احمد فراز کی یاد میں
یہ جملہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ احمد فراز ایک عوامی شاعر تھے
اور فراز کتنی محبتیں چاہئیں تجھے
ماؤں نے بچوں پر تیرا نام رکھ دیا
انقلابی و رومانوی شاعر احمد فراز نے یہ شعرکسی خوش فہمی کی بنا پر نہیں لکھا تھا بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ پوری زندگی جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے احمد فراز حقیقی معنوں میں اس چیز کے حقدار تھے کہ مائیں اپنے بچوں کے نام ان کے نام پر رکھیں۔ سچائی تو یہ ہے جہاں کسی نے اپنے سامنے بیٹھے کسی اجنبی سے اس کا نام دریافت کیا تو سامنے والے نے اگر اپنا نام فراز بتایا تو دریافت کرنے والا بے ساختہ کہتا کیا احمد فراز عوامی شاعر ہے؟
یہ جملہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ احمد فراز ایک عوامی شاعر تھے احمد فرازکا حقیقی نام سید احمد شاہ تھا جب کہ والد سید محمد شاہ و والدہ کا نام سیدہ امیرجان تھا۔ احمد فراز کے والد بھی اپنے وقت کے نامور شاعر تھے اور برق کوہاٹی تخلص رکھتے تھے۔ 31 جنوری 1931ء کو خیبرپختونخوا کے خوبصورت شہر نوشہرو میں پیدا ہوئے۔ احمد فرازکل سات بھائی بہن تھے۔ سید محمود شاہ، سید حامد شاہ، سید مسعود کوثر، سیدافتخار شاہ و بہن ناہید۔ احمد فراز، اسلامیہ ہائی اسکول کوہاٹ میں زیر تعلیم تھے اور نویں کلاس میں پڑھتے تھے جب انھوں نے اپنی زندگی کا پہلا شعر کہا وہ شعر یہ تھا۔
جب کہ سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمل جیل سے
جب کہ احمد فراز کی پہلی غزل کا ایک شعر حاضر ہے، احمد فراز لکھتے ہیں۔
رک جایے کہ رات بڑی مختصر سی ہے
سن لیجیے کہ بات بڑی مختصر سی ہے
احمد فراز اگر چاہتے تو ان جیسے باصلاحیت انسان کے لیے اقتدار کا ہر درکھلتا چلا جاتا مگر انھوں نے مزاحمت کا راستہ چنا اور انتخاب کیا مزاحمتی شاعری کا مگر ایک جانب اگر مزاحمتی شاعری تخلیق کرنا۔ ایک مشکل امر ہے تو اس سے مشکل ہے اس قسم کی مزاحمتی شاعری کے نتائج بھگتنا مگر باہمت و دلاور احمد فراز یہ سب نتائج بھی بھگت گئے کیونکہ احمد فراز نے وطن عزیز میں ان چاروں آمروں کا جواں مردی سے سامنا کیا، جنھوں نے وطن عزیز میں آمریت نافذ کی۔ ایوبی آمریت ہو یا یحییٰ خان کا آمرانہ دور ضیائی آمریت ہو یا پرویز مشرف کا آمرانہ دور ایک حقیقت مشترک ہے کہ ان چاروں ادوار میں فیض احمد فیضؔ جوشؔ ملیح آبادی، حبیب جالبؔ، خالد علیگ و احمد فرازؔ جیسے لوگوں کے ساتھ بدترین جابرانہ سلوک ہوا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ احمد فراز جیسے لوگوں پر جب جب جبر ہوا ہے تو ایسے لوگوں کا جدوجہد پر اور یقین پختہ ہوتا گیا ہے۔
