سامراجی آلہ کارشکست سے دوچار 

سماج میں طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

سماج میں طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ساڑھے چارسوسال قبل از مسیح ارسطو نے کہا تھا کہ '' تمام برائیوں کی جڑطبقاتی سماج ہے'' یہ بات آج بھی جوں کی توں ہے۔ اسپارٹا میں آقاؤںکے خلاف غلاموں کی لڑائی میں ہزاروں غلام قتل ہوئے، اٹھارویں صدی میں جرمنی میں جاگیرداروں کے خلاف کسانوں نے عظیم جدوجہد کی جس میں تیس ہزارکسان جان سے جا تے رہے، سترہ سو نواسی میں انقلاب فرانس برپا ہوا جسے انارکسٹ ،کمیونسٹوں کی رہنمائی حاصل تھی۔

اٹھارہ سو اکہتر میں انارکسٹوں نے پیرس کمیون قائم کی۔اٹھارہ سوچھیاسی میںآٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے لیے شکاگو میں انارکسٹ پھانسی پر چڑھے ۔انیس سو سترہ میں روس میں زار شاہی کا خاتمہ کیا اور انیس سوانچاس میں چین میں انقلاب بر پا کر کے جاگیرداری اور بادشاہت کا خاتمہ کیا ۔دنیا کی عظیم ایجادات اورانقلابات مذہبی سوچ سے بالا ترہوکرآئے۔ انقلاب فرانس ، پیرس کمیون ہو یا شکاگو کی مزدورجدوجہد، ان سب کا تعلق ا نسانوں سے تھا۔ان انقلا بی تحریکوں میں ہر مذہب، نسل اور رنگ کے لوگ شریک تھے۔

اسی طرح سے عظیم سائنسدان ایڈیسن،نیوٹن اوراسٹیفنسن کی ایجادات کا مذہب سے کو ئی تعلق نہیں تھا۔ جارج اسٹیفنسن نے ریل گاڑی ایجاد کی، چونکہ ان کا کسی مذہب سے تعلق نہیں تھا، اس لیے میں ریل گاڑی میں سفر نہیں کروں گا، یہ کوئی درست بات نہیں۔ ہمیں بنی نوع انسان کے فائدے کی بات دیکھنی ہے، اگر ریل گاڑی ایجاد کرنے والا لو گوں کو فائدہ پہنچاتا ہے تو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ مذہب مانتا ہے یا نہیں۔

شکاگو کی مزدور تحریک میں پھانسی پرچڑھنے والے سب کے سب چھ افراد غیرمذہبی تھے مگران کی قربانیوں پر ساری دنیا رشک کرتی ہے اور ہر ملک میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوگئی۔اس سے فایدہ اٹھانے والے مذہبی اور غیر مذہبی سب شریک ہیں ۔ پا کستان میں بہت سی انقلا بی تحریکیں چلیں، خاص کرانیس سواڑسٹھ میں تقریبا ڈیڑھ ماہ ریاست خلا میں معلق تھی اور محنت کشوں کا راج تھا۔

پاکستان بننے کے بعد مزدوروں کو میڈیکل، سالانہ چھٹی، اتفاقیہ چھٹی اوربونس وغیرہ نہیں ملتا تھا، بعد میں مزدوروں اور کمیونسٹوں کی جدوجہدکی وجہ سے مزدوروں نے اپنے حقوق حاصل کیے، یہ الگ بات ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوںکی یلغارکی وجہ سے اب رہے سہے حقوق واپس لیے جا رہے ہیں ۔ پنڈی سازش کیس کے نام نہاد ملزمان دادا امیرحیدر اور فیض احمد فیض سے میں نے ذاتی طور پر پوچھا تھا تو انھوں نے بغاوت سے انکارکیا تھا۔

جنرل ضیاالحق نے بھٹوکا عدالتی قتل کرکے ملک میں رنگ ونسل، فرقے، مذہبی تعصبات، کلاشنکوف اور ہیروئن کا راج قائم کیا۔ اسلام کے نام کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل عوام پر جبر کیا جا تا رہا۔ بے گناہوں کوکوڑے مارنے ، ملتان کالونی ٹیکسٹائل مل کے سیکڑوں مزدوروں، پٹ فیڈر، بلوچستان کے کسانوں کا قتل کیا ۔ دنیا بھر میں امریکی فوجی اڈے موجود تھے اور ہیں جب کہ روس اورچین کے کہیں بھی فوجی اڈے تھے اور نہ ہیں ۔ وارسا پیکٹ تو نیٹو کے رد عمل میں بنا تھا ۔ اب وارسا پیکٹ موجود نہ رہنے کے باوجود دنیا بھرکے محنت کشوں اور سامراج مخالف حکومتوں کے خلاف کارروائی کر نے کے لیے نیٹو اب بھی موجود ہے۔

افغانستان میں بادشاہت کے خلاف ثور انقلاب (اپریل انقلاب) انیس سواٹھترمیں بر پا ہوا ، پھر وہاں سے جاگیرداری، منشیات کی کاشت، بردہ فروشی، سامراجی معاہدات اورسود کے نظام کا خاتمہ کیا۔ جنرل ضیاء نے انور سادات سے کلاشنکوف حاصل کی اور سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی سر زمین کو امریکی، جرمنی، فرانسیسی، ڈچ اورآسٹریلوی سامراج کے فوجی انسٹرکٹروں کے لیے پیش کیا جہاں سے ڈالرجہاد شروع کیا گیا۔ اس کے بعد آج تک افغانستان، افغانوں کا قتل گاہ بنا ہوا ہے۔


امریکی سامراج نے یہ سمجھا تھا کہ سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے بعدکمیونزم ختم ہوجائے گا، مگر اب اس کا الٹ نتیجہ نکلا ہے۔آج جنو بی امریکا کے پینتیس ممالک میں سے تنتیس میں کمیونسٹوں،انارکسٹوں، سوشلسٹوں اورسوشل ڈیموکریٹ کی حکومتیں ہیں۔ ہندوستان کی ایک تہا ئی رقبے پر ماؤنوازکمیونسٹوں کا راج ہے ۔کمیونسٹ آج پورے یورپ میں حقیقی حزب اختلاف کے طورپر جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔ یورپی یونین کی اسمبلی میں اڑتالیس کمیونسٹ موجود ہیں۔

عالمی سامراج کی معا شی شرح نمو آٹھ سے گیارہ فیصد پرجارہی تھی، اب گھٹ کر ایک سے دو فیصد پر آن پہنچی ہے۔کروڑوں لوگ بے روزگارہوگئے ہیں ۔ چین میں ماؤزے تنگ کے وقت کوئی بے روزگار نہیں تھا اوراب ستائیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ اس لیے چین میں گزشتہ برس مزدوروں نے اورکسانوں نے پچاسی ہزار مظاہرے کیے اورکچھ مطالبات منوائے بھی۔ پاکستان کی بیشترٹریڈ یونین پائیلر سے نیشنل ٹریڈیونین فیڈریشن اورلیبر فیڈریشن سے پاکستان ورکرز فیڈریشن تک کا تعلق بائیں بازو سے ہے، انجمن مزارعین پنجاب، پنجاب کسان اتحاد، سندھ ہاری کمیٹی، ہاری تحریک یعنی بیشترکسانوں کی تنظیموں کا تعلق بھی بائیں بازوسے ہے۔

ہنزہ، گلگت بلتستان سے عوامی ورکرز پارٹی کے نامزد امیدوارکامریڈ بابا جان کو سیلاب زدگان کے مسائل پر جلوس کی قیادت کرنے کی جرم میں پچیس اورچالیس سال کی سزا دی گئی،انھوں نے جیل میں رہتے ہو ئے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکسٹ دی مگر ریاستی سازشوں کے ذریعے مسلم لیگ کے امیدوار اکرم کو جتوایاگیا۔ پھر اب دوسری بارکامریڈ بابا جان ہنزا کے جیل میں مقید رہتے ہوئے پی ٹی آئی اور پی پی پی کے امیدوار سے آگے جا رہے تھے اوران کا مقابلہ مسلم لیگ ن سے تھا کہ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ جب تک ان کی سزا کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک انتخابات کو ملتوی کیا جاتا ہے۔

اسی طرح جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے امیدوارکامریڈ وزیرعلی محسودکے ا نتخابات کے نتائج کو ملتو ی رکھا گیا اور بعد ازاں مسلم نون کے امیدوارکوکامیاب قراردیا گیا۔ پا کستان کا خواب دیکھنے وا لے علامہ اقبال کارل مارکس کے بارے میں کہتے ہیں،' ایں کلیم بے تجلی، ایں مسیح بے صلیب ، نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب ' یہ ( وہ موسیٰ نہیں جسے معجزہ ملا ہو، نہ عیٰسی ہے کہ اسے مصلوب کیا گیا ہے اور نہ پیغمبر مگر اس کے بغل میں ایک کتاب ہے اوروہ ہے 'داس کیپٹل'۔

ہمارے بے شمار معروف شعراء دانشور اور حکمران طبقات کے لوگ شراب پیتے ہیں۔ پاکستان میںزیادہ شراب مسلمانوں میں ہی فروخت ہو تی ہے ۔ اسکا ٹش وسکی سب سے زیادہ پاکستان میں درآمد ہوتی ہے اور ایران کے ہر تیسرے گھر میں شراب کشید کی جاتی ہے،اس سے نظریے کا کوئی تعلق نہیں ۔ شراب نہ پینے والا بھی جابر اورقاتل ہوسکتا ہے جیسا کہ طالبان اور داعش وغیرہ۔

پاکستان اوردنیا بھر میں بائیں بازوکی جو تابناک جدوجہد ہورہی ہے وہ واقعی قابل رشک ہے۔ امریکا ،یورپ، بھارت، چین، افریقہ اورہرجگہ کھلبلی مچی ہوئی ہے۔اب بھی کوریا، زمبابوے ، بیلا روس، کیوبا، وینیزویلا، بولیویا، نیپال اورایکواڈور وغیرہ اپنے آپ کو سوشلسٹ ممالک کہلاتے ہیں،امریکا اور بر طانیہ میں بھی برنی سینڈرز اور جیمری کاربون پیدا ہو گئے ہیں۔

وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے اٹھاسی ملکوں کے نو سو شہروںمیں 'ہم ننانوے فیصد ہیں' کے نعرے کے ساتھ مظاہرے نے یہ ثا بت کر دیا ہے کہ انارکسٹ اورکمیونسٹ کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہورہے ہیں۔ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے،اس لیے اب وہ انقلابی تبدیلی کے لیے پرتول رہے ہیں۔ وہ دن اب دورنہیں کہ دنیا ایک ہوجائے گی اورامداد باہمی کا سماج قائم ہوگا۔
Load Next Story