اولمپک تیراک جس نے20 جانیں بچا لیں
یسریٰ بڑی ہوئی تو تیراکی کے عالمی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کی۔شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس کا گھر تباہ ہو گیا
QUETTA:
اپنی جان خطرے میں ڈال کر مصیبت زدہ انسانوں کی جانیں بچانا ایثار کا بلند ترین درجہ ہے۔شام سے تعلق رکھنے والی اولمپک تیراک،یسریٰ ماردینی اسی اعلی درجے پر فائز ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔یسریٰ دمشق میں پیدا ہوئی اور بچپن ہی سے تیراکی سیکھنے لگی۔
یسریٰ بڑی ہوئی تو تیراکی کے عالمی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کی۔شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس کا گھر تباہ ہو گیا۔اگست 2015ء میں یسریٰ کے والدین نے بڑی بہن،سارا کے ساتھ اسے بیرون ملک بھجوا دیا۔دونوں بہنیں پہلے لبنان اور پھر وہاں ترکی پہنچی، ترکی میں ایک رات وہ کشتی میں سوار ہوئیں تاکہ یونان پہنچ سکیں۔کشتی میں ان کے علاوہ 18 مسافر سوار تھے۔ بدقستی سے دوران راہ کشتی کی موٹر خراب ہو گئی۔اب ان کا سفر رک گیا۔کشتی بہت چھوٹی تھی،اس میں چھ سات لوگ ہی بیٹھ سکتے تھے۔زیادہ وزن کی وجہ سے اس میں پانی بھرنے لگا۔ مسافروں نے یہ دیکھا تو خوف کے مارے چیخنے لگے۔یسری اور سارا کے علاوہ صرف دو مسافر تیرنا جانتے تھے۔پریشان کن حالات میں عموماً ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر لگ جاتی ہے۔
اس وقت دونوں بہنیں تیرتے ہوئے ساحل پرپہنچ جاتیں تو شاید ہی کوئی انھیں معتوب ٹھہراتا، مگر ان کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ وہ تیرنا نہ جاننے والے انسانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیں۔ بہنوں کے اصرار پہ بقیہ دونوں تیراک بھی سمندر میں کودے اور چاروں کشتی کو دھکا لگاتے یونانی ساحل کی طرف دھکیلنے لگے۔ان کا یہ پُرصعوبت سفر ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔ان تکلیف دہ لمحات کو یاد کرتے ہوئے یسریٰ بتاتی ہے:'' میرے ایک ہاتھ میں کشتی سے منسلک رسی تھی۔ میں ٹانگوں اور ایک ہاتھ کی مدد سے آگے بڑھ رہی تھی۔ہم سرد پانی میںساڑھے تین گھنٹے تک تیرتے رہے، میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جو بتا سکیں کہ اس وقت میرے جسم کو کیسا محسوس ہورہا تھا''۔یوں محض سترہ سالہ لڑکی نے اپنی ہمت و جذبہ ہمدردی کے بل بوتے پر آخرخراب کشتی ساحل تک پہنچا دی، یونان سے دونوں بہنیں مقدونیہ، سربیا، ہنگری اور آسٹریا سے گزر کر جرمنی پہنچ گئیں ۔بعد ازاں ان کے والدین بھی بیٹیوں سے آ ملے۔ایثار کا اعلی مظاہرہ دکھانے پہ یسریٰ ماردینی کو جلد ہی منفرد انعام بھی مل گیا۔
جون 2016ء میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اسے ''ریفیوجی اولمپک ٹیم''کے لیے منتخب کر لیا۔حالیہ اولمپکس میں شرکت کرنے والی یہ ٹیم صرف پناہ گزیں کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ تیراکی کی مقابلوں میں یسریٰ کوئی تمغہ نہ جیت سکی،مگر اسے کرہ ارض کے عظیم ترین کھیلوں کے ٹورنامنٹ میں شرکت کا اعزاز ضرور حاصل ہو گیا۔اٹھارہ قیمتی زندگیوں کو بچا کر یسریٰ نے جو بے مثال جرات و قربانی دکھائی،یہ اس کا انمول الوہی انعام تھا۔اب وہ سمندر میں جاتے ہوئے کچھ جھجکتی ہے، مگر ساڑھے تین گھنٹے کا کٹھن سفر اس کے لیے بھیانک خواب نہیں تھا۔وہ کہتی ہے:
'' مجھے یہ حقیقت ہمیشہ یاد رہے گی کہ اگر میں تیراکی نہ جانتی تو ہوسکتا ہے کہ اب زندہ نہ ہوتی۔اسی لیے وہ سفر ایک مثبت یاد بن کر تا عمر میری روح میں بسا رہے گا۔''
اپنی جان خطرے میں ڈال کر مصیبت زدہ انسانوں کی جانیں بچانا ایثار کا بلند ترین درجہ ہے۔شام سے تعلق رکھنے والی اولمپک تیراک،یسریٰ ماردینی اسی اعلی درجے پر فائز ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔یسریٰ دمشق میں پیدا ہوئی اور بچپن ہی سے تیراکی سیکھنے لگی۔
یسریٰ بڑی ہوئی تو تیراکی کے عالمی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کی۔شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس کا گھر تباہ ہو گیا۔اگست 2015ء میں یسریٰ کے والدین نے بڑی بہن،سارا کے ساتھ اسے بیرون ملک بھجوا دیا۔دونوں بہنیں پہلے لبنان اور پھر وہاں ترکی پہنچی، ترکی میں ایک رات وہ کشتی میں سوار ہوئیں تاکہ یونان پہنچ سکیں۔کشتی میں ان کے علاوہ 18 مسافر سوار تھے۔ بدقستی سے دوران راہ کشتی کی موٹر خراب ہو گئی۔اب ان کا سفر رک گیا۔کشتی بہت چھوٹی تھی،اس میں چھ سات لوگ ہی بیٹھ سکتے تھے۔زیادہ وزن کی وجہ سے اس میں پانی بھرنے لگا۔ مسافروں نے یہ دیکھا تو خوف کے مارے چیخنے لگے۔یسری اور سارا کے علاوہ صرف دو مسافر تیرنا جانتے تھے۔پریشان کن حالات میں عموماً ہر کسی کو اپنی جان بچانے کی فکر لگ جاتی ہے۔
اس وقت دونوں بہنیں تیرتے ہوئے ساحل پرپہنچ جاتیں تو شاید ہی کوئی انھیں معتوب ٹھہراتا، مگر ان کے ضمیر نے گوارا نہ کیا کہ وہ تیرنا نہ جاننے والے انسانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیں۔ بہنوں کے اصرار پہ بقیہ دونوں تیراک بھی سمندر میں کودے اور چاروں کشتی کو دھکا لگاتے یونانی ساحل کی طرف دھکیلنے لگے۔ان کا یہ پُرصعوبت سفر ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا۔ان تکلیف دہ لمحات کو یاد کرتے ہوئے یسریٰ بتاتی ہے:'' میرے ایک ہاتھ میں کشتی سے منسلک رسی تھی۔ میں ٹانگوں اور ایک ہاتھ کی مدد سے آگے بڑھ رہی تھی۔ہم سرد پانی میںساڑھے تین گھنٹے تک تیرتے رہے، میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جو بتا سکیں کہ اس وقت میرے جسم کو کیسا محسوس ہورہا تھا''۔یوں محض سترہ سالہ لڑکی نے اپنی ہمت و جذبہ ہمدردی کے بل بوتے پر آخرخراب کشتی ساحل تک پہنچا دی، یونان سے دونوں بہنیں مقدونیہ، سربیا، ہنگری اور آسٹریا سے گزر کر جرمنی پہنچ گئیں ۔بعد ازاں ان کے والدین بھی بیٹیوں سے آ ملے۔ایثار کا اعلی مظاہرہ دکھانے پہ یسریٰ ماردینی کو جلد ہی منفرد انعام بھی مل گیا۔
جون 2016ء میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے اسے ''ریفیوجی اولمپک ٹیم''کے لیے منتخب کر لیا۔حالیہ اولمپکس میں شرکت کرنے والی یہ ٹیم صرف پناہ گزیں کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ تیراکی کی مقابلوں میں یسریٰ کوئی تمغہ نہ جیت سکی،مگر اسے کرہ ارض کے عظیم ترین کھیلوں کے ٹورنامنٹ میں شرکت کا اعزاز ضرور حاصل ہو گیا۔اٹھارہ قیمتی زندگیوں کو بچا کر یسریٰ نے جو بے مثال جرات و قربانی دکھائی،یہ اس کا انمول الوہی انعام تھا۔اب وہ سمندر میں جاتے ہوئے کچھ جھجکتی ہے، مگر ساڑھے تین گھنٹے کا کٹھن سفر اس کے لیے بھیانک خواب نہیں تھا۔وہ کہتی ہے:
'' مجھے یہ حقیقت ہمیشہ یاد رہے گی کہ اگر میں تیراکی نہ جانتی تو ہوسکتا ہے کہ اب زندہ نہ ہوتی۔اسی لیے وہ سفر ایک مثبت یاد بن کر تا عمر میری روح میں بسا رہے گا۔''