شہید نذیر عباسی کی 36ویں برسی
کامریڈ نذیر عباسی کو 1980میں کراچی میں ضیاالحق کی آ مریت کے دوران شدید جسمانی اذیتیں دیکر شہید کر دیا گیا تھا
کامریڈ نذیر عباسی کو 1980میں کراچی میں ضیاالحق کی آ مریت کے دوران شدید جسمانی اذیتیں دیکر شہید کر دیا گیا تھا ۔ وہ جام شورو یونیور سٹی میں علم سیاسیات کے ایم اے کے آخری سال کے طا لب علم تھے اور کمیو نسٹ پارٹی آف پا کستان سندھ کے سیکر یٹری تھے ۔ نذیر عباسی مجھ سے چار سال چھو ٹے تھے اور میں کراچی کا سیکریٹری تھا۔
نذیر عباسی کا ٹینڈو اللہ یار کے ایک غریب گھرا نے سے تعلق تھا ، ان کے والد اسکول ٹیچر تھے ۔ طا لب علمی کے دوران چنے بیچ کر اپنی تعلیمی اخراجات نکالتے تھے ۔ بعد ازاں سندھ نیشنل اسٹو ڈینٹس فیڈریشن کے کارکن اور کچھ ہی عرصے بعد رہنما بن گئے۔ ان کا ور کرز فیڈریشن اور ہاری کمیٹی سے قریبی تعلق تھا اور ان سے مل کر عوام کے حقوق کے لیے جدو جہد کر تے رہے ۔
کامریڈ بیرسٹرسید عبد الو دود ان کا مقدمہ لڑ رہے تھے ۔ دس اگست صبح نوبجے جب میں سندھ ہائی کورٹ پہنچا تو کامریڈ ودود نے ایک انگریزی اخبار مجھے پیش کر تے ہو ئے کہا کہ دیکھو ان لوگوں نے نذیر کو مار دیا ۔ پھر عدالت میں ودود صاحب پیش ہو ئے تو عدالت نے فر مان جا ری کیا کہ نذیر عبا سی دل کا دورہ پڑ نے سے انتقال کر گئے ۔ اس اعلان کے بعد کمرہ عدا لت میں ہی موجود طلبہ اور نوجوانوں نے نعرے لگا ئے ' نذیر ہم شر مندہ ہیں تیرے قا تل زندہ ہیں'۔
اسی دوران مزدور کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے تحت ریگل، صدر میں نذیر عباسی کی شہادت پر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا اور ڈاؤ میڈیکل کالج میں این ایس ایف نے سب سے بڑا جلسہ کیا جس میں میