وہ گاؤں تھا یہ شہر ہے
اب جب لاہور کی گرمیاں گزر چکی ہیں یا گزرتی چلی جا رہی ہیں تو مجھے یہاں کی گرمیوں کی یاد آ رہی ہے
موسم بدل گیا ہے اور اب اے سی وغیرہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن گرمی کے ڈر سے اے سی وغیرہ ابھی تک چالو ہیں کیونکہ ہر سال کی طرح اس سال بھی گرمیاں بڑی خوفناک تھیں جس کا پسینہ جسم میں رس بس گیا ہے اور ڈر لگتا ہے کہ یہ گرمی کا بہانہ بنا کر لوٹ نہ آئے اور ایک بار پھر اپنا تماشہ دکھا دے۔ گزشتہ موسم میں گرمیوں نے جو حالت کر دی تھی اسے یاد کر کے جسم پسینے میں بھیگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
سردیوں کا علاج آسان ہے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن گرمیوں کے مقابلے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ گھومتا ہوا پنکھا ہو جس کی بھیگی ہوئی ٹٹی ہو اور وہ بھی خوشبودار پانی وغیرہ میں بھیگی ہو تو گرمیاں ایک لطف بن جاتی ہیں۔ بجلی زندہ ہو یا اس کی لوڈشیڈنگ کم از کم ہو تو بجلی بھی گرمی کا ایک موثر علاج ہے اور لوگ گرمی میں گھر کے صحن میں بھی پنکھا لگا کر گرمی کا زور توڑ دیتے ہیں اور گرمی کا زور ایک بار ٹوٹ جائے تو اس کا بحال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ہم گرمیوں کے موسم کے پہاڑی گرمی سے ہلکان بھی ہو رہے ہوں تب بھی گرمی سے ذرا سی سہولت کو غنیمت سمجھ کر گرمی برداشت کر جاتے ہیں۔ میں اپنی بات نہیں کروں گا، پہاڑی وادی سون میں زندگی کا آغاز کرنے والا لاہور کی گرمی سے پریشان ہو جاتا ہے۔ میں جب پڑھنے کے لیے گاؤں سے لاہور روانہ ہو رہا تھا تو میری ماں کو لاہور کی گرمی کی بہت فکر تھی۔
اس نے اپنے بھائی خان بہادر ملک نور محمد کے ہاں جب بھی میل ملاقات کے لیے لاہور جیسے شہروں کا سفر کیا اور پھر ان شہروں میں قیام بھی کیا تو دن کی گرمی ان کے بدن میں رچ بس گئی اور یہ ایک ڈر بن کر ان کے آس پاس زندہ رہی۔ چنانچہ جب میں پڑھنے کے لیے لاہور جانے لگا تو انھوں نے اپنے خصوصی خزانے سے کچھ رقم مجھے گرمی کے مقابلے کے لیے بھی دی اور گرمی سے بچنے کی چند نصیحتیں بھی کیں جب کہ وہ خود نیم سرد علاقے کی رہنے والی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے میرے بڑے بھائی سے کہا کہ اسے خرچہ کچھ زیادہ دینا کیونکہ سنا ہے لاہور میں تو پانی بھی بکتا ہے اور نہانے پر بھی خرچ ہوتا ہے۔ ان کا اشارہ شہر میں موجود حماموں کی طرف تھا۔
اب جب لاہور کی گرمیاں گزر چکی ہیں یا گزرتی چلی جا رہی ہیں تو مجھے یہاں کی گرمیوں کی یاد آ رہی ہے اور یہ یاد آنی بھی چاہیے کہ ہمارے جیسے کسی نیم سرد علاقے کے باشندے کو لاہور کی جلا دینے والی گرمیاں اپنا تحفظ مانگتی ہیں اور جب یہ تحفظ بجلی کے اختیار میں ہو تو خاصا مہنگا بھی ہوتا ہے چنانچہ بجلی کے سوئچ پر نظر رکھتے ہیں کہ ان میں سے کتنے آن ہیں اور کتنے خاموش۔
مہینے کے بعد بجلی کا بل جب آتا ہے گرمیوں کی عیاشی سامنے آ جاتی ہے اور جن صاحب حیثیت لوگوں کے گھر میں اے سی وغیرہ ہوں اور بجلی کا بلا تکلف استعمال ہوتا ہو ان گھروں کے حساس باشندے بس جوں توں کر کے گرمیاں گزار لیتے ہیں اور بچوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بزرگوں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کے بجلی کا بل بھی ادا کر سکیں جب کہ ان بچوں کو کیا معلوم کہ بجلی کا یہ بل ہر ماہ کیا قیامت بن کر نازل ہوتا ہے اور بل دینے والے گھر کے بڑوں کی کیا حالت بنا دیتا ہے اور وہ کتنے ہی ضروری اخراجات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بجلی ایک ایسا سامراج ہے جس کے بغیر گزارا نہیں اور جس کے ساتھ بھی۔ ہر مہینے بل کا خوف طاری رہتا ہے اور جب ایک بل ادا ہو جاتا ہے تو دوسرے کا خوف بلکہ دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک پینڈو قسم کے شاعر کا یہ زبردست شعر عرض ہے کہ
زندگی میں دو ہی گھڑیاں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے جانے کے بعد
میں شہر میں آیا تھا اور مدت گزری کہ ہر چیز کا بل دینا پڑ جاتا تھا اور تو اور اس دیہاتی کو جب پانی کا بل بھی ادا کرنا پڑتا تو شہر میں رہائش بہت ہی پشیمانی اور کسی حد تک شرمندگی کی باعث بن جاتی کہ ایک اچھی بھلی صاف ستھری ہر قسم کی ماہانہ ادائیگیوں کے بغیر بلا خوف وقت گزرتا تھا۔ بس سال بھر میں ایک ہی ٹیکس ہوتا تھا جو ہر فصل کے بعد ادا کرنا پڑتا تھا جسے گاؤں میں ''باقی'' کہتے تھے۔ اس کے علاوہ دیہی زندگی میں کوئی ٹیکس نہ تھا۔
سرکار سے آزاد زندگی اور یہ ٹیکس بس گاؤں کا نمبردار وصول کرتا تھا جو اسے تحصیل میں جمع کرا دیتا تھا۔ علاوہ ازیں کوئی ٹیکس نہیں ہوتا تھا۔ صرف بل ہوتے تھے جو آپ بجلی وغیرہ کے استعمال پر دیا کرتے تھے۔ سوائے بجلی کے اور کسی چیز پر ٹیکس نہ تھا۔ نہ پانی پر اور نہ ہوا پر جو صاف ستھری آزادانہ چلتی اور آپ کو زندہ رکھتی۔ ایسی اور دوسری ایسی کئی باتیں یاد آتی ہیں تو اپنے آپ پر ملامت کرتا ہوں کہ میں گاؤں کی آزاد اور بلا ٹیکس زندگی ترک کر کے شہر کیوں آ گیا اور یہاں مجھے کیا مل گیا۔
ماہانہ آمدنی اور تنخواہ وغیرہ جو ہر ماہ میں خرچ ہو جاتی ہے اور میں گویا ایک مزدور ہوں جو سرکاری فنڈ جمع کرتا رہتا ہوں اور اس کی بروقت ادائیگی پر خوش ہو جاتا ہوں۔ بس یہی ہے شہر کی ''بارونق'' زندگی جس کے میں اور شاید آپ بھی ہر ماہ مشقت کرتے ہیں۔ اب تو یہی زندگی جو گاؤں کی زندگی ترک کرنے پر قسمت میں لکھی تھی۔ ملاحظہ کیجیے گاؤں اور شہر کی زندگی کا فرق۔
سردیوں کا علاج آسان ہے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن گرمیوں کے مقابلے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ گھومتا ہوا پنکھا ہو جس کی بھیگی ہوئی ٹٹی ہو اور وہ بھی خوشبودار پانی وغیرہ میں بھیگی ہو تو گرمیاں ایک لطف بن جاتی ہیں۔ بجلی زندہ ہو یا اس کی لوڈشیڈنگ کم از کم ہو تو بجلی بھی گرمی کا ایک موثر علاج ہے اور لوگ گرمی میں گھر کے صحن میں بھی پنکھا لگا کر گرمی کا زور توڑ دیتے ہیں اور گرمی کا زور ایک بار ٹوٹ جائے تو اس کا بحال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
ہم گرمیوں کے موسم کے پہاڑی گرمی سے ہلکان بھی ہو رہے ہوں تب بھی گرمی سے ذرا سی سہولت کو غنیمت سمجھ کر گرمی برداشت کر جاتے ہیں۔ میں اپنی بات نہیں کروں گا، پہاڑی وادی سون میں زندگی کا آغاز کرنے والا لاہور کی گرمی سے پریشان ہو جاتا ہے۔ میں جب پڑھنے کے لیے گاؤں سے لاہور روانہ ہو رہا تھا تو میری ماں کو لاہور کی گرمی کی بہت فکر تھی۔
