سیاست یا کالاباغ ڈیم
ترقی یافتہ ممالک کے برعکس معاشی ترقی کے باوجود ہم جواں سال ملک اور تاحال آبادی میں بھرپور اضافے والی قوم ہیں.
تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ کل دنیا کی آبادی 2025 تک تقریباً 35 فی صد پانی کی قلت، کمیابی اور دبائو کا شکار ہوجائے گی، مزید برآں یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان جو پہلے ہی ناقص حکمت عملی کے باعث قلت سے دوچار رہا ہے اب پانی کی قلت والا ملک بن چکا ہے۔ اس امر کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ ہمارے پانی کے ذرائع اور ذخائر محدود ہوتے جارہے ہیں جبکہ ہماری پانی کی ضروریات عالمی اوسط سے زائد ہیں کیونکہ زراعت پر ہماری معیشت کا انحصار ہے۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کئی ایک ترقی یافتہ ممالک کے برعکس معاشی ترقی کے باوجود ہم جواں سال ملک اور تاحال آبادی میں بھرپور اضافے والی قوم ہیں لہٰذا آنے والے برسوں میں ہماری پانی کی ضروریات مزید بڑھ جائیں گی۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں یا تو سیلاب آتے ہیں یا پھر قحط اور خشک سالی کا دوردورہ رہتا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کی انتہائی اہمیت ہے کہ زندگی کے مختلف دائرہ کار میں کس چیز کو اختیار کیا جائے، بلکہ پانی کے بچائو اور تحفظ کے لیے ایسی حکمت عملی حکومتی سطح پر مرتب کی جائے جو زیر زمین پانی کو مناسب سطح برقرار رکھنے میں کارگر ثابت ہو۔
یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں جو میں اب کہنے جارہا ہوں اس سے بہت سے لوگ ان جانے خوف میں مبتلا ہونے کے باعث مجھے دبانے کی کوشش کریں گے کہ ہمیں کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں فوری ضرورت ہے کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کی اور ہماری سیاسی قیادت کو ضرورت ہے اپنی سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرنے کی، تاکہ یہ ڈیم بن جائے۔ کوئی اور راستہ نہیں ہے ہمارے پاس۔ آخر کیا وجہ ہے جو کالاباغ ڈیم کے نام کے ساتھ اتنی نفرت پیدا کردی گئی ہے کہ جس کا ذکر آتے ہی قوم پرست اس مسئلے پر بات کرنا بھی محال کردیتے ہیں۔ غالباً یہ خیال درست نہیں قرار دیا جاسکتا کہ زرعی اراضی جو کہ چھ تا سات ملین ایکڑ پر مشتمل ہے، قابل کاشت نہیں رہے گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی درست حقیقت نہیں کہ دریائے سندھ سے 800000 ایکڑ علاقے قابل کاشت نہیں رہیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے ہمیں تقریباً 3800 میگا واٹ بجلی کی پیدوار ہائیڈرو پاور طریقے کے ذریعے انتہائی کم ترین نرخوں پر حاصل ہوگی، جو بظاہر ہماری ضرورت کے مطابق زیادہ نہیں ہے۔
ایک ایسے ملک کے لیے جو بنیادی طور پر زراعت اور صنعت پر انحصار کرتا ہو، ایک ایسی انڈسٹری جس کا انحصار تمام تر پانی پر ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے یہ اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ ایک ایسا ملک جو کھانے پینے کی اشیاء کے تحفظ کے روزافزوں مسئلے سے دوچار ہو یہ بات اس کے لیے اہمیت کی حامل نہ ہو۔ ایک ایسا ملک جس کے لیے متعدد سیلابوں اور قحط سالی کاسامنا بھی اہمیت کا حامل نہیں۔ ایک ایسا ملک جو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کررہا ہو، اس کے لیے یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہو، لیکن یہ عوامل اہمیت کے حامل ہونے چاہئیں جب ہمیں باہم مکمل یقین اور اعتبار ہو دوسری صورت میں نتائج انتہائی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
