حقائق کاسامناضروری ہے
"حکم ربی"یہی ہے کہ مسلمان اپنے"عصر"کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزرایں
"حکم ربی"یہی ہے کہ مسلمان اپنے"عصر"کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزرایں۔ خدا نے "زمانے" کی قسم کھائی ہے۔یہی صورتحال آقاؐکی احادیث مبارکہ میں ہے۔بارباربتایاگیاہے کہ اپنے زمانے کے مطابق رہیں۔ احکامات کی روشنی میں موجودہ حالات میں مسلمان ملکوں کے طرزعمل کوسمجھنا اور پرکھنا اَشد ضروری ہے۔ دیگرممالک کے متعلق بات کرنے سے پہلے دیکھناچاہیے کہ ہماراملک اور قوم عمومی طرزعمل میں کس طرف گامزن ہے۔
سنجیدہ معاملات میں معاشرے میں مروجہ رائے کے برعکس لکھناقدرے مشکل اَمرہے۔ عملی رویہ میں پاکستانی قوم کی اکثریت مکمل طور پر سیکولر ہے۔ طرز کاروبار، عملی قوانین اورذاتی طرزعمل بذات خودایک دلیل ہے۔ مگر ہمارے آئین میں درج ہے کہ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں،لہٰذاپوری دنیا میں ہمیں ایک مخصوص منفی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ متحدہ امارات، موراکو، ملائشیابھی مسلمان ممالک ہیں۔ مگر دنیا کا ان کے معاملات دیکھنے کاطریقہ بالکل مختلف ہے۔ حیرت انگیزبات ہے کہ ہندوستان عملی طورپرایک ہندو بنیاد پرست ریاست ہے مگر اس نے اپنے اوپر "سیکولر" ہونے کالیبل چسپاں کررکھا ہے۔
مغربی دنیا، ہندوستان کے اندورنی خلفشارسے مکمل صرفِ نظر کرکے اس کے متعلق کچھ بھی منفی سننے کو تیار نہیں۔ مقام فکر ہے کہ بالاخرہم بیرونی یا بالخصوص مغربی دنیاسے کیسے قدم ملاکرچل سکتے ہیں۔ پاکستان سے کسی بھی دانشور نے اس حساس موضوع پرمسلسل لکھنے کی کوشش نہیں کی۔کسی مذہبی رہنمانے بھی ہمیں سمجھانے کے لیے کسی قسم کی رہنمائی نہیں کی۔نتیجہ یہ کہ اکثریت ذہنی کشمکش اورالجھاؤ کا شکار ہوچکی ہے۔ اجتہادکی غیرموجودگی میں دینی تقاضوں کے مطابق اکیسویں صدی میں کیسے آگے بڑھنا ہے۔ اس پر مکمل خاموشی ہے۔
تاریخی تناظرمیں جائے بغیرعرض کرونگاکہ پاکستان کے باسیوں کی شخصیت تہہ درتہہ دارہوچکی ہے۔مگردوعملی یامنافقت ہمارااصل شعار ہے۔بے مقصدجھوٹ ہماری قومی سرشت ہے۔عملی مثال دیناچاہتاہوں۔پورنوگرافی یعنی فحش تصاویردیکھنے میں پاکستان دنیامیںپہلے نمبر پر ہے۔حیران کن بات ہے کہ جن ممالک میں فلمیں بنتی ہیں، وہاں اسے صرف کاروبارکی حیثیت سے لیاجاتاہے۔مگر صارفین میں سب سے زیادہ لوگ اسلامی ممالک میں ہیں۔ ایران،مصر،ترکی اورسعودی عرب بھی اس فہرست میں جگمگا رہے ہیں۔شائدآپکویقین نہ آئے،مگریہ صارفین صرف مردہی نہیں ہیں بلکہ خواتین بھی اس میں بھرپور طریقے سے شامل ہیں۔ان نیک ممالک کی حکومتیں بہت مطمئن ہیں کہ ہم نے ان ویب سائٹس کوبندکر دیا ہے۔مگرانسانی جبلت اورفطرت نے ہزاروں نئے اور انوکھے راستے ڈھونڈلیے ہیں۔آج تک کسی مسلمان مذہبی یاسیاسی لیڈر نے اس شجرممنوعہ عنوان پرمدلل بحث نہیں کی۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان،سعودی عرب اور ایران میں لوگ اس منفی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
