تصویر کا دوسرا رخ
زندگی ایک دریا کی طرح ہے جو حالات کے سمندر میں اپنا راستہ رکھتی ہے اور کردار آپ ہیں
دنیا بھر کی مخالفت کو اگر ہم ناپ تول کے پیمانوں سے گزاریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ کم ہیں دنیا میں ایسے لوگ جو ''حق'' کو حق کہتے ہیں اور اگر کسی نے ایسا کہا ہے تو صحافت کا ماضی شاہد ہے کہ وہ ''شہید'' کے درجے پر فائزہو گئے ہیں۔ ہمارا شہید کا Concept اپنی جگہ وہ ہمارے دین سے Extract ہے اور ہم اس کی پیروی کرتے ہیں اور درست کرتے ہیں کہ یہی حق کا راستہ ہے۔
تو ان طاقتوں نے اس قلم اور زبان کو خاموش کر دیا جو ان کے خیال میں ان کے خلاف اور عوام الناس کے خیال میں حق کی بات کرتا تھا /تھی۔ یہ دو خیال ہی دراصل وجہ فساد ہیں۔ عوام اس بات کو نہیں مانتے جو ان کے خلاف ہے اور حکمران وہ بات نہیں مانتے جو ان کے خلاف ہے اور جو بات ان کے خلاف ہے وہ عوام کے حق میں ہے۔
یہ ایک ایسا چکر ہے جس سے بڑے بڑے قلم کار، سچ گو، حق گو گزرتے ہیں۔ کچھ کھڑے رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس چٹان کی طرح پگھلتے رہتے ہیں جو آبشار کے پانی میں اس کا زور برداشت کرتی رہتی ہے اور شکست تسلیم نہیں کرتی اور کچھ پتھر، روڑے کی طرح پانی میں بہہ کر اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور Rolling Stone بن جاتے ہیں، جن کی ساخت بھی لہروں کی مرضی کی ہوتی ہے اور شکل و صورت بھی اس کے مطابق۔
زندگی ایک دریا کی طرح ہے جو حالات کے سمندر میں اپنا راستہ رکھتی ہے اور کردار آپ ہیں، آپ خود چاہے مضبوط رہ کر وہ جگہ قائم رکھیں جو آپ کو قدرت نے دی ہے، اور آپ کا حق ہے یا پھر بہہ جائیں اس سمندر میں اور ''لکھاری'' ہو جائیں دوسروں کی طرح جو اب قلم کا استعمال صرف اس لیے کرتے ہیں کہ زندگی کے لیے نمک حاصل کریں وہ حلال ہے یا حرام یہ الگ مسئلہ ہے اور طویل بحث کا سبب جو ہمارے بس کی بات نہیں۔ حق نا حق۔ حلال حرام کے ایسے پیمانے ایجاد ہو گئے ہیں کہ آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ آپ نے تو جو دیکھا سنا سمجھا تھا افسانہ تھا۔
تو قلم دراصل حرمت کی نشانی ہے، حریت کا علم ہے، مگر کس میں ہمت ہے کہ اس علم کو اٹھا لے۔ یوں لگتا ہے کہ غازی عباس کا علم ہے اور کسی اور کو ہمت نہیں کہ اسے اٹھا لے۔ خیر یہ تو ایک مثال ہم نے دی ہے اس سے دین یا فرقہ مقصود نہیں کہ ہم اس سوچ کے خلاف ہیں کہ لوگوں کو خانوں میں بانٹا جائے عقائد کے لحاظ سے اور پھر ان پر تیر و نشتر چلائے جائیں سب آزاد ہیں خدا نے آزاد پیدا کیا ہے اور ایک دوسرے کی آزادی کا احترام ہمارا فرض۔ یہ احترام ہاتھ اور زبان دونوں سے کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان کے بہت سے لکھنے والے دراصل پاکستانی ہیں، ہم وضاحت کر دیں ورنہ ان پر بھی کشمیریوں کی طرح مصیبت نہ آ جائے پاکستانی یوں کہا ہے اور محبت سے کہا ہے کہ وہ ان علاقوں میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان ہے۔ بعض تو لاہور سے گئے تو پھر کہیں نہ بسے اور لاہور ہی یادوں میں بسا رہا تادم آخر۔ ہندوستان سے آنے والے تو ترک وطن کر کے آئے تھے اور پاکستان کو اپنا وطن سمجھا مگر تادیر ساتھ ان شہروں کو لگاتے رہے اپنے نام کے ساتھ جہاں سے آبا واجداد کا تعلق تھا۔ یہ کوئی دشمنی نہیں ہے یہ علاقوں کی محبت ہے۔ صدیوں آپ کہیں رہتے ہیں تو وہ خوشبو نسلوں میں رچ بس جاتی ہے اور بہت مشکل سے ختم ہوتی ہے یہ صرف ترک وطن کرنے والے ہی جان سکتے ہیں کہ انھیں کن کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے اور بعض جان لیوا بھی ہوتے ہیں۔
تو ہم ادیبوں لکھنے والوں کا ذکر کر رہے تھے کلدیپ نیئر بھی ان میں سے ایک ہیں جو ''بین السطور'' کے نام سے ایک کالم لکھتے ہیں جس کا ترجمہ مظہر منہاس ایکسپریس کے لیے کرتے ہیں۔
کلدیپ نیئر نے گیارہ جون کے ترجمہ شدہ کالم میں جو عنوان رکھا ہے وہ ہے انتہا پسندی اور برصغیر اور اس میں جی بھر کے انھوں نے ان لوگوں کی ایک طرح مذمت کی ہے جو حق اور سچ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں خاص طور پر ملّا اور مولوی کو ہدف تنقید بنایا، پاکستان اور بنگلہ دیش کا موازنہ کہ پاکستان سرکاری طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اس کی ''بیخ کنی'' میں مصروف ہے وہاں شیخ حسینہ کی حکومت پھانسیوں پر لوگوں کو چڑھا کر دہشتگردی کی خالق بنی ہے اور وہاں دہشتگردی اس عمل کا ردعمل ہے۔ ڈاکٹر قدیر کے انٹرویو کا حوالہ کہ انھوں نے کہا کہ اگر تم لوگوں نے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی تو ہم چلا دیں گے'' اور پھر اس کو اس بات سے جوڑنا کہ اگر یہ ڈرٹی بم دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پوری دنیا کو تاوان کے لیے یرغمال بنا لیں گے۔
اس بات کو پھیلا کر وہ شام اور یمن تک لے گئے اور پھر بموں کے طریقہ کار اور خطرات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے حیدرآباد دکن کے اویسی لوگوں کو غلط قرار دیا کہ ان کے بیانات کٹر لوگوں کو پسند آتے ہیں۔ میڈیا سے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے پبلسٹی نہ دے۔ پھر پاکستان کے قیام کا ذمے دار لاہور کے دو اخباروں کو قرار دے دیا اور ذاتی تجربات کو بیان کر کے گویا برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی پر خاک ڈالنے کی کوشش کی مگر حقائق کچھ اور بھی ہیں۔
یہ درست ہے کہ بھارت کے مطلوبہ میر جعفروں اور میر صادقوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے اور وہ بہت اونچے مقام کے مالک بھی ہیں مگر فلسطین بھی تو ہے، امریکی دہشتگردی بین الاقوامی جس میں دنیا بھر کی قوموں نے ساتھ دیا وہ کسی کو نظر نہیں آتی اور دنیا نے یہ دہشتگردی صرف مسلمان ملکوں کے خلاف کی اور اسے اقوام متحدہ کی چھتری حاصل رہی یہ بھی سب بھول گئے۔ برما میں جو ہوا، ہو رہا ہے وہ نظر نہیں آ رہا اورمقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں کشمیریوں کو پاکستان سے بھی وہ مدد نہیں مل رہی کیونکہ یہاں مودی کے یار موجود ہیں۔