ایسا ہی احمد فراز کے ساتھ ہوا کیونکہ ضیائی دور ان کے لیے انتہائی کٹھن تھا کیونکہ ضیائی دور میں ہی ان کو جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی مگر کہا جاتا ہے اسی دور میں احمد فراز نے اپنی بہترین شاعری تخلیق کی، جیسے کہ ان کی نظم محاصرہ ہے۔ بہرکیف احمد فراز کی اولین تصنیف تنہا تنہا 1958ء میں منظر عام پرآئی اس وقت احمد فراز کی عمر عزیز تھی27 برس، جب کہ دیگر تصانیف میں درد آشوب 1966ء میں شب خون 1971ء میں میرے خواب ریزہ ریزہ، 1972ء میں جاناں جاناں، 1976ء میں بے آواز گلی کوچوں میں، 1982ء میں نابینا شہر میں آئینہ، 1984ء میں سب آوازیں میری ہیں، 1987ء میں پس انداز موسم، 1989ء میں بودلک (منظوم ڈرامہ)، 1994ء میں خواب گلی پریشاں ہے، 1994ء میں غزل بہانہ کروں، 1999ء میں شہر سخن آراستہ ہے (کلیات)، 2004ء میں وہ عشق جنوں پیشہ ، 2008ء میں ان کی منظر عام پرآنے والی تصانیف ہیں۔
احمد فراز نے میٹرک تک تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول کوہاٹ سے حاصل کی جب کہ مزید تعلیم کے لیے وہ پشاور تشریف لے گئے اور ایڈورڈ کالج پشاور و پشاور یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جب کہ احمد فراز کی تصانیف کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگو سلاویہ، سویڈش، روسی، جرمنی و پنجابی میں ہوئے یوں ہم کہہ سکتے ہیں احمد فراز ایک آفاقی شاعر تھے۔ جب کہ احمد فراز کی سرکاری خدمات کی تفصیلات اس طرح ہیں کہ لیکچرار پشاور یونیورسٹی، ڈائریکٹر پاکستان نیشنل سینٹر، ڈائریکٹر جنرل پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، چیئرمین پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، چیف ایگزیکٹو لوک ورثہ، منیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن البتہ احمد فراز نے جو ریکارڈنگ اثاثہ ویڈیو کیسٹ کی شکل میں چھوڑا۔ اس کی تفصیل یہ ہے دبئی محاصرہ (لانگ پلے) لندن یہ میری نظر میں یہ میری غزلیں (EMI) پاکستان شاہکارغزلیں کیسٹ احمد فراز کو ملنے والے ایوارڈکی تفصیل بھی خاصی طویل ہے۔
آدم جی ادبی 1966ء ایوارڈ، اباسین ایوارڈ برائے ادب 1970ء، دھنک ایوارڈ 1971ء، ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ، اکادمی ادبیات 1990ء، نقوش ایوارڈ برائے ادب 1992-93ء ستارہ امتیاز برائے ادب 1994ء، کمال فن ایوارڈ اکادمی ادبیات پاکستان 2000ء ، ہلال امتیاز برائے ادب 2004ء، جب کہ بین الاقوامی حاصل شدہ ایوارڈ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ فراق انٹرنیشنل ایوارڈ 1982ء، بین الاقوامی ایوارڈ برائے زبان و ادب ٹورنٹو اکادمی ادبیات 1991ء، جے این ٹاٹا ایوارڈ جمشید نگر برائے امن اور انسانی حقوق 1992ء ، 2000ء ملینیم میڈل آف آنرز U.S.A، 1999ء پہلا کیفی اعظمی ایوارڈ، 2002ء، ای ٹی وی ETV کمال فن ایوارڈ، 2004ء جب کہ یونیورسٹی آف کراچی کی جانب سے 15 فروری 1995ء کو احمد فراز کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی گئی اس قدر اعزازات کا ملنا ہی احمد فراز کی عظمت سب سے بڑا ثبوت ہے جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ملنے والا ایوارڈ ہلال امتیاز برائے ادب انھوں نے پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بطور احتجاج واپس کر دیا۔