منشیات کے استعمال پرنظردوڑائیے۔شراب دینی اعتبارسے ممنوع ہے اوریہ ممانعت بالکل درست ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں23فیصدٹریفک حادثات صرف اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ڈرائیور مرد اور خواتین، خمارکی کیفیت میں ہوتے ہیں۔چودہ فیصدجرائم کی اصل وجہ مے نوشی گردانی جاتی ہے۔گھریلوتنازعے،خانگی مسائل میں سے بیشتراسی علت کاشاخسانہ ہیں۔مغرب میں نے نوشی کے متعلق انتہائی سخت قوانین موجودہیں۔ایک امریکی ڈاکٹرمجھے کہنے لگے کہ اگرپولیس حالت غیرمیں گاڑی چلاتے چیک کرلے،تووہ نہ صرف جیل کی کال کوٹھری میں سڑتارہیگابلکہ ڈاکٹری کالائسنس بھی معطل کردیاجائیگا۔یہ اتنی بڑی سزاہے جوکسی بھی انسان کوبربادکرسکتی ہے۔
اس کا تابناک مستقبل ختم ہوسکتاہے۔پوری مغربی دنیامیں بالکل ایسے ہی معاملات ہیں۔پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے بلکہ انتہائی تشویش ناک ہے۔رائج الوقت قانون کے تحت پاکستان میں صرف غیرمسلم لوگ شراب خریدسکتے ہیں۔ ان کے استعمال پربھی کوئی قانونی پابندی نہیں۔1977ء سے اب تک معروضی حالات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بننے والی پچانوے فیصدشراب مسلمان استعمال کرتے ہیں۔پرمٹ یالائسنس غیرمسلموں کے نام پرجاری کیے جاتے ہیں۔ایک پوری بلیک مارکیٹ وجودمیں آچکی ہے۔اس کاروبارمیں منافع اس درجہ زیادہ ہے کہ بڑے بڑے معززلوگ شامل ہوچکے ہیں۔اس وقت ڈیڑھ کروڑ پاکستانی مرداورخواتین باقاعدگی سے اس علت میں مصروف ہیں۔کسی غیرملکی ہوائی جہازمیں سفر کیجیے۔
اکثر معززین جہازاُڑنے کے بعدپہلی فرمائش صرف اور صرف "دختررز" کی ہی کرتے ہیں۔صورتحال کاخطرناک ترین پہلو یہ بھی ہے کہ جعلی اورغیرمعیاری شراب بنانے کی فیکٹریاں کھل چکی ہیں۔یہ لوگوں کی صحت کوبربادکررہی ہیں۔انکوقتل کیا جارہاہے۔گھربربادہورہے ہیں۔مگرہم نے تمام صورتحال پر سفیدخوبصورت ساغلاف چڑھا دیا ہے۔
ہمارا بیانیہ ہے، کہ نہیں اس پاک ملک میں سارے فرشتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی شراب نوشی نہیں کررہا۔ہرچیزٹھیک ہے۔ اسلام آباد، لاہور،کراچی میں سب کومعلوم ہے کہ چندبیرونی ملکوں کے سفارت خانے باقاعدہ شراب فروخت کرنے کے کاروبار میں شریک ہیں۔ان سفارت خانوں کے کارندے سرعام اس کاروبارمیںمصروف ہیں۔مگر ہم اس مسئلہ پرکسی بھی سطح پربات ہی نہیں کرناچاہتے،لہذاکوئی عملی قدم اٹھانا ناممکن ہوچکاہے۔کوئی دانشور،کوئی دیندارعالم ہمیں بتانے کے لیے تیارنہیں کہ اس مشکل سے کس طرح باہر نکلیں۔ گھن کی طرح جوچیزہمیں بربادکرچکی ہے اس پردلیل سے کوئی بات کرنے کوتیارنہیں۔حل کیاہے،کوئی نہیں ذکرکرتا۔ہماری خاموشی اس وقت مکمل جرم بن چکی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اس تمام صورتحال کوتسلیم کرلیاہے اوراس پرکوئی بھی بات کرنے کی جرات نہیں کرتا۔
