منطق بمقابلہ دانش
یہ تمام ملک پاکستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھے۔ کسی کو جنگ عظیم نے برباد کر ڈالا تھا،
2013ء کے عام انتخابات کے بعد ایک تاریخ رقم ہوئی۔ اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا اور یہ بھی کہ اقتدار منتقل کرنے والی جمہوری حکومت نے اپنی آئینی میعاد مکمل کی۔ جمہوری ملکوں میں یہ ایک معمول کی بات ہے جب کہ پاکستان میں ایسا ہونا ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کو پاکستان میں کس قدر خطرات درپیش ہیں۔
ذرا تصور کریں 1947ء کے بعد آئین اور جمہوریت کی راہ اپنا لی جاتی تو دنیا میں پاکستان کا مقام آج کتنا بلند ہوتا۔ ایک جمہوری ملک ہونے کا اعزاز اسے یقیناً حاصل ہوتا لیکن اس کے علاوہ بھی ایسا اور بہت کچھ ہوتا جس سے پاکستان دنیا کے چند درجن ممتاز ملکوں میں ضرور شامل ہوگیا ہوتا۔ ایشین ٹائیگرز کی باتیں بہت ہوتی ہیں۔ چین، جاپان، کوریا اور اب ہندوستان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
یہ تمام ملک پاکستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھے۔ کسی کو جنگ عظیم نے برباد کر ڈالا تھا، کوئی سرد جنگ کے دوران عذاب جھیلتا رہا اور کسی کو بیرونی استعمار سے آزادی کے لیے طویل جنگ لڑنی پڑی اور اس کے نتیجے میں تباہ حالی اس کا مقدر ٹہری۔ پاکستان بھی بہت سے مسائل کا شکار تھا لیکن یہ نہیں تھا کہ ایشیا کے دیگر بہت سے ملک جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے وہ ہم سے کہیں بہتر تھے۔ ان کی معاشی اور سماجی صورتحال بعض حوالوں سے ہم سے بھی کہیں زیادہ خراب تھی۔ وہ آگے نکل گئے اور ہم نے ترقی کے بجائے پس ماندگی کی جانب شروع کردیا۔
بات شروع ہوئی تھی کہ 2013 ء میں ایک منتخب حکومت نے اپنی میعاد مکمل کی اور دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرکے ایک تاریخ رقم کی۔ چونکہ یہ عمل 69سال پہلے شروع نہ ہوا تھا لہٰذا جو ملک ہم سے پیچھے تھے وہ آج ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے ناکامی کی 69 سالہ تاریخ سے کیا سبق سیکھا؟ان دنوں پاکستان کی سڑکوں، چوراہوں پر دھرنوں اور جلوسوں کی جو سیاست ہورہی ہے اور ان میں جمہوریت اور جمہوری رہنماؤں کے خلاف جو زبان اور لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اس کے تناظر میں معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ، 69 برس کی ناکامیوں سے آج بھی کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان 6 دہائیوں تک معروف مفہوم میں غیر جمہوری نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوششیں بھی کرتا رہا تھا۔ اس جدوجہد اور کشمکش میں کیا کیا نہیں ہوا۔ جس سیاستدان کو پاکستانیوں کی اکثریت نے وزیراعظم کے لیے منتخب کیا اس کو غدار وطن قرا ر دیا گیا اور اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے بجائے ملک کو دو لخت کرنا قبول کرلیا گیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ انتخابات کے بعد اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل نہ کرنے کے باعث ملک ٹوٹا لیکن اس کے بعد جب بچے کچے پاکستان کو ایک منتخب پارلیمنٹ اور وزیراعظم نے بحران سے نکالا اور آئین بنا کر اس کی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی تو اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ پھانسی اس رہنما کا مقدر ٹہری جس نے باقی ماندہ پاکستان اور شکست سے دوچار فوج کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا تھا۔ اس کو پھانسی دینے یا دلوانے والا فوجی آ'مر' آج بھی بہت سے لوگوں کا آئیڈیل ہے۔
