آخری سوال روٹی کا ہے

وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ایک بار دو روپے کی روٹی فروخت کرنے کا قانون پاس کیا،

zb0322-2284142@gmail.com

NEW DELHI/KOCHI/JAMMU:
تاریخ کی شاید پہلی ہڑتال اہرام مصر بنانے والے غلاموں کی تھی، جنھوں نے اپنے ایک مطالبے کے تحت ہڑتال کی تھی کہ ''ہمیں روٹی کے ساتھ پیاز بھی چاہیے'' یعنی دنیا کی سات عجائبات میں سے ایک کو بنانے وا لوں کو سالن تو درکنار، پیاز بھی میسرنہیں تھا۔ تاج محل بنانے والے مزدوروں کی انگلیاں کاٹی گئیں۔ ہندوستان میں قحط پڑا لوگ بھوک سے مرتے رہے۔ دیوار چین بنانے کے وقت غلاموں کو قتل کر کے دیوارکی بنیادیں مضبوط ہونے کی بیہودہ روایات کے تحت انسانی خون ڈالا گیا۔ ایک جانب حکمران عیاشیاں کرتے رہے تو دوسری طرف عام لوگ روٹیوں کو ترستے رہے ۔

وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ایک بار دو روپے کی روٹی فروخت کرنے کا قانون پاس کیا، لیکن یہ دو روپے کی روٹی زیادہ عرصے چل نہ پائی۔ اس سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی پکی پکائی روٹی کی ترسیلات کی کوشش کی مگر اس کے تسلسل کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔ ملک پلانٹ بھی نہ چل سکا، ایوب خان کے دور میں راشن کا آ ٹا خوب چلا لیکن وہ بھی آ گے چل کے تھک گئے۔ عام آدمی کو اورکیا چاہیے سوائے روٹی کے۔ ہم اسلحہ سازی، اس کی خرید و فروخت اور بم بنانے کے ماہر توہو گئے ہیں لیکن سب کو دو وقت کی روٹی مہیاکرنے سے قاصر ہیں۔ اربوں روپے کی اسلحہ سازی اور تجارت تو کی جا تی ہے مگرآٹا پچاس رو پے کلو، چاول سو روپے اور دال ڈیڑھ سو روپے کلو عوام کو خریدنی پڑتی ہے۔ ہمارے یہاں گاڑی، موبائل اور الیکٹرونک کے سازوسامان کی قیمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں جب کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دال دلیہ کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک عام مزدورکی تنخواہ پندرہ ہزار روپے کا اعلان ہوا ہے لیکن نوے فیصد مزدوروں کو پندرہ ہزار روپے نہیں ملتے بلکہ آٹھ سے دس ہزار روپے ملتے ہیں، اگر ایک کھیت مزدور اور دہاڑی دار مزدور روزکے تین سے چار سو روپے کماتا ہے اور اس کے تین بچے ہیں، ایک کمرے کا کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہے تو وہ ان پیسوں سے کیا کھائے گا، کیا پہنے گا اور کیا علاج کروائے گا؟ کیا حکمران اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں یا ادارک کر سکتے ہیں؟ قطعی نہیں، اس لیے کہ وہ بازار سے خود سودا خریدنے نہیں جاتے ہیں، یقینا وہ نیم فاقہ کشی کی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ پاکستان کی کون سی سیاسی جماعت (سرمایہ دارانہ) کا رہنما کیا کام کرتا ہے۔


ہم غریبوں کی انھیں کون سے فکر کھائے جاتی ہے جن کے بچے لندن میں پڑھتے ہیں اپنا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں۔ عام لوگوں کو جینے کے لیے سونے کی انگوٹھی، لمبی گا ڑی یا منرل واٹر نہیں بلکہ دال، چاول، آٹا اور چینی چاہیے اور بیماری کے لیے معقول علاج۔ بجائے ہمارے حکمران عوام کو یہ سب کچھ سستی قیمت میں فراہم کرنے کے موٹروے اور اورنج ٹرین، ماڈل اسکول، فائیواسٹار اسپتال یا میٹروبس کی فراہمی میں لگے ہوئے ہیں۔ عوام کو تو کھٹارا بس دے دو لیکن کرایہ کم ہو، معمولی اسپتال ہو لیکن علاج سب کا ہو، اسکول معمولی ہو لیکن پڑھائی سب کے لیے اور سستی تعلیم ہو۔

ہماری حکومت کو فکر لگی ہوئی ہے اورنج ٹرین چلانے اور بم بنانے میں، لیکن حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی دم بخود ہیں، احتساب، قصاص، پاناما، چین، ترکی اور امریکا کا غم کھائے جا رہا ہے۔ آٹا سستا کرنے کے لیے ایک دن توکجا ایک گھنٹے کی ٹوکن ہڑتال کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ویسے روز ہڑتالیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی صورتحال میڈیا کی ہے۔ میڈیا پرسن سب کے سب نان ایشوز سے آگے نہیں جاتے۔کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ دفاعی بجٹ کم کر کے تعلیم، صحت اور دال دلیہ کا بجٹ بڑھاؤ۔ ہم لا کھوں ٹن چاول بیرون ملک برآمد کرتے ہیں، پکی پکائی روٹی افغانستان کو برآمد بھی کرتے ہیں لیکن غریب پاکستانی شہریوں کو سستی روٹی مہیا نہیں کرتے۔ اگر اس نظام میں رہتے ہوئے برابری کی بات کرنی ہے تو لکھ پتیوں اور کروڑ پتیوں کے لیے اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ہزاروں روپے کلوکی ہونی چا ہیے اور دس ہزار تک آمدنی وا لوں کے لیے دس بیس روپے کلو ہونی چا ہیے۔

ہمارے ملا حضرات عورتوں اور لڑکیوں پر دھڑا دھڑ فتوے تو دیتے ہیں مگر آ ٹا، دال، چاول مہنگا کرنے پرکوئی فتویٰ نہیں دیتے۔ خود تو چوغے پہنے ہوئے ہوتے ہیں مگر چیتھڑے لپیٹنے والوں پرکوئی نظر نہیں۔ یہی صورتحال جنرلوں، اعلیٰ دانشوروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی ہے۔ خود تو محلوں میں رہائش پذیر ہیں، کھانا فائیواسٹار ہوٹلوں میں کھاتے ہیں اور دوسری طرف اردلی، جنرلوں کے بچوں کو او لیول کے اسکولوں میں لے جانے اور لے آنے میں وقت گزار دیتے ہیں، دانشور لیکچر دے کر چلے جاتے ہیں لیکن فاقے کی لذت سے ناآشنا ہیں، جاگیردار ہوائی جہازوں میں پھرتا ہے جب کہ ہاری جھگی یا اس کی نجی جیلوں میں مقید ہوتا ہے۔

سرمایہ دار پیجیرو اورلینڈکروزر گاڑی میں پھرتا ہے اور مزدور کھٹارا بسوں میں لٹکتے ہوئے فیکٹری میں کام کرنے کے لیے پہنچتا ہے۔ آخر یہ نظام کب تک چلے گا۔ لوگ اس لوٹ مارکے سر مایہ دارانہ نظام سے اکتا چکے ہیں۔ اب وہ بغاوت کر رہے ہیں، کل انقلاب لائیں گے۔ سب مل کر پیداوارکریں گے اور مل کر کھائیں گے، پھر لوگ جینے لگیں گے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے وا لا ہے کہ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا،کوئی طبقہ ہو گا، چہار طرف محبتوں کے پھول کھیلیں گے، کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی روٹی کی قلت سے بھوکا مرے گا۔
Load Next Story