قیادت کا متبادل
الطاف حسین کو نہ تو تگڑے امیدواروں کی ضرورت ہے اور نہ ہی خاندانی موروثیت کے سہارے کی ضرورت۔
وطنِ عزیز کے قلم کار آج بھی اسی بحث میں الجھے ہیں کہ ریاست پاکستان میں کون سا نظامِ حکومت ہونا چاہیے جبکہ وفاقی پارلیمانی نظام ہرگزرتے دن کے ساتھ فروغ پارہا ہے۔ ادارے اپنے اختیارات کے لیے آئینی اور دستوری انداز میںجدوجہد کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے غصب شدہ اختیارات واپس مل چکے ہیں، ایسے میں صدارتی نظام حکومت کی تجویز بر محل نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں نظام کی تبدیلی ملک و قوم کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں کیونکہ صدارتی نظام کا مقصد ملک کو نئے سرے سے آئینی ارتقا کے راستے پر ڈالا جائے جو سر دست ممکن نہیں۔
اسی قسم کی ایک تجویز گزشتہ روزنامہ ایکسپریس کے صفحہ ادارت پر جاوید چوہدری کے مضمون ''جمہوریت ۔ حل صدارتی نظام'' میں پڑھنے کااتفاق ہوا۔ اسی کالم میں مزید رقمطراز ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے قائد کا متبادل تیار نہیں کرسکیں۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کا ذکرکیا کہ ان جماعتوں میں مستقبل کی قیادت کے فقدان کی طرف اشارہ کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف میں موجود موروثیت جاندار اور تگڑے امیدواروں کی تلاش کے لیے جمہوری اقدار کی پامالی کا بھی تذکرہ کیا، متحدہ قومی موومنٹ میں کوئی خرابی نہ گنوا سکے لیکن قیادت کے فقدان کا ذکر کرتے وقت ایم کیو ایم کو بھی شامل کرگئے لیکن اس کا جواز نہ پیش کرسکے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کے معزز کالم نگار قائد اور سیاستدان کے فرق سے ناآشنا ہیں۔ کسی مفکر سے دریافت کیا گیا کہ سیاستدان اور قائد میں کیا فرق ہے اس نے جواب دیا ''سیاستدان کا ہدف اگلے انتخابات اور حکومت سازی ہوتے ہیں جبکہ قائد کا مقصد اور ہدف موجودہ اور آنے والی نسل ہوتی ہے۔'' یہی وہ فرق ہے جو بنیادی طور پر الطاف حسین اور ان دیگر رہنمائوں میں ہے۔
جن کا ذکر کالم نگار نے اپنے کالم میں کیا ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین کو نہ تو تگڑے امیدواروں کی ضرورت ہے اور نہ ہی خاندانی موروثیت کے سہارے کی ضرورت۔ الطاف حسین کسی سیاستدان کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظریے کا خالق ہے، ایک فکر کانام ہے۔ آج ملک کے طول و عرض میں ان کی صداقت و استقامت کے چرچے ہیں، ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں اس فکر پر نچھاور کی ہیں۔ الطاف حسین کا نظریہ ان کی مدبرانہ قیادت میں کراچی سے پشاور اورکوئٹہ، کشمیر تک ملک کے کونے کونے میں اپنی روشنی بکھیر رہا ہے اور متوسط طبقہ اسے اپنی راہ نجات گردانتا ہے۔ ایسی جماعت جس نے پچیس برس میں ہونے والے تمام انتخابات میں حصہ لیا اور ان میں بھرپور کامیابی حاصل کی، یہ اعزاز صرف متحدہ قومی موومنٹ کو حاصل ہے کہ ان پچیس برسوں میں کبھی بھی سکڑنے کا عمل نہیں دیکھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے مینڈیٹ میں اضافہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ گلگت، بلتستان اور کشمیر کی وادیوں میں بھی الطاف حسین کا نظریہ گونج رہا ہے۔
اس جماعت کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد کی جماعت ہے ہر ذی شعور کو حیرت زدہ کررہی ہے۔ ویسے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قلمکار، صحافی، دانشور اور ادیب معاشرے کا حساس طبقہ کہلاتا ہے اور اگر یہ تعصب کی عینک پہن کر تجزیہ کرکے اصول متعین کرنے لگے تو معاشرے کو تباہی سے بچانا مشکل تر ہوجائے گا۔ البتہ سیاستدان بنانے اور تیار کرنے کی تاریخ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے موجود ہے۔ قائد نہ تو خریدا جاسکتا ہے اور نہ دبایا جاسکتا ہے، اصغر خان کیس کے فیصلے نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے کہ کون قائد ہے اور کون ابن الوقت۔ لہٰذا ملک کے حالات ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم تجزیے کرتے وقت ذاتی وابستگیوں سے بلند ہوکر اپنی نگارشات ترتیب دیں نہ کہ ایسے تجزیے سامنے لائیں جو صورتحال مزید پیچیدہ بنادیں۔ معاشرے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں مضامین، تحریریں اور تجزیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ نظامِ حکومت میں اصلاحات تجویز کرکے ہم ملک و قوم کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ میری چند سطور کا مطالعہ معزز کالم نگار تدبر کی عینک پہن کرکریں گے اور آئندہ قائد اور سیاستدان میں فرق کو پیش نظر رکھیں گے۔