اس نے اپنے بھائی خان بہادر ملک نور محمد کے ہاں جب بھی میل ملاقات کے لیے لاہور جیسے شہروں کا سفر کیا اور پھر ان شہروں میں قیام بھی کیا تو دن کی گرمی ان کے بدن میں رچ بس گئی اور یہ ایک ڈر بن کر ان کے آس پاس زندہ رہی۔ چنانچہ جب میں پڑھنے کے لیے لاہور جانے لگا تو انھوں نے اپنے خصوصی خزانے سے کچھ رقم مجھے گرمی کے مقابلے کے لیے بھی دی اور گرمی سے بچنے کی چند نصیحتیں بھی کیں جب کہ وہ خود نیم سرد علاقے کی رہنے والی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے میرے بڑے بھائی سے کہا کہ اسے خرچہ کچھ زیادہ دینا کیونکہ سنا ہے لاہور میں تو پانی بھی بکتا ہے اور نہانے پر بھی خرچ ہوتا ہے۔ ان کا اشارہ شہر میں موجود حماموں کی طرف تھا۔
اب جب لاہور کی گرمیاں گزر چکی ہیں یا گزرتی چلی جا رہی ہیں تو مجھے یہاں کی گرمیوں کی یاد آ رہی ہے اور یہ یاد آنی بھی چاہیے کہ ہمارے جیسے کسی نیم سرد علاقے کے باشندے کو لاہور کی جلا دینے والی گرمیاں اپنا تحفظ مانگتی ہیں اور جب یہ تحفظ بجلی کے اختیار میں ہو تو خاصا مہنگا بھی ہوتا ہے چنانچہ بجلی کے سوئچ پر نظر رکھتے ہیں کہ ان میں سے کتنے آن ہیں اور کتنے خاموش۔
مہینے کے بعد بجلی کا بل جب آتا ہے گرمیوں کی عیاشی سامنے آ جاتی ہے اور جن صاحب حیثیت لوگوں کے گھر میں اے سی وغیرہ ہوں اور بجلی کا بلا تکلف استعمال ہوتا ہو ان گھروں کے حساس باشندے بس جوں توں کر کے گرمیاں گزار لیتے ہیں اور بچوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بزرگوں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کے بجلی کا بل بھی ادا کر سکیں جب کہ ان بچوں کو کیا معلوم کہ بجلی کا یہ بل ہر ماہ کیا قیامت بن کر نازل ہوتا ہے اور بل دینے والے گھر کے بڑوں کی کیا حالت بنا دیتا ہے اور وہ کتنے ہی ضروری اخراجات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بجلی ایک ایسا سامراج ہے جس کے بغیر گزارا نہیں اور جس کے ساتھ بھی۔ ہر مہینے بل کا خوف طاری رہتا ہے اور جب ایک بل ادا ہو جاتا ہے تو دوسرے کا خوف بلکہ دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک پینڈو قسم کے شاعر کا یہ زبردست شعر عرض ہے کہ
زندگی میں دو ہی گھڑیاں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے جانے کے بعد
میں شہر میں آیا تھا اور مدت گزری کہ ہر چیز کا بل دینا پڑ جاتا تھا اور تو اور اس دیہاتی کو جب پانی کا بل بھی ادا کرنا پڑتا تو شہر میں رہائش بہت ہی پشیمانی اور کسی حد تک شرمندگی کی باعث بن جاتی کہ ایک اچھی بھلی صاف ستھری ہر قسم کی ماہانہ ادائیگیوں کے بغیر بلا خوف وقت گزرتا تھا۔ بس سال بھر میں ایک ہی ٹیکس ہوتا تھا جو ہر فصل کے بعد ادا کرنا پڑتا تھا جسے گاؤں میں ''باقی'' کہتے تھے۔ اس کے علاوہ دیہی زندگی میں کوئی ٹیکس نہ تھا۔
سرکار سے آزاد زندگی اور یہ ٹیکس بس گاؤں کا نمبردار وصول کرتا تھا جو اسے تحصیل میں جمع کرا دیتا تھا۔ علاوہ ازیں کوئی ٹیکس نہیں ہوتا تھا۔ صرف بل ہوتے تھے جو آپ بجلی وغیرہ کے استعمال پر دیا کرتے تھے۔ سوائے بجلی کے اور کسی چیز پر ٹیکس نہ تھا۔ نہ پانی پر اور نہ ہوا پر جو صاف ستھری آزادانہ چلتی اور آپ کو زندہ رکھتی۔ ایسی اور دوسری ایسی کئی باتیں یاد آتی ہیں تو اپنے آپ پر ملامت کرتا ہوں کہ میں گاؤں کی آزاد اور بلا ٹیکس زندگی ترک کر کے شہر کیوں آ گیا اور یہاں مجھے کیا مل گیا۔
ماہانہ آمدنی اور تنخواہ وغیرہ جو ہر ماہ میں خرچ ہو جاتی ہے اور میں گویا ایک مزدور ہوں جو سرکاری فنڈ جمع کرتا رہتا ہوں اور اس کی بروقت ادائیگی پر خوش ہو جاتا ہوں۔ بس یہی ہے شہر کی ''بارونق'' زندگی جس کے میں اور شاید آپ بھی ہر ماہ مشقت کرتے ہیں۔ اب تو یہی زندگی جو گاؤں کی زندگی ترک کرنے پر قسمت میں لکھی تھی۔ ملاحظہ کیجیے گاؤں اور شہر کی زندگی کا فرق۔