ہمارے ’’یاور بھائی‘‘ اور نثار احمد زبیری
اسی دور میں ریڈیو پاکستان کراچی کا پروگرام ’’بزم طلبا‘‘ بھی اپنے پورے عروج پر تھا۔
ہمارے ہاں عام طور پر کسی قابل اور اہم شخصیت کے تعریفی اور مثبت پہلو اس کی وفات کے بعد مضامین اور کالم کی شکل میں سامنے لائے جاتے ہیں۔ لیکن عام طور پر ایسی شخصیات کا ذکر خیر ان کی زندگی میں نہیں کیا جاتا۔ میری اپنی سوچ یہ ہے کہ جن شخصیات نے ایک پوری نسل کی ذہنی آبیاری صرف میرٹ پر کی ہو، ان کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جانا بہت ضروری ہے۔
ہمارا طالب علمی کا زمانہ میرٹ کے لحاظ سے گولڈن پیریڈ تھا۔ کہ اس وقت طلبا و طالبات کی ذہنی و جسمانی تعمیر و تربیت کے لیے اسپورٹس، مباحثے، تقریری و تحریری مقابلے، بیت بازی اور ادبی خاکے تعلیمی اداروں کا جزو لازمی تھیں۔ ان مقابلوں نے کس طرح ہماری تعمیر کی اور کس طرح طالب علموں کا قافلے کا قافلہ مختلف میدانوں میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہا۔ اس پر اگلے کالم میں بات کروں گی کہ موضوع طویل ہے۔ لیکن آج صرف ان دو شخصیات کا ذکر کروں گی جو ماشاء اللہ حیات ہیں اور آج بھی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔
یوں تو زندگی میں بے شمار بڑی شخصیات سے ملنا جلنا رہا، بڑے بڑے ادیب، شاعر اور سیاست دانوں کی صحبت کا فیض اپنے والد محترم کی وجہ سے اٹھایا۔ لیکن جن دو شخصیات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ ان میں ریڈیو پاکستان کے جناب یاور مہدی جو ہم سب کے ''یاور بھائی'' ہیں اور دوسرے جناب نثار احمد زبیری جو ہمارے زمانہ طالب علمی میں ایک معاصر روزنامے کے صفحات طلبا سے منسلک تھے۔ اور انھی کے صفحے سے ہم نے اپنا ہفتہ واری کالم ''نذر طالبات'' ایک سال تک کل پاکستان مقابلہ کالم نویسی کے طفیل لکھا تھا۔ پھر تو صفحات طلبا ہم جیسے طالب علموں کی زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔
اسی دور میں ریڈیو پاکستان کراچی کا پروگرام ''بزم طلبا'' بھی اپنے پورے عروج پر تھا۔ ان دونوں حضرات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی اور آج بھی ہے کہ انھوں نے کبھی میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ جہاں تک اس اخبار کے صفحات طلبا کا تعلق تھا تو نثار زبیری صاحب صرف اور صرف اچھی تحریر کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی گواہی میری دوست اور علامہ اقبال کالج کی سابق پرنسپل محترمہ نوشابہ صدیقی بھی ضرور دیں گی یہی وجہ تھی کہ آج بھی جو نمایاں لکھنے والے ہوں یا دیگر شعبوں میں ممتاز حیثیت رکھنے والے خواتین و حضرات و کسی نہ کسی صورت صفحات طلبا سے جڑے تھے۔
دوسری شخصیت ہے یاور بھائی کی جنھیں کام کرنے کا جنون تھا۔ یہ جنون بوجوہ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ گو کہ آج کل وہ امریکا میں ہیں لیکن جب جب بھی کراچی میں ہوتے ہیں مختلف محفلیں سجاتے رہتے ہیں۔ یاور بھائی کو میں اس جوہری سے تشبیہہ دوں گی جو کنکر اور موتی کی شناخت رکھتا ہے۔ میرا واسطہ ریڈیو سے بہت پرانا رہا ہے۔ البتہ پہلے ہم نے بزم طلبا میں قدم رکھا اور بعد میں بچوں، بڑوں اور خواتین کے پروگرام بھی کیے۔