اسی قسم کی ایک تجویز گزشتہ روزنامہ ایکسپریس کے صفحہ ادارت پر جاوید چوہدری کے مضمون ''جمہوریت ۔ حل صدارتی نظام'' میں پڑھنے کااتفاق ہوا۔ اسی کالم میں مزید رقمطراز ہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے قائد کا متبادل تیار نہیں کرسکیں۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کا ذکرکیا کہ ان جماعتوں میں مستقبل کی قیادت کے فقدان کی طرف اشارہ کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف میں موجود موروثیت جاندار اور تگڑے امیدواروں کی تلاش کے لیے جمہوری اقدار کی پامالی کا بھی تذکرہ کیا، متحدہ قومی موومنٹ میں کوئی خرابی نہ گنوا سکے لیکن قیادت کے فقدان کا ذکر کرتے وقت ایم کیو ایم کو بھی شامل کرگئے لیکن اس کا جواز نہ پیش کرسکے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کے معزز کالم نگار قائد اور سیاستدان کے فرق سے ناآشنا ہیں۔ کسی مفکر سے دریافت کیا گیا کہ سیاستدان اور قائد میں کیا فرق ہے اس نے جواب دیا ''سیاستدان کا ہدف اگلے انتخابات اور حکومت سازی ہوتے ہیں جبکہ قائد کا مقصد اور ہدف موجودہ اور آنے والی نسل ہوتی ہے۔'' یہی وہ فرق ہے جو بنیادی طور پر الطاف حسین اور ان دیگر رہنمائوں میں ہے۔
جن کا ذکر کالم نگار نے اپنے کالم میں کیا ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین کو نہ تو تگڑے امیدواروں کی ضرورت ہے اور نہ ہی خاندانی موروثیت کے سہارے کی ضرورت۔ الطاف حسین کسی سیاستدان کا نام نہیں بلکہ یہ ایک نظریے کا خالق ہے، ایک فکر کانام ہے۔ آج ملک کے طول و عرض میں ان کی صداقت و استقامت کے چرچے ہیں، ہزاروں کارکنان نے اپنی جانیں اس فکر پر نچھاور کی ہیں۔ الطاف حسین کا نظریہ ان کی مدبرانہ قیادت میں کراچی سے پشاور اورکوئٹہ، کشمیر تک ملک کے کونے کونے میں اپنی روشنی بکھیر رہا ہے اور متوسط طبقہ اسے اپنی راہ نجات گردانتا ہے۔ ایسی جماعت جس نے پچیس برس میں ہونے والے تمام انتخابات میں حصہ لیا اور ان میں بھرپور کامیابی حاصل کی، یہ اعزاز صرف متحدہ قومی موومنٹ کو حاصل ہے کہ ان پچیس برسوں میں کبھی بھی سکڑنے کا عمل نہیں دیکھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے مینڈیٹ میں اضافہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ گلگت، بلتستان اور کشمیر کی وادیوں میں بھی الطاف حسین کا نظریہ گونج رہا ہے۔
اس جماعت کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد کی جماعت ہے ہر ذی شعور کو حیرت زدہ کررہی ہے۔ ویسے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قلمکار، صحافی، دانشور اور ادیب معاشرے کا حساس طبقہ کہلاتا ہے اور اگر یہ تعصب کی عینک پہن کر تجزیہ کرکے اصول متعین کرنے لگے تو معاشرے کو تباہی سے بچانا مشکل تر ہوجائے گا۔ البتہ سیاستدان بنانے اور تیار کرنے کی تاریخ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے موجود ہے۔ قائد نہ تو خریدا جاسکتا ہے اور نہ دبایا جاسکتا ہے، اصغر خان کیس کے فیصلے نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا ہے کہ کون قائد ہے اور کون ابن الوقت۔ لہٰذا ملک کے حالات ہم سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم تجزیے کرتے وقت ذاتی وابستگیوں سے بلند ہوکر اپنی نگارشات ترتیب دیں نہ کہ ایسے تجزیے سامنے لائیں جو صورتحال مزید پیچیدہ بنادیں۔ معاشرے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں مضامین، تحریریں اور تجزیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ موجودہ نظامِ حکومت میں اصلاحات تجویز کرکے ہم ملک و قوم کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔ امید ہے کہ میری چند سطور کا مطالعہ معزز کالم نگار تدبر کی عینک پہن کرکریں گے اور آئندہ قائد اور سیاستدان میں فرق کو پیش نظر رکھیں گے۔