خیبرپختونخوا میں نظام کی تبدیلی
غیر شفاف، طبقاتی اور غیر منصفانہ نظام کے ہوتے ہوئے پاکستان کی ترقی وخوشحالی ممکن نہیں
سماجی اورمعاشی ناہمواریاں، ذاتی مفادات کی ترجیح کے ساتھ جاری سیاسی نظام اہل پاکستان کی مشکلات اور مسائل میں مسلسل اضافوں کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے اسٹیٹس کو اور فرسودہ نظام سے چھٹکارا پانے کی اور جدید تقاضوں کے مطابق ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے، جہاں شفافیت ہو۔ایسا نظام جس میں عوام کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کسی رشوت یا سفارش کی ضرورت نہ ہو۔ پاکستان میں نظام کی خرابیوں اور استحصال کی وجہ سے ملک میں امیر اورغریب کے درمیان فرق ، امیروں کی مراعات اور غریبوں کی محرومیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ایک طرف تو چند لاکھ افراد بے انتہا دولت کے مالک ہوگئے ہیں اور ان میں سے اکثرکی دولت میں تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف آٹھ کروڑ سے زیادہ پاکستانی دو وقت کی روٹی بھی ٹھیک طرح حاصل نہیں کرپاتے۔غریبوں کے مسائل اور مصائب بہت تکلیف دہ ہیں حالانکہ ان میں سے کئی مسائل محض عام سے انتظامی اقدامات سے حل ہوسکتے ہیں۔
غیر شفاف، طبقاتی اور غیر منصفانہ نظام کے ہوتے ہوئے پاکستان کی ترقی وخوشحالی ممکن نہیں۔ پاکستان کو قدرت نے بے انتہا وسائل اور باصلاحیت افرادی قوت سے نوازا ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے حکومتی و بلدیاتی نظاموں سے استفادہ کرکے پاکستان بہت جلد تیزی سے ترقی کرتا ملک بن سکتا ہے۔ ہمیں ایک اہل اور دیانت دار لیڈر شپ اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق عوامی فلاح پر مبنی ایک موثر نظام کی ضرورت ہے۔ ایسے کسی نئے نظام کے لیے سیاسی جماعتوں کا بھرپورعزم درکار ہے۔ سیاسی عزم کے بعد ضروری قانون سازی، مالی وسائل، مناسب تربیت کے حامل افسروں اورکارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ ہفتے دو دن میں نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گزارے۔ اس مختصر قیام کے دوران مختلف شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں رہیں۔ ان میں تاجر، انجنیئر، ڈاکٹر، اساتذہ، طالب علم، مزدور، بس ڈرائیورکنڈکٹر وغیرہ بھی شامل تھے۔
سی پی این ای کے وفد کے ہمراہ صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے ملاقات ہوئی۔ اس موقعے پر صوبائی مشیرِ اطلاعات مشتاق غنی، سیکریٹری اطلاعات طارق حسن بھی موجود تھے۔ پرویز خٹک گزشتہ تین دہائیوں سے سماجی اور سیاسی سطح پر متحرک ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں خیبرپختو نخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد زیادہ تو تھی مگر کسی سیاسی جماعت کے پاس حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت نہ تھی۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی قومی وطن پارٹی اور صوابی کے چند اراکین کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی، اس حکومت کی سربراہی کے لیے عمران خان کی نظرانتخاب پرویزخٹک پر جا ٹھہری تھی۔
ہمارے ملک میں ابھی سیاسی جماعتوں کو بطور انسٹی ٹیوشن برتنے کا رواج نہیں ہوا ہے۔ بیشتر بڑی سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی سب سے موثر اور نمایاں ترین شخصیت خود اس کے سربراہ عمران خان کی ہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزیرِ اعلیٰ تحریک انصاف کا ہے اس لحاظ سے اس صوبے پر عمران خان کی حکمرانی ہے۔ تاہم یہ تاثر خوش آیند ہے کہ عمران خان نے حکومت کے روز مرہ میں معاملات میں دخل اندازی کے بجائے خود کو رہنمائی اور پالیسی سازی تک ہی محدود رکھا ہے۔
یاد رہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بننے میں کوئی' سیاسی رکاوٹ' نہیں ڈالی تھی بلکہ انھیں حکومت سازی کے کھلے مواقعے فراہم کیے گئے تھے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مخلوط حکومتیں عام طور پر مشکل اور غیر روایتی فیصلے نہیں کر پاتیں۔ بعض اوقات اتحادی حکومتیں اپنے اراکین کی فرمائشیں یا توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے خود اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ پاتیں۔ خیبر پختونخوا کے اتحادیوں کی اس روش کو سراہنا چاہیے کہ انھوں نے پاور شیئرنگ اس طرح کی ہے کہ اْن کے سب ساتھی بالعموم مطمئن ہیں۔ گو کہ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کو خود اپنی جماعت کے اندر کچھ مخالفتوں کا سامنا ہے لیکن اس مخالفت نے اسمبلی میں قانون سازی اور حکومتی معاملات میں کسی بڑی رکاوٹ کا روپ نہیں دھارا۔