جن گلوکاروں کو احمد فرازکا کلام پڑھنے یا گانے کا اعزاز حاصل ہوا وہ خوش نصیب ہیں مہدی حسن جنھوں نے اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں... رنجش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لیے آ...ناہید اختر نے یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے...میڈم نور جہاں نے سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے...بھارتی ممتاز گلوکارہ لتا جی نے آنکھ سے دور نا جا دل سے اتر جائے گا...ان سب گلوکاروں نے احمد فراز کے کلام کو اس طرح گایا کہ گویا حق ادا کر دیا جب کہ بھارتی گلوکار جگجیت نے بھی احمد فراز کی غزلوں کو اپنی خوبصورت آواز میں گایا۔ احمد فراز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تین نسلوں کے شاعر تھے حمایت علی شاعر نے ان الفاظ میں احمد فراز کو خراج عقیدت پیش کیا کہ فیض احمد فیض کے بعد جس شخص کو سب سے زیادہ پیار ملا وہ احمد فراز تھے بہرکیف 25 اگست 2008ء کو یہ محبتیں بانٹنے والے احمد فرازاسلام آباد کے ایک اسپتال میں جہاں وہ زیر علاج تھے خالق حقیقی سے جا ملے۔ احمد فراز کے تین صاحبزادگان ہیں جن کے نام سعدی فراز، شبلی فراز و سرمد فراز ہیں۔
احمد فراز نے پرویز مشرف کا انجام بھی دنیا سے رخصت ہونے سے ٹھیک سات یوم قبل اپنی آنکھوں سے دیکھا 18 اگست 2008ء وہ دن تھا جب آمر پرویز مشرف اشکبار آنکھوں کے ساتھ ایوان صدر سے روانہ ہو رہے تھے اسی باعث پاکستان میں جمہوریت پسند خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے جب کہ سات یوم بعد یعنی 25 اگست 2008ء کو جب دلوں کے حکمران احمد فراز دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو گویا ہر آنکھ اشکبار تھی آج ہم فیض احمد فیض کے حقیقی جاں نشیں احمد فراز کی آٹھویں برسی منا رہے ہیں۔
ماؤں نے بچوں پر تیرا نام رکھ دیا
انقلابی و رومانوی شاعر احمد فراز نے یہ شعرکسی خوش فہمی کی بنا پر نہیں لکھا تھا بلکہ صداقت تو یہ ہے کہ پوری زندگی جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والے احمد فراز حقیقی معنوں میں اس چیز کے حقدار تھے کہ مائیں اپنے بچوں کے نام ان کے نام پر رکھیں۔ سچائی تو یہ ہے جہاں کسی نے اپنے سامنے بیٹھے کسی اجنبی سے اس کا نام دریافت کیا تو سامنے والے نے اگر اپنا نام فراز بتایا تو دریافت کرنے والا بے ساختہ کہتا کیا احمد فراز عوامی شاعر ہے؟
یہ جملہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ احمد فراز ایک عوامی شاعر تھے احمد فرازکا حقیقی نام سید احمد شاہ تھا جب کہ والد سید محمد شاہ و والدہ کا نام سیدہ امیرجان تھا۔ احمد فراز کے والد بھی اپنے وقت کے نامور شاعر تھے اور برق کوہاٹی تخلص رکھتے تھے۔ 31 جنوری 1931ء کو خیبرپختونخوا کے خوبصورت شہر نوشہرو میں پیدا ہوئے۔ احمد فرازکل سات بھائی بہن تھے۔ سید محمود شاہ، سید حامد شاہ، سید مسعود کوثر، سیدافتخار شاہ و بہن ناہید۔ احمد فراز، اسلامیہ ہائی اسکول کوہاٹ میں زیر تعلیم تھے اور نویں کلاس میں پڑھتے تھے جب انھوں نے اپنی زندگی کا پہلا شعر کہا وہ شعر یہ تھا۔
جب کہ سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمل جیل سے
جب کہ احمد فراز کی پہلی غزل کا ایک شعر حاضر ہے، احمد فراز لکھتے ہیں۔
