وجہ سے یہ مقابلے تعطل کا شکار رہے۔

1948ء میں جنگ عظیم دوم کی بار ایک بار پھر لندن میں یہ مقابلے منعقد ہوئے۔ مشکل حالات کے باوجود ان مقابلوں میں 59ممالک کے 4ہزار کھلاڑیوں نے شرکت کر کے انہیں کامیاب بنا دیا تھا۔ ان مقابلوں میں14نئے اولمپکس ریکارڈ بنے لیکن کوئی بھی عالمی ریکارڈ نہ بن سکا تاہم 17سالہ امریکی ایتھلیٹ بوب میتھیاز نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مردوں کی دوڑ کے مقابلوں میں کم عمر ترین اولمپیئن فاتح کا اعزاز حاصل کیا۔

1952ء میں یہ مقابلے ہیلسنکی ، فن لینڈ میں منعقد ہوئے۔ان مقابلوں میں سرد جنگ کے واضح اثرات دیکھے گئے اور سوویت یونین کے ممالک نے اولمپک ویلج میں قیام کی بجائے اپنا الگ سے اولمپکس ویلیج بنایا تھا۔ ان مقابلوں میں صرف ایتھلیٹس نے 8نئے عالمی ریکارڈ قائم کئے گئے۔

ان مقابلوں کا دلچسپ پہلو امریکا کے فرینک ہیونز کی شاندار فتح تھی ۔ فرینک کا والد بل ہیون امریکی کشی ران تھا جو 28سال قبل یعنی 1924ء میں ہونے والے اولمپکس میں صرف اس وجہ سے شریک نہ ہو سکا کہ فرینک اس وقت اپنی ماں کے پیٹ میں تھااور اس کے اس دنیا میں آنے کا وقت قریب تھا۔ بیٹے نے 1948ء کے اولمپکس میں سونے کا تمغہ حاصل کر کے باپ کا سر فخر سے بلند کر دیا۔



1956ء میں یہ مقابلے آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں منعقد ہوئے ۔ ہالینڈ ، سوئٹزر لینڈ اور سپین نے ان کھیلوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ان مقابلوں میں پہلی بار اولمپکس گیمز کی افتتاحی تقریب کا اضافہ ہوا۔ اس بار صرف دو عالمی ریکارڈ قائم کیے جاسکے۔ ان مقابلوں میں امریکا کی باسکٹ بال ٹیم جس کی قیادت بِل رسل اور کے ۔سی جونز کر رہے تھے سب سے زیادہ پوائنٹس کے ساتھ برتر رہی۔ ایک اور تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ ایک آسٹریلوی باشندے کے مشورے پر ان اولمپکس کی افتتاحی و اختتامی تقریب میں شریک ممالک کے کھلاڑی انگریزی حروف تہجی کی ترتیب کی بجائے ایک ساتھ داخل ہوئے جسے ہم آہنگی کی علامت قرار دیا گیا۔


1960ء میں اولمپکس کا انعقاد اٹلی کے شہر روم میں ہوا اور ان مقابلوں کو بھرپور ٹیلی وژن کوریج ملی ۔ پاکستان نے ان مقابلوں میں اپنے تمام کے تمام چھ میچز جیت کر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ یہ پاکستان کی اولمپکس میں فتح کا آغاز تھا۔ان اولمپکس سے مستقبل کے ایک بہت بڑے باکسنگ لیجنڈ کیسیئس کلے (جو بعد میں محمد علی کے نام سے جانے گئے ) نے لائٹ ہیوی ویٹ گولڈ میڈل حاصل کیا اور اس کے بعد اپنا پروفیشنل کرئیر پوری کامیابی سے جاری رکھا اور رواں برس ہی راہی ملک عدم ہوئے۔



1964ء میں ٹوکیو ، جاپان میں ہونے والے مقابلوں میں انڈونیشیا ، شمالی کوریا اور جنوبی افریقہ کو حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ان گیمز میں 93ممالک کے 5ہزار کھلاڑی شریک ہوئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کھیلوں کے نتائج مرتب کرنے کے لیے کمپیوٹر کواستعمال میں لایا گیا ۔ اس ایونٹ میں پاکستان نے ہاکی کے 8میں سے 7میچوں میں فتح حاصل کی تھی۔ یہاں بھی 90تمغوں سے ساتھ امریکا سب سے آگے تھا۔

