سنی جیآپ تو ایسا نہ کہتے

بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے کہ سیاست اور کرکٹ کا کھیل آپس میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں

ayazkhan@express.com.pk

KARACHI:
کرکٹ کہیں سیاست میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے کہ سیاست اور کرکٹ کا کھیل آپس میں گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد سے بھارت اپنی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت دینے یا ہماری ٹیم کو اپنے ہاں دورے پر بلانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششوں کے بعد اب اس نے بڑی مشکل سے ہاں کی ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم دسمبر میں تین ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کھیلنے بھارت جا رہی ہے۔

دونوں ملکوں میں پانچ سال بعد کرکٹ تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ یہ خوشی کی خبر ہے۔ دونوں طرف کی انتہا پسند قوتوں کو چھوڑ کر تعلقات کی اس بحالی کا مجموعی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے۔ انتہا پسند سیاسی اور مذہبی قوتیں اگر مخالفت کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ بال ٹھاکرے کا یہ کہنا کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنا ''گناہ'' ہے میرے لیے حیرت کا باعث نہیں ہے۔ عمران خان جو اب کرکٹر سے زیادہ سیاست دان ہیں وہ بھی اس دورے کی مخالفت کرتے تو مجھے حیرت نہ ہوتی اور میں اسے ایک سیاستدان کا بیان سمجھ کر نظر انداز کر دیتا، دیگر لوگوں کی طرف سے مخالفت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ مجھے حیرت میں صرف سنیل گواسکر کے بیان نے ڈالا ہے۔ کرکٹ کے اتنے بڑے کھلاڑی کو مخالفت زیب نہیں دیتی۔ سنیل گواسکر کے کھیل کے دیوانے پاکستان میں بھی بہت ہیں۔

یہ وہی گواسکر ہیں جنہوں نے 1992ء کے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کو سپورٹ کیا تھا۔ مجھے یاد ہے سنیل گواسکر کے اس اقدام کو پاکستان میں کافی پذیرائی ملی تھی۔ عالمی کپ کے بعد کراچی میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔ سنیل کے بیٹے روہن گواسکر کا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں انھوں نے اپنے والد کو انسانیت کا علمبردار قرار دیا تھا۔ روہن اس انٹرویو میں کہتے ہیں ''ممبئی فسادات کے دوران میں اور پاپا ٹیرس پر کھڑے تھے کہ ہم نے دیکھامسلمان خاندان کے کچھ افراد کو ہندوئوں نے گھیرے میں لے لیا' پاپا نے یہ دیکھا تو پلک جھپکتے میں سڑک پر جا پہنچے اور ان ہندوئوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر کسی ایک مسلمان کو بھی نقصان پہنچا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا' اتنے بڑے کرکٹر کی بات وہ ٹال نہیں سکے اور یوں مظلوم مسلمانوں کی زندگیاں بچ گئیں''۔ اس ایک واقعے نے مجھے سنیل گواسکر کا کرکٹر سے زیادہ بطور انسان فین بنا دیا اسی لیے جب انھوں نے پاکستانی ٹیم کے دورہ بھارت کی مخالفت کی تو مجھے دھچکہ لگا۔

کھیل کو سیاست سے دور رکھا جانا چاہیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ہو رہی ہے۔ اس کی بھی مخالفت کی جاتی ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔ تجارت کو سیاسی ایشو بنایا جا سکتا ہے لیکن کھیل کو سیاست کی نذر کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس دورے کی مخالفت میں پاکستان کے اندر سے جو آوازیں اٹھیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ بھارتی ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے تھا۔ یہ اعتراض اس حوالے سے تو ٹھیک ہے کہ آخری بار شعیب ملک کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اب بھارتی ٹیم کی باری تھی کہ وہ پاکستان کا دورہ کرتی۔


لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب بنگلہ دیش جیسی ٹیم بھی یہاں آکر کھیلنے کو تیار نہیں ہے تو بھارتی ٹیم کیوں آئے گی؟ چھ ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد بات یہاں تک پہنچی ہے۔ اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا تو دونوں ٹیموں کے کھلاڑی بھارتی میدانوں میں ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔ دونوں ملکوں کے شائقین نے پانچ سال سے اس لمحے کا انتظار کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں میدان میں مدمقابل ہوتی ہیں تو اس میچ کو سارے میچوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ میچ والے دن یوں لگتا ہے پوری دنیا رک گئی ہے۔ شائقین کو ان لمحات سے محروم کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

پاکستان اور بھارت میں کرکٹ سیریز میں موجودہ وقفہ پہلی بار نہیں آیا۔ مجھے یاد ہے جب 1978ء میں جب برسوں کے طویل وقفے کے بعد بھارتی ٹیم تین ٹیسٹ اور تین ون ڈے کی سیریز کھیلنے پاکستان آئی تھی تو کیا ماحول تھا۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ فیصل آباد میں کھیلا گیا جو ڈرا ہو گیا۔ اس کے بعد لاہور اور کراچی میں ہونے والے دونوں ٹیسٹ سخت مقابلے کے بعد پاکستان نے جیت لیے تھے۔ ون ڈے سیریز کا نتیجہ پاکستان کے حق میں دو ایک رہا تھا۔ لاہور ٹیسٹ میں نے پانچوں دن قذافی اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا تھا۔ اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں نے وہ میچ جنرل انکلوژر میں بیٹھ کر دیکھا جس کے ٹکٹ کی قیمت تب دس روپے تھی۔

میچ کے آخری لمحات میں پاکستان کی جیت میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یکم نومبر کو میچ کے پانچویں اور آخری دن میرا جسم بخار سے تپ رہا تھا لیکن کرکٹ کے بخار کا درجہ حرارت اس پر حاوی ہو گیا۔ کوئی اور مصروفیت ہوتی تو چھوڑ کر چلا جاتا' روایتی حریفوں میں مقابلہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس سیریز میں عمران خان اور سرفراز نواز نے جہاں انڈین بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچایا وہیں ظہیر عباس اور جاوید میانداد نے بھارت کے بہترین اسپنرز کا کیریئر ختم کر دیا۔ بشن سنگھ بیدی' چندر شیکھر اور پرسنا اس سیریز کے بعد اپنا اعتماد بحال نہیں کر سکے۔ پاکستانی ٹیم اگلے سال جوابی دورے پر بھارت گئی تو چھ میچوں کی سیریز میں اسے دو صفر سے شکست ہوئی تھی۔ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں جب آپس میں ٹکراتی ہیں تو جسمانی ہی نہیں اعصابی مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔

قومی ٹیم ایک بار بھارت کا دورہ کر آئے تو پھر انڈین کرکٹ بورڈ پر دبائو ڈالا جا سکتا ہے کہ ان کی ٹیم بھی پاکستان آئے۔ مجھے یقین ہے پاکستانی ٹیم کے دورہ بھارت کے بعد ہمارے ویران میدانوں میں پھر سے رونق لگنا شروع ہو جائے گی۔ ایک بار کسی انٹرنیشنل ٹیم نے پاکستان کا دورہ کر لیا تو دوسری ٹیموں کو بھی راضی کیا جا سکتا ہے۔ سنیل گواسکر صاحب آپ اپنے بیان پر نظرثانی کریں۔ براہ کرم! کرکٹ کو کھیل ہی رہنے دیں اور اسے سیاست سے دور رکھیں۔ سیاست کرنے کے لیے سیاست دانوں کی کمی نہیں ہے۔ ممبئی میں جو بے گناہ مارے گئے، کیا صرف آپ کو اس کا دکھ ہے، کبھی ہم سے بھی تو پوچھا ہوتا۔پاکستانی کرکٹ لورز ان سنی جی کو جانتے ہیں جنہوں نے لاہور میں 97رنز کی فائٹنگ اننگز کھیلی تھی، سنی جی ہم آپ کے منہ سے ٹھاکرے کی زبان نہیں سننا چاہتے، ہم اس لٹل ماسٹر کو جانتے ہیںجو صرف اسپورٹس مین ہے، اس کا دل تنگ نہیں کشیدہ ہوتا ہے۔
Load Next Story