پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی ہے سپریم کورٹ
واٹر بورڈ کے افسران پانی چوری میں ملوث ہیں، پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں ریمارکس
سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربر اہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے شہر میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہاہے کہ واٹر بورڈ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی ہے.
سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربر اہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے شہر میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ واٹربورڈ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی ہے اور کراچی کے شہری دہرے عذاب میں مبتلا ہیں لوگ اپنی کمائی کے ایک بڑے حصے سے مہنگے داموں منرل واٹر خریدتے ہیں، جب ہائیڈرنٹس بند کیے جاتے ہیں تو واٹر ٹینکر مافیا پانی کے نرخوں میں اضافہ کر دیتی ہے ، لوگ مجبوری میں واٹر ٹینکر کااستعمال کرتے ہیں کیونکہ نلکوں میں پانی آتا نہیں ، عوام مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔
واٹر بورڈ کے افسران خود پانی چوری میں ملوث ہیں، عدالت نے انتباہ کیا ہے کہ واٹر بورڈ انتظامیہ نے معاملات نہ سنبھالے تو واٹر بورڈ کا انتظام جوڈیشل افسران کے حوالے کیا جاسکتا ہے اسی صورت میں افسران گھروں میں بیٹھ جائیں گے، لارجر بینچ نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اور مزید ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر ہائیڈرنٹس سے متعلق پالیسی ترتیب دیکر عدالت کو آگاہ کیا جائے ،سماعت کے موقع پر چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن ، ایم ڈی واٹر مصباح الدین فرید سمیت دیگر افسران موجود تھے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے اب تک کیے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ جمع کرائی، رپورٹ کا جائزہ لے کر عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ کیا شہریوں کو پانی مل رہا ہے توایم ڈی نے جواب دیا کہ جی ہاں بڑی حد تک پانی کی فراہمی جاری ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے معاملات کون دیکھتا ہے ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ اس مقصد کے لیے سب انجینئرزاور وال مین ہیں ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ لائنوں میں پانی نہیں آتا ہے کیا آپ نے افسران کے خلاف کوئی کارروائی کی ،لوگ پانی خرید کر پیتے ہیں آپ کہہ رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے آپ کے افسران خود پانی چوری میں ملوث ہیں آج تک کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا ۔
مصباح الدین فرید نے جواب دیا کہ جب شکایت ملتی ہے تو کارروائی کرتے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا شکایات آتی ہیں ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ جی ہاں بہت سارے افسران کا تبادلہ کیا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کسی کو نوکری سے نکالا ہے ایم ڈی نے جواب دیا کہ ابھی سب انجینئر کے خلاف کارروائی کی ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ کتنے ٹینکر چلتے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 9 سے 10 ہزار ٹینکر چلتے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کتنے ہائیڈرنٹس کام کررہے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 13 ہائیڈرنٹ کام کر رہے ہیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ 13 ہائیڈرنٹس سے ایک ٹینکر کو کتنا پانی ملتا ہے، ایم ڈی نے جواب دیا کہ 3 سے 4 بار پانی ملتا ہے کیونکہ اب پانی کی سپلائی زیادہ ہو گئی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ پانی کا ٹیکس لینے کے بجائے ٹینکر والوں کو نواز رہے ہیں۔
اس طرح تو عملے کو بھی کام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ 11 ہائیڈرنٹس بند کیے ہیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہااسی وجہ سے ٹینکر مافیا نے پانی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ،مثلا 1 ہزارکا ٹینکر ڈھائی ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے، ایم ڈی نے جواب دیا کہ ایک آدمی کو 18 گیلن پانی ملتا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ غلط کہہ رہے ہیں آپ نے شور مچایا ہوا ہے کہ پانی کی قلت ختم ہو گی، ایم ڈی نے جواب دیا کہ پرانے پمپس لگے ہوئے ہیں جو کہ15 سے 20 فیصد تک صلاحیت کھو بیٹھے ہیں ، کراچی میں پانی کی فراہمی کا پیچیدہ نظام ہے ، گلشن اقبال سمیت دیگر جگہوں پر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ رینجرزاور پولیس کو بھی پانی دیا جاتا ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پانی کا بحران ہے لوگ اپنی جیبیں کاٹ کر منرل واٹر خریدتے ہیں یہ بھی مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ایم ڈی نے جواب دیا کہ اب حب ڈیم میں پانی آگیا ہے معاملات کافی حد تک سنبھل گئے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بجلی کے صارف زیادہ ہیں آپ کے کم ہیں ، لوگوں کو پینے کا پانی چاہیے بجلی نہیں ، لائنوں میں پانی دیں گے تو لوگوں کے مسائل حل ہوں گے ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ جی ہاں ہمارے صارف کم ہیں کراچی میں نظام خراب ہے بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں ان کو پانی چاہیے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ این اوسی کون جاری کرتا ہے، ایم ڈی نے جواب دیا کہ ہم نہیں دیتے ہیں ہم نے مجاز حکام کو معاملات ٹھیک کرنے کے لیے لکھا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بیڈ گورننس کے باعث پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پاتی آپ لوگوں نے معاملات نہ سنبھالے تو واٹر بورڈ کا انتظام جوڈیشل افسران کے حوالے کیا جاسکتا ہے، پھر افسران گھر میں بیٹھیں گے ، جب تک پانی کی لائنوں کی مرمت نہیں کریں گے تو لائنوں میں پانی کیسے آئے گا ۔