ایک اورجانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ دنیا کے سب سے خطرناک اورموزی نشے "ہیروئن" کا استعمال ہے۔بطورڈاکٹرعرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس زہر سے سیکڑوں گھرتباہ ہوتے دیکھے ہیں۔اسکااستعمال انسان کو اس ادنیٰ درجہ پرلے جاتاہے کہ تصورکرنامشکل ہے۔ ایک مریض نے بتایاکہ اگرپاؤڈرنہ مل رہاہو اور اس کے پاس پیسے یابیچنے کے لیے بھی کچھ نہ ہو،تو ہیروئن کوحاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد تک بیچ سکتاہے۔جے ٹی۔ کواگلے نے پاکستان میں ہیروئن پرپُرمغزتحقیق کی ہے۔مختلف اخبارات اورجریدوں میں شایع ہوچکی ہے۔ہیروئن استعمال کرنے میں پاکستان دنیامیں اول نمبرپر ہے۔ ستر لاکھ پاکستانی ہیروئن استعمال کر رہے ہیں۔یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
چالیس لاکھ اس خوفناک نشہ کی وجہ سے بے کارہوچکے ہیں۔اس کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔ دوبلین ڈالرکی یہ مارکیٹ منشیات کے تاجروں کی جنت ہے۔سالانہ44ٹن پاؤڈر استعمال کرنے والایہ اسلامی ملک دنیاکے لیے نشانِ عبرت ہے۔اس کے علاوہ دنیامیں ہیروئن کی اسمگلنگ کی سب سے محفوظ رسدگاہ بھی ہے۔ یہاں سے پاؤڈردنیاکے ہرملک میں بھیجا جا رہاہے۔ ڈیوڈبرائنی تحریرکرتاہے کہ اکثرجہادی تنظیمیں پیسہ حاصل کرنے کے لیے ہیروئن کی تجارت کررہی ہیں۔پاکستان کی سات سے آٹھ فیصدآبادی کاشمارنہ زندوں میں ہے اورنہ ہی مردوں میں۔یہ چلتی پھرتی لاشیں،سڑکوں،فٹ پاتھوں اور پارکوں میں عام نظرآتی ہیں۔انجیکشن کے ذریعے پاؤڈر استعمال کرنے کارجہان خطرناک حدتک بڑھ چکا ہے۔اس سے ایڈزاور H.I.V جیسے مہلک امراض وباء کی طرح پھیل چکے ہیں۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہیروئن کااستعمال شراب پرپابندی کے بعدطاعون کی طرح پھیلاہے۔
تحریرشدہ حقیقتیں ہمارے سامنے بلابن کرکھڑی ہو چکی ہیں۔موجودہ رویہ تویہ ہے کہ ان کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے ہی انکارکردیں۔ہم ان کے متعلق بات ہی نہ کریں۔ جب بحث نہیں ہوگی،توان کے وجود اور غیر وجودمیں فرق بھی ختم ہوجائیگا۔ہرعلت پرایک مقدس سفید کپڑا پہنا دیا جاتا ہے ۔اپنے معاشرے میں یہی کررہے ہیں اورکرتے آئے ہیں۔دوسری صورتحال یہ ہے کہ ہم عصرحاضرمیں سانس لیتی ہوئی ان مصیبتوں اوربلاؤں کوآڑے ہاتھوں لیں۔ہم تسلیم کریں،کہ ہاں،یہ ہمارے مسائل ہیں۔ ہرفورم میں ان مسائل پربے لاگ اورمدلل بحث ہو۔
پارلیمنٹ سے لے کر ہر سطح پردلیل اورحقائق کی روشنی میں بات کرنی ضروی ہے۔ صائب ہے کہ مسائل کی وجوہات کو جانچا جائے۔ معاشرے کی گھٹن کو ماپا جائے۔اپنے انقلابی دین کے آفاقی اصولوں کے مطابق علماء لوگوں کوحل بتائیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔صرف منبرسے یہ کہہ دیناکہ یہ سب کچھ حرام ہے اور اس سے انسان دوزخ میں جائیگا،اس سادگی سے سنگین مسائل کوحل نہیں کیا جا سکتا۔یہ موضوعات انتہائی نازک ہیں اورانکاذکر شجرممنوعہ ہے۔اگرہم ان کے سامنے آنکھیں بند کرلینگے تو یہ ہمیں زندہ نگل جائینگے۔انسانی جبلت کوسامنے رکھ کر مناسب حل نکالناہی ہمارے لیے واحدراستہ ہے۔ اگر کوئی اور راستہ منتخب کرینگے توسب کچھ ایساہی چلتا رہیگا۔ بربادی کاالمناک سفرجاری وساری رہیگا۔ اور ہماری خود ساختہ فرشتہ صفت قوم اپنے ہاتھوں خودکشی کرلیگی!