کشمیر میں بھارت جو خون کی ہولی 1950ء سے کھیل رہا ہے اور استصواب رائے کے جھوٹے وعدوں سے انحراف کر رہا ہے وہ بھی کبھی آپ کا قلم دیکھے اور لکھے کہ آپ کا بھی دیہانت ہو گا۔ جل کر بھی آپ رب العالمین کے ہی حضور پیش کیے جائیں جو فیصلہ بتا چکا ہے لکھا جا چکا ہے۔ میں آپ کو مسلمان نہیں بنا رہا آپ کو انسان کی تعریف بتا رہا ہوں کہ وہ حق کی بات کرتا ہے اور بے لاگ بات کرتا ہے، مگر لگتا ہے کہ آپ ایسا کریں گے نہیں جے ہند کے نعرے میں ساری انسانیت کا سودا کر لیا آپ نے۔
کشمیر آزاد ہو کر رہے گا میں اس دنیا میں رہوں یا نہ رہوں میری یہ بات لکھ لیجیے گا۔ جس قوم کا بچہ پیدا ہوتے ہی آزادی کی لوری سنتا ہے اور جس کی ماں اسے بسم اللہ کہہ کر شیر مادر دیتی ہے وہ غلام نہیں رہ سکتا۔ کشمیر ہندوستان کی موت ہے۔ یہ وہ ایٹم بم ہے جو ہندوستان نے سینے سے لگا رکھا ہے جبریہ۔ اسے چھوڑ دے آزاد کر دے تو بھارت یقینی موت سے بچ جائے گا۔
بھارت میں بہت جلد بہت سے کشمیر جنم لینے والے ہیں، مودی کا پانچ سالہ بھارت خودکشی دورانیہ بھارت میں احساس آزادی اور احساس انسانیت بیدار کرے گا، یہ قدرت کا انتظام ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔
آپ پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں پر ظلم کو بے شک دہشتگردی لکھتے رہیں اور اسلامی ملکوں کو اس کی پیداوار کا ذمے دار مگر یہ جھوٹ ہے کھلا جھوٹ۔ دنیا میں دہشتگردی بھارت اور اسرائیل نے شروع کی اور، اور یہ بڑھتے بڑھتے امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دوسرے ملکوں کی ہم نوائی حاصل کرتی رہی اور انھوں نے بھارت اور اسرائیل سے بڑھ کر دنیا کو 9/11 کے ڈرامے کے ذریعے تباہ و برباد کیا۔
سب کو حساب دینا ہو گا، اعتراف کرنے والے اعتراف کرنے لگے ہیں کہ ہم غلط تھے جو اعتراف کر کے سدباب نہیں کرے گا اسے قدرت کا قانون سزا دے گا۔ انشا اللہ یہ ہمارا ایمان ہے اور دعا ہے کہ آپ اس وقت تک زندہ رہیں اور حق اور سچ کو دیکھیں بے شک پھر بھی جھوٹ لکھیں۔
تو ان طاقتوں نے اس قلم اور زبان کو خاموش کر دیا جو ان کے خیال میں ان کے خلاف اور عوام الناس کے خیال میں حق کی بات کرتا تھا /تھی۔ یہ دو خیال ہی دراصل وجہ فساد ہیں۔ عوام اس بات کو نہیں مانتے جو ان کے خلاف ہے اور حکمران وہ بات نہیں مانتے جو ان کے خلاف ہے اور جو بات ان کے خلاف ہے وہ عوام کے حق میں ہے۔
یہ ایک ایسا چکر ہے جس سے بڑے بڑے قلم کار، سچ گو، حق گو گزرتے ہیں۔ کچھ کھڑے رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس چٹان کی طرح پگھلتے رہتے ہیں جو آبشار کے پانی میں اس کا زور برداشت کرتی رہتی ہے اور شکست تسلیم نہیں کرتی اور کچھ پتھر، روڑے کی طرح پانی میں بہہ کر اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور Rolling Stone بن جاتے ہیں، جن کی ساخت بھی لہروں کی مرضی کی ہوتی ہے اور شکل و صورت بھی اس کے مطابق۔
زندگی ایک دریا کی طرح ہے جو حالات کے سمندر میں اپنا راستہ رکھتی ہے اور کردار آپ ہیں، آپ خود چاہے مضبوط رہ کر وہ جگہ قائم رکھیں جو آپ کو قدرت نے دی ہے، اور آپ کا حق ہے یا پھر بہہ جائیں اس سمندر میں اور ''لکھاری'' ہو جائیں دوسروں کی طرح جو اب قلم کا استعمال صرف اس لیے کرتے ہیں کہ زندگی کے لیے نمک حاصل کریں وہ حلال ہے یا حرام یہ الگ مسئلہ ہے اور طویل بحث کا سبب جو ہمارے بس کی بات نہیں۔ حق نا حق۔ حلال حرام کے ایسے پیمانے ایجاد ہو گئے ہیں کہ آپ حیران ہو جاتے ہیں کہ آپ نے تو جو دیکھا سنا سمجھا تھا افسانہ تھا۔
