واجپائی وزیراعظم رہتے تومسئلہ کشمیر حل ہوجاتا سربراہ آرایس ایس
گزشتہ کئی برسوں سے وادی میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہوئی ہے، موہن بھاگوت کا اعتراف
ISLAMABAD:
بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی سب سے قدیم اور فعال ترین تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی مزید عرصے تک بھارت کے وزیراعظم رہتے ہو اب تک مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایک تقریب میں خطاب کے دوران موہن بھاگوت نے اپنے پرانے راگ الاپتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ وادی کے لوگ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے لیکن یہاں کی حکومتوں نے کبھی وادی کے عوام کی فلاح کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، یہاں لوگوں کے پاس روزگارنہیں ہے۔ فلاحی کام نہ ہونے کے برابرہیں، اس کے علاوہ گزشتہ کئی برسوں سے وادی میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہوگئی ہے۔
ہندوانتہا پسند تنظیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیراس وقت ہی حل ہوسکتا ہے جب صرف وادی کے عوام ہی نہیں بلکہ بھارت بھر کے لوگ اسے اپنا مسئلہ تسلیم کریں، سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کی حکومت نے اس حوالے سے انتہائی مدبرانہ پالیسی اپنا رکھی تھی اور اگر وہ کچھ عرصہ مزید حکومت میں رہتے تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ان کا دور اقتدار زیادہ عرصہ نہ رہ سکا اور کانگریس دوبارہ برسراقتدارآگئی اور ان کے دور حکومت کی تمام پالیسیاں ختم کردی گئیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں بی جے پی اوردیگرہندو انتہا پسند جماعتیں براہ راست راشٹریہ سیوک سنگھ کے زیراثر ہیں اور اسی تنظیم کو ہندو انتہا پسندی کا محرک تسلیم کیا جاتا ہے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی سب سے قدیم اور فعال ترین تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی مزید عرصے تک بھارت کے وزیراعظم رہتے ہو اب تک مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہوتا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ایک تقریب میں خطاب کے دوران موہن بھاگوت نے اپنے پرانے راگ الاپتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ وادی کے لوگ پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے لیکن یہاں کی حکومتوں نے کبھی وادی کے عوام کی فلاح کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، یہاں لوگوں کے پاس روزگارنہیں ہے۔ فلاحی کام نہ ہونے کے برابرہیں، اس کے علاوہ گزشتہ کئی برسوں سے وادی میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہوگئی ہے۔
ہندوانتہا پسند تنظیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیراس وقت ہی حل ہوسکتا ہے جب صرف وادی کے عوام ہی نہیں بلکہ بھارت بھر کے لوگ اسے اپنا مسئلہ تسلیم کریں، سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کی حکومت نے اس حوالے سے انتہائی مدبرانہ پالیسی اپنا رکھی تھی اور اگر وہ کچھ عرصہ مزید حکومت میں رہتے تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ان کا دور اقتدار زیادہ عرصہ نہ رہ سکا اور کانگریس دوبارہ برسراقتدارآگئی اور ان کے دور حکومت کی تمام پالیسیاں ختم کردی گئیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں بی جے پی اوردیگرہندو انتہا پسند جماعتیں براہ راست راشٹریہ سیوک سنگھ کے زیراثر ہیں اور اسی تنظیم کو ہندو انتہا پسندی کا محرک تسلیم کیا جاتا ہے۔