سپریم کورٹ لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم
حکومت کی رٹ چیلنج کرنے پرآپریشن کیا، 88عسکریت پسند،9نابالغ اور 6اہلکار ہلاک ہوئے، پولیس رپورٹ
سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کی انکوائری کیلیے جوڈیشل کمیشن قائم کردیا ہے، وفاقی شریعت عدالت کے جج جسٹس شہزادو شیخ پر مشتمل یک رکنی کمیشن 45دن میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ دیگا۔
جوڈیشل کمیشن 2جولائی2007کو شروع ہونیوالے آپریشن کی وجوہ،آپریشن کے دوران جاں بحق ہونے والے افرادکی تعداد، مرنے والوں میںکتنے مرد،خواتین، نابالغ، سویلین اور سیکیورٹی کے لوگ شامل تھے اور اس آپریشن کے نتیجے میںکتنے لوگ لاپتہ ہوگئے،کے بارے میں انکوائری کرے گا۔
سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کو یہ بھی مینڈیٹ دیا ہے کہ اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ کیا تمام جاں بحق افرادکی شناخت ہوئی اور انتظامیہ نے ان کے ورثاء سے اس بارے میں رابطہ کیا اورکیاورثاء کومعاوضہ بھی دیا گیا یا نہیں؟کیا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعے کے ذمے داران کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوئی اور اگرکارروائی ہوئی تو اس کی نوعیت کیا تھی؟کمیشن کوکہا گیا ہے کہ اس بارے میں بھی انکوائری کی جائے کہ اس مرحلے پر واقعے کے ذمے داروں کیخلاف کارروائی ممکن ہے اورکون لوگ اس حادثے کے اصل محرک تھے۔
کمیشن کو سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، کیس کی سماعت رپورٹ موصول ہونے کے بعد کی جائیگی۔گزشتہ روز چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی،عدالت کو بتایا گیا کہ اس آپریشن میں جاں بحق ہونے والے نابالغ افرادکا معاوضہ ادا کیا گیا جبکہ باقی تمام افراد عسکریت پسند تھے اور ان کا کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔عدالت نے اس موقف کو مسترد کر دیا،چیف جسٹس نے کہا کیا مارے جانے والوں کے ماتھے پر لکھا گیا تھا کہ یہ عسکریت پسند ہیں، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کیا کوئی انکوائری ہوئی،شواہدجمع کیے گئے اور جرم کا تعین ہوا؟
سرکاری وکیل نے بتایا سرکاری عمارت پر قبضہ کرنے والوں کو عمارت خالی کرنے کا حکم دیا گیا لیکن حکم کا انکار ہوا جس کے بعد آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا حکم نہ ماننے سے کوئی مجرم نہیں بن جا تا جب تک مقدمہ درج نہ ہو اور قانون کے مطابق کارروائی نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا غفلت اور بد انتظامی کی حد ہے،آپریشن میں معصوم بچیاں اور بچے مارے گئے اس پر تو انتظامیہ کیخلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے،اگر انتظامیہ کچھ نہ کرسکتی تھی توکم از کم جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ تو ادا کیا جا سکتا تھا۔
ڈی آئی جی طاہر عالم نے بتایا حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا جس پر آپریشن کا فیصلہ ہوا، مجموعی طور پر 103افراد اس آپریشن میں جاں بحق ہوئے جن میں88عسکریت پسند،11سیکیورٹی اہلکار اور6 راہگیر تھے۔انھوں نے بتایا تمام مارے جانے والے مرد تھے، کسی خاتون کی لاش پولیس کو نہیں ملی ان کا کہنا تھا سولہ افرادکی شناخت نہیں ہو سکی۔چیف جسٹس نے کہا کیا مرنے والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ یہ عسکریت پسند تھے؟ اتنا بڑا حادثہ ہوا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ابھی تک سنجیدگی نہیں،چیف جسٹس نے کہا اگر انتظامیہ کیخلاف اختیارات سے تجاوزکا کیس ثابت ہوگیا توکوئی نہیں بچ پائے گا۔
طاہر عالم کا کہنا تھا کہ 9 نابالغ بچے اس آپریشن میں جاں بحق ہوئے جبکہ تمام لڑکیوں کو نکلنے کا موقع دیا گیا تھا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ریاست کو ہمیشہ اپنے عوام سے سچ بولنا چاہیے،سچ سامنے آئے گا تو حل نکل آئے گا،جب تک سچ سامنے نہیں آئے گا یہ زخم نہیں بھرے گا،65 سال سے سچ کو دبایا گیا وقت آگیا ہے کہ اس عمارت کو سچ کے سہارے کھڑا ہونے دیا جائے۔ فاضل جج نے کہا اگر قانون شکنی ہو تو پرچہ درج کرکے کارروائی کی جاتی ہے بم نہیں مارے جاتے۔
چیف جسٹس نے کہاجامعہ حفصہ میں تباہ کن زلزلے میں یتیم ہونے والی بچیاں پڑھ رہی تھیں ۔عدالت نے تمام رپورٹ مسترد کرکے قرار دیا کہ طویل عرسے سے مقدمہ زیر التوا ہے، پولیس کو بار بار شفاف انکوائری کیلیے کہا گیا لیکن قابل اطمینان انکوائری نہیں ہوئی،لال مسجد کے واقعے میں بے شمار لوگ جاں بحق ہوئے، املاک کو نقصان پہنچا،عدالت کے سامنے الزام در الزام کے علاوہ کوئی ٹھوس حقائق نہیں لائے گئے اس لیے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلیے جوڈیشل کمیشن کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن 2جولائی2007کو شروع ہونیوالے آپریشن کی وجوہ،آپریشن کے دوران جاں بحق ہونے والے افرادکی تعداد، مرنے والوں میںکتنے مرد،خواتین، نابالغ، سویلین اور سیکیورٹی کے لوگ شامل تھے اور اس آپریشن کے نتیجے میںکتنے لوگ لاپتہ ہوگئے،کے بارے میں انکوائری کرے گا۔
سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کو یہ بھی مینڈیٹ دیا ہے کہ اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ کیا تمام جاں بحق افرادکی شناخت ہوئی اور انتظامیہ نے ان کے ورثاء سے اس بارے میں رابطہ کیا اورکیاورثاء کومعاوضہ بھی دیا گیا یا نہیں؟کیا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعے کے ذمے داران کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوئی اور اگرکارروائی ہوئی تو اس کی نوعیت کیا تھی؟کمیشن کوکہا گیا ہے کہ اس بارے میں بھی انکوائری کی جائے کہ اس مرحلے پر واقعے کے ذمے داروں کیخلاف کارروائی ممکن ہے اورکون لوگ اس حادثے کے اصل محرک تھے۔
کمیشن کو سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، کیس کی سماعت رپورٹ موصول ہونے کے بعد کی جائیگی۔گزشتہ روز چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی،عدالت کو بتایا گیا کہ اس آپریشن میں جاں بحق ہونے والے نابالغ افرادکا معاوضہ ادا کیا گیا جبکہ باقی تمام افراد عسکریت پسند تھے اور ان کا کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔عدالت نے اس موقف کو مسترد کر دیا،چیف جسٹس نے کہا کیا مارے جانے والوں کے ماتھے پر لکھا گیا تھا کہ یہ عسکریت پسند ہیں، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کیا کوئی انکوائری ہوئی،شواہدجمع کیے گئے اور جرم کا تعین ہوا؟
سرکاری وکیل نے بتایا سرکاری عمارت پر قبضہ کرنے والوں کو عمارت خالی کرنے کا حکم دیا گیا لیکن حکم کا انکار ہوا جس کے بعد آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا حکم نہ ماننے سے کوئی مجرم نہیں بن جا تا جب تک مقدمہ درج نہ ہو اور قانون کے مطابق کارروائی نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا غفلت اور بد انتظامی کی حد ہے،آپریشن میں معصوم بچیاں اور بچے مارے گئے اس پر تو انتظامیہ کیخلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے،اگر انتظامیہ کچھ نہ کرسکتی تھی توکم از کم جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ تو ادا کیا جا سکتا تھا۔
ڈی آئی جی طاہر عالم نے بتایا حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا جس پر آپریشن کا فیصلہ ہوا، مجموعی طور پر 103افراد اس آپریشن میں جاں بحق ہوئے جن میں88عسکریت پسند،11سیکیورٹی اہلکار اور6 راہگیر تھے۔انھوں نے بتایا تمام مارے جانے والے مرد تھے، کسی خاتون کی لاش پولیس کو نہیں ملی ان کا کہنا تھا سولہ افرادکی شناخت نہیں ہو سکی۔چیف جسٹس نے کہا کیا مرنے والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ یہ عسکریت پسند تھے؟ اتنا بڑا حادثہ ہوا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ابھی تک سنجیدگی نہیں،چیف جسٹس نے کہا اگر انتظامیہ کیخلاف اختیارات سے تجاوزکا کیس ثابت ہوگیا توکوئی نہیں بچ پائے گا۔
طاہر عالم کا کہنا تھا کہ 9 نابالغ بچے اس آپریشن میں جاں بحق ہوئے جبکہ تمام لڑکیوں کو نکلنے کا موقع دیا گیا تھا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ریاست کو ہمیشہ اپنے عوام سے سچ بولنا چاہیے،سچ سامنے آئے گا تو حل نکل آئے گا،جب تک سچ سامنے نہیں آئے گا یہ زخم نہیں بھرے گا،65 سال سے سچ کو دبایا گیا وقت آگیا ہے کہ اس عمارت کو سچ کے سہارے کھڑا ہونے دیا جائے۔ فاضل جج نے کہا اگر قانون شکنی ہو تو پرچہ درج کرکے کارروائی کی جاتی ہے بم نہیں مارے جاتے۔
چیف جسٹس نے کہاجامعہ حفصہ میں تباہ کن زلزلے میں یتیم ہونے والی بچیاں پڑھ رہی تھیں ۔عدالت نے تمام رپورٹ مسترد کرکے قرار دیا کہ طویل عرسے سے مقدمہ زیر التوا ہے، پولیس کو بار بار شفاف انکوائری کیلیے کہا گیا لیکن قابل اطمینان انکوائری نہیں ہوئی،لال مسجد کے واقعے میں بے شمار لوگ جاں بحق ہوئے، املاک کو نقصان پہنچا،عدالت کے سامنے الزام در الزام کے علاوہ کوئی ٹھوس حقائق نہیں لائے گئے اس لیے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلیے جوڈیشل کمیشن کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