فکر سے نتیجے تک کشمیر

نریندر مودی کشمیر کے سلسلے میں کیا چاہتے ہیں، پاکستان سے کس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

PESHAWAR:
نریندر مودی کشمیر کے سلسلے میں کیا چاہتے ہیں، پاکستان سے کس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں، اس کا اندازہ تو ان کے آنے سے قبل ہی ہوچکا تھا، لیکن ان کے دلی نیک جذبات کی ترجمانی اب کھل کر عالمی برادری کے سامنے بھی ہورہی ہے۔ سشما سوراج کچھ بھی کہہ ڈالیں ان کے کہنے سے بات بننے والی نہیں ہے، لیکن جس کاٹ کا مظاہرہ سامنے آتا ہے اس سے یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ان کی حکومت پاکستان کے لیے کس طرح کی باڈی لینگویج استعمال کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں کم رقبے کا ملک ہے لیکن جس احساس برتری، تفاخر اور انا پرستی کے وہم میں حالیہ بھارتی حکمران مبتلا ہیں، کیا اس سے انھیں گلوبل ولیج کے باسیوں سے لے کر اعلیٰ اقتدار کے مشاق کھلاڑیوں تک کسی مثبت اشارے کی امید ہے۔ دراصل دیکھا جائے تو یہ بیک گراؤنڈ حقیقتاً کسی بڑے نتیجے اور کامیابی تک پہنچنے کے لیے سیڑھی بن رہا ہے۔

حالیہ دنوں جس قسم کے زہریلے بیانات پڑوسی ملک سے جاری ہورہے ہیں یہ دراصل ان تصاویر کے پیچھے چھپے بھارتی جارحیت اور ان کے عزائم کی عکاسی کررہے ہیں جس سے کشمیر میں ایک بڑی مسلم آبادی کی نسل کشی اور ڈرا دھمکا کر خطرناک نتائج تک لے جانے کی کوشش ہے جو انٹرنیٹ کے تاروں سے پوری دنیا میں سرائیت کرچکے ہیں۔ یہ ایک ایسی تحریک بن چکی ہے کہ جس سے پیچھا چھڑانا بھارتی سرکار کے بس میں نہیں ہے۔

مودی سرکار سے پہلے دور حکومت میں ان کے چیف آف آرمی اسٹاف جو ماضی میں کسی کشمیری مجاہد کی گولی سے گھائل ہوچکے تھے، اس درد کی شدت کو اس قدر دل سے لگا بیٹھے تھے کہ چاہنے کے باوجود وہ پاکستان سے ایک جنگی مرحلہ سر کرلینے کی خواہش کو اپنے سے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف کی طرح بس خواہش ہی سمجھ کر پیچھے ہٹ گئے، ورنہ وہ ''پدم ویر چکر'' لینے کے چکر میں کشمیر کو کیک سمجھ کر ہمیشہ کے لیے ہڑپ کرلینے کے عزائم رکھتے تھے لیکن لگاتار دونوں چیف آف آرمی اسٹاف کی بس خام خیالی ہی رہی، اس لیے کہ ان کے اس ''پدم ویر چکر'' کے جواب میں انھیں ہمیشہ تگڑا ہی جواب ملنا تھا۔

پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک بھارتی سرکار کی خواہش یہ ہی رہی ہے کہ اس ریاست کو اس حد تک محدود کردیں کہ ہمیں اپنا ہر قدم اٹھانے سے پہلے ان سے ڈکٹیشن لینا پڑے۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کا عمل تو بنگلہ دیش بننے کی صورت میں بھی نہ ہوا۔ خیال یہی تھاکہ ایک بازو الگ ہوجانے پر شاید کہ ایسی کمزوری لاحق ہوگئی ہو کہ اب تو ان کو ہمارے اور احکامات کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن سلام ہے میرے قائد سے لے کر آج تک کے حکمرانوں کو۔ چاہے اندر سے کتنی ہی کھچڑی پکتی رہی، زخم کھلتے اور دھلتے رہے، تکالیف اور مسائل سر اٹھاتے رہے لیکن ان کی یہ مذموم خواہش کبھی پوری نہ ہوسکی اور دعا ہے کہ کبھی پوری نہ ہو۔

نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش پر اپنی سرداری کا سکہ جماتے جماتے ہزاروں ڈالرز کا اسلحہ خرید کر انبار لگاتے، ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے، لیکن ایک چھوٹے سے خطے کا مالک پاکستان برابری کی سطح پر کل بھی کھڑا تھا اور آج بھی کھڑا ہے۔ دہشت گردی، ہتھوڑا گروپ پھر چھلاوا گروپ اور اب بچوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ، یہ سب ایک ایسے مقامات پر یکجا ملتے نظر آرہے ہیں کہ جس سے ملک خداداد میں بے چینی، اضطراب، بدامنی، انتشار اور انارکی پھیلے۔ جتنا گڑ ڈالو اتنا ہی میٹھا ملے گا۔ لہٰذا ہم سب 1947 کے بعد سے آج تک اس گڑ کی تلخیاں چکھتے آئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک بلوچستان کی حالت زار پر تمام دردمند محبان وطن دل گرفتہ تھے لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس تلخی کو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی دعاؤں اور محبتوں نے شیرو شکر میں تبدیل کردیا۔ یہ سمجھنے والوں کے لیے ہی مقام ہے کہ دلوں کی حالت سے وہ ہی واقف ہیں کہ جنھوں نے اسے تخلیق کیا ہے۔ پہلی کامیابی کی سیڑھی دراصل اسی مقام سے تو شروع ہوتی ہے۔


پاکستان جب سے ایٹمی قوت بن کر ابھرا ہے، اس وقت سے احساس کمتری کے گراف میں کچھ اور بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک ایسا خطرہ جسے کانٹ چھانٹ کر مختصر کرنے کے بعد بھی اتنی شدت، اتنی تیزی، کہ مقابلہ آمنے سامنے ہورہا ہے۔ چین کی دوستی کی مضبوطی بھی اسی مرحلے پر نمک پاشی کرتی رہی۔ بس کسی طرح ... اور کس طرح نہیں، کرنے کی سازشیں بنتی اور بگڑتی جارہی ہیں، زیر کو زبر اور ناممکن کو ممکن کرنے کے چکر میں حالیہ بھارتی سرکار اب خاصی دور جاچکی ہے۔ دنیا بھر میں اساتذہ کے اعلیٰ مقام کی عزت کی جاتی ہے لیکن جس بے دردی سے ایک لیکچرار کی جان لی گئی کیا اس پر دل نہیں تڑپے۔ 1988 سے جس خطرناک تحریک کا آغاز بھارتی سرکار نے کشمیر کے سلسلے میں کیا تھا، اس سے کشمیر کے طول و ارض میں پانچ سو سے زائد قبرستان آباد ہوچکے ہیں۔

کشمیری نوجوانوں کو مارکر اپنے سینوں پر تمغے سجالینے کی یہ تحریک انتہائی مکروہ اور دلخراش ہے، گھروں سے اغوا کرلینا، چلتے پھرتے اٹھالینا، پھر یا تو ان نوجوانوں کی لاشیں کسی چوک یا چوراہے سے ملتیں، یا پھر کسی دور ویرانے میں مسخ شدہ لاش۔ ہزاروں نوجوان بے گناہ کشمیری اس بربریت کا نشانہ بنے۔ یہ کہاں جارہے ہیں، کیسے غائب ہورہے ہیں، کون اٹھالیتا ہے، جواب تو موجود تھا لیکن بھارتی سرکار اپنا منہ کیسے کھولتی کہ اس کے عوض اپنے جوانوں کو بہادری اور شجاعت کے میڈلز عطا کیے جارہے تھے۔ کیوں کہ ان کے خیال میں ہر کشمیری جوان آتنک وادی ہے، ہر کشمیری جوان بھارتی ماتا کے خلاف ہے، لہٰذا موت کا مستحق ہے۔

ایک بھارتی فوجی کی ڈائری کے کچھ مندرجات ایک اشاعتی ادارے نے جاری کیے۔ 6 فروری 2007 کو جاری ہونے والے ان مندرجات میں کچھ اس طرح سے تھے ''آیا کہ کوئی بھی کسی غریب ترکھان کو کیوں مارنا چاہے گا؟، وہ غریب کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے کہ مجھے اپنی نادانی پر حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ جواب یہ ہے کہ کشمیر میں سیکیورٹی افواج کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کا مطلب میڈلز، انعامی رقوم، ترقی اور دیگر مراعات بن گیا ہے''۔

اس بات کا اعتراف اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی کرنا پڑا تھا، جب عبدالرحمن کی قبر کشائی پر مقبوضہ کشمیر میں ایک شوروغوغا مچا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ بھارتی فوجی انعام، ترقی اور میڈلز کی خاطر بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو غیر ملکی جنگجو قرار دے کر اپنے ہاتھ ان کے خون سے رنگ رہے ہیں۔

نریندر مودی کے بیان پر بلوچستان میں ایک بہت بڑا احتجاجی جلوس نکالا گیا، جس سے یہ بات توظاہر ہوتی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہم پوری پاکستانی قوم ایک ہیں، لیکن جس جوش و جذبے کا مظاہرہ احتجاجی جلوس کی شکل میں ہوا اس سے یہ اندازہ لگاناآسان ہے کہ انشاء اﷲ وقت قریب ہے جب کشمیر، مسئلہ کشمیر نہیں رہے گا۔ لاتعداد مظلوم کشمیریوں کا خون جلد ہی رنگ لائے گا۔ چاہے بھارتی سرکار کوئی سی بھی ہو، کیونکہ فیصلے دلوں سے ہوتے ہیں، تقدیر کے ماتھے پر ہی سجتے ہیں۔
Load Next Story