احتساب کو موثر بنانے کی ضرورت
جیسا کہ واضع ہو چکا ہے کہ کرپشن‘ منظم جرائم اور دہشت گردی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے
جیسا کہ واضع ہو چکا ہے کہ کرپشن' منظم جرائم اور دہشت گردی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے تاہم کرپشن کے انسداد کے لیے ہمارا اپنا رویہ راہ کی رکاوٹ ہے۔ اس حوالے سے صاحبان اختیار میں عزم صمیم کا نمایاں فقدان ہے۔ کرپشن نے ہمارے پورے معاشرے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، اس حد تک کہ کرپشن میں ملوث افراد کرپشن کو چھپانے یا احساس جرم کا شکار ہونے کے بجائے الٹا فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ جہاں تک قومی ایکشن پلان کی تنفیذ کا معاملہ ہے تو یہ تو صرف آئس برگ کی چوٹی ہے جو نظر آ رہی ہے، اصل پہاڑ تو زیر آب چھپا ہوا ہے۔
اس بات کا تو کوئی حساب ہی نہیں کہ ہم کسقدر انحطاط کا شکار ہو چکے ہیں حتیٰ کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات بھی منفی تبصروں سے مبرا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرے کا لازمی جزو بن چکی ہے جس کو ہمارا نام نہاد جمہوری نظام اور زیادہ تقویت دیتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اس علت سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا، خواہ وہ سول ہوں یا ملٹری سے متعلق ہوں اور انکو مشورے دینے والے وہ موقع پرست بیوروکریٹس ہیں جن کا اپنا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے بینکوں کے قرضے ہضم کرنیوالوں سے اپنے قیام کے پہلے دو سال میں50 ارب روپے کی برآمدگی کر لی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو قائل کر لیا کہ اس طرح سے کاروبار میں نئی سرمایہ کاری متاثر ہو جائے گی۔ اس کے بعد 2000ء میں نیب کے آرڈیننس میں دوسری ترمیم کی گئی جس کے تحت قرض نادہندگان سے مزید وصولیاں روک دی گئیں حالانکہ ان کے ذمے بہت بھاری رقوم ابھی تک واجب الادا ہیں۔
نیب کا پلی بارگین نظریہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کرپشن کی رقم کا محض تھوڑا سا وصول کرنے کے بعد ان افراد کو کلین چٹ دیدی جائے جو اپنی غیر قانونی رقم مختلف کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پاناما لیکس کے انکشاف کے 5 ماہ بعد مسلم لیگ ن کی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے گی اور نہ ہی ان رقوم کی آمدنی کے ذرایع کے بارے میں کچھ بتائے گی۔
وزیراعظم کی فیملی کے بعض اراکین نے آف شور کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کے لیے انھیں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا جب کہ منافع کی رقوم سے انھوں نے بیرون ممالک جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ اس حوالے سے تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے لیکن اس کمیشن کے قیام کے لیے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) طے کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو رہا۔ پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن وزیراعظم کو ملوث کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف وہ زرداری کی کرپشن سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی واقعی پانامالیکس کے حوالے سے احتساب پر مخلص ہے؟ کیا عمران خان سیاسی طور پر اسقدر نابلد ہیں کہ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی موقع ملتے ہی پی ٹی آئی کے قدموں تلے سے قالین نہیں کھینچے گی؟ ریاستی مشینری جس میں ایف بی آر' اسٹیٹ بینک اور الیکشن کمیشن شامل ہیں انھوں نے کسی انکوائری کو بے اثر کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ کرپٹ لوگوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے سپریم کورٹ نے نیب کے ان افسروں کے خلاف سووموٹو ایکشن لے لیا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری سمت کیا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ میں بڑی عزت اور احترام سے عرض کروں گا کہ یہ دیانت دار افسروں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ وہ مخصوص کرپٹ لوگوں کا تعاقب چھوڑ دیں۔ نیب کا آرڈیننس سیکشن 18 بی یہ اختیار تفویض کرتا ہے کہ جن افراد کی پانامالیکس میں نشاندہی کی گئی ہے وہ اپنے اثاثوں کا اعلان کریں ورنہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ایف بی آر' ایف آئی اے' پولیس اور نیب کی ٹیمیں ان کے خلاف تحقیقات کریں گی۔ اگر ملزم اپنی جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور اپنے ذرایع آمدنی کی تفصیل نہ بتا سکے تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکے گی۔