عوام اور انتخابات کے ذریعے کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں آنے والی دیگر حکومتوں کو جمہوری تسلسل جاری رکھنے نہیں دیا گیا۔ ایک وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اس کی حد درجہ تذلیل کی گئی، اسے رسیوں سے باندھ کر جہاز میں بٹھایا گیا اور سرعام انتہائی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے بھی وطن کا دشمن ٹہرا کرعدالت سے پھانسی کی سزا دینے کے لیے کہا گیا۔ اسے عمر قید کی سزا ہوئی جس کے خلاف اپیل داخل کی گئی کہ یہ سزا کم ہے اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے۔ معزول وزیراعظم کی خوش بختی تھی کہ بعض اہم دوست ملکوں نے دباؤ ڈال کر اس کی زندگی بچائی اور آمر نے اسے جلا وطن کردیا۔ ہر مشکل کے باوجود، جمہوریت کے خواب کی تعبیر پانے کا سفر جاری رہا۔ اس مشکل سفر میں اُس سابق وزیراعظم کو گولی سے اڑا دیا گیا جس نے اسلامی تاریخ کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز پاکستان کو دلوایا تھا۔
پاکستان کو جمہوریت سے محروم رکھا گیا اور جمہوریت سے محرومی نے مختلف اداروں اور عناصر کو خوب فیض یاب کیا۔ آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتی ہے اور آئینی اور ریاستی اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رکھتی ہے جس سے یہ ادارے مستحکم ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ ہو تو ہر ادارہ اپنی من مانی کرتا ہے۔ آمر انھیں ایسا کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے کیونکہ اس کے اقتدار کا انحصار عوام کی نہیں بلکہ ان ماتحت اداروں کی طاقت پر ہوتا ہے۔ جب ریاستی اور حکومتی اداروں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو قانون کی حکمرانی کا تصور چکنا چور ہوجاتا ہے۔ قانون موم کا پتلا بن جاتا ہے جسے ہر طاقت ور اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ رشوت، اقربا پروری، ظلم، جبر، زیادتی اور انتقام کا سیلاب سماج کی بنت کو برباد کرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ایک روز یہ سیلاب سب کو بہا لے جائے گا۔
جمہوری تسلسل 8 سال سے جاری ہے۔ کیا ایک نئی تاریخ یہ بھی رقم کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے کہ دوسری منتخب حکومت 2018ء میں تیسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کردے اور پاکستان جمہوریت کے نسبتاً ایک ہم وار شاہراہ پر گامزن ہو جائے؟ وہ افراد اور عناصر جنہوں نے طویل غیر جمہوری ادوار میں بے نپاہ مالی، تجارتی، کاروباری، سیاسی فوائد حاصل کیے ہیں اور ملک پرآئین کے بجائے اپنی بالادستی اور قانون کے بجائے اپنی حکمرانی قائم کر رکھی تھی کیا وہ رضا کارانہ طور پر اپنے مفادات کی قیمت پر ایک ایسے آئینی اور جمہوری نظام کو مستحکم ہونے دیں گے جو بالآخر ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے قیام کا یقینی ذریعہ بن جائے گا؟ منطق تو یہی کہتی ہے کہ آمریتوں سے فیض اٹھانے والے ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ جمہوریت انھیں بے دست و پا کرکے انھیں عام پاکستانی کی صف میں لاکھڑا کرے۔
پاکستان میں جمہوریت اور حکومت کو نشانے پر رکھ کر دھرنوں اور احتجاج کا جو سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا وہ دراصل اس خوف کا رد عمل ہے کہ جمہوریت اپنے تسلسل کے باعث مستحکم ہورہی ہے اور اس کا استحکام ان تمام افراد و عناصر کے مستقبل کو تاریک کردے گا جن کے مفادات کا مکمل انحصار صرف ایک غیر جمہوری نظام پر قائم تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا فتح منطق کی ہوگی؟ میرا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فتح منطق کی نہیں ہوگی۔
پھر فتح کس کی ہوگی؟ میرا جواب ہوگا دانش کی ہوگی۔
سوال کیا جاسکتا ہے کس کی دانش کی؟ کیا سیاسی جماعتوں، عدلیہ، فوج، دانشوروں، تجزیہ نگاروں، مذہبی رہنماؤں کی دانش کی؟ میرا جواب ہوگا نہیں۔ ان کی نہیں بلکہ عوام کی دانش کی فتح ہوگی۔ وہ دانش جس نے ہمیشہ پاکستان کو ہر مشکل سے نکالا ، آگے بڑھایا اور سرخرو کیا۔ عوام کی دانش جانتی ہے کہ جمہوریت سے پاکستان بنا تھا، جمہوریت کی نفی سے ٹوٹا تھا اور جمہوریت ہی اس کو بچائے اور آگے بڑھائے گی۔