یاور بھائی اپنے کمرے میں بیٹھ کر کسی طالب علم یا طالبہ کا انتظار اس کے سفارشی خط کے ساتھ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ وہ خود مختلف کالجوں اور یونیورسٹی میں جا کر جوہر قابل کو تلاش کرتے تھے۔ پہلے پہل ''بزم طلبا''، ''یونیورسٹی میگزین'' کہلاتا تھا۔ بعد میں اس کا نام بدل دیا گیا۔ بزم طلبا کے ذریعے بیت بازی، تقریری مقابلے، فی البدیہہ مقابلے، ادبی خاکے سے لے کر فیچر اور ڈرامے تک پیش کیے جاتے تھے۔ لکھنے والے اور صدا کار سب کے سب طالب علم ہی ہوا کرتے تھے۔
جن کے ماڈریٹر بڑے ادیب، شاعر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات ہوا کرتی تھیں۔ ''بزم طلبا'' نے جو چراغ روشن کیے وہ آج بھی جگمگا رہے ہیں۔ معروف اور منفرد ٹی وی آرٹسٹ ذہین طاہرہ جو میری بہترین دوست بھی ہیں انھوں نے بھی صداکاری کا سفر ہمارے کراچی کالج سے ہی ''بزم طلبا'' کی طرف کیا۔ معاصر اخبار کے صفحات، طلبا اور بزم طلبا میں حصہ لینے والے اور آج تک مختلف جگہوں پر اپنی منفرد شناخت رکھنے والوں کے نام گنوانے بیٹھوں تو کئی صفحات درکار ہوں گے، پھر بھی شاید کوئی نام رہ جائے۔
یاور بھائی اور نثار احمد زبیری وہ گھنے شجر سایہ دار ہیں جن کی بدولت نہ جانے کتنے پودے پروان چڑھے۔ اور یہ سب خواہ پاکستان میں ہوں یا بیرون ملک ان دونوں کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ یہ دو انفرادی شخصیات نہیں تھیں، یہ دو تربیتی ادارے تھے۔ جو آج بھی اپنی پرانی روش پہ قائم ہیں۔ میں نے ان دونوں شخصیات سے بہت کچھ سیکھا بہ حیثیت استاد ہم نصابی سرگرمیوں اور میگزین انچارج ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ میں نے انھی دونوں عظیم شخصیات کو سامنے رکھا اور اسی وجہ سے میں نے جن کالجوں میں پڑھایا وہاں کے میگزین بھی منفرد تھے اور وہاں نصابی اور غیر نصابی تقریبات کا معیار بھی دیگر کالجوں کی بہ نسبت زیادہ تھا۔
ان دونوں شخصیات نے اپنی محنت اور کاوشوں سے باور کروایا کہ ''محبت کبھی رائیگاں نہیں جاتی''۔ اور تعصب سے بلند ہو کر کام کرنے والے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی صحافتی زندگی میں کبھی زبیری صاحب کو بھی سرخ دائروں سے بھرپور تحریر کو کسی وجہ سے خود دوبارہ لکھ کر شایع کرنا پڑا ہو، یا یاور مہدی صاحب کو بھی کبھی کوئی سفارش قبول کرنی پڑی ہو۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں نے میرٹ کا خون کبھی نہیں ہونے دیا۔ یاور بھائی بار بار کالجوں میں جاتے تھے اور پرنسپل سے مل کر ذہین طلبا و طالبات کو ریڈیو پر لاتے تھے۔
اس وقت پروگرام Live ہوتے تھے۔ ریکارڈنگ تو بہت بعد میں شروع ہوئی ہے۔ لیکن طالبات کو ان کے گھروں تک واپس بھجوانے کی ذمے داری یاور بھائی ہی کی ہوتی تھی۔ مجھ سمیت دیگر طالبات کے والد یا بھائی رات کے پروگرام میں اکثر ساتھ ہوتے تھے کہ اکیلے ہمیں کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن بندر روڈ سے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی طارق روڈ پر اپنے گھر کے گیٹ پہ ہمیں ریڈیو ہی کی گاڑی ڈراپ کرتی تھی۔
کیسے انمول اور سنہرے لوگ ہیں یہ۔ میں اپنے بزم طلبا اور صفحات طلبا کے ساتھیوں کی طرف سے ان دونوں عظیم شخصیات کو ان کی زندگی میں سلام پیش کرتی ہوں۔ خدا آپ دونوں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے (آمین!)