بہرحال۔ عمران خان نے تبدیلی کا جو نعرہ لگایا ہے خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت اسے سنجیدگی اور کمٹ منٹ کے ساتھ عملی شکل دیتی نظر آتی ہے۔ وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک نے نظام کی تبدیلی کے حوالے سے خیبر پختونوا میں قانون سازی ،پولیس میں اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات، سرکاری ملازمتوں میں سفارش اور رشوت کی روک تھام اور میرٹ کو یقینی بنانا ، بلدیاتی اْمورکی بہتری ، بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں کی سطح پر بھی صفائی کا اہتمام، صوبے میں جنگلات کی حفاظت اور ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا پروگرام، پشاور سوات موٹروے کی تعمیر، مقامی سطح پر بجلی کی پیداوار کے منصوبوں، صنعتی زون کے لیے سستی بجلی ودیگر مراعات اور دیگر کئی اقدامات کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ انھوں نے یہ گلہ بھی کیا کہ وفاق روزانہ 600 میگاواٹ بجلی کم فراہم کررہا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کا ایک اہم قدم پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد ایک ایسا ادارہ بنانا ہے جسے عوام کا بھرپور اعتماد ہو۔ اس مقصد کے لیے مناسب قانون سازی اور محکمۂ پولیس میں اصلاحات کی غرض سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان کے ایک نہایت قابل اور دیانت دار پولیس آفیسر ناصر خان درانی کی خدمات حاصل کیں۔ یہ ناصرف شعبۂ پولیس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ معاشرے کو درپیش کئی چیلنجز کے ہمہ جہت پہلوؤں اور قانونی معاملات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔
تقریباً دو ہفتے پہلے مجھے اسلام آباد میں عمران خان سے ملاقات اور خیبر پختونخوا کے آئی جی ناصر خان درانی کی جانب سے ایک تفصیلی بریفنگ میں شرکت کا موقع بھی ملا تھا۔ اس بریفنگ میں آئی جی پولیس نے واضح الفاظ میں بتایا کہ پولیس کے کام میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے، صوبے میں پولیس کو بااختیار اور مناسب انداز میں جوابدہ بنانے کے اچھے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
آئی جی کی ان باتوں کی تائید پشاور میں رہنے والے کئی افراد نے کی۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد ناصرف خیبرپختونخوابلکہ سارے ملک میں ہی دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی اور امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں نے ملکی سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس نے بھی بہت قربانیاں دیں۔ ان قربانیوں کی وجہ سے ہی خیبر پختونخوا کو تحفظ کا احساس ہورہا ہے اور تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت اپنے پروگراموں پر موثر طریقوں سے عمل درآمد کررہی ہے۔
مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کی سیاسی حریف ہیں۔ دو سال پہلے تحریک انصاف کی جانب سے دیے جانے والے دھرنوں کی وجہ سے وفاقی حکومت کے کئی منصوبوں کی رفتارمتاثر ہوئی تھی۔ اب تحریک انصاف پانامہ لیکس کے موضوع پر مسلم لیگ کے خلاف سخت موقف اختیارکیے ہوئے ہے۔
یہ سیاسی رقابتیں اور کھینچا تانی اپنی جگہ لیکن تحریک انصاف کے وزیرِ اعلیٰ پرویزخٹک کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ خیبر پختوانخوا میں نظام کی تبدیلی کی کوششیں ہوں، مقامی سطح پر بجلی کی پیداوار کے منصوبے ہوں یا کئی دیگر امور، ان پر وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون جاری ہے۔ کہیں بعض معاملات پر فیصلوں میں کچھ تاخیر کا تاثر بھی ملا لیکن بحیثیت مجموعی یہ احساس ہوا کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت کے اصلاحی ، انتظامی، ترقیاتی پروگرامز میں ان کے ساتھ بالعموم تعاون کررہی ہے۔ اس طرزِ عمل پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کو مبارک باد دینی چاہئسے۔