بشیر اے ملک جو اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے سابق چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ہیں ان کا کہنا ہے کہ ''اخبارات میں جو رپورٹیں آتی ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کیا گیا تو سندھ اور خیبر پختونخوا آئندہ آنے والے برسوں میں شدید خشک سالی کا شکار ہوجائیں گے۔'' اسی تناظر میں واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا کہنا ہے کہ ''کالاباغ کی تعمیر مددگار ثابت ہوگی صوبہ خیبر پختونخوا کی پسماندگی دور کرنے میں، یہ 800,000 رقبہ زرعی اراضی دریائے سندھ کی سطح سے 100-150 فٹ بلند ہے اور بھاشا ڈیم زرعی زمینوں کو کم سیراب کرنے کی صلاحیت کے باعث کسی بھی طور کالاباغ ڈیم کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا اس کی خاص قدرتی سطح اور جائے وقوع کی بنا پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اگرچہ میں سیلابی پانی روکنے کی صلاحیت والے طریقے پر بات نہیں کرنا چاہتا جو یہ ڈیم سات ملین ایسر پانی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک معاہدہ موجود ہونے کے باوجود بھارت عالمی بینک کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ پاکستان اپنی زرعی ضروریات اور پن بجلی پیداوار کے لیے پانی استعمال نہیں کر پارہا ہے، لہٰذا وہ متنازعہ مقامات پر ڈیم تعمیر بھی کرچکا ہے۔
سندھ اور خیبرپختونخوا اس ڈیم کے بڑے مخالف ہیں اور دونوں کے اس سلسلے میں متعدد خدشات موجود ہیں۔ ان میں کچھ خدشات تو انتہائی غیرسنجیدہ اور سیاسی نوعیت کے ہیں۔ کچھ خدشات تو یہ ظاہر کیے جاتے ہیں کہ دریائے سندھ کا تیز رفتار بہائو جوسمندر میں جاگرتا ہے اس کا بہائو اوپری سطح پر نیچے کی جانب کم ہوجائے گا جو کہ سندھ کے پانی پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ سندھ جو ایک عظیم دریا ہے اور اس پر ایک اور میگا ڈیم کی تعمیرسے خوفناک ڈرائونا عمل ثابت ہوگا کیونکہ اس سے مین اسٹریم بہائو کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہی وہ خدشات ہیں جن کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کے حصے کا پانی روک کر پنجاب اورخیبر پختونخوا کی زمینوں کو سیراب کیا جائے گا۔ یہ سب سیاسی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے۔ اگر سیاسی قیادت سمجھداری کا ثبوت دے تو باہم مذاکرات کے ذریعے پانی کی تقسیم کا قابل عمل فارمولا طے کیا جاسکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کو یہ ڈر ہے کہ جس طرح غازی بروتھا پروجیکٹ جو تعمیر تو خیبرپختونخوا میں ہوا لیکن پاور جنریشن ٹربائن پنجاب میں موجود ہیں، وہ کالا باغ ڈیم کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہا ہے، اس نے پنجاب کو غازی بروتھا پروجیکٹ سے پاور جنریٹ کرنے کی رائلٹی پر حقوق دیے۔
کالا باغ ڈیم پر بہت سے سیاسی تحفظات بھی ہیں جن میں سے کچھ مبنی برحقیقت اور کچھ افسانوی ہیں لیکن حکومت اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر ملکی مفاد میں کام کرے اور تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اس مسئلے پر بہتر قومی مفاد کے لیے کام کریں تو ان تحفظات کو دور کیا جاسکتا ہے۔
غذائی ضروریات کے لیے پانی کی ایک بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کے صاف پانی کا تین چوتھائی حصہ (کچھ ملکوں میں 90 فیصد) غذا کی تیاری میں صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے جس کے لیے ہمیں آنے والے والے دنوں میں تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس کام کو حل کرنے کے لیے خرچ کرنی چاہیں بشمول بھاشا ڈیم کے۔ ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے نیلم، جہلم ڈیم کے تنازعات کو حل کرنے کی جانب تیزی سے پیش رفت کرنی چاہیے۔ اور ملک کے وہ تمام ادارے جو پانی کے ذرائع کی ڈیولپمنٹ اور ریگولیشن سے متعلق ہیں جیسے پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (اسرا) اور دیگر اداروں کو اپنی فرائض بخوبی انجام دینے چاہئیں اور تمام سیاسی رہنمائوں کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔
(ترجمہ۔ محمدبخش)
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ کئی ایک ترقی یافتہ ممالک کے برعکس معاشی ترقی کے باوجود ہم جواں سال ملک اور تاحال آبادی میں بھرپور اضافے والی قوم ہیں لہٰذا آنے والے برسوں میں ہماری پانی کی ضروریات مزید بڑھ جائیں گی۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں یا تو سیلاب آتے ہیں یا پھر قحط اور خشک سالی کا دوردورہ رہتا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کی انتہائی اہمیت ہے کہ زندگی کے مختلف دائرہ کار میں کس چیز کو اختیار کیا جائے، بلکہ پانی کے بچائو اور تحفظ کے لیے ایسی حکمت عملی حکومتی سطح پر مرتب کی جائے جو زیر زمین پانی کو مناسب سطح برقرار رکھنے میں کارگر ثابت ہو۔
یہ میں اچھی طرح جانتا ہوں جو میں اب کہنے جارہا ہوں اس سے بہت سے لوگ ان جانے خوف میں مبتلا ہونے کے باعث مجھے دبانے کی کوشش کریں گے کہ ہمیں کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں فوری ضرورت ہے کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے کی اور ہماری سیاسی قیادت کو ضرورت ہے اپنی سیاسی بالیدگی کا مظاہرہ کرنے کی، تاکہ یہ ڈیم بن جائے۔ کوئی اور راستہ نہیں ہے ہمارے پاس۔ آخر کیا وجہ ہے جو کالاباغ ڈیم کے نام کے ساتھ اتنی نفرت پیدا کردی گئی ہے کہ جس کا ذکر آتے ہی قوم پرست اس مسئلے پر بات کرنا بھی محال کردیتے ہیں۔ غالباً یہ خیال درست نہیں قرار دیا جاسکتا کہ زرعی اراضی جو کہ چھ تا سات ملین ایکڑ پر مشتمل ہے، قابل کاشت نہیں رہے گی۔ اس کے ساتھ یہ بھی درست حقیقت نہیں کہ دریائے سندھ سے 800000 ایکڑ علاقے قابل کاشت نہیں رہیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے ہمیں تقریباً 3800 میگا واٹ بجلی کی پیدوار ہائیڈرو پاور طریقے کے ذریعے انتہائی کم ترین نرخوں پر حاصل ہوگی، جو بظاہر ہماری ضرورت کے مطابق زیادہ نہیں ہے۔
ایک ایسے ملک کے لیے جو بنیادی طور پر زراعت اور صنعت پر انحصار کرتا ہو، ایک ایسی انڈسٹری جس کا انحصار تمام تر پانی پر ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے یہ اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ ایک ایسا ملک جو کھانے پینے کی اشیاء کے تحفظ کے روزافزوں مسئلے سے دوچار ہو یہ بات اس کے لیے اہمیت کی حامل نہ ہو۔ ایک ایسا ملک جس کے لیے متعدد سیلابوں اور قحط سالی کاسامنا بھی اہمیت کا حامل نہیں۔ ایک ایسا ملک جو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا کررہا ہو، اس کے لیے یہ بات زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہو، لیکن یہ عوامل اہمیت کے حامل ہونے چاہئیں جب ہمیں باہم مکمل یقین اور اعتبار ہو دوسری صورت میں نتائج انتہائی تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