1968ء میں میکسیکو سٹی اولمپکس گوکہ ایک کامیاب اولمپکس ایونٹ تھا لیکن اس میں سیاست نے اپنا رنگ دکھایا ۔ پہلی بار کھلاڑیوں نے وکٹری اسٹینڈ پر امریکا میں سیاہ فاموں کے خلاف ہونے والے نسلی تعصب کے خلاف آواز بلند کی اور یہیں سے ممنوعہ ادویات کے استعمال کے شبے میں کھلاڑیوں کے ٹیسٹ لینے کا آغاز ہوا۔ پاکستان نے یہاں بھی ہاکی کے مقابلوں میں آسٹریلیا کو ہرا کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ اس ایونٹ میں میکسیکوکی Enriqueta Basilio نے اولمپکس کی تاریخ میں افتتاحی تقریب میں مشعل روشن کرنے والی پہلی خاتون کا اعزاز حاصل کیا۔

1972ء میں جرمنی کا شہر میونخ ان مقابلوں کا میزبان بنا۔اس ایونٹ میں 122ممالک کے 7ہزار کھلاڑی شریک ہوئے اوراس موقع پر11 اسرائیلی کھلاڑیوں کی ہلاکت کا واقعہ بھی پیش آیا لیکن اس کے باوجود گیمز جاری رکھی گئیں۔ امریکا یہاں بھی تیراکی میں 7سونے کے تمغوں کے ساتھ سر فہرست تھا۔اس موقع پر سب سے یادگار کارکردگی امریکی تیراک مارک سپٹز کی تھی جس نے 7سونے کے تمغے اپنے نام کر کے 7عالمی ریکارڈ توڑ دیے جبکہ ابلاغی اداروں کی سب سے زیادہ توجہ سوویت جمناسٹ اولگا کوربٹ کو ملی جس کی کارکردگی انتہائی ڈرامائی قسم کے اتار چڑھاؤ کے بعد فتح پر منتج ہوئی۔

1976ء میں کینیڈا کے شہر مونٹریال میں اولمپکس مقابلے ہوئے۔ یہ مقابلے ممنوعہ اودویات اور بعض ممالک کے بائیکاٹ کے حوالوں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان مقابلوں میں سوویت یونین میں شامل ممالک مجموعی طور پر 125تمغوں کے ساتھ سب سے آگے تھے۔اس بار کیوبا کے ایتھلیٹ البرٹو جانٹورنا نے 400اور800 میٹر کی دوڑ میں ڈبل وکٹری حاصل کی جبکہ جاپان کی خواتین والی بال ٹیم اس موقع پر سارے میچ جیت کر ناقابل شکست ثابت ہوئی۔ انہی مقابلوں میں رومانیہ کی 14سالہ جمناسٹ نادیہ کومانیسی کو سٹار آف دی گیمز قرار دیا گیا۔

1980ء میں ماسکو اولمپکس گیمز کا 62ممالک نے بائیکاٹ کیا۔بائیکاٹ کی وجہ سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ تھی۔ یہاں بھی مجموعی رینکنگ میں سوویت یونین 195تمغوں کے ساتھ سب سے آگے تھا۔روس کے الکسنڈر دتیاتن نے مردوں کے تمام جمناسٹک مقابلوں میں آٹھ سونے کے تمغے حاصل کرکے ایک ہی اولمپکس میں سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔

اس کے بعد 1984ء میں لاس اینجلس میں ہونے والی اولمپکس گیمز کا روس،مشرقی جرمنی ، کیوبا سمیت 14ممالک نے بائیکاٹ کیا اور اس ایونٹ میں مختلف کمپنیوں نے اسپانسرشپ دینے کا آغاز بھی کیا۔ ان مقابلوں میں 174تمغوں کے ساتھ امریکا سب سے آگے تھا۔اسی موقع پر پہلی بار خواتین میراتھن ریس کا انعقاد بھی کیا گیا جس کی فاتح امریکی ایتھلیٹ جون بینوئیٹ تھی۔خواتین کی سائیکل ریس بھی اسی بار اولمپکس میں شامل کی گئی۔



