ہندوستان میں بغاوت اور مزاحمت کی علامت

اب سے پندرہ برس پہلے کا قصہ۔ دلی شہر پر 13 دسمبر 2001ء کی دوپہر پھیلی ہوئی تھی۔

zahedahina@gmail.com

اب سے پندرہ برس پہلے کا قصہ۔ دلی شہر پر 13 دسمبر 2001ء کی دوپہر پھیلی ہوئی تھی۔ سارک لٹریری فاؤنڈیشن کا افتتاحی اجلاس قدرے صدمے اور سوگ کی صورتحال میں ختم ہو چکا۔ ہندوستانی صدر جمہوریہ تقریب کے درمیان سے ہی چلے گئے تھے لیکن جاتے جاتے مجھے سارک لٹریری ایوارڈ 2001 ء کا فرمان ہاتھ میں تھماتے ہوئے شاہ طوش کا دوشالہ اڑھا گئے تھے۔

اجیت کور جو اس پروگرام کی روحِ رواں ہیں، کچھ سراسیمہ سی ہیں۔ ہندوستانی ادیبوں اور دانشوروں میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ پہلے سیشن کا خاتمہ ہوتا ہے۔آصف فرخی، عطیہ داؤد اور میں ایک ساتھ نکلتے ہیں اور اس بزرگ خاتون کو دیکھ کر ہمارے چہرے تمتمانے لگتے ہیں جو بنگلہ کی سب سے بڑی ادیب، دانشور، سماجی اور سیاسی سرگرم کارکن ہیں، ہندوستانی حکمران اشرافیہ ان کا احترام کرتی ہے اور ان سے خوفزدہ رہتی ہے۔

بے دھڑک، دبنگ اور بلا خوف و خطر سرکار سے اختلاف کرنے والی مہاشوتیا دیوی ہمارے سامنے سے گزر رہی ہیں۔ ہم تینوں لپک کر انھیں گھیر لیتے ہیں۔ میں احتراماً ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتی ہوں۔ وہ مجھے گلے لگاتی ہیں۔ آصف اور عطیہ کی پیٹھ تھپکتی ہیں۔ ''تم لوگ ذرا احتیاط سے باہر نکلنا۔ آج کے دن دلی کی گلیاں پاکستانیوں کو شک کی نظر سے دیکھیں گی۔''

یہ بات ہمیں اجلاس ختم ہونے کے بعد معلوم ہوئی ہے کہ پارلیمنٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جو ناکام رہا۔ جب کہ حملہ آوروں میں سے چند مارے گئے۔ مہاشورتیا دیوی اسی واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس ہے، کہیں جانے کے لیے تیار ہیں ۔ ''کانفرنس تو ابھی شروع ہوئی ہے لیکن آپ کہاں جا رہی ہیں۔'' میں ان سے پوچھتی ہوں۔

وہ ہنستی ہیں ''نندی گرام اندولن میں جا رہی ہوں ۔ لوگوں کو میرا انتظار ہے۔''

یہ تھیں ہندوستان کی ایک بڑی ادیب جو صرف لکھتی ہی نہیں تھیں، غربت کے مارے اور انصاف کی مانگ کرنے والے لوگوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ ایک شاندار ایکٹی وسٹ جن کے لیے ذات پات، دھرم ادھرم، دولت اور غربت کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ وہ 28 جولائی کو اس جہان سے گزریں تو 90 برس جی چکی تھیں۔ ان کا غم بنگلہ دیش میں بھی منایا گیا اورکیوں نہ منایا جاتا کہ ان کا خمیر بنگال کی مٹی سے اٹھا تھا۔ وہ ڈھاکا میں پیدا ہوئیں اور انھوں نے بہار، مغربی بنگال، مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ کے آدی واسیوں کے حقوق کے لیے اپنے قلم سے اور اپنی جدوجہد سے کام کیا۔ انھوں نے لگ بھگ 100 ناول لکھے، کہانیوں کے 20 مجموعے، ڈرامے، مضامین اور ترجمے ان کا اثاثہ ہیں۔

ان کی پہلی تحریر 30 برس کی عمر میں سامنے آئی۔ یہ ان کا ناول 'جھانسی کی رانی' تھا۔ اسے لکھنے کے لیے انھوں نے جھانسی شہر اور اس کے جنگلوں کا سفرکیا۔ وہ کہتی تھیں کہ اگر تاریخ کے بارے میں لکھنا ہو تو اس کے لیے عام آدمی کے حافظے کو کھنگالنا چاہیے۔ ان کے اس ناول پر سیکڑوں قسطوں پر مشتمل ٹی وی سیریل بنا، سبھدارکماری چوہان کی مشہور نظم 'خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی' کی گونج اس ٹی وی سیریل میں سنائی دیتی ہے۔

پدم شری، پدم بھوشن، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، گیان پیٹھ ایوارڈ اور اس کے علاوہ رامون میگی سیسے ایوارڈ ان کے حصے میں آئے۔ ان کا جو ناول سب سے مشہور ہوا وہ 'ہزار چوراسی کی ماں' ہے۔ اس ناول پر فلم بھی بنی جس میں جیہ بہادری نے 'ماں' سجاتا کا کردار ادا کیا ہے۔ دل دہلادینے والی فلم۔ وہ فلم جس نے ان گنت ہندوستانیوں کا جگر پانی کر دیا۔ اعلیٰ متوسط طبقے کا وہ نوجوان جو پولیس مقابلے میں مارا گیا اور جس کا نام لینے کو اس کی ماں کے سوا باپ اور خاندان تیار نہ تھا۔ انھوں نے ایسی ان گنت کہانیاں اور ناول لکھے جن میں آدی واسیوں کے غم تھے، ان سے برتی جانے والی ناانصافیاں تھیں، وہ ان کے لیے اور دوسرے قبائلیوں کے لیے انصاف ڈھونڈتی رہیں۔