سنجیدہ معاملات میں معاشرے میں مروجہ رائے کے برعکس لکھناقدرے مشکل اَمرہے۔ عملی رویہ میں پاکستانی قوم کی اکثریت مکمل طور پر سیکولر ہے۔ طرز کاروبار، عملی قوانین اورذاتی طرزعمل بذات خودایک دلیل ہے۔ مگر ہمارے آئین میں درج ہے کہ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں،لہٰذاپوری دنیا میں ہمیں ایک مخصوص منفی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ متحدہ امارات، موراکو، ملائشیابھی مسلمان ممالک ہیں۔ مگر دنیا کا ان کے معاملات دیکھنے کاطریقہ بالکل مختلف ہے۔ حیرت انگیزبات ہے کہ ہندوستان عملی طورپرایک ہندو بنیاد پرست ریاست ہے مگر اس نے اپنے اوپر "سیکولر" ہونے کالیبل چسپاں کررکھا ہے۔
مغربی دنیا، ہندوستان کے اندورنی خلفشارسے مکمل صرفِ نظر کرکے اس کے متعلق کچھ بھی منفی سننے کو تیار نہیں۔ مقام فکر ہے کہ بالاخرہم بیرونی یا بالخصوص مغربی دنیاسے کیسے قدم ملاکرچل سکتے ہیں۔ پاکستان سے کسی بھی دانشور نے اس حساس موضوع پرمسلسل لکھنے کی کوشش نہیں کی۔کسی مذہبی رہنمانے بھی ہمیں سمجھانے کے لیے کسی قسم کی رہنمائی نہیں کی۔نتیجہ یہ کہ اکثریت ذہنی کشمکش اورالجھاؤ کا شکار ہوچکی ہے۔ اجتہادکی غیرموجودگی میں دینی تقاضوں کے مطابق اکیسویں صدی میں کیسے آگے بڑھنا ہے۔ اس پر مکمل خاموشی ہے۔
تاریخی تناظرمیں جائے بغیرعرض کرونگاکہ پاکستان کے باسیوں کی شخصیت تہہ درتہہ دارہوچکی ہے۔مگردوعملی یامنافقت ہمارااصل شعار ہے۔بے مقصدجھوٹ ہماری قومی سرشت ہے۔عملی مثال دیناچاہتاہوں۔پورنوگرافی یعنی فحش تصاویردیکھنے میں پاکستان دنیامیںپہلے نمبر پر ہے۔حیران کن بات ہے کہ جن ممالک میں فلمیں بنتی ہیں، وہاں اسے صرف کاروبارکی حیثیت سے لیاجاتاہے۔مگر صارفین میں سب سے زیادہ لوگ اسلامی ممالک میں ہیں۔ ایران،مصر،ترکی اورسعودی عرب بھی اس فہرست میں جگمگا رہے ہیں۔شائدآپکویقین نہ آئے،مگریہ صارفین صرف مردہی نہیں ہیں بلکہ خواتین بھی اس میں بھرپور طریقے سے شامل ہیں۔ان نیک ممالک کی حکومتیں بہت مطمئن ہیں کہ ہم نے ان ویب سائٹس کوبندکر دیا ہے۔مگرانسانی جبلت اورفطرت نے ہزاروں نئے اور انوکھے راستے ڈھونڈلیے ہیں۔آج تک کسی مسلمان مذہبی یاسیاسی لیڈر نے اس شجرممنوعہ عنوان پرمدلل بحث نہیں کی۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان،سعودی عرب اور ایران میں لوگ اس منفی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
منشیات کے استعمال پرنظردوڑائیے۔شراب دینی اعتبارسے ممنوع ہے اوریہ ممانعت بالکل درست ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکا میں23فیصدٹریفک حادثات صرف اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ڈرائیور مرد اور خواتین، خمارکی کیفیت میں ہوتے ہیں۔چودہ فیصدجرائم کی اصل وجہ مے نوشی گردانی جاتی ہے۔گھریلوتنازعے،خانگی مسائل میں سے بیشتراسی علت کاشاخسانہ ہیں۔مغرب میں نے نوشی کے متعلق انتہائی سخت قوانین موجودہیں۔ایک امریکی ڈاکٹرمجھے کہنے لگے کہ اگرپولیس حالت غیرمیں گاڑی چلاتے چیک کرلے،تووہ نہ صرف جیل کی کال کوٹھری میں سڑتارہیگابلکہ ڈاکٹری کالائسنس بھی معطل کردیاجائیگا۔یہ اتنی بڑی سزاہے جوکسی بھی انسان کوبربادکرسکتی ہے۔