ہمارا طالب علمی کا زمانہ میرٹ کے لحاظ سے گولڈن پیریڈ تھا۔ کہ اس وقت طلبا و طالبات کی ذہنی و جسمانی تعمیر و تربیت کے لیے اسپورٹس، مباحثے، تقریری و تحریری مقابلے، بیت بازی اور ادبی خاکے تعلیمی اداروں کا جزو لازمی تھیں۔ ان مقابلوں نے کس طرح ہماری تعمیر کی اور کس طرح طالب علموں کا قافلے کا قافلہ مختلف میدانوں میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہا۔ اس پر اگلے کالم میں بات کروں گی کہ موضوع طویل ہے۔ لیکن آج صرف ان دو شخصیات کا ذکر کروں گی جو ماشاء اللہ حیات ہیں اور آج بھی اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔
یوں تو زندگی میں بے شمار بڑی شخصیات سے ملنا جلنا رہا، بڑے بڑے ادیب، شاعر اور سیاست دانوں کی صحبت کا فیض اپنے والد محترم کی وجہ سے اٹھایا۔ لیکن جن دو شخصیات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ ان میں ریڈیو پاکستان کے جناب یاور مہدی جو ہم سب کے ''یاور بھائی'' ہیں اور دوسرے جناب نثار احمد زبیری جو ہمارے زمانہ طالب علمی میں ایک معاصر روزنامے کے صفحات طلبا سے منسلک تھے۔ اور انھی کے صفحے سے ہم نے اپنا ہفتہ واری کالم ''نذر طالبات'' ایک سال تک کل پاکستان مقابلہ کالم نویسی کے طفیل لکھا تھا۔ پھر تو صفحات طلبا ہم جیسے طالب علموں کی زندگی کا لازمی جزو بن گیا۔
اسی دور میں ریڈیو پاکستان کراچی کا پروگرام ''بزم طلبا'' بھی اپنے پورے عروج پر تھا۔ ان دونوں حضرات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی اور آج بھی ہے کہ انھوں نے کبھی میرٹ پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ جہاں تک اس اخبار کے صفحات طلبا کا تعلق تھا تو نثار زبیری صاحب صرف اور صرف اچھی تحریر کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی گواہی میری دوست اور علامہ اقبال کالج کی سابق پرنسپل محترمہ نوشابہ صدیقی بھی ضرور دیں گی یہی وجہ تھی کہ آج بھی جو نمایاں لکھنے والے ہوں یا دیگر شعبوں میں ممتاز حیثیت رکھنے والے خواتین و حضرات و کسی نہ کسی صورت صفحات طلبا سے جڑے تھے۔
دوسری شخصیت ہے یاور بھائی کی جنھیں کام کرنے کا جنون تھا۔ یہ جنون بوجوہ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ گو کہ آج کل وہ امریکا میں ہیں لیکن جب جب بھی کراچی میں ہوتے ہیں مختلف محفلیں سجاتے رہتے ہیں۔ یاور بھائی کو میں اس جوہری سے تشبیہہ دوں گی جو کنکر اور موتی کی شناخت رکھتا ہے۔ میرا واسطہ ریڈیو سے بہت پرانا رہا ہے۔ البتہ پہلے ہم نے بزم طلبا میں قدم رکھا اور بعد میں بچوں، بڑوں اور خواتین کے پروگرام بھی کیے۔
یاور بھائی اپنے کمرے میں بیٹھ کر کسی طالب علم یا طالبہ کا انتظار اس کے سفارشی خط کے ساتھ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ وہ خود مختلف کالجوں اور یونیورسٹی میں جا کر جوہر قابل کو تلاش کرتے تھے۔ پہلے پہل ''بزم طلبا''، ''یونیورسٹی میگزین'' کہلاتا تھا۔ بعد میں اس کا نام بدل دیا گیا۔ بزم طلبا کے ذریعے بیت بازی، تقریری مقابلے، فی البدیہہ مقابلے، ادبی خاکے سے لے کر فیچر اور ڈرامے تک پیش کیے جاتے تھے۔ لکھنے والے اور صدا کار سب کے سب طالب علم ہی ہوا کرتے تھے۔
جن کے ماڈریٹر بڑے ادیب، شاعر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات ہوا کرتی تھیں۔ ''بزم طلبا'' نے جو چراغ روشن کیے وہ آج بھی جگمگا رہے ہیں۔ معروف اور منفرد ٹی وی آرٹسٹ ذہین طاہرہ جو میری بہترین دوست بھی ہیں انھوں نے بھی صداکاری کا سفر ہمارے کراچی کالج سے ہی ''بزم طلبا'' کی طرف کیا۔ معاصر اخبار کے صفحات، طلبا اور بزم طلبا میں حصہ لینے والے اور آج تک مختلف جگہوں پر اپنی منفرد شناخت رکھنے والوں کے نام گنوانے بیٹھوں تو کئی صفحات درکار ہوں گے، پھر بھی شاید کوئی نام رہ جائے۔
یاور بھائی اور نثار احمد زبیری وہ گھنے شجر سایہ دار ہیں جن کی بدولت نہ جانے کتنے پودے پروان چڑھے۔ اور یہ سب خواہ پاکستان میں ہوں یا بیرون ملک ان دونوں کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ یہ دو انفرادی شخصیات نہیں تھیں، یہ دو تربیتی ادارے تھے۔ جو آج بھی اپنی پرانی روش پہ قائم ہیں۔ میں نے ان دونوں شخصیات سے بہت کچھ سیکھا بہ حیثیت استاد ہم نصابی سرگرمیوں اور میگزین انچارج ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ میں نے انھی دونوں عظیم شخصیات کو سامنے رکھا اور اسی وجہ سے میں نے جن کالجوں میں پڑھایا وہاں کے میگزین بھی منفرد تھے اور وہاں نصابی اور غیر نصابی تقریبات کا معیار بھی دیگر کالجوں کی بہ نسبت زیادہ تھا۔
ان دونوں شخصیات نے اپنی محنت اور کاوشوں سے باور کروایا کہ ''محبت کبھی رائیگاں نہیں جاتی''۔ اور تعصب سے بلند ہو کر کام کرنے والے ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی صحافتی زندگی میں کبھی زبیری صاحب کو بھی سرخ دائروں سے بھرپور تحریر کو کسی وجہ سے خود دوبارہ لکھ کر شایع کرنا پڑا ہو، یا یاور مہدی صاحب کو بھی کبھی کوئی سفارش قبول کرنی پڑی ہو۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ دونوں نے میرٹ کا خون کبھی نہیں ہونے دیا۔ یاور بھائی بار بار کالجوں میں جاتے تھے اور پرنسپل سے مل کر ذہین طلبا و طالبات کو ریڈیو پر لاتے تھے۔
اس وقت پروگرام Live ہوتے تھے۔ ریکارڈنگ تو بہت بعد میں شروع ہوئی ہے۔ لیکن طالبات کو ان کے گھروں تک واپس بھجوانے کی ذمے داری یاور بھائی ہی کی ہوتی تھی۔ مجھ سمیت دیگر طالبات کے والد یا بھائی رات کے پروگرام میں اکثر ساتھ ہوتے تھے کہ اکیلے ہمیں کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن بندر روڈ سے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی طارق روڈ پر اپنے گھر کے گیٹ پہ ہمیں ریڈیو ہی کی گاڑی ڈراپ کرتی تھی۔
کیسے انمول اور سنہرے لوگ ہیں یہ۔ میں اپنے بزم طلبا اور صفحات طلبا کے ساتھیوں کی طرف سے ان دونوں عظیم شخصیات کو ان کی زندگی میں سلام پیش کرتی ہوں۔ خدا آپ دونوں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے (آمین!)