انھوں نے برسامنڈا پر ایک ناول لکھا۔ یہ وہ باغی اور آزادی کے لیے لڑنے والا تھا جسے انگریزوں نے پہلے گرفتار کیا اور پھر جیل میں اسے زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ اس کا ایک مجسمہ بنوایا گیا جس کے پیروں میں زنجیریں تھیں۔ ملک آزاد ہو گیا لیکن برسامنڈا کے مجسمے کو نوآبادیاتی آقاؤں کی پہنائی ہوئی زنجیروں سے رہائی نہیں ملی۔ یہ مہاشیویتا دیوی تھیں جنھوں نے منڈا کے مجسمے کی رہائی کے لیے تحریک چلائی اور ان کی موت سے ذرا پہلے جھارکھنڈ حکومت اس مجسمے کو آزاد کرنے پر مجبور ہوئی۔

وہ کتابوں کی رسیا تھیں، ایسی دیوانی کہ لوگ حیران ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ میں نے زندگی میں جتنا کھانا کھایا ہے، اس سے کہیں زیادہ کتابیں پڑھی ہیں۔ میرے ناولوں اور کہانیوں کا سرمایہ ان ہی کتابوں سے آتا ہے۔'' دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں یہ کہتے ہوئے یاد نہیں رہا تھا کہ بچپن میں جب وہ رابندر ناتھ ٹیگور سے ملیں تو انھوں نے کہا تھا ''اتنی کتابیں مت لکھیے۔ میں ان سب کو کیسے پڑھ سکتی ہوں'' اور پھر خود انھوں نے اتنی کتابیں لکھیں جنھیں پڑھنے کے لیے دل جگر چاہیے۔

پہلے برطانوی اور پھر ہندوستانی سرکار سے بغاوت اور مزاحمت کرنے والے نوجوان، عورتیں اور مرد۔ خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے۔ 'ہزار چوراسی کی ماں' اس لیے یہ نام پاتی ہے کہ اس کا چہیتا اور نرم و نازک دانشور بیٹا جو اپنا عیش آرام تج کر دوسروں کے حق کے لیے لڑ رہا ہے، جب مارا جاتا ہے تو مردہ خانے میں اس کا نمبر 'ایک ہزار چوراسی ' ہے۔ یہ ناول جسے وقار ناصری نے اردو میں ترجمہ کیا اور آصف فرخی نے اپنے ادارے 'شہر زاد' سے شائع کیا، اسے پڑھتے ہوئے حسن ناصر کی ماں یاد آتی ہیں۔ وہ اپنے شہید بیٹے کی لاش لینے آئی تھیں لیکن انھیں جو مسخ لاش دکھائی گئی اسے انھوں نے اپنے بیٹے کی لاش تسلیم کرنے سے انکارکر دیا تھا۔

میں 2001ء میں کھینچی جانے والی ان تصویروں کو دیکھتی ہوں جن میں وہ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کی راہداری میں ہمارے گلے میں بانھیں ڈالے کھڑی ہیں۔ نندی گرام اندولن میں جانے کے لیے بے قرار۔ چہرے پر سر خوشی ہے۔ معمولی سی سوتی ساڑی اور اس پرہاتھ کا بُنا ہوا موٹا سوئیٹر پیروں میں اونی موزے اور مردانہ وضع کی چپل۔ ایک سادہ سی عورت جس کے بارے میں کون گمان کرے گا کہ اسے ایشیا کا نوبل پرائز مل چکا ہے، جس کی کتابیں تبرک کے طور پر پڑھی جاتی ہیں اور جس کی رگ و پے میں پچھڑے اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے انصاف کی چیخ لہو کی طرح لہریں لیتی ہے۔

انھیں دیکھنا، ان سے ملنا، ان سے مختصر سی بات کرنا بھی ایک اعزاز تھا۔ وہ چلی گئی ہیں لیکن ان کی تحریروں پر مشتمل 19 جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔

اپنا گھر چلانے کے لیے انھوں نے صحافت کو اختیارکیا۔ وہ آنند بازار پتریکا کے لیے لکھتی رہیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب انھیں انگریزی میں لکھنا پڑا تا کہ اپنی بات دور تک پہنچا سکیں۔ وہ سو برس تک جینا چاہتی تھیں لیکن موت نے انھیں 90 برس کی عمر میں آن لیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وہ آخری سانس تک لکھتی رہیں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے لڑتی رہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم اور انھیں ہنر مند بنانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ ان لوگوں میں نہیں تھیں جو دیہاتیوں کو 'سی اے ٹی کیٹ' اور 'آر اے ٹی ریٹ' سکھانے کو 'علم کا پھیلاؤ 'کہتے ہیں۔ ناخواندہ کو نیم خواندہ بنانا' اسے مڈ وائفری کا کورس کرانا یا سلائی کڑھائی سکھانا، ان کے خیال میں اصل تعلیم تھی۔ وہ ہنر جو انھیں عزت کی روٹی فراہم کر سکے، جو ان کے بچوں کو سماجی سیڑھی میں ایک زینہ اوپر لے جا سکے۔

ارون دھتی رائے کو ہم ان کا پیروکار کہہ سکتے ہیں جنھوں نے نکسل باڑیوں اور کشمیریوں کی مزاحمت پر لکھا اور ہندوستانی سرکارکی نظر میں معتوب ٹہریں۔
Load Next Story