1988ء میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ہونے والی اولمپکس انتہائی کامیاب رہیں۔ ان کھیلوں میں پہلی بار پیشہ وارانہ کھلاڑیوں کو شمولیت کی اجازت ملی ۔ اب کی بار صرف شمالی کوریا نے بائیکاٹ کیا اور 159ممالک کے 8500کھلاڑی ان مقابلوں میں شامل ہوئے۔ یہاں 132 تمغوں کے ساتھ سوویت یونین سب سے آگے تھا جبکہ دوسرا نمبر مشرقی جرمنی کا تھا۔اس بار کینیڈا کے ایتھلیٹ بین جانسن نے 100میٹر کی دوڑ میں عالمی ریکارڈ تو قائم کیا لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ اس نے ممنوعہ دوا استعمال کی تھی۔ اس طرح وہ عالمی سطح کا پہلا ایتھلیٹ تھا جس کا ممنوعہ ادویات کے حوالے سے سکینڈل بنا۔ان اولمپکس کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں گھڑسواری کے تمام تین تمغوں کی حقدار خواتین گھڑ سوار قرار پائیں۔ اسی ایونٹ میں ٹیبل ٹینس کو بھی اولمپکس میں شامل کیا گیا۔ان مقابلوں میں جرمن سائیکلسٹ کرسٹا لیوڈنگ روتھن برگر کا کھیل یاد گار تھا ،وہ انہی مقابلوں میں ایک ہی سال میں موسم گرما اور سرما میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں تمغے جیتے والی واحد کھلاڑی بنیں۔



1992ء میں سپین کا شہر بارسلونا اولمپکس کا میدان بنا۔یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھی ملک نے ان مقابلوں کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ ان مقابلوں میں مجموعی طور پر 14عالمی ریکارڈ بنے تھے جن میں سے چھ خواتین کھلاڑیوں کے نام تھے۔ ان مقابلوں میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کو تیسری پوزیشن ملی۔اس بار ایک دلچسپ منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب 10000میٹر کی ریس میں ایتھوپیائی ایتھلیٹ دیراتو تولو اور سفید فام جنوبی افریقی ایتھلیٹ ایلانا میئر کے درمیان مقابلہ جاری تھا۔ دیراتو تولو نے جب یہ دوڑ جیتی تو وہ وِننگ لائن کے پاس اپنی حریف کے انتظار میں رک گئی اور جب ایلانا پہنچی تو ان دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نئے افریقہ کے لیے امید کا انوکھا پیغام دیا۔



1996ء میں اٹلانٹا امریکا میں ہونے والی اولمپکس گیمز کو حکومتی تعاون کے بغیر منعقد کیا گیا جس میں 197ممالک کے 10ہزار کھلاڑی شریک ہوئے۔یہ اولمپکس کی تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ تمام دنیا کی معروف اولمپکس کمیٹیوں نے اس میں شرکت کی۔ ان گیمز کے مختلف ایونٹس میں مجموعی طور پر چھ عالمی ریکاڈ قائم ہوئے۔ یہاں بھی مجموعی طور پر 101تمغوں کے ساتھ امریکا سب سے آگے تھا۔1996ء کے اولمپکس میں ترکی کے نایم سلیمانگلو نے ویٹ لفٹنگ میں لگاتار تین تمغے حاصل کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا۔سلیمانگلو کے بارے میں ایک ترک صحافی کے الفاظ بڑے دلچسپ ہیں ''یہ جب کسی ہوٹل میں کھانا کھاتا ہے تو اس سے بِل نہیں لیا جاتا اور اگر یہ سڑک پر حد رفتار سے تجاوز بھی کر جائے تو پولیس اسے جرمانہ نہیں کرتی بلکہ سفر بخیر کہہ کر نیک تمناؤں کا اظہار کرتی ہے''



