مردم شماری نہ کروانے میں کچھ افراد کے ذاتی مفادات شامل ہیں چیف جسٹس پاکستان
مردم شماری میں فوج کوشامل کرنا آئینی تقاضا نہیں، چیف جسٹس پاکستان
MOSCOW:
چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جمہوریت کی بنیاد مردم شماری ہے لیکن ملک میں مردم شماری نہ کروانے میں کچھ افراد کے ذاتی مفادات شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں مردم شماری نہ کروانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر حکومت نے مردم شماری سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کرادیا ہے جس میں مردم شماری کے لئے مارچ 2017 کی تاریخ دی گئی ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ کاغذی کارروائی تو ہوتی رہے گی آئینی تقاضا پورا نہیں ہورہا، مردم شماری میں فوج کوشامل کرنا آئینی تقاضا نہیں، جمہوریت کی بنیاد مردم شماری ہے، مردم شماری نہ ہوئی تو 2018 کے انتخابات کس طرح ہوں گے۔ مردم شماری نہ کروانے میں کچھ افراد کے ذاتی مفادات شامل ہیں ، اس میں ماضی کی حکومتیں بھی قصووار ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا اسلام آباد میں مردم شماری کے لئے فوج چاہئے، اگر مردم شماری کے لئے اسلام آباد میں فوج کی ضرورت ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے ، آئین مردم شماری کا کہتا ہے جب کہ حکومتی موقف ہے جب چاہیں گے مردم شماری کروائیں گے۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2017میں مردم شماری کرانے کے حکومتی موقف کوغیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جمہوریت کی بنیاد مردم شماری ہے لیکن ملک میں مردم شماری نہ کروانے میں کچھ افراد کے ذاتی مفادات شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں مردم شماری نہ کروانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر حکومت نے مردم شماری سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کرادیا ہے جس میں مردم شماری کے لئے مارچ 2017 کی تاریخ دی گئی ہے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ کاغذی کارروائی تو ہوتی رہے گی آئینی تقاضا پورا نہیں ہورہا، مردم شماری میں فوج کوشامل کرنا آئینی تقاضا نہیں، جمہوریت کی بنیاد مردم شماری ہے، مردم شماری نہ ہوئی تو 2018 کے انتخابات کس طرح ہوں گے۔ مردم شماری نہ کروانے میں کچھ افراد کے ذاتی مفادات شامل ہیں ، اس میں ماضی کی حکومتیں بھی قصووار ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا اسلام آباد میں مردم شماری کے لئے فوج چاہئے، اگر مردم شماری کے لئے اسلام آباد میں فوج کی ضرورت ہے تو یہ حکومت کی ناکامی ہے ، آئین مردم شماری کا کہتا ہے جب کہ حکومتی موقف ہے جب چاہیں گے مردم شماری کروائیں گے۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2017میں مردم شماری کرانے کے حکومتی موقف کوغیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