پاکستان کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ اس ملک کے عوام پے در پے حادثات سے مایوس اور دلبرداشتہ نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ پُر امید رہتے ہیں اور جب وقت آتا ہے اپنی دانش سے ہم سب کو حیران کردیتے ہیں۔
عوام کی دانش زندہ باد
ذرا تصور کریں 1947ء کے بعد آئین اور جمہوریت کی راہ اپنا لی جاتی تو دنیا میں پاکستان کا مقام آج کتنا بلند ہوتا۔ ایک جمہوری ملک ہونے کا اعزاز اسے یقیناً حاصل ہوتا لیکن اس کے علاوہ بھی ایسا اور بہت کچھ ہوتا جس سے پاکستان دنیا کے چند درجن ممتاز ملکوں میں ضرور شامل ہوگیا ہوتا۔ ایشین ٹائیگرز کی باتیں بہت ہوتی ہیں۔ چین، جاپان، کوریا اور اب ہندوستان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
یہ تمام ملک پاکستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھے۔ کسی کو جنگ عظیم نے برباد کر ڈالا تھا، کوئی سرد جنگ کے دوران عذاب جھیلتا رہا اور کسی کو بیرونی استعمار سے آزادی کے لیے طویل جنگ لڑنی پڑی اور اس کے نتیجے میں تباہ حالی اس کا مقدر ٹہری۔ پاکستان بھی بہت سے مسائل کا شکار تھا لیکن یہ نہیں تھا کہ ایشیا کے دیگر بہت سے ملک جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے وہ ہم سے کہیں بہتر تھے۔ ان کی معاشی اور سماجی صورتحال بعض حوالوں سے ہم سے بھی کہیں زیادہ خراب تھی۔ وہ آگے نکل گئے اور ہم نے ترقی کے بجائے پس ماندگی کی جانب شروع کردیا۔
بات شروع ہوئی تھی کہ 2013 ء میں ایک منتخب حکومت نے اپنی میعاد مکمل کی اور دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرکے ایک تاریخ رقم کی۔ چونکہ یہ عمل 69سال پہلے شروع نہ ہوا تھا لہٰذا جو ملک ہم سے پیچھے تھے وہ آج ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے ناکامی کی 69 سالہ تاریخ سے کیا سبق سیکھا؟ان دنوں پاکستان کی سڑکوں، چوراہوں پر دھرنوں اور جلوسوں کی جو سیاست ہورہی ہے اور ان میں جمہوریت اور جمہوری رہنماؤں کے خلاف جو زبان اور لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اس کے تناظر میں معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ، 69 برس کی ناکامیوں سے آج بھی کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان 6 دہائیوں تک معروف مفہوم میں غیر جمہوری نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوششیں بھی کرتا رہا تھا۔ اس جدوجہد اور کشمکش میں کیا کیا نہیں ہوا۔ جس سیاستدان کو پاکستانیوں کی اکثریت نے وزیراعظم کے لیے منتخب کیا اس کو غدار وطن قرا ر دیا گیا اور اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے بجائے ملک کو دو لخت کرنا قبول کرلیا گیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ انتخابات کے بعد اقتدار پارلیمنٹ کو منتقل نہ کرنے کے باعث ملک ٹوٹا لیکن اس کے بعد جب بچے کچے پاکستان کو ایک منتخب پارلیمنٹ اور وزیراعظم نے بحران سے نکالا اور آئین بنا کر اس کی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی تو اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ پھانسی اس رہنما کا مقدر ٹہری جس نے باقی ماندہ پاکستان اور شکست سے دوچار فوج کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا تھا۔ اس کو پھانسی دینے یا دلوانے والا فوجی آ'مر' آج بھی بہت سے لوگوں کا آئیڈیل ہے۔
عوام اور انتخابات کے ذریعے کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں آنے والی دیگر حکومتوں کو جمہوری تسلسل جاری رکھنے نہیں دیا گیا۔ ایک وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اس کی حد درجہ تذلیل کی گئی، اسے رسیوں سے باندھ کر جہاز میں بٹھایا گیا اور سرعام انتہائی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ اسے بھی وطن کا دشمن ٹہرا کرعدالت سے پھانسی کی سزا دینے کے لیے کہا گیا۔ اسے عمر قید کی سزا ہوئی جس کے خلاف اپیل داخل کی گئی کہ یہ سزا کم ہے اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے۔ معزول وزیراعظم کی خوش بختی تھی کہ بعض اہم دوست ملکوں نے دباؤ ڈال کر اس کی زندگی بچائی اور آمر نے اسے جلا وطن کردیا۔ ہر مشکل کے باوجود، جمہوریت کے خواب کی تعبیر پانے کا سفر جاری رہا۔ اس مشکل سفر میں اُس سابق وزیراعظم کو گولی سے اڑا دیا گیا جس نے اسلامی تاریخ کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز پاکستان کو دلوایا تھا۔
