ایک ریکارڈ جل گیا دوسرے کی باری ہے

صوبہ سندھ کے کئی اضلاع تو ایسے ہیں جہاں لگتا ہی نہیں یہ حکومت پاکستان کا حصہ ہیں۔

saifuzzaman1966@gmail.com

LONDON:
صوبہ سندھ کے کئی اضلاع تو ایسے ہیں جہاں لگتا ہی نہیں یہ حکومت پاکستان کا حصہ ہیں۔ جیسے ایک چھوٹی سی خبر اخبار میں پڑھی۔ ''میونسپل کارپوریشن لاڑکانہ کی عمارت میں آگ لگ گئی، 8 سالہ ریکارڈ جل کر خاکستر ہوگیا، میونسپل کارپوریشن لاڑکانہ کو 8 سال میں 70 ارب ترقیاتی اخراجات کی مد میں دیے گئے''۔ قارئین کرام ذرا حساب لگائیے۔

5 سال پی پی پی کی حکومت کے، 3 سال موجودہ سندھ حکومت جس میں بھی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت موجود۔ آپ کو یاد ہوگا پچھلے کچھ مہینوں سے وہاں کرپشن کی تحقیقات بھی ہو رہی تھیں، جس میں کچھ بڑے نام، کچھ بہت بڑے، 70 ارب کی خطیر رقم کی خوردبرد میں پائے گئے۔ وہاں رینجرز اور نیب نے چھاپہ مار کر ریکارڈ لینے کی کوشش کی، جس میں اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ کے بھائی اور ان کے ایک دوست نے مزاحمت کی، جو ان دنوں جیل میں ہیں۔ میں واقعے کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ وہ آپ کے علم میں ہے۔ لیکن لاڑکانہ میں سرکاری، نیم سرکاری محکموں میں کرپشن کی شرح 100 فیصد ہے اور اب میونسپل کارپوریشن کو ہی آگ لگ گئی یا لگا دی گئی۔

یہ بھٹوز کا لاڑکانہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شہر، بے نظیر بھٹو کا لاڑکانہ، جسے لوٹ کر برباد کردیا گیا۔ ایسا کھنڈر بنادیا جیسے موئن جو دڑو۔ وہاں اب دیکھنے کے لائق کچھ نہیں، البتہ سوگ منانے کے لیے کچھ مزارات ہیں، جن پر سال کے مخصوص دن میں چادر چڑھا دی جاتی ہے۔ فاتحہ خوانی، آخر میں ایک جلسہ، جس میں تقاریر کا موضوع شہدا کے لیے نیک تمناؤں کے بجائے سندھ کی حفاظت کا عزم ہوتا ہے۔

سندھیوں کو خوفزدہ کرنے اور رکھنے کے لیے بیان پر سارا زور صرف۔ جاگتے رہو، ورنہ سندھ پر قبضہ ہوجائے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا سندھ کی حفاظت کن سے؟ اور قبضہ کس کا؟ لیکن میں نے اکثر جلسوں میں دیکھا عوام خاموشی یا بے چارگی سے وہاں موجود ہوکر بھی نہیں ہوتے۔ صاف لگتا ہے وہ وہاں لنگر کھلنے کے منتظر ہیں۔ ہر جوش و ولولے سے عاری۔ جو اچھی طرح جانتے ہیں مقررین کی نیت کو کہ وہ شہدا سے کس قدر مخلص ہیں۔ وہ لاڑکانہ کے رہائشی شہر کا حال دیکھ چکے، ٹوٹی ہوئی سڑکیں، کھلے مین ہولز، بند اسکول، بے روزگار نوجوان، ڈاکٹرز و دواؤں کے بغیر اسپتال۔ لاڑکانہ جو محترمہ بے نظیر کے وجود سے مہکتا تھا، بھٹو شہید کی شعلہ بیانی سے دہکتا تھا، اب سرد ہوچکا، جل چکا۔ آگ صرف میونسپل کارپوریشن کی عمارت میں نہیں لگی، سارے لاڑکانہ میں لگی۔ لاڑکانہ کو دیکھو تو لگتا ہے جیسے راکھ کا ڈھیر ہو۔ وہاں لوگ نہ ہوں جلی ہوئی لکڑیاں ہوں۔

مسلسل وعدے، جھوٹی تسلیاں، ووٹ لینے جاتے رہے، لوگوں نے نہیں دیے تو الیکشن اسٹاف نے دے دیے، الیکشن بہرحال جیت لیا۔ نعرے لگتے رہے۔ لاڑکانہ ہمارا ہے۔ شہید بھٹو کا۔ ہم اسے لندن پیرس بنادیں گے۔ اور جب کچھ بنانے کا وقت آیا تو اسے بنادیا گیا لیکن موہن جو دڑو، اگرچہ باقی سندھ کا حال بھی کم و بیش لاڑکانہ سے مختلف نہیں۔ لیکن جو حال لاڑکانہ اور نواب شاہ ''ضلع شہید بے نظیر آباد'' کا ہے کسی اور کا نہیں۔ اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ عنقریب ضلع کونسل شہید بے نظیر آباد اور میونسپل کمیٹی نواب شاہ کو بھی آگ لگنے والی ہے۔ یہاں بھی 15 سالہ ریکارڈ راکھ کا ڈھیر بننے والا ہے۔ یہاں 15 سال اس لیے کہ وہ 2001 سے یہاں ناظم اعلیٰ رہے۔


