سارک اکنامک یونین بنانے پر اتفاق
جنوبی ایشیا کو اگر اکنامک زون میں تبدیل کرنا ہے تو اس کے لیے پہلے سیاسی تنازعات کا خاتمہ کرنا ہو گا
سارک وزرائے خزانہ کانفرنس میں سارک ممالک کے درمیان ساؤتھ ایشین اکنامک یونین بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے جب کہ سارک ڈویلپمنٹ فنڈ کا حجم بڑھانے اور سماجی ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ اقتصادی و انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے منصوبے بھی شروع کرنے پر اتفاق ہوا ہے جس کے لیے جامع اسٹرٹیجک پلان تیار کیا جائے گا البتہ سارک ممالک کی مشترکہ کرنسی متعارف کروانے کی نہ کوئی تجویز زیر غور آئی اور نہ ہی مستقبل میں کوئی ایسا پلان ہے۔
جہاں تک سارک اکنامک یونین بنانے پر اتفاق ہونے کا تعلق ہے تو اس سے قبل بھی اس تنظیم میں کئی اہم معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے مگر یہ تمام اتفاقات محض کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہتے ہیں، ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی خوش خبری نہیں ملتی جس کی اصل وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے سوا اور کوئی نہیں۔ اپنے حجم کے اعتبار سے بھارت یقیناً بڑا ہے لیکن اس کی سوچ اور عمل سے اس کی بڑائی کا کوئی ثبوت نظر نہیں آتا۔ بھارت کا سلوک صرف پاکستان کے خلاف معاندانہ ہی نہیں بلکہ اس کے دیگر پڑوسی بھی اس سے نالاں ہیں خواہ وہ اس کا ہم مذہب نیپال ہو یا بھوٹان، سری لنکا بھارت کا طرز عمل سب کے ساتھ غیر عادلانا ہے۔
نیپال جو لینڈ لاکڈ ملک ہے بھارت اس کی تجارت روکنے کے لیے اس کی سرحد بند کر کے اس کو زچ کرتا رہتا ہے۔ ایک طرف بھارت کشمیر کا تنازعہ دو طرفہ بات چیت سے حل کرنے پر زور دیتا ہے مگر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے طے شدہ شیڈول کو بہانے بہانے سے منسوخ کرتا رہتا ہے۔ اور سارک ممالک کے اجلاس میں وہ اس مسئلے کو اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
سارک ممالک کے درمیان بینکنگ سیکٹر میں کلیئرنس کا نظام متعارف کروانے اور مشترکہ کلیئرنگ ہاؤس قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور لائی گئی ہے جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تسلیم کیا ہے کہ سارک کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سست ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ علاقائی اختلافات کو ختم کر کے اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
آٹھویں سارک وزرائے خزانہ کانفرنس کے اختتام پر سارک کے جنرل سیکریٹری ارجن بہادر تھاپا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سارک کے قیام کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اب تک اس کے مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے۔ انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سارک کے فیصلوں پر عمل درآمد کی رفتار سست ہے البتہ اس کے لیے طریقہ کار طے کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
یہاں یہ امر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت صرف پانچ فیصد ہے۔ کانفرنس میں بھارتی وزیر خزانہ نے شرکت سے انکار کر دیا جس پر ان کے پاکستانی ہم منصب کا تبصرہ تھا کہ بھارتی وزیر خزانہ کی عدم شرکت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس میں چیمبرز آف کامرس کے سربراہوں کے لیے ویزا فری اسٹیکرز جاری کرنے پر بھی غور کیا گیا لیکن کیا ویزا فری اسٹیکر جاری ہوسکیں گے یا نہیں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
سارک رکن ممالک نے خطے میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں بڑھانے، خدمات کے شعبے میں بغیر کسی تاخیر کے اقدامات اور دہرے ٹیکسوں کے خاتمے پر اتفاق کر لیا ہے لیکن کیا دوہرا ٹیکس ختم ہو جائے گا اس بارے میں بھی وثوق سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ رکن ممالک کے درمیان سڑک، ریل اور فضائی رابطوں کو بڑھانے کی بات بھی ہوئی نیز سارک ڈویلپمنٹ فنڈ کی توسیع کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
ساؤتھ ایشین اکنامک یونین کے قیام اور سافٹا پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ سرمایہ کاری کے تحفظ کے معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ سارک وزرائے خزانہ کا آیندہ اجلاس کابل میں ہو گا۔ قبل ازیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار آٹھویں سارک وزرائے خزانہ اجلاس کے چیئرمین منتخب ہو گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان خطے کا معاشی منظرنامہ تبدیل کرنے اور اس کے عوام کو غربت، ناخواندگی اور دیگر سماجی مسائل سے نجات دلانے کے لیے سارک رکن ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آج پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین ملک ہے کیونکہ موٹر ویز، ریل روڈ اور فضائی رابطے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہیں۔ وزیراعظم کی باتیں بجا ہیں اور سارک اکنامک یونین کا خواب بھی بڑا سہانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خواب عملاً تعبیر بھی حاصل کر سکے گا۔ سارک تنظیم ابھی تک جنوبی ایشیا میں موجود سیاسی تنازعات طے کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور شاید اس تنظیم کے آئین میں بھی کمزوریاں ہیں۔ جنوبی ایشیا کو اگر اکنامک زون میں تبدیل کرنا ہے تو اس کے لیے پہلے سیاسی تنازعات کا خاتمہ کرنا ہو گا ورنہ سارک اکنامک زون کا قیام محض کاغذوں میں'' اتفاق ''کی حد تک ہی رہے گا۔
