کان کنوں کے نامساعد حالات
ہمیں اس وقت ایک رنگ و روغن بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک محنت کش کا واقعہ یاد آرہا ہے
NEW DELHI/ISLAMABAD:
گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں نمک کی کان میں کام کرنے والے محنت کشوں کے نامساعد حالات نے انھیں شدید احتجاج کرنے پر مجبورکردیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ محنت کش کو صنعت وحرفت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس کے بغیر پیداوار کا پہیہ جام ہوجاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ملک کا مزدور طبقہ اپنے جائز حقوق سے مدت دراز سے محرومی کا شکار ہے اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ:
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
اس ملک میں جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا بے چارے مزدورکا بری طرح سے استحصال ہو رہا ہے۔
ہمیں اس وقت ایک رنگ و روغن بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک محنت کش کا واقعہ یاد آرہا ہے جوکراچی شہر کی ایک دور افتادہ بستی لانڈھی میں رہائش پذیر تھا اور شیر شاہ نامی صنعتی علاقے میں ملازم تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے بچوں کو جاگتے ہوئے بہت کم دیکھا ہے کیونکہ اسے منہ اندھیرے گھر سے نکلنا ہوتا تھا اور اس کی گھر واپسی تک اس کے بچے اس کا انتظار کرتے کرتے تھک کر سوچکے ہوتے تھے۔
اپنے بچوں سے اس کی ملاقات صرف ہفتے کے ناغے تک ہی محدود تھی۔ اس بے چارے کی نوکری بھی برسوں کی خدمت کے باوجود کچی ہی تھی کیونکہ چالاک آجر 90 دن پورے ہونے سے پہلے حاضری رجسٹر میں اسے غیر حاضر ظاہر کردیا کرتا تھا تاکہ لیبر قوانین کی رو سے اسے مستقل ملازم کی حیثیت حاصل نہ ہوسکے۔ جمہوریت کے نام پر ہمارے ملک میں جس طرز کا نظام رائج ہے اس میں اس طرح کے حالات کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ان حالات میں بے چارے مزدوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ:
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
اس تناظر میں ہمیں اپنا برسوں پرانا جاپان کا دورہ یاد آرہا ہے جس کے دوران ہمیں اس ملک کی حیرت انگیز ترقی کا قریب سے ذاتی مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا تھا۔ ہم اس بے مثال ترقی کا راز جاننے کے شدید خواہش مند تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ روبوٹوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والے محنت کشوں کے پاس ہم سے گفتگو کرنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ انھیں تو اپنے کام سے گویا عشق تھا اور بقول شاعر:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
بہرحال ایک فیکٹری مزدور کے ساتھ چند منٹ کی بات چیت کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ ممکن ہے کہ فیکٹری کا سربراہ کسی روز فیکٹری آنے کا ناغہ کردے لیکن یہ بعید از قیاس ہے کہ وہ فیکٹری ورکرز کے ساتھ تبادلہ خیال کی اپنی ماہانہ ملاقات ملتوی کردے جس کا بنیادی مقصد ان کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔ بہ الفاظ دیگر فیکٹری مالکان نے اپنے ورکرز کی تمام تر ذمے داری اپنے اوپر لے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کا مزدور خود کو کمپنی کا ایک اسٹیک ہولڈر سمجھتا ہے۔