تو قلم دراصل حرمت کی نشانی ہے، حریت کا علم ہے، مگر کس میں ہمت ہے کہ اس علم کو اٹھا لے۔ یوں لگتا ہے کہ غازی عباس کا علم ہے اور کسی اور کو ہمت نہیں کہ اسے اٹھا لے۔ خیر یہ تو ایک مثال ہم نے دی ہے اس سے دین یا فرقہ مقصود نہیں کہ ہم اس سوچ کے خلاف ہیں کہ لوگوں کو خانوں میں بانٹا جائے عقائد کے لحاظ سے اور پھر ان پر تیر و نشتر چلائے جائیں سب آزاد ہیں خدا نے آزاد پیدا کیا ہے اور ایک دوسرے کی آزادی کا احترام ہمارا فرض۔ یہ احترام ہاتھ اور زبان دونوں سے کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان کے بہت سے لکھنے والے دراصل پاکستانی ہیں، ہم وضاحت کر دیں ورنہ ان پر بھی کشمیریوں کی طرح مصیبت نہ آ جائے پاکستانی یوں کہا ہے اور محبت سے کہا ہے کہ وہ ان علاقوں میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان ہے۔ بعض تو لاہور سے گئے تو پھر کہیں نہ بسے اور لاہور ہی یادوں میں بسا رہا تادم آخر۔ ہندوستان سے آنے والے تو ترک وطن کر کے آئے تھے اور پاکستان کو اپنا وطن سمجھا مگر تادیر ساتھ ان شہروں کو لگاتے رہے اپنے نام کے ساتھ جہاں سے آبا واجداد کا تعلق تھا۔ یہ کوئی دشمنی نہیں ہے یہ علاقوں کی محبت ہے۔ صدیوں آپ کہیں رہتے ہیں تو وہ خوشبو نسلوں میں رچ بس جاتی ہے اور بہت مشکل سے ختم ہوتی ہے یہ صرف ترک وطن کرنے والے ہی جان سکتے ہیں کہ انھیں کن کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے اور بعض جان لیوا بھی ہوتے ہیں۔
تو ہم ادیبوں لکھنے والوں کا ذکر کر رہے تھے کلدیپ نیئر بھی ان میں سے ایک ہیں جو ''بین السطور'' کے نام سے ایک کالم لکھتے ہیں جس کا ترجمہ مظہر منہاس ایکسپریس کے لیے کرتے ہیں۔
کلدیپ نیئر نے گیارہ جون کے ترجمہ شدہ کالم میں جو عنوان رکھا ہے وہ ہے انتہا پسندی اور برصغیر اور اس میں جی بھر کے انھوں نے ان لوگوں کی ایک طرح مذمت کی ہے جو حق اور سچ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں خاص طور پر ملّا اور مولوی کو ہدف تنقید بنایا، پاکستان اور بنگلہ دیش کا موازنہ کہ پاکستان سرکاری طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اس کی ''بیخ کنی'' میں مصروف ہے وہاں شیخ حسینہ کی حکومت پھانسیوں پر لوگوں کو چڑھا کر دہشتگردی کی خالق بنی ہے اور وہاں دہشتگردی اس عمل کا ردعمل ہے۔ ڈاکٹر قدیر کے انٹرویو کا حوالہ کہ انھوں نے کہا کہ اگر تم لوگوں نے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی تو ہم چلا دیں گے'' اور پھر اس کو اس بات سے جوڑنا کہ اگر یہ ڈرٹی بم دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پوری دنیا کو تاوان کے لیے یرغمال بنا لیں گے۔