بشیر اے ملک جو اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے سابق چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ہیں ان کا کہنا ہے کہ ''اخبارات میں جو رپورٹیں آتی ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کیا گیا تو سندھ اور خیبر پختونخوا آئندہ آنے والے برسوں میں شدید خشک سالی کا شکار ہوجائیں گے۔'' اسی تناظر میں واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا کہنا ہے کہ ''کالاباغ کی تعمیر مددگار ثابت ہوگی صوبہ خیبر پختونخوا کی پسماندگی دور کرنے میں، یہ 800,000 رقبہ زرعی اراضی دریائے سندھ کی سطح سے 100-150 فٹ بلند ہے اور بھاشا ڈیم زرعی زمینوں کو کم سیراب کرنے کی صلاحیت کے باعث کسی بھی طور کالاباغ ڈیم کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا اس کی خاص قدرتی سطح اور جائے وقوع کی بنا پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اگرچہ میں سیلابی پانی روکنے کی صلاحیت والے طریقے پر بات نہیں کرنا چاہتا جو یہ ڈیم سات ملین ایسر پانی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک معاہدہ موجود ہونے کے باوجود بھارت عالمی بینک کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ پاکستان اپنی زرعی ضروریات اور پن بجلی پیداوار کے لیے پانی استعمال نہیں کر پارہا ہے، لہٰذا وہ متنازعہ مقامات پر ڈیم تعمیر بھی کرچکا ہے۔
سندھ اور خیبرپختونخوا اس ڈیم کے بڑے مخالف ہیں اور دونوں کے اس سلسلے میں متعدد خدشات موجود ہیں۔ ان میں کچھ خدشات تو انتہائی غیرسنجیدہ اور سیاسی نوعیت کے ہیں۔ کچھ خدشات تو یہ ظاہر کیے جاتے ہیں کہ دریائے سندھ کا تیز رفتار بہائو جوسمندر میں جاگرتا ہے اس کا بہائو اوپری سطح پر نیچے کی جانب کم ہوجائے گا جو کہ سندھ کے پانی پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ سندھ جو ایک عظیم دریا ہے اور اس پر ایک اور میگا ڈیم کی تعمیرسے خوفناک ڈرائونا عمل ثابت ہوگا کیونکہ اس سے مین اسٹریم بہائو کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہی وہ خدشات ہیں جن کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کے حصے کا پانی روک کر پنجاب اورخیبر پختونخوا کی زمینوں کو سیراب کیا جائے گا۔ یہ سب سیاسی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے۔ اگر سیاسی قیادت سمجھداری کا ثبوت دے تو باہم مذاکرات کے ذریعے پانی کی تقسیم کا قابل عمل فارمولا طے کیا جاسکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کو یہ ڈر ہے کہ جس طرح غازی بروتھا پروجیکٹ جو تعمیر تو خیبرپختونخوا میں ہوا لیکن پاور جنریشن ٹربائن پنجاب میں موجود ہیں، وہ کالا باغ ڈیم کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہا ہے، اس نے پنجاب کو غازی بروتھا پروجیکٹ سے پاور جنریٹ کرنے کی رائلٹی پر حقوق دیے۔
کالا باغ ڈیم پر بہت سے سیاسی تحفظات بھی ہیں جن میں سے کچھ مبنی برحقیقت اور کچھ افسانوی ہیں لیکن حکومت اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر ملکی مفاد میں کام کرے اور تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اس مسئلے پر بہتر قومی مفاد کے لیے کام کریں تو ان تحفظات کو دور کیا جاسکتا ہے۔
غذائی ضروریات کے لیے پانی کی ایک بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کے صاف پانی کا تین چوتھائی حصہ (کچھ ملکوں میں 90 فیصد) غذا کی تیاری میں صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے جس کے لیے ہمیں آنے والے والے دنوں میں تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس کام کو حل کرنے کے لیے خرچ کرنی چاہیں بشمول بھاشا ڈیم کے۔ ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے نیلم، جہلم ڈیم کے تنازعات کو حل کرنے کی جانب تیزی سے پیش رفت کرنی چاہیے۔ اور ملک کے وہ تمام ادارے جو پانی کے ذرائع کی ڈیولپمنٹ اور ریگولیشن سے متعلق ہیں جیسے پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (اسرا) اور دیگر اداروں کو اپنی فرائض بخوبی انجام دینے چاہئیں اور تمام سیاسی رہنمائوں کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔
(ترجمہ۔ محمدبخش)