اسی حوالے سے ہمیں انگلستان کے صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور کے ایک مثالی صنعت کار رابرٹ اوین یاد آرہے ہیں جنھیں اپنے کارکنوں کی فلاح و بہبود کا اس حد تک خیال تھا کہ انھوں نے اپنے فیکٹری ورکرز کی ٹریڈ یونین کی اپنے ہاتھوں سے بنیاد رکھی تھی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مزدور کا استحصال ایک معمول بن چکا ہے اور ٹریڈ یونینز کو ابھرنے اور فروغ پانے کا سازگار ماحول میسر نہیں آسکا۔ مفاد یافتہ طبقے نے مزدور کے حق میں مطلوبہ قانون سازی بھی نہیں ہونے دی اور جس قدر قانون سازی ہوئی بھی تو اسے پوری طرح اس کی روح کے مطابق نافذ ہونے نہیں دیا۔ اس سلسلے میں اگر کچھ قابل ذکر کام ہوا تھا تو وہ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکمرانی میں ہوا تھا ورنہ تو جو کچھ بھی ہوا ہے اسے محض Lip Service ہی کہا جاسکتا ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ بھٹو صاحب ہی کے زمانے میں ریڈیو پاکستان نے مزدوروں کے خصوصی نغمے بھی ریکارڈ کیے تھے جو محنت کشوں کے پروگراموں میں نشر کیے جاتے تھے۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں مزدور یونینزکی فعال کارکردگی کے لحاظ سے بھی یہ دور قابل ذکر دور تھا۔ اب بھی بعض ادارے ایسے باقی ہیں جہاں ٹریڈ یونینز کا وجود اور اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ وطن عزیز میں Trade Unionism درست اور صحت مند خطوط پر استوار نہیں ہوسکا۔
وطن عزیز میں سب سے برا حال بے چارے بھٹے کے مزدوروں کا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جو غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان بے چاروں کی حالت یہ ہے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
ان کی اپنی اور ان کے بال بچوں کی پوری زندگی کا سارا دار و مدار مالک کے رحم وکرم پر ہے مگر ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں میں سے کسی کو بھی ان کی جانب توجہ دینے کی نہ تو توفیق ہے اور نہ ہی فرصت ہے۔ البتہ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ان کے ووٹ ضرور حاصل کرلیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرا نمبر کان کنوں کا ہے جن کی حالت زار کی ترجمانی کے لیے درج ذیل شعر ہی کافی ہے:
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
نمک، کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات کا تصور بھی عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ بے چارے زندہ درگور ہوتے ہیں اور قبر کا حال صرف مردہ ہی جانتا ہے۔ انھیں زیرزمین انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ کان نمک کی ہو یا کوئلے کی، اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی جان ہمیشہ ہتھیلی پر ہی رہتی ہے۔ کسی بھی ناگہانی حادثے کا پیش آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں یا تو ایک دم دب کر مر جانے سے ان کی موت واقع ہوسکتی ہے یا پھر انھیں زیر زمین دبے رہ کر گھنٹوں سسک سسک کر اپنی موت یا زندگی کے معجزانہ طور پر بچ جانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بھوک، پیاس، گھٹن اور بے قراری کی یہ کیفیت بیان سے باہر ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں کان کنوں کے حالات کار بہت بہتر اور سازگار ہوچکے ہیں مگر وطن عزیز میں ان کے حالات آج تک وہی نامساعد اور غیر انسانی ہیں۔ دنیا بھر میں کان کے اندر روشنی کے لیے Open Flame یا Filament Bulb کے استعمال پر سخت پابندی عائد ہے مگر پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اس پابندی کی خلاف ورزی جاری ہے جس کے نتیجے میں ان کانوں میں کام کرنے والے مزدور ہر وقت سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔
کانوں کے لیز ہولڈرز کو ان مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ انھیں تو صرف اپنی کمائی اور آمدنی سے غرض ہے۔ کان کنی کا شعبہ ہمارے ملک میں جزوقتی چھوٹے ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر کام کر رہا ہے جو زیادہ تر سرکاری قوانین و ضوابط کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حادثے کی صورت میں جاں بحق ہوجانے والے یا شدید زخمی اور معذور ہوجانے والے بدقسمت مزدوروں اور ان کے لواحقین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
حکومت وقت اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے قانون سازوں کا فرض ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا بلاتاخیر سنجیدگی سے نوٹس لیں اور اصلاح احوال کے لیے تمام مطلوبہ اقدامات اٹھائیں۔
گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں نمک کی کان میں کام کرنے والے محنت کشوں کے نامساعد حالات نے انھیں شدید احتجاج کرنے پر مجبورکردیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ محنت کش کو صنعت وحرفت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس کے بغیر پیداوار کا پہیہ جام ہوجاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ملک کا مزدور طبقہ اپنے جائز حقوق سے مدت دراز سے محرومی کا شکار ہے اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ:
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
اس ملک میں جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا بے چارے مزدورکا بری طرح سے استحصال ہو رہا ہے۔
ہمیں اس وقت ایک رنگ و روغن بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک محنت کش کا واقعہ یاد آرہا ہے جوکراچی شہر کی ایک دور افتادہ بستی لانڈھی میں رہائش پذیر تھا اور شیر شاہ نامی صنعتی علاقے میں ملازم تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے بچوں کو جاگتے ہوئے بہت کم دیکھا ہے کیونکہ اسے منہ اندھیرے گھر سے نکلنا ہوتا تھا اور اس کی گھر واپسی تک اس کے بچے اس کا انتظار کرتے کرتے تھک کر سوچکے ہوتے تھے۔
اپنے بچوں سے اس کی ملاقات صرف ہفتے کے ناغے تک ہی محدود تھی۔ اس بے چارے کی نوکری بھی برسوں کی خدمت کے باوجود کچی ہی تھی کیونکہ چالاک آجر 90 دن پورے ہونے سے پہلے حاضری رجسٹر میں اسے غیر حاضر ظاہر کردیا کرتا تھا تاکہ لیبر قوانین کی رو سے اسے مستقل ملازم کی حیثیت حاصل نہ ہوسکے۔ جمہوریت کے نام پر ہمارے ملک میں جس طرز کا نظام رائج ہے اس میں اس طرح کے حالات کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ان حالات میں بے چارے مزدوروں کا مسئلہ یہ ہے کہ:
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
اس تناظر میں ہمیں اپنا برسوں پرانا جاپان کا دورہ یاد آرہا ہے جس کے دوران ہمیں اس ملک کی حیرت انگیز ترقی کا قریب سے ذاتی مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا تھا۔ ہم اس بے مثال ترقی کا راز جاننے کے شدید خواہش مند تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ روبوٹوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والے محنت کشوں کے پاس ہم سے گفتگو کرنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ انھیں تو اپنے کام سے گویا عشق تھا اور بقول شاعر:
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
بہرحال ایک فیکٹری مزدور کے ساتھ چند منٹ کی بات چیت کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ ممکن ہے کہ فیکٹری کا سربراہ کسی روز فیکٹری آنے کا ناغہ کردے لیکن یہ بعید از قیاس ہے کہ وہ فیکٹری ورکرز کے ساتھ تبادلہ خیال کی اپنی ماہانہ ملاقات ملتوی کردے جس کا بنیادی مقصد ان کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔ بہ الفاظ دیگر فیکٹری مالکان نے اپنے ورکرز کی تمام تر ذمے داری اپنے اوپر لے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کا مزدور خود کو کمپنی کا ایک اسٹیک ہولڈر سمجھتا ہے۔
اسی حوالے سے ہمیں انگلستان کے صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور کے ایک مثالی صنعت کار رابرٹ اوین یاد آرہے ہیں جنھیں اپنے کارکنوں کی فلاح و بہبود کا اس حد تک خیال تھا کہ انھوں نے اپنے فیکٹری ورکرز کی ٹریڈ یونین کی اپنے ہاتھوں سے بنیاد رکھی تھی۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مزدور کا استحصال ایک معمول بن چکا ہے اور ٹریڈ یونینز کو ابھرنے اور فروغ پانے کا سازگار ماحول میسر نہیں آسکا۔ مفاد یافتہ طبقے نے مزدور کے حق میں مطلوبہ قانون سازی بھی نہیں ہونے دی اور جس قدر قانون سازی ہوئی بھی تو اسے پوری طرح اس کی روح کے مطابق نافذ ہونے نہیں دیا۔ اس سلسلے میں اگر کچھ قابل ذکر کام ہوا تھا تو وہ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکمرانی میں ہوا تھا ورنہ تو جو کچھ بھی ہوا ہے اسے محض Lip Service ہی کہا جاسکتا ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ بھٹو صاحب ہی کے زمانے میں ریڈیو پاکستان نے مزدوروں کے خصوصی نغمے بھی ریکارڈ کیے تھے جو محنت کشوں کے پروگراموں میں نشر کیے جاتے تھے۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں مزدور یونینزکی فعال کارکردگی کے لحاظ سے بھی یہ دور قابل ذکر دور تھا۔ اب بھی بعض ادارے ایسے باقی ہیں جہاں ٹریڈ یونینز کا وجود اور اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ وطن عزیز میں Trade Unionism درست اور صحت مند خطوط پر استوار نہیں ہوسکا۔
وطن عزیز میں سب سے برا حال بے چارے بھٹے کے مزدوروں کا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جو غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان بے چاروں کی حالت یہ ہے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
ان کی اپنی اور ان کے بال بچوں کی پوری زندگی کا سارا دار و مدار مالک کے رحم وکرم پر ہے مگر ہمارے ملک کے کرتا دھرتاؤں میں سے کسی کو بھی ان کی جانب توجہ دینے کی نہ تو توفیق ہے اور نہ ہی فرصت ہے۔ البتہ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ان کے ووٹ ضرور حاصل کرلیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرا نمبر کان کنوں کا ہے جن کی حالت زار کی ترجمانی کے لیے درج ذیل شعر ہی کافی ہے:
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
نمک، کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات کا تصور بھی عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ بے چارے زندہ درگور ہوتے ہیں اور قبر کا حال صرف مردہ ہی جانتا ہے۔ انھیں زیرزمین انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ کان نمک کی ہو یا کوئلے کی، اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی جان ہمیشہ ہتھیلی پر ہی رہتی ہے۔ کسی بھی ناگہانی حادثے کا پیش آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں یا تو ایک دم دب کر مر جانے سے ان کی موت واقع ہوسکتی ہے یا پھر انھیں زیر زمین دبے رہ کر گھنٹوں سسک سسک کر اپنی موت یا زندگی کے معجزانہ طور پر بچ جانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بھوک، پیاس، گھٹن اور بے قراری کی یہ کیفیت بیان سے باہر ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں کان کنوں کے حالات کار بہت بہتر اور سازگار ہوچکے ہیں مگر وطن عزیز میں ان کے حالات آج تک وہی نامساعد اور غیر انسانی ہیں۔ دنیا بھر میں کان کے اندر روشنی کے لیے Open Flame یا Filament Bulb کے استعمال پر سخت پابندی عائد ہے مگر پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اس پابندی کی خلاف ورزی جاری ہے جس کے نتیجے میں ان کانوں میں کام کرنے والے مزدور ہر وقت سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔
کانوں کے لیز ہولڈرز کو ان مزدوروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ انھیں تو صرف اپنی کمائی اور آمدنی سے غرض ہے۔ کان کنی کا شعبہ ہمارے ملک میں جزوقتی چھوٹے ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر کام کر رہا ہے جو زیادہ تر سرکاری قوانین و ضوابط کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حادثے کی صورت میں جاں بحق ہوجانے والے یا شدید زخمی اور معذور ہوجانے والے بدقسمت مزدوروں اور ان کے لواحقین کو کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔
حکومت وقت اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے قانون سازوں کا فرض ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا بلاتاخیر سنجیدگی سے نوٹس لیں اور اصلاح احوال کے لیے تمام مطلوبہ اقدامات اٹھائیں۔