اس بات کو پھیلا کر وہ شام اور یمن تک لے گئے اور پھر بموں کے طریقہ کار اور خطرات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے حیدرآباد دکن کے اویسی لوگوں کو غلط قرار دیا کہ ان کے بیانات کٹر لوگوں کو پسند آتے ہیں۔ میڈیا سے انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے پبلسٹی نہ دے۔ پھر پاکستان کے قیام کا ذمے دار لاہور کے دو اخباروں کو قرار دے دیا اور ذاتی تجربات کو بیان کر کے گویا برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی پر خاک ڈالنے کی کوشش کی مگر حقائق کچھ اور بھی ہیں۔
یہ درست ہے کہ بھارت کے مطلوبہ میر جعفروں اور میر صادقوں کی پاکستان میں کمی نہیں ہے اور وہ بہت اونچے مقام کے مالک بھی ہیں مگر فلسطین بھی تو ہے، امریکی دہشتگردی بین الاقوامی جس میں دنیا بھر کی قوموں نے ساتھ دیا وہ کسی کو نظر نہیں آتی اور دنیا نے یہ دہشتگردی صرف مسلمان ملکوں کے خلاف کی اور اسے اقوام متحدہ کی چھتری حاصل رہی یہ بھی سب بھول گئے۔ برما میں جو ہوا، ہو رہا ہے وہ نظر نہیں آ رہا اورمقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں کشمیریوں کو پاکستان سے بھی وہ مدد نہیں مل رہی کیونکہ یہاں مودی کے یار موجود ہیں۔
کشمیر میں بھارت جو خون کی ہولی 1950ء سے کھیل رہا ہے اور استصواب رائے کے جھوٹے وعدوں سے انحراف کر رہا ہے وہ بھی کبھی آپ کا قلم دیکھے اور لکھے کہ آپ کا بھی دیہانت ہو گا۔ جل کر بھی آپ رب العالمین کے ہی حضور پیش کیے جائیں جو فیصلہ بتا چکا ہے لکھا جا چکا ہے۔ میں آپ کو مسلمان نہیں بنا رہا آپ کو انسان کی تعریف بتا رہا ہوں کہ وہ حق کی بات کرتا ہے اور بے لاگ بات کرتا ہے، مگر لگتا ہے کہ آپ ایسا کریں گے نہیں جے ہند کے نعرے میں ساری انسانیت کا سودا کر لیا آپ نے۔
کشمیر آزاد ہو کر رہے گا میں اس دنیا میں رہوں یا نہ رہوں میری یہ بات لکھ لیجیے گا۔ جس قوم کا بچہ پیدا ہوتے ہی آزادی کی لوری سنتا ہے اور جس کی ماں اسے بسم اللہ کہہ کر شیر مادر دیتی ہے وہ غلام نہیں رہ سکتا۔ کشمیر ہندوستان کی موت ہے۔ یہ وہ ایٹم بم ہے جو ہندوستان نے سینے سے لگا رکھا ہے جبریہ۔ اسے چھوڑ دے آزاد کر دے تو بھارت یقینی موت سے بچ جائے گا۔
بھارت میں بہت جلد بہت سے کشمیر جنم لینے والے ہیں، مودی کا پانچ سالہ بھارت خودکشی دورانیہ بھارت میں احساس آزادی اور احساس انسانیت بیدار کرے گا، یہ قدرت کا انتظام ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔
آپ پاکستان اور دوسرے اسلامی ملکوں پر ظلم کو بے شک دہشتگردی لکھتے رہیں اور اسلامی ملکوں کو اس کی پیداوار کا ذمے دار مگر یہ جھوٹ ہے کھلا جھوٹ۔ دنیا میں دہشتگردی بھارت اور اسرائیل نے شروع کی اور، اور یہ بڑھتے بڑھتے امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دوسرے ملکوں کی ہم نوائی حاصل کرتی رہی اور انھوں نے بھارت اور اسرائیل سے بڑھ کر دنیا کو 9/11 کے ڈرامے کے ذریعے تباہ و برباد کیا۔
سب کو حساب دینا ہو گا، اعتراف کرنے والے اعتراف کرنے لگے ہیں کہ ہم غلط تھے جو اعتراف کر کے سدباب نہیں کرے گا اسے قدرت کا قانون سزا دے گا۔ انشا اللہ یہ ہمارا ایمان ہے اور دعا ہے کہ آپ اس وقت تک زندہ رہیں اور حق اور سچ کو دیکھیں بے شک پھر بھی جھوٹ لکھیں۔