2000ء میں اولمپکس مقابلے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں منعقد ہوئے۔پیچ والی بال،ماؤنٹین بائیکنگ،لائٹ ویٹ روئنگ اور خواتین کا فٹ بال پہلی بار اسی ایونٹ پر اولمپکس میں شامل کی گیا۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت کے باعث ان اولمپکس میں شمولیت پر پابندی تھی۔ ان مقابلوں میں پاکستان نے ہاکی کی کارکردگی کی ماضی کی روایت کو برقرار نہ رکھا اور سات میں سے پانچ میچ میں اسے شکست ہوئی۔ یہاں بھی 93 تمغوں کے ساتھ امریکا سرفہرست تھا۔ان مقابلوں میں سات نئے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے۔یہاں بھی کئی یادگار کامیابیاں شائقین نے دیکھیں ۔ ریوکو تیمورا 48کلو گرام کے جوڈو مقابلوں میں سابقہ دو اولمپکس میں شکست سے دوچار ہوئے تھے انہوں نے اب کی بارسونے کا تمغہ حاصل کر کے ایک بار پھر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔انہی مقابلوں میں سٹیون ریڈگریو نے روئنگ میں مسلسل پانچ سونے کے تمغے حاصل کر کے تاریخ رقم کی۔



2004ء اولمپکس گیمز یونان کے شہر ایتھنز میں 1906ء کے بعد دوبارہ واپس آئیں۔ ان کھیلوں میں افغانستان سمیت 202ممالک شامل ہوئے اور مجموعی طور پر 31نئے عالمی ریکارڈ بنے۔ ان مقابلوں میں پاکستانی ٹیم سات میں سے پانچ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ اولمپکس کی تاریخ کا مقبول ترین ایونٹ تھا جسے مجموعی طور پر 3ارب 9کروڑ بلین افراد نے ٹیلی وژن پر دیکھا اور اسی موقع پر پہلی بار خواتین کی ریسلنگ بھی اولمپکس کا حصہ بنی۔



2008ء میں اولمپکس گیمز چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقد ہوئیں جن میں مجموعی طور پر 204ممالک نے شرکت کی اور یہ اولمپکس کی تاریخ کی اُس وقت تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔اس ایونٹ میں مجموعی طور پر 25نئے ورلڈ ریکارڈ بنے اور امریکا 31تمغوں کے ساتھ سر فہرست تھا جبکہ آسٹریلیا کا نمبر دوسرا تھا۔اس بار مینگولیا اور پاناما نے بھی اپنے اپنے ملکوں کے لیے ایک ایک تمغہ حاصل کیا۔ان اولمپکس میں میڈیا پر امریکی تیراک مائیکل فیلپس اور یوسین بولٹ اپنی شاندار کارکردگی کے باعث چھائے رہے۔



2012ء اولمپکس گیمز لندن میں منعقد ہوئیں جن میں 204ممالک کے 10ہزار 5 سو کھلاڑی شریک ہوئے۔ ان اولمپکس کے آٹھ کھیلوںمیں 32نئے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے اور ان میں 8صرف تیراکی سے متعلق ہیں۔ ان مقابلوں میں 46تمغوں کے ساتھ امریکا سب سے آگے تھا۔ ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے 2کروڑ کے قریب لوگوں نے لندن کا سفر کیا اور یہ تماشائیوں کی ریکارڈ تعداد ہے۔



2016ء کی اولمپکس برازیل کے شہر ریوڈی جنیریو میں چل رہی ہیں جس میں 207ممالک کے 11ہزار178کھلاڑی شامل ہیں ۔ یہ مقابلے 5اگست کو شروع ہوئے ہیں جو 21اگست تک جاری رہیں گے اور فی الوقت جب یہ سطور رقم کی جا رہی ہیں امریکا 59 تمغوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ 41تمغوں کے ساتھ چین دوسرے نمبر پر ہے ۔ ان مقابلوں میں اب تک نئے 66عالمی ریکارڈ بن چکے ہیں۔
Load Next Story