مقبوضہ کشمیرمیں 24 گھنٹے کرفیو کیلیے بھارتی فورسز کی مزید 77 کمپنیاں تعینات
بھارتی فائرنگ سے شوپیاں میں17، بارہمولہ میں 70 افراد زخمی
KABUL/GHAZNI:
مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی مزید77اضافی کمپنیاں تعینات کردی ہیں تاکہ وادی کے ہرعلاقے میں دن رات کرفیو نافذ کرکے موجودہ احتجاجی تحریک کو دبایا جاسکے، ادھر شوپیاں میں فائرنگ سے 17 اور ضلع بارہمولہ میں 70 کشمیری زخمی ہوگئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فورسز کے ہاتھوں 8جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت سے پہلے کشمیر میں سی آر پی ایف کے تقریباً 50 ہزار اہلکار تعینات تھے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جاری احتجاجی تحریک کو دبانے کیلیے سی آر پی ایف کی مزید 77 کمپنیاں تعینات کی گئیں جن میں سے 60کمپنیاں پنجاب، ہریانہ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار، چنئی، حیدر آباد، منی پور، میزورام اور آسام سے لائی گئیں جبکہ یاترا ڈیوٹی کے لیے لائی گئی اضافی کمپنیوں کو بھی کشمیر کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔
سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اسپیشل ڈائریکٹر جنرل ایس این شری واستو نے صحافیوں کو بتایا کہ سی آر پی ایف کی مزید کمپنیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کیونکہ کچھ علاقوں میںکوئی فورس تعینات نہیں تھی،اب ہم رات دن کرفیو نافذ کرسکیں گے۔دوسری طرف مسلسل کرفیوکے 45 ویں روز بھی ضلع بارہمولہ کے سوپور، زینہ گیر اور رفیع آباد میں بھی زبردست احتجاجی مظاہرے کیے گئے، اس دوران بھارتی فوسز نے بہرام پورہ میں 70 سے زائد افراد کو زخمی کردیا، ایمبولینس گاڑیوں پر حملوںکیخلاف وادی بھراحتجاج اور دھرنے دیے، نجی ٹی وی کے مطابق بھارتی فوج نے منگل کو شوپیاں میں شدید فائرنگ کی جس کے باعث17کشمیری زخمی ہوگئے۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں بھی مہاجرین مقبوضہ کشمیر کی خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی قیادت ادریسہ بٹ کررہی تھیں، اس موقع پر مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی دہشت گردی نریندرمودی کے خلاف اور آزاد ی کے حق میں نعرے لگائے گئے اور بھارتی پرچم نذر آتش کیے گئے۔ دریں اثنا مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف اوسلو میں ناروے کی پارلیمنٹ کے باہر میں ایک بڑا عوامی مظاہرہ منعقد کیا اور مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فورسز کی طرف سے پرامن مظاہرین کے قتل کیخلاف اپنا احتجاج رجسٹرڈ کرایا۔ اس موقع پر رکن پارلیمنٹ لارس رائس ،ڈاکٹر اعجاز ریتاکرہولا اور کشمیری اسکینڈے نیوین کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی شاہنواز خان نے خطاب کیا۔
مقبوضہ کشمیرمیں حریت رہنماؤںنے بھارتی آئین کے تحت کشمیر پر مذاکرات کے بارے میںبھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق کشمیریوں کوانکا حق خودارادیت دینے سے مسئلہ کشمیر حل اور خطے میں پائیدار امن قائم ہوگا۔ سید علی گیلانی نے سرینگر میں میڈیا انٹرویو میں بھارتی حکمرانوں کے بیانات کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جموںوکشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی اِس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتی، انھوں نے بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی روائتی ضد کو ترک اور کشمیر کے حوالے سے حقائق کو تسلیم کریں۔
میر واعظ عمر فاروق نے اپنے بیان میں کہاکہ اگر نریندر مودی کے بیان کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل بھارتی آئین کے تحت تلاش کیا جاسکتا تو یہ مسئلہ اب تک حل ہو چکا ہوتا کیونکہ جموںوکشمیر پر بھارتی تسلط کو 70 بر س ہو چکے ہیں اور کشمیریوں کی پانچویں نسل اپنے ناقابل تنسیخ حق کے حصول کے لیے سڑکوں پر نہ ہوتی اور اسے بھارتی فورسز کی طرف سے بدترین ظلم و تشدد اور گولیوں اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہ بننا پڑتا۔ شبیر احمد شاہ نے کہا جموںو کشمیر بھارت کا حصہ نہیںبلکہ ایک متنازع علاقہ ہے۔ شبیر شاہ نے بھارتی وزرا ارون جیٹلی اورڈاکٹر جتندر سنگھ کے بیانات پربھی کڑی تنقید کی۔ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے کہا بھارتی آئین کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنا کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی مزید77اضافی کمپنیاں تعینات کردی ہیں تاکہ وادی کے ہرعلاقے میں دن رات کرفیو نافذ کرکے موجودہ احتجاجی تحریک کو دبایا جاسکے، ادھر شوپیاں میں فائرنگ سے 17 اور ضلع بارہمولہ میں 70 کشمیری زخمی ہوگئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی فورسز کے ہاتھوں 8جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی شہادت سے پہلے کشمیر میں سی آر پی ایف کے تقریباً 50 ہزار اہلکار تعینات تھے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جاری احتجاجی تحریک کو دبانے کیلیے سی آر پی ایف کی مزید 77 کمپنیاں تعینات کی گئیں جن میں سے 60کمپنیاں پنجاب، ہریانہ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار، چنئی، حیدر آباد، منی پور، میزورام اور آسام سے لائی گئیں جبکہ یاترا ڈیوٹی کے لیے لائی گئی اضافی کمپنیوں کو بھی کشمیر کے مختلف مقامات پر تعینات کیا گیا ہے۔
سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اسپیشل ڈائریکٹر جنرل ایس این شری واستو نے صحافیوں کو بتایا کہ سی آر پی ایف کی مزید کمپنیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کیونکہ کچھ علاقوں میںکوئی فورس تعینات نہیں تھی،اب ہم رات دن کرفیو نافذ کرسکیں گے۔دوسری طرف مسلسل کرفیوکے 45 ویں روز بھی ضلع بارہمولہ کے سوپور، زینہ گیر اور رفیع آباد میں بھی زبردست احتجاجی مظاہرے کیے گئے، اس دوران بھارتی فوسز نے بہرام پورہ میں 70 سے زائد افراد کو زخمی کردیا، ایمبولینس گاڑیوں پر حملوںکیخلاف وادی بھراحتجاج اور دھرنے دیے، نجی ٹی وی کے مطابق بھارتی فوج نے منگل کو شوپیاں میں شدید فائرنگ کی جس کے باعث17کشمیری زخمی ہوگئے۔
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں بھی مہاجرین مقبوضہ کشمیر کی خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی قیادت ادریسہ بٹ کررہی تھیں، اس موقع پر مقبوضہ وادی میں بھارتی افواج کی دہشت گردی نریندرمودی کے خلاف اور آزاد ی کے حق میں نعرے لگائے گئے اور بھارتی پرچم نذر آتش کیے گئے۔ دریں اثنا مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف اوسلو میں ناروے کی پارلیمنٹ کے باہر میں ایک بڑا عوامی مظاہرہ منعقد کیا اور مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فورسز کی طرف سے پرامن مظاہرین کے قتل کیخلاف اپنا احتجاج رجسٹرڈ کرایا۔ اس موقع پر رکن پارلیمنٹ لارس رائس ،ڈاکٹر اعجاز ریتاکرہولا اور کشمیری اسکینڈے نیوین کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی شاہنواز خان نے خطاب کیا۔
مقبوضہ کشمیرمیں حریت رہنماؤںنے بھارتی آئین کے تحت کشمیر پر مذاکرات کے بارے میںبھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق کشمیریوں کوانکا حق خودارادیت دینے سے مسئلہ کشمیر حل اور خطے میں پائیدار امن قائم ہوگا۔ سید علی گیلانی نے سرینگر میں میڈیا انٹرویو میں بھارتی حکمرانوں کے بیانات کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جموںوکشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی اِس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتی، انھوں نے بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی روائتی ضد کو ترک اور کشمیر کے حوالے سے حقائق کو تسلیم کریں۔
میر واعظ عمر فاروق نے اپنے بیان میں کہاکہ اگر نریندر مودی کے بیان کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل بھارتی آئین کے تحت تلاش کیا جاسکتا تو یہ مسئلہ اب تک حل ہو چکا ہوتا کیونکہ جموںوکشمیر پر بھارتی تسلط کو 70 بر س ہو چکے ہیں اور کشمیریوں کی پانچویں نسل اپنے ناقابل تنسیخ حق کے حصول کے لیے سڑکوں پر نہ ہوتی اور اسے بھارتی فورسز کی طرف سے بدترین ظلم و تشدد اور گولیوں اور پیلٹ گنوں کا نشانہ نہ بننا پڑتا۔ شبیر احمد شاہ نے کہا جموںو کشمیر بھارت کا حصہ نہیںبلکہ ایک متنازع علاقہ ہے۔ شبیر شاہ نے بھارتی وزرا ارون جیٹلی اورڈاکٹر جتندر سنگھ کے بیانات پربھی کڑی تنقید کی۔ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے کہا بھارتی آئین کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنا کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