اس کا تابناک مستقبل ختم ہوسکتاہے۔پوری مغربی دنیامیں بالکل ایسے ہی معاملات ہیں۔پاکستان میں صورتحال بالکل مختلف ہے بلکہ انتہائی تشویش ناک ہے۔رائج الوقت قانون کے تحت پاکستان میں صرف غیرمسلم لوگ شراب خریدسکتے ہیں۔ ان کے استعمال پربھی کوئی قانونی پابندی نہیں۔1977ء سے اب تک معروضی حالات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بننے والی پچانوے فیصدشراب مسلمان استعمال کرتے ہیں۔پرمٹ یالائسنس غیرمسلموں کے نام پرجاری کیے جاتے ہیں۔ایک پوری بلیک مارکیٹ وجودمیں آچکی ہے۔اس کاروبارمیں منافع اس درجہ زیادہ ہے کہ بڑے بڑے معززلوگ شامل ہوچکے ہیں۔اس وقت ڈیڑھ کروڑ پاکستانی مرداورخواتین باقاعدگی سے اس علت میں مصروف ہیں۔کسی غیرملکی ہوائی جہازمیں سفر کیجیے۔
اکثر معززین جہازاُڑنے کے بعدپہلی فرمائش صرف اور صرف "دختررز" کی ہی کرتے ہیں۔صورتحال کاخطرناک ترین پہلو یہ بھی ہے کہ جعلی اورغیرمعیاری شراب بنانے کی فیکٹریاں کھل چکی ہیں۔یہ لوگوں کی صحت کوبربادکررہی ہیں۔انکوقتل کیا جارہاہے۔گھربربادہورہے ہیں۔مگرہم نے تمام صورتحال پر سفیدخوبصورت ساغلاف چڑھا دیا ہے۔
ہمارا بیانیہ ہے، کہ نہیں اس پاک ملک میں سارے فرشتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی شراب نوشی نہیں کررہا۔ہرچیزٹھیک ہے۔ اسلام آباد، لاہور،کراچی میں سب کومعلوم ہے کہ چندبیرونی ملکوں کے سفارت خانے باقاعدہ شراب فروخت کرنے کے کاروبار میں شریک ہیں۔ان سفارت خانوں کے کارندے سرعام اس کاروبارمیںمصروف ہیں۔مگر ہم اس مسئلہ پرکسی بھی سطح پربات ہی نہیں کرناچاہتے،لہذاکوئی عملی قدم اٹھانا ناممکن ہوچکاہے۔کوئی دانشور،کوئی دیندارعالم ہمیں بتانے کے لیے تیارنہیں کہ اس مشکل سے کس طرح باہر نکلیں۔ گھن کی طرح جوچیزہمیں بربادکرچکی ہے اس پردلیل سے کوئی بات کرنے کوتیارنہیں۔حل کیاہے،کوئی نہیں ذکرکرتا۔ہماری خاموشی اس وقت مکمل جرم بن چکی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اس تمام صورتحال کوتسلیم کرلیاہے اوراس پرکوئی بھی بات کرنے کی جرات نہیں کرتا۔
ایک اورجانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ دنیا کے سب سے خطرناک اورموزی نشے "ہیروئن" کا استعمال ہے۔بطورڈاکٹرعرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس زہر سے سیکڑوں گھرتباہ ہوتے دیکھے ہیں۔اسکااستعمال انسان کو اس ادنیٰ درجہ پرلے جاتاہے کہ تصورکرنامشکل ہے۔ ایک مریض نے بتایاکہ اگرپاؤڈرنہ مل رہاہو اور اس کے پاس پیسے یابیچنے کے لیے بھی کچھ نہ ہو،تو ہیروئن کوحاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد تک بیچ سکتاہے۔جے ٹی۔ کواگلے نے پاکستان میں ہیروئن پرپُرمغزتحقیق کی ہے۔مختلف اخبارات اورجریدوں میں شایع ہوچکی ہے۔ہیروئن استعمال کرنے میں پاکستان دنیامیں اول نمبرپر ہے۔ ستر لاکھ پاکستانی ہیروئن استعمال کر رہے ہیں۔یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