دورِ حاضر جدید ٹیکنالوجی سے استفادے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا دور ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو مختلف صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے ہٹ کر علمی انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔ جس صوبے نے جو بھی اچھا کام کیا ہو، عوام کی بہتری کے لیے اْس کا اعتراف ، تائید اور تقلید سب کے لیے فائدہ مند ہوگی۔
(نوٹ: گزشتہ کالم میں سانحۂ کوئٹہ کی تاریخ سہواً 9اگست شایع ہوئی ہے، یہ سانحہ 8 اگست کو ہوا تھا۔)
غیر شفاف، طبقاتی اور غیر منصفانہ نظام کے ہوتے ہوئے پاکستان کی ترقی وخوشحالی ممکن نہیں۔ پاکستان کو قدرت نے بے انتہا وسائل اور باصلاحیت افرادی قوت سے نوازا ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے حکومتی و بلدیاتی نظاموں سے استفادہ کرکے پاکستان بہت جلد تیزی سے ترقی کرتا ملک بن سکتا ہے۔ ہمیں ایک اہل اور دیانت دار لیڈر شپ اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق عوامی فلاح پر مبنی ایک موثر نظام کی ضرورت ہے۔ ایسے کسی نئے نظام کے لیے سیاسی جماعتوں کا بھرپورعزم درکار ہے۔ سیاسی عزم کے بعد ضروری قانون سازی، مالی وسائل، مناسب تربیت کے حامل افسروں اورکارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ ہفتے دو دن میں نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گزارے۔ اس مختصر قیام کے دوران مختلف شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں رہیں۔ ان میں تاجر، انجنیئر، ڈاکٹر، اساتذہ، طالب علم، مزدور، بس ڈرائیورکنڈکٹر وغیرہ بھی شامل تھے۔
سی پی این ای کے وفد کے ہمراہ صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے ملاقات ہوئی۔ اس موقعے پر صوبائی مشیرِ اطلاعات مشتاق غنی، سیکریٹری اطلاعات طارق حسن بھی موجود تھے۔ پرویز خٹک گزشتہ تین دہائیوں سے سماجی اور سیاسی سطح پر متحرک ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں خیبرپختو نخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد زیادہ تو تھی مگر کسی سیاسی جماعت کے پاس حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت نہ تھی۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی قومی وطن پارٹی اور صوابی کے چند اراکین کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی، اس حکومت کی سربراہی کے لیے عمران خان کی نظرانتخاب پرویزخٹک پر جا ٹھہری تھی۔
ہمارے ملک میں ابھی سیاسی جماعتوں کو بطور انسٹی ٹیوشن برتنے کا رواج نہیں ہوا ہے۔ بیشتر بڑی سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی سب سے موثر اور نمایاں ترین شخصیت خود اس کے سربراہ عمران خان کی ہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزیرِ اعلیٰ تحریک انصاف کا ہے اس لحاظ سے اس صوبے پر عمران خان کی حکمرانی ہے۔ تاہم یہ تاثر خوش آیند ہے کہ عمران خان نے حکومت کے روز مرہ میں معاملات میں دخل اندازی کے بجائے خود کو رہنمائی اور پالیسی سازی تک ہی محدود رکھا ہے۔
یاد رہے کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بننے میں کوئی' سیاسی رکاوٹ' نہیں ڈالی تھی بلکہ انھیں حکومت سازی کے کھلے مواقعے فراہم کیے گئے تھے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مخلوط حکومتیں عام طور پر مشکل اور غیر روایتی فیصلے نہیں کر پاتیں۔ بعض اوقات اتحادی حکومتیں اپنے اراکین کی فرمائشیں یا توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے خود اپنا وجود ہی برقرار نہیں رکھ پاتیں۔ خیبر پختونخوا کے اتحادیوں کی اس روش کو سراہنا چاہیے کہ انھوں نے پاور شیئرنگ اس طرح کی ہے کہ اْن کے سب ساتھی بالعموم مطمئن ہیں۔ گو کہ وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کو خود اپنی جماعت کے اندر کچھ مخالفتوں کا سامنا ہے لیکن اس مخالفت نے اسمبلی میں قانون سازی اور حکومتی معاملات میں کسی بڑی رکاوٹ کا روپ نہیں دھارا۔
بہرحال۔ عمران خان نے تبدیلی کا جو نعرہ لگایا ہے خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت اسے سنجیدگی اور کمٹ منٹ کے ساتھ عملی شکل دیتی نظر آتی ہے۔ وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک نے نظام کی تبدیلی کے حوالے سے خیبر پختونوا میں قانون سازی ،پولیس میں اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات، سرکاری ملازمتوں میں سفارش اور رشوت کی روک تھام اور میرٹ کو یقینی بنانا ، بلدیاتی اْمورکی بہتری ، بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں کی سطح پر بھی صفائی کا اہتمام، صوبے میں جنگلات کی حفاظت اور ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا پروگرام، پشاور سوات موٹروے کی تعمیر، مقامی سطح پر بجلی کی پیداوار کے منصوبوں، صنعتی زون کے لیے سستی بجلی ودیگر مراعات اور دیگر کئی اقدامات کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ انھوں نے یہ گلہ بھی کیا کہ وفاق روزانہ 600 میگاواٹ بجلی کم فراہم کررہا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کا ایک اہم قدم پولیس کو سیاسی مداخلت سے آزاد ایک ایسا ادارہ بنانا ہے جسے عوام کا بھرپور اعتماد ہو۔ اس مقصد کے لیے مناسب قانون سازی اور محکمۂ پولیس میں اصلاحات کی غرض سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان کے ایک نہایت قابل اور دیانت دار پولیس آفیسر ناصر خان درانی کی خدمات حاصل کیں۔ یہ ناصرف شعبۂ پولیس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ معاشرے کو درپیش کئی چیلنجز کے ہمہ جہت پہلوؤں اور قانونی معاملات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔
تقریباً دو ہفتے پہلے مجھے اسلام آباد میں عمران خان سے ملاقات اور خیبر پختونخوا کے آئی جی ناصر خان درانی کی جانب سے ایک تفصیلی بریفنگ میں شرکت کا موقع بھی ملا تھا۔ اس بریفنگ میں آئی جی پولیس نے واضح الفاظ میں بتایا کہ پولیس کے کام میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے، صوبے میں پولیس کو بااختیار اور مناسب انداز میں جوابدہ بنانے کے اچھے نتائج اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
آئی جی کی ان باتوں کی تائید پشاور میں رہنے والے کئی افراد نے کی۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد ناصرف خیبرپختونخوابلکہ سارے ملک میں ہی دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی اور امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں نے ملکی سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس نے بھی بہت قربانیاں دیں۔ ان قربانیوں کی وجہ سے ہی خیبر پختونخوا کو تحفظ کا احساس ہورہا ہے اور تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت اپنے پروگراموں پر موثر طریقوں سے عمل درآمد کررہی ہے۔
مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کی سیاسی حریف ہیں۔ دو سال پہلے تحریک انصاف کی جانب سے دیے جانے والے دھرنوں کی وجہ سے وفاقی حکومت کے کئی منصوبوں کی رفتارمتاثر ہوئی تھی۔ اب تحریک انصاف پانامہ لیکس کے موضوع پر مسلم لیگ کے خلاف سخت موقف اختیارکیے ہوئے ہے۔
یہ سیاسی رقابتیں اور کھینچا تانی اپنی جگہ لیکن تحریک انصاف کے وزیرِ اعلیٰ پرویزخٹک کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ خیبر پختوانخوا میں نظام کی تبدیلی کی کوششیں ہوں، مقامی سطح پر بجلی کی پیداوار کے منصوبے ہوں یا کئی دیگر امور، ان پر وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون جاری ہے۔ کہیں بعض معاملات پر فیصلوں میں کچھ تاخیر کا تاثر بھی ملا لیکن بحیثیت مجموعی یہ احساس ہوا کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت کے اصلاحی ، انتظامی، ترقیاتی پروگرامز میں ان کے ساتھ بالعموم تعاون کررہی ہے۔ اس طرزِ عمل پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کو مبارک باد دینی چاہئسے۔
دورِ حاضر جدید ٹیکنالوجی سے استفادے اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا دور ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو مختلف صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے ہٹ کر علمی انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔ جس صوبے نے جو بھی اچھا کام کیا ہو، عوام کی بہتری کے لیے اْس کا اعتراف ، تائید اور تقلید سب کے لیے فائدہ مند ہوگی۔
(نوٹ: گزشتہ کالم میں سانحۂ کوئٹہ کی تاریخ سہواً 9اگست شایع ہوئی ہے، یہ سانحہ 8 اگست کو ہوا تھا۔)