پی آئی اے کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے تجاویز طلب

انتظامیہ خود بدانتظامی کی ذمے دار ہے، چیف جسٹس، درخواستیں سماعت کے لیے منظور

انتظامیہ خود بدانتظامی کی ذمے دار ہے، چیف جسٹس، درخواستیں سماعت کے لیے منظور. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں بے ضابطگیوں کے خلاف دائر درخواستیں سماعت کیلیے منظور کرتے ہوئے پی آئی اے کو دوبارہ فعال اور منافع بخش ادارہ بنانے کی تجاویز طلب کرلی ہیں۔

جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پی آئی اے کی کار کردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صاف نظر آ رہا ہے پی آئی اے انتظامیہ خود بدانتظامی میں اس کی ذمہ دار ہے، ہم جب حکم لکھوائیں گے تو ذمے داروں کا نام لکھیں گے، پی آئی اے میں لوگ پرچیوں پر بھرتی ہوتے ہیں، کیٹرنگ کا ٹھیکہ، مرمت اور خریداری ہر چیز سفارش پر ہوتی ہے۔ منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے پی آئی اے بدانتظامی ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پی آئی اے حکام سے پوچھا گیا کہ کیا کسی اور روٹ پر بھی ائیرلائن کو نقصان ہو رہا تھا، ان کا کہنا تھا کہ بدانتظامیوں کی نا صرف پی آئی اے بلکہ سی اے اے بھی ذمہ دار ہے۔ پی آئی اے حکام نے بتایا کہ اس روٹ پر قومی ائیرلائن کو نقصان ہو رہا تھا، پی آئی اے پر ایک ارب ڈالر قرضہ ہے جبکہ 565ملین ڈالرز اے ٹی آر اور 777 جہازوں پر قرضہ ہے۔ پی آئی اے حکام نے بتایا کہ پی آئی اے میں کیٹرنگ سے لے کر جہاز ٹھیک کرنے تک سفارش کرائی جاتی ہے، کون سے جہاز نے امریکا، کینیڈا اور یوکے جانا ہے، اس پر کون سا عملہ ہوگا اس کا تعین بھی سفارش سے کیا جاتا ہے۔




ڈائریکٹر ہیومن ریسورس کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں 20 ہزار لوگ ملازم ہیں جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر اس تناسب سے دیکھا جائے تو ایک جہاز پر 570 افراد کا عملہ بنتا ہے، یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے جسے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونا چاہیے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 دسمبر تک ملتوی کردی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں ریکو ڈک مقدمے کی سماعت کے دوران ٹیتھان کاپر کمپنی کے وکیل خالد انور نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

عدالت نے مزید سماعت آج تک ملتوی کردی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رعایت قواعد وضوابط کے تحت ہی دی جا سکتی ہے یہ نہیں کہ میٹرک پاس کو ایم بی بی ایس کی ڈگری دے دی جائے۔قانون میں واضح ہے کہ کن شرائط پر رعایت دی جاسکتی ہے۔ ریکو ڈک کیس میں سب کچھ درست ہوتا تو وزیراعلیٰ اور گورنر بلوچستان کو اتنے پاپڑ بیلنے کی کیا ضرورت تھی۔
Load Next Story