روزانہ تو پانی کی لائنیں پھٹ جاتی ہیں ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ کچھ مسائل کاسامنا ہے روزانہ 25 سے 50 بار لائنوں میں لیکیج ہوتی ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ روزانہ کی بنیادوں پر مرمت ہو تو کبھی بھی لائنیں نہیں پھٹیں گی آپ کا نظام پرانا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کتنے سال سے کام کر رہے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 30سال سے کام کر رہا ہوں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا بہتری لائے ہیں ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ ایس تھری اور کے فور کے پروگرام ہیں، پروگراموں کو مکمل کرنے کے لیے وفاق نے فنڈز جاری نہیں کیے ہیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ آپ نے اب پوچھا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکر یٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ معاملات کو دیکھیں بصورت دیگر افسران عہدوں سے جائیں گے۔
20 ہزار ٹینکر ہائیڈرنٹس سے پانی حاصل کرتے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 2 ہزار ٹینکررجسٹرڈ ہیں ،جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ بے تحاشہ ٹینکر والے پانی حاصل کرتے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ میں ٹینکر کی تعداد کم کر دیتا ہوں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ واٹر ٹینکر توایمرجنسی کی صورت میں ہونے چاہیے عام آدمی کو لائنوں میں پانی فراہم کریں ایم ڈی کاکہنا تھا کہ جو 13 ہائیڈرنٹس چل رہے ہیں میں انھیں بند کرنا چاہتا ہوں آّپ حکم کریں تو بند کر دیتا ہوں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم نے نہیں روکا جو کرنا ہے ۔
قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کریںاور ہمیں اقدامات سے آگاہ کر دیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا جب ہائیڈرنٹ بند کرتے ہیں تو ٹینکر مافیا پانی کے نرخوں میں اضافہ کر دیتی ہے، لوگ مہنگے داموں خریدتے ہیں ، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی تفصیلات بتائیں تاکہ ہائی کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ جلد مقدمات نمٹائیں، عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے زیر سماعت مقدمات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید ہدایت کی کہ ہائیڈرنٹس سے متعلق پالیسی ترتیب دیکر عدالت کو آگاہ کریں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربر اہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے شہر میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا ہے کہ واٹربورڈ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی ہے اور کراچی کے شہری دہرے عذاب میں مبتلا ہیں لوگ اپنی کمائی کے ایک بڑے حصے سے مہنگے داموں منرل واٹر خریدتے ہیں، جب ہائیڈرنٹس بند کیے جاتے ہیں تو واٹر ٹینکر مافیا پانی کے نرخوں میں اضافہ کر دیتی ہے ، لوگ مجبوری میں واٹر ٹینکر کااستعمال کرتے ہیں کیونکہ نلکوں میں پانی آتا نہیں ، عوام مافیا کے رحم و کرم پر ہیں۔
واٹر بورڈ کے افسران خود پانی چوری میں ملوث ہیں، عدالت نے انتباہ کیا ہے کہ واٹر بورڈ انتظامیہ نے معاملات نہ سنبھالے تو واٹر بورڈ کا انتظام جوڈیشل افسران کے حوالے کیا جاسکتا ہے اسی صورت میں افسران گھروں میں بیٹھ جائیں گے، لارجر بینچ نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اور مزید ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر ہائیڈرنٹس سے متعلق پالیسی ترتیب دیکر عدالت کو آگاہ کیا جائے ،سماعت کے موقع پر چیف سیکریٹری سندھ صدیق میمن ، ایم ڈی واٹر مصباح الدین فرید سمیت دیگر افسران موجود تھے۔
ایم ڈی واٹر بورڈ نے اب تک کیے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ جمع کرائی، رپورٹ کا جائزہ لے کر عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے استفسار کیا کہ کیا شہریوں کو پانی مل رہا ہے توایم ڈی نے جواب دیا کہ جی ہاں بڑی حد تک پانی کی فراہمی جاری ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے معاملات کون دیکھتا ہے ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ اس مقصد کے لیے سب انجینئرزاور وال مین ہیں ،جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ لائنوں میں پانی نہیں آتا ہے کیا آپ نے افسران کے خلاف کوئی کارروائی کی ،لوگ پانی خرید کر پیتے ہیں آپ کہہ رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے آپ کے افسران خود پانی چوری میں ملوث ہیں آج تک کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا ۔