جہاں تک سارک اکنامک یونین بنانے پر اتفاق ہونے کا تعلق ہے تو اس سے قبل بھی اس تنظیم میں کئی اہم معاملات پر اتفاق ہو چکا ہے مگر یہ تمام اتفاقات محض کاغذی کارروائی تک ہی محدود رہتے ہیں، ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی خوش خبری نہیں ملتی جس کی اصل وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے سوا اور کوئی نہیں۔ اپنے حجم کے اعتبار سے بھارت یقیناً بڑا ہے لیکن اس کی سوچ اور عمل سے اس کی بڑائی کا کوئی ثبوت نظر نہیں آتا۔ بھارت کا سلوک صرف پاکستان کے خلاف معاندانہ ہی نہیں بلکہ اس کے دیگر پڑوسی بھی اس سے نالاں ہیں خواہ وہ اس کا ہم مذہب نیپال ہو یا بھوٹان، سری لنکا بھارت کا طرز عمل سب کے ساتھ غیر عادلانا ہے۔
نیپال جو لینڈ لاکڈ ملک ہے بھارت اس کی تجارت روکنے کے لیے اس کی سرحد بند کر کے اس کو زچ کرتا رہتا ہے۔ ایک طرف بھارت کشمیر کا تنازعہ دو طرفہ بات چیت سے حل کرنے پر زور دیتا ہے مگر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے طے شدہ شیڈول کو بہانے بہانے سے منسوخ کرتا رہتا ہے۔ اور سارک ممالک کے اجلاس میں وہ اس مسئلے کو اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
سارک ممالک کے درمیان بینکنگ سیکٹر میں کلیئرنس کا نظام متعارف کروانے اور مشترکہ کلیئرنگ ہاؤس قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور لائی گئی ہے جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تسلیم کیا ہے کہ سارک کانفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سست ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ علاقائی اختلافات کو ختم کر کے اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
آٹھویں سارک وزرائے خزانہ کانفرنس کے اختتام پر سارک کے جنرل سیکریٹری ارجن بہادر تھاپا کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سارک کے قیام کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اب تک اس کے مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے۔ انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سارک کے فیصلوں پر عمل درآمد کی رفتار سست ہے البتہ اس کے لیے طریقہ کار طے کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
یہاں یہ امر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث رکن ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت صرف پانچ فیصد ہے۔ کانفرنس میں بھارتی وزیر خزانہ نے شرکت سے انکار کر دیا جس پر ان کے پاکستانی ہم منصب کا تبصرہ تھا کہ بھارتی وزیر خزانہ کی عدم شرکت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس میں چیمبرز آف کامرس کے سربراہوں کے لیے ویزا فری اسٹیکرز جاری کرنے پر بھی غور کیا گیا لیکن کیا ویزا فری اسٹیکر جاری ہوسکیں گے یا نہیں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
سارک رکن ممالک نے خطے میں معاشی و تجارتی سرگرمیاں بڑھانے، خدمات کے شعبے میں بغیر کسی تاخیر کے اقدامات اور دہرے ٹیکسوں کے خاتمے پر اتفاق کر لیا ہے لیکن کیا دوہرا ٹیکس ختم ہو جائے گا اس بارے میں بھی وثوق سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ رکن ممالک کے درمیان سڑک، ریل اور فضائی رابطوں کو بڑھانے کی بات بھی ہوئی نیز سارک ڈویلپمنٹ فنڈ کی توسیع کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
ساؤتھ ایشین اکنامک یونین کے قیام اور سافٹا پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ سرمایہ کاری کے تحفظ کے معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ سارک وزرائے خزانہ کا آیندہ اجلاس کابل میں ہو گا۔ قبل ازیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار آٹھویں سارک وزرائے خزانہ اجلاس کے چیئرمین منتخب ہو گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان خطے کا معاشی منظرنامہ تبدیل کرنے اور اس کے عوام کو غربت، ناخواندگی اور دیگر سماجی مسائل سے نجات دلانے کے لیے سارک رکن ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آج پاکستان سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ترین ملک ہے کیونکہ موٹر ویز، ریل روڈ اور فضائی رابطے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہیں۔ وزیراعظم کی باتیں بجا ہیں اور سارک اکنامک یونین کا خواب بھی بڑا سہانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خواب عملاً تعبیر بھی حاصل کر سکے گا۔ سارک تنظیم ابھی تک جنوبی ایشیا میں موجود سیاسی تنازعات طے کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور شاید اس تنظیم کے آئین میں بھی کمزوریاں ہیں۔ جنوبی ایشیا کو اگر اکنامک زون میں تبدیل کرنا ہے تو اس کے لیے پہلے سیاسی تنازعات کا خاتمہ کرنا ہو گا ورنہ سارک اکنامک زون کا قیام محض کاغذوں میں'' اتفاق ''کی حد تک ہی رہے گا۔