لیکن کچھ نہیں کیا جا رہا۔اس حوالے سے بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کے تمام اراکین کا ٹیکس ادائیگی کا ریکارڈ بہت کمزور ہے۔ وہ لوگ جان بوجھ کر ٹیکس دہندگی سے اغماض برتتے ہیں تا کہ یہ غیرقانونی رقم بیرون ملک منتقل کی جا سکے۔ اگرچہ منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان کے قوانین بہت موثر ہیں لیکن ان قوانین کو سختی سے نافذ کیے بغیر ہم شفافیت کے بین الاقوامی معیار پر کس طرح پورا اتر سکتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے بارے میں اسٹیٹ بینک کے قوانین بھی بہت واضح ہیں لیکن لگتا ہے کہ بعض افراد کو بآسانی نظر انداز کر کے انھیں بچاؤ کا راستہ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔
نیب نے جب سیاسی کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو بعض سیاستدانوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی اور اس پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر خود وزیراعظم محترم نے نیب کے پر کاٹنے کی دھمکی دیدی۔ حالانکہ نیب کے قانون کے مطابق وہ جس کا چاہیں احتساب کر سکتی ہے۔ حال ہی میں ایک بہت سینئر ریٹائرڈ آرمی آفیسر جن کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے اور جو میرے ایک بہت قریبی دوست کے والد ہیں ان کو نیب نے حراست میں لے لیا۔ میرے دوست نے درخواست کی کہ میں مداخلت کروں۔ نیب حکام نے اپنا دفاع کرنے کے بجائے بڑے سکون سے اس مقدمے کے تمام حقائق کی وضاحت کی حالانکہ وہ چاہتے تو انکار بھی کر سکتے تھے۔
ان کی تحقیقات درست تھیں لہٰذا میرے دوست کے والد نے وہ تمام رقم واپس کر دی جس کا ان پر الزام تھا اور ساتھ ہی نیب کے افسروں کے حسن سلوک کا شکریہ بھی ادا کیا لیکن جو بھاری رقوم سیاستدانوں نے خورد برد کی ہیں ان کی برآمدگی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں کیونکہ سیاستدان بہت بااثر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے لیے نجات کا راستہ یہی ہے کہ چیئرمین نیب کو مکمل آزادی سے اپنا فرض منصبی ادا کرنے دیا جائے۔
اس بات کا تو کوئی حساب ہی نہیں کہ ہم کسقدر انحطاط کا شکار ہو چکے ہیں حتیٰ کہ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز شخصیات بھی منفی تبصروں سے مبرا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کرپشن ہمارے معاشرے کا لازمی جزو بن چکی ہے جس کو ہمارا نام نہاد جمہوری نظام اور زیادہ تقویت دیتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اس علت سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا، خواہ وہ سول ہوں یا ملٹری سے متعلق ہوں اور انکو مشورے دینے والے وہ موقع پرست بیوروکریٹس ہیں جن کا اپنا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے بینکوں کے قرضے ہضم کرنیوالوں سے اپنے قیام کے پہلے دو سال میں50 ارب روپے کی برآمدگی کر لی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو قائل کر لیا کہ اس طرح سے کاروبار میں نئی سرمایہ کاری متاثر ہو جائے گی۔ اس کے بعد 2000ء میں نیب کے آرڈیننس میں دوسری ترمیم کی گئی جس کے تحت قرض نادہندگان سے مزید وصولیاں روک دی گئیں حالانکہ ان کے ذمے بہت بھاری رقوم ابھی تک واجب الادا ہیں۔
نیب کا پلی بارگین نظریہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کرپشن کی رقم کا محض تھوڑا سا وصول کرنے کے بعد ان افراد کو کلین چٹ دیدی جائے جو اپنی غیر قانونی رقم مختلف کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پاناما لیکس کے انکشاف کے 5 ماہ بعد مسلم لیگ ن کی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دے گی اور نہ ہی ان رقوم کی آمدنی کے ذرایع کے بارے میں کچھ بتائے گی۔