مصباح الدین فرید نے جواب دیا کہ جب شکایت ملتی ہے تو کارروائی کرتے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کیا شکایات آتی ہیں ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ جی ہاں بہت سارے افسران کا تبادلہ کیا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کسی کو نوکری سے نکالا ہے ایم ڈی نے جواب دیا کہ ابھی سب انجینئر کے خلاف کارروائی کی ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ کتنے ٹینکر چلتے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 9 سے 10 ہزار ٹینکر چلتے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کتنے ہائیڈرنٹس کام کررہے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 13 ہائیڈرنٹ کام کر رہے ہیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ 13 ہائیڈرنٹس سے ایک ٹینکر کو کتنا پانی ملتا ہے، ایم ڈی نے جواب دیا کہ 3 سے 4 بار پانی ملتا ہے کیونکہ اب پانی کی سپلائی زیادہ ہو گئی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ پانی کا ٹیکس لینے کے بجائے ٹینکر والوں کو نواز رہے ہیں۔
اس طرح تو عملے کو بھی کام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ 11 ہائیڈرنٹس بند کیے ہیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہااسی وجہ سے ٹینکر مافیا نے پانی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ،مثلا 1 ہزارکا ٹینکر ڈھائی ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے، ایم ڈی نے جواب دیا کہ ایک آدمی کو 18 گیلن پانی ملتا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ غلط کہہ رہے ہیں آپ نے شور مچایا ہوا ہے کہ پانی کی قلت ختم ہو گی، ایم ڈی نے جواب دیا کہ پرانے پمپس لگے ہوئے ہیں جو کہ15 سے 20 فیصد تک صلاحیت کھو بیٹھے ہیں ، کراچی میں پانی کی فراہمی کا پیچیدہ نظام ہے ، گلشن اقبال سمیت دیگر جگہوں پر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ رینجرزاور پولیس کو بھی پانی دیا جاتا ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ پانی کا بحران ہے لوگ اپنی جیبیں کاٹ کر منرل واٹر خریدتے ہیں یہ بھی مافیا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ایم ڈی نے جواب دیا کہ اب حب ڈیم میں پانی آگیا ہے معاملات کافی حد تک سنبھل گئے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بجلی کے صارف زیادہ ہیں آپ کے کم ہیں ، لوگوں کو پینے کا پانی چاہیے بجلی نہیں ، لائنوں میں پانی دیں گے تو لوگوں کے مسائل حل ہوں گے ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ جی ہاں ہمارے صارف کم ہیں کراچی میں نظام خراب ہے بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں ان کو پانی چاہیے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ این اوسی کون جاری کرتا ہے، ایم ڈی نے جواب دیا کہ ہم نہیں دیتے ہیں ہم نے مجاز حکام کو معاملات ٹھیک کرنے کے لیے لکھا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بیڈ گورننس کے باعث پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پاتی آپ لوگوں نے معاملات نہ سنبھالے تو واٹر بورڈ کا انتظام جوڈیشل افسران کے حوالے کیا جاسکتا ہے، پھر افسران گھر میں بیٹھیں گے ، جب تک پانی کی لائنوں کی مرمت نہیں کریں گے تو لائنوں میں پانی کیسے آئے گا ۔
روزانہ تو پانی کی لائنیں پھٹ جاتی ہیں ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ کچھ مسائل کاسامنا ہے روزانہ 25 سے 50 بار لائنوں میں لیکیج ہوتی ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ روزانہ کی بنیادوں پر مرمت ہو تو کبھی بھی لائنیں نہیں پھٹیں گی آپ کا نظام پرانا ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کتنے سال سے کام کر رہے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 30سال سے کام کر رہا ہوں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا بہتری لائے ہیں ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ ایس تھری اور کے فور کے پروگرام ہیں، پروگراموں کو مکمل کرنے کے لیے وفاق نے فنڈز جاری نہیں کیے ہیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی ، ایم ڈی نے جواب دیا کہ آپ نے اب پوچھا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکر یٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ معاملات کو دیکھیں بصورت دیگر افسران عہدوں سے جائیں گے۔
20 ہزار ٹینکر ہائیڈرنٹس سے پانی حاصل کرتے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ 2 ہزار ٹینکررجسٹرڈ ہیں ،جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ بے تحاشہ ٹینکر والے پانی حاصل کرتے ہیں ایم ڈی نے جواب دیا کہ میں ٹینکر کی تعداد کم کر دیتا ہوں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ واٹر ٹینکر توایمرجنسی کی صورت میں ہونے چاہیے عام آدمی کو لائنوں میں پانی فراہم کریں ایم ڈی کاکہنا تھا کہ جو 13 ہائیڈرنٹس چل رہے ہیں میں انھیں بند کرنا چاہتا ہوں آّپ حکم کریں تو بند کر دیتا ہوں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم نے نہیں روکا جو کرنا ہے ۔
قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کریںاور ہمیں اقدامات سے آگاہ کر دیں ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا جب ہائیڈرنٹ بند کرتے ہیں تو ٹینکر مافیا پانی کے نرخوں میں اضافہ کر دیتی ہے، لوگ مہنگے داموں خریدتے ہیں ، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی تفصیلات بتائیں تاکہ ہائی کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ جلد مقدمات نمٹائیں، عدالت نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے زیر سماعت مقدمات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید ہدایت کی کہ ہائیڈرنٹس سے متعلق پالیسی ترتیب دیکر عدالت کو آگاہ کریں۔