چالیس لاکھ اس خوفناک نشہ کی وجہ سے بے کارہوچکے ہیں۔اس کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔ دوبلین ڈالرکی یہ مارکیٹ منشیات کے تاجروں کی جنت ہے۔سالانہ44ٹن پاؤڈر استعمال کرنے والایہ اسلامی ملک دنیاکے لیے نشانِ عبرت ہے۔اس کے علاوہ دنیامیں ہیروئن کی اسمگلنگ کی سب سے محفوظ رسدگاہ بھی ہے۔ یہاں سے پاؤڈردنیاکے ہرملک میں بھیجا جا رہاہے۔ ڈیوڈبرائنی تحریرکرتاہے کہ اکثرجہادی تنظیمیں پیسہ حاصل کرنے کے لیے ہیروئن کی تجارت کررہی ہیں۔پاکستان کی سات سے آٹھ فیصدآبادی کاشمارنہ زندوں میں ہے اورنہ ہی مردوں میں۔یہ چلتی پھرتی لاشیں،سڑکوں،فٹ پاتھوں اور پارکوں میں عام نظرآتی ہیں۔انجیکشن کے ذریعے پاؤڈر استعمال کرنے کارجہان خطرناک حدتک بڑھ چکا ہے۔اس سے ایڈزاور H.I.V جیسے مہلک امراض وباء کی طرح پھیل چکے ہیں۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہیروئن کااستعمال شراب پرپابندی کے بعدطاعون کی طرح پھیلاہے۔
تحریرشدہ حقیقتیں ہمارے سامنے بلابن کرکھڑی ہو چکی ہیں۔موجودہ رویہ تویہ ہے کہ ان کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے ہی انکارکردیں۔ہم ان کے متعلق بات ہی نہ کریں۔ جب بحث نہیں ہوگی،توان کے وجود اور غیر وجودمیں فرق بھی ختم ہوجائیگا۔ہرعلت پرایک مقدس سفید کپڑا پہنا دیا جاتا ہے ۔اپنے معاشرے میں یہی کررہے ہیں اورکرتے آئے ہیں۔دوسری صورتحال یہ ہے کہ ہم عصرحاضرمیں سانس لیتی ہوئی ان مصیبتوں اوربلاؤں کوآڑے ہاتھوں لیں۔ہم تسلیم کریں،کہ ہاں،یہ ہمارے مسائل ہیں۔ ہرفورم میں ان مسائل پربے لاگ اورمدلل بحث ہو۔
پارلیمنٹ سے لے کر ہر سطح پردلیل اورحقائق کی روشنی میں بات کرنی ضروی ہے۔ صائب ہے کہ مسائل کی وجوہات کو جانچا جائے۔ معاشرے کی گھٹن کو ماپا جائے۔اپنے انقلابی دین کے آفاقی اصولوں کے مطابق علماء لوگوں کوحل بتائیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔صرف منبرسے یہ کہہ دیناکہ یہ سب کچھ حرام ہے اور اس سے انسان دوزخ میں جائیگا،اس سادگی سے سنگین مسائل کوحل نہیں کیا جا سکتا۔یہ موضوعات انتہائی نازک ہیں اورانکاذکر شجرممنوعہ ہے۔اگرہم ان کے سامنے آنکھیں بند کرلینگے تو یہ ہمیں زندہ نگل جائینگے۔انسانی جبلت کوسامنے رکھ کر مناسب حل نکالناہی ہمارے لیے واحدراستہ ہے۔ اگر کوئی اور راستہ منتخب کرینگے توسب کچھ ایساہی چلتا رہیگا۔ بربادی کاالمناک سفرجاری وساری رہیگا۔ اور ہماری خود ساختہ فرشتہ صفت قوم اپنے ہاتھوں خودکشی کرلیگی!