وزیراعظم کی فیملی کے بعض اراکین نے آف شور کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس کے لیے انھیں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا جب کہ منافع کی رقوم سے انھوں نے بیرون ممالک جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ اس حوالے سے تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے لیکن اس کمیشن کے قیام کے لیے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) طے کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو رہا۔ پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن وزیراعظم کو ملوث کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف وہ زرداری کی کرپشن سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی واقعی پانامالیکس کے حوالے سے احتساب پر مخلص ہے؟ کیا عمران خان سیاسی طور پر اسقدر نابلد ہیں کہ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی موقع ملتے ہی پی ٹی آئی کے قدموں تلے سے قالین نہیں کھینچے گی؟ ریاستی مشینری جس میں ایف بی آر' اسٹیٹ بینک اور الیکشن کمیشن شامل ہیں انھوں نے کسی انکوائری کو بے اثر کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ کرپٹ لوگوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے سپریم کورٹ نے نیب کے ان افسروں کے خلاف سووموٹو ایکشن لے لیا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری سمت کیا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ میں بڑی عزت اور احترام سے عرض کروں گا کہ یہ دیانت دار افسروں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ وہ مخصوص کرپٹ لوگوں کا تعاقب چھوڑ دیں۔ نیب کا آرڈیننس سیکشن 18 بی یہ اختیار تفویض کرتا ہے کہ جن افراد کی پانامالیکس میں نشاندہی کی گئی ہے وہ اپنے اثاثوں کا اعلان کریں ورنہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ایف بی آر' ایف آئی اے' پولیس اور نیب کی ٹیمیں ان کے خلاف تحقیقات کریں گی۔ اگر ملزم اپنی جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور اپنے ذرایع آمدنی کی تفصیل نہ بتا سکے تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکے گی۔
لیکن کچھ نہیں کیا جا رہا۔اس حوالے سے بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کے تمام اراکین کا ٹیکس ادائیگی کا ریکارڈ بہت کمزور ہے۔ وہ لوگ جان بوجھ کر ٹیکس دہندگی سے اغماض برتتے ہیں تا کہ یہ غیرقانونی رقم بیرون ملک منتقل کی جا سکے۔ اگرچہ منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان کے قوانین بہت موثر ہیں لیکن ان قوانین کو سختی سے نافذ کیے بغیر ہم شفافیت کے بین الاقوامی معیار پر کس طرح پورا اتر سکتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے بارے میں اسٹیٹ بینک کے قوانین بھی بہت واضح ہیں لیکن لگتا ہے کہ بعض افراد کو بآسانی نظر انداز کر کے انھیں بچاؤ کا راستہ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔
نیب نے جب سیاسی کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو بعض سیاستدانوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی اور اس پر اپنی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر خود وزیراعظم محترم نے نیب کے پر کاٹنے کی دھمکی دیدی۔ حالانکہ نیب کے قانون کے مطابق وہ جس کا چاہیں احتساب کر سکتی ہے۔ حال ہی میں ایک بہت سینئر ریٹائرڈ آرمی آفیسر جن کی عمر 80 سال سے زیادہ ہے اور جو میرے ایک بہت قریبی دوست کے والد ہیں ان کو نیب نے حراست میں لے لیا۔ میرے دوست نے درخواست کی کہ میں مداخلت کروں۔ نیب حکام نے اپنا دفاع کرنے کے بجائے بڑے سکون سے اس مقدمے کے تمام حقائق کی وضاحت کی حالانکہ وہ چاہتے تو انکار بھی کر سکتے تھے۔
ان کی تحقیقات درست تھیں لہٰذا میرے دوست کے والد نے وہ تمام رقم واپس کر دی جس کا ان پر الزام تھا اور ساتھ ہی نیب کے افسروں کے حسن سلوک کا شکریہ بھی ادا کیا لیکن جو بھاری رقوم سیاستدانوں نے خورد برد کی ہیں ان کی برآمدگی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں کیونکہ سیاستدان بہت بااثر ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے لیے نجات کا راستہ یہی ہے کہ چیئرمین نیب کو مکمل آزادی سے اپنا فرض منصبی ادا کرنے دیا جائے۔