پاکستان کو جمہوریت سے محروم رکھا گیا اور جمہوریت سے محرومی نے مختلف اداروں اور عناصر کو خوب فیض یاب کیا۔ آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتی ہے اور آئینی اور ریاستی اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رکھتی ہے جس سے یہ ادارے مستحکم ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ ہو تو ہر ادارہ اپنی من مانی کرتا ہے۔ آمر انھیں ایسا کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے کیونکہ اس کے اقتدار کا انحصار عوام کی نہیں بلکہ ان ماتحت اداروں کی طاقت پر ہوتا ہے۔ جب ریاستی اور حکومتی اداروں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو قانون کی حکمرانی کا تصور چکنا چور ہوجاتا ہے۔ قانون موم کا پتلا بن جاتا ہے جسے ہر طاقت ور اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ رشوت، اقربا پروری، ظلم، جبر، زیادتی اور انتقام کا سیلاب سماج کی بنت کو برباد کرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ایک روز یہ سیلاب سب کو بہا لے جائے گا۔
جمہوری تسلسل 8 سال سے جاری ہے۔ کیا ایک نئی تاریخ یہ بھی رقم کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے کہ دوسری منتخب حکومت 2018ء میں تیسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کردے اور پاکستان جمہوریت کے نسبتاً ایک ہم وار شاہراہ پر گامزن ہو جائے؟ وہ افراد اور عناصر جنہوں نے طویل غیر جمہوری ادوار میں بے نپاہ مالی، تجارتی، کاروباری، سیاسی فوائد حاصل کیے ہیں اور ملک پرآئین کے بجائے اپنی بالادستی اور قانون کے بجائے اپنی حکمرانی قائم کر رکھی تھی کیا وہ رضا کارانہ طور پر اپنے مفادات کی قیمت پر ایک ایسے آئینی اور جمہوری نظام کو مستحکم ہونے دیں گے جو بالآخر ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے قیام کا یقینی ذریعہ بن جائے گا؟ منطق تو یہی کہتی ہے کہ آمریتوں سے فیض اٹھانے والے ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ جمہوریت انھیں بے دست و پا کرکے انھیں عام پاکستانی کی صف میں لاکھڑا کرے۔
پاکستان میں جمہوریت اور حکومت کو نشانے پر رکھ کر دھرنوں اور احتجاج کا جو سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا وہ دراصل اس خوف کا رد عمل ہے کہ جمہوریت اپنے تسلسل کے باعث مستحکم ہورہی ہے اور اس کا استحکام ان تمام افراد و عناصر کے مستقبل کو تاریک کردے گا جن کے مفادات کا مکمل انحصار صرف ایک غیر جمہوری نظام پر قائم تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا فتح منطق کی ہوگی؟ میرا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فتح منطق کی نہیں ہوگی۔
پھر فتح کس کی ہوگی؟ میرا جواب ہوگا دانش کی ہوگی۔
سوال کیا جاسکتا ہے کس کی دانش کی؟ کیا سیاسی جماعتوں، عدلیہ، فوج، دانشوروں، تجزیہ نگاروں، مذہبی رہنماؤں کی دانش کی؟ میرا جواب ہوگا نہیں۔ ان کی نہیں بلکہ عوام کی دانش کی فتح ہوگی۔ وہ دانش جس نے ہمیشہ پاکستان کو ہر مشکل سے نکالا ، آگے بڑھایا اور سرخرو کیا۔ عوام کی دانش جانتی ہے کہ جمہوریت سے پاکستان بنا تھا، جمہوریت کی نفی سے ٹوٹا تھا اور جمہوریت ہی اس کو بچائے اور آگے بڑھائے گی۔
پاکستان کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ اس ملک کے عوام پے در پے حادثات سے مایوس اور دلبرداشتہ نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ پُر امید رہتے ہیں اور جب وقت آتا ہے اپنی دانش سے ہم سب کو حیران کردیتے ہیں۔
عوام کی دانش زندہ باد