کرپشن کے یہاں بھی نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ ضلع کونسل، میونسپل و ٹاؤن کمیٹیز کا حال عملاً یہ ہے جیسے یہ پارٹی کے ضلعی عہدیداران کے لیے بینک ہوں۔ جس کا جتنا دل چاہا یا جتنی ضرورت اسے درپیش ہوئی، اکاؤنٹ سے اتنی رقم اسے ضلع آفیسر یا ٹاؤن میونسپل آفیسر نے نکال کر دے دی۔ سرکار کے کھاتے سے اتنی رقم کے Bills بھی بنا دیے گئے۔ تمام ضلعی عہدیداران و مشہور و معروف Houses کا پٹرول، ٹیلیفون یہیں سے ادا کیا جاتا ہے اور ایسا تب ہے جب ابھی الیکشن مکمل نہیں ہوئے۔ یا تب تھا جب وہ ناظم اعلیٰ تھے۔ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور رہے گا جب تک ان عمارتوں کو آگ لگے۔ میں ان سب سیاستدانوں کے بیانات روز پڑھتا ہوں جو دہائی دیتے ہیں کہ وہ حکومت کی کرپشن پر ایکشن نہیں لیتا۔ لیکن وہ کوئی ایک بیان سندھ کی کرپٹ حکومت کے لیے نہیں دیتے، بلکہ ان دنوں تو سبھی حکومت کے خلاف جاری مہم میں اتحادی بھی ہیں تو بیان کیسے دیا جائے، یعنی جھوٹ، موقع پرستی، دروغ گوئی۔ وہ پڑے ہیں تخت لاہور کے پیچھے، جہاں سے انھیں مرکز میں حکومت ملنے کی امید ہے۔

ملک کے باقی حصوں کا کیا ہو؟ اس سے انھیں کوئی غرض نہیں، حالانکہ 2013 میں PTI کو ملک بھر سے ووٹ ملے اور وہ انھیں صرف پنجاب کی سیاست کے کرنے کے لیے نہیں دیے گئے تھے، بلکہ امید تھی کہ وہ حق اور سچ کی سیاست کریں گے۔ ان کی جدوجہد یا احتجاج کا میدان پورا ملک ہوگا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ وہ راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور تک اپنی کوششوں کو محدود رکھے ہوئے ہیں۔ سندھ، بلوچستان میں تو وہ جھانک کر بھی نہیں دیکھتے۔ یہ حال ہماری اپوزیشن کا ہے۔ حکومت کا سنیے جس نے سندھ والوں سے ادھر ہم اُدھر تم کا معاہدہ کرلیا۔ یعنی تم اُدھر کھاؤ ہم اِدھر کھائیں۔

میڈیا میں ایک دوسرے پر تنقید، جملے بازی ہو، خراب طرز حکومت پر طعنے دیے جائیں۔ اندرون خانہ مال بنانا گھٹ نہ ہو، ملک ابھی باقی ہے، عوام زندہ ہیں، ادارے موجود۔ تم شہید کا نعرہ لگاؤ، ہم کشمیر کا لگاتے ہیں لیکن میڈیا میں جملے سخت ہونے چاہئیں۔ وہاں نرمی نہ ہو، عوام سنتے ہیں۔ اب یہ قسمت ہے وہ آیندہ کس کے دھوکے میں آئیں۔ آپ کے یا ہمارے جس کے بھی۔ دوسرا گلہ نہ کرے۔ ویسے الیکشن کمیشن کے اراکین کا تقرر ہوچکا۔ امید ہے کہ اپنی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ کسی نے کہا، ارے ملک بھی برقرار رہے گا۔ سمدھی نے جھٹ جواب دیا۔ فوج ہے نا۔ ملک ٹوٹنے نہیں دے گی انشا اللہ۔ عمران خان کا کیا ہوگا؟ شٹل کاک بنائے رکھو۔

قارئین کرام ممکن ہے آپ مجھ سے اختلاف کرکے کہیں کہ صورتحال اتنی بھی بری نہیں۔ میں جواباً کہوں گا جتنی بری ہے اتنی میں پیش نہیں کرسکا۔ کیونکہ لفظ لفظ ہی ہوتے ہیں، تیر، تلوار نہیں۔ آپ ایک حد تک ہی انھیں چبھو سکتے ہیں۔ آپ سانحہ کوئٹہ کو کیا سمجھتے ہیں، وہاں پاک فوج اپنی پوری ذمے داری کے ساتھ لڑ رہی ہے، اس کے جوان ملک پر قربان ہو رہے ہیں، آفیسر رینک کے نوجوان شہید کیے جا رہے ہیں، لیکن اپنے ملک میں جمہوریت کا شگفتہ پھول جو کھلا ہے، پودا جو لگا ہے، اس میں ببول اگتے ہیں، اس کا گلہ کس سے کریں۔ ہر مرتبہ ہم عوام اسے بڑے شوق سے لگاتے ہیں، اپنے خون سے اس پودے کی آبیاری کرتے ہیں، سینچتے ہیں، جب وہ ذرا پھلتا پھولتا ہے اس کے نوکدار کانٹے ہمارے ہی جسم زخمی کردیتے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہی نظام آدھی سے زیادہ دنیا میں رائج ہوکر وہاں کی قوموں کو بھرپور ثمرات دے رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی، انسان کو اعتماد کی نعمت بخش رہی ہے۔ بے مثال ترقی اسی نظام جمہوریت کی بدولت ممکن ہوسکی۔ لیکن پاکستان میں؟ یہاں کیا Problem ہے۔ کہاں اس نظام میں خامی رہ گئی؟ کون سا پیچ ڈھیلا رہ گیا۔ جس کی مرمت کی جائے اور شہید بے نظیر آباد کی ضلع میونسپل کونسل و دیگر ادارے جلنے سے بچ جائیں۔ کوئی احتساب کنندہ آئے تو اسے Record مل جائے۔
Load Next Story