رک جایے کہ رات بڑی مختصر سی ہے
سن لیجیے کہ بات بڑی مختصر سی ہے
احمد فراز اگر چاہتے تو ان جیسے باصلاحیت انسان کے لیے اقتدار کا ہر درکھلتا چلا جاتا مگر انھوں نے مزاحمت کا راستہ چنا اور انتخاب کیا مزاحمتی شاعری کا مگر ایک جانب اگر مزاحمتی شاعری تخلیق کرنا۔ ایک مشکل امر ہے تو اس سے مشکل ہے اس قسم کی مزاحمتی شاعری کے نتائج بھگتنا مگر باہمت و دلاور احمد فراز یہ سب نتائج بھی بھگت گئے کیونکہ احمد فراز نے وطن عزیز میں ان چاروں آمروں کا جواں مردی سے سامنا کیا، جنھوں نے وطن عزیز میں آمریت نافذ کی۔ ایوبی آمریت ہو یا یحییٰ خان کا آمرانہ دور ضیائی آمریت ہو یا پرویز مشرف کا آمرانہ دور ایک حقیقت مشترک ہے کہ ان چاروں ادوار میں فیض احمد فیضؔ جوشؔ ملیح آبادی، حبیب جالبؔ، خالد علیگ و احمد فرازؔ جیسے لوگوں کے ساتھ بدترین جابرانہ سلوک ہوا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ احمد فراز جیسے لوگوں پر جب جب جبر ہوا ہے تو ایسے لوگوں کا جدوجہد پر اور یقین پختہ ہوتا گیا ہے۔
ایسا ہی احمد فراز کے ساتھ ہوا کیونکہ ضیائی دور ان کے لیے انتہائی کٹھن تھا کیونکہ ضیائی دور میں ہی ان کو جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی مگر کہا جاتا ہے اسی دور میں احمد فراز نے اپنی بہترین شاعری تخلیق کی، جیسے کہ ان کی نظم محاصرہ ہے۔ بہرکیف احمد فراز کی اولین تصنیف تنہا تنہا 1958ء میں منظر عام پرآئی اس وقت احمد فراز کی عمر عزیز تھی27 برس، جب کہ دیگر تصانیف میں درد آشوب 1966ء میں شب خون 1971ء میں میرے خواب ریزہ ریزہ، 1972ء میں جاناں جاناں، 1976ء میں بے آواز گلی کوچوں میں، 1982ء میں نابینا شہر میں آئینہ، 1984ء میں سب آوازیں میری ہیں، 1987ء میں پس انداز موسم، 1989ء میں بودلک (منظوم ڈرامہ)، 1994ء میں خواب گلی پریشاں ہے، 1994ء میں غزل بہانہ کروں، 1999ء میں شہر سخن آراستہ ہے (کلیات)، 2004ء میں وہ عشق جنوں پیشہ ، 2008ء میں ان کی منظر عام پرآنے والی تصانیف ہیں۔
احمد فراز نے میٹرک تک تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول کوہاٹ سے حاصل کی جب کہ مزید تعلیم کے لیے وہ پشاور تشریف لے گئے اور ایڈورڈ کالج پشاور و پشاور یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جب کہ احمد فراز کی تصانیف کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگو سلاویہ، سویڈش، روسی، جرمنی و پنجابی میں ہوئے یوں ہم کہہ سکتے ہیں احمد فراز ایک آفاقی شاعر تھے۔ جب کہ احمد فراز کی سرکاری خدمات کی تفصیلات اس طرح ہیں کہ لیکچرار پشاور یونیورسٹی، ڈائریکٹر پاکستان نیشنل سینٹر، ڈائریکٹر جنرل پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، چیئرمین پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، چیف ایگزیکٹو لوک ورثہ، منیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن البتہ احمد فراز نے جو ریکارڈنگ اثاثہ ویڈیو کیسٹ کی شکل میں چھوڑا۔ اس کی تفصیل یہ ہے دبئی محاصرہ (لانگ پلے) لندن یہ میری نظر میں یہ میری غزلیں (EMI) پاکستان شاہکارغزلیں کیسٹ احمد فراز کو ملنے والے ایوارڈکی تفصیل بھی خاصی طویل ہے۔
آدم جی ادبی 1966ء ایوارڈ، اباسین ایوارڈ برائے ادب 1970ء، دھنک ایوارڈ 1971ء، ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ، اکادمی ادبیات 1990ء، نقوش ایوارڈ برائے ادب 1992-93ء ستارہ امتیاز برائے ادب 1994ء، کمال فن ایوارڈ اکادمی ادبیات پاکستان 2000ء ، ہلال امتیاز برائے ادب 2004ء، جب کہ بین الاقوامی حاصل شدہ ایوارڈ کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ فراق انٹرنیشنل ایوارڈ 1982ء، بین الاقوامی ایوارڈ برائے زبان و ادب ٹورنٹو اکادمی ادبیات 1991ء، جے این ٹاٹا ایوارڈ جمشید نگر برائے امن اور انسانی حقوق 1992ء ، 2000ء ملینیم میڈل آف آنرز U.S.A، 1999ء پہلا کیفی اعظمی ایوارڈ، 2002ء، ای ٹی وی ETV کمال فن ایوارڈ، 2004ء جب کہ یونیورسٹی آف کراچی کی جانب سے 15 فروری 1995ء کو احمد فراز کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی گئی اس قدر اعزازات کا ملنا ہی احمد فراز کی عظمت سب سے بڑا ثبوت ہے جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ملنے والا ایوارڈ ہلال امتیاز برائے ادب انھوں نے پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بطور احتجاج واپس کر دیا۔
جن گلوکاروں کو احمد فرازکا کلام پڑھنے یا گانے کا اعزاز حاصل ہوا وہ خوش نصیب ہیں مہدی حسن جنھوں نے اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں... رنجش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لیے آ...ناہید اختر نے یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے...میڈم نور جہاں نے سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے...بھارتی ممتاز گلوکارہ لتا جی نے آنکھ سے دور نا جا دل سے اتر جائے گا...ان سب گلوکاروں نے احمد فراز کے کلام کو اس طرح گایا کہ گویا حق ادا کر دیا جب کہ بھارتی گلوکار جگجیت نے بھی احمد فراز کی غزلوں کو اپنی خوبصورت آواز میں گایا۔ احمد فراز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تین نسلوں کے شاعر تھے حمایت علی شاعر نے ان الفاظ میں احمد فراز کو خراج عقیدت پیش کیا کہ فیض احمد فیض کے بعد جس شخص کو سب سے زیادہ پیار ملا وہ احمد فراز تھے بہرکیف 25 اگست 2008ء کو یہ محبتیں بانٹنے والے احمد فرازاسلام آباد کے ایک اسپتال میں جہاں وہ زیر علاج تھے خالق حقیقی سے جا ملے۔ احمد فراز کے تین صاحبزادگان ہیں جن کے نام سعدی فراز، شبلی فراز و سرمد فراز ہیں۔
احمد فراز نے پرویز مشرف کا انجام بھی دنیا سے رخصت ہونے سے ٹھیک سات یوم قبل اپنی آنکھوں سے دیکھا 18 اگست 2008ء وہ دن تھا جب آمر پرویز مشرف اشکبار آنکھوں کے ساتھ ایوان صدر سے روانہ ہو رہے تھے اسی باعث پاکستان میں جمہوریت پسند خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے جب کہ سات یوم بعد یعنی 25 اگست 2008ء کو جب دلوں کے حکمران احمد فراز دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو گویا ہر آنکھ اشکبار تھی آج ہم فیض احمد فیض کے حقیقی جاں نشیں احمد فراز کی آٹھویں برسی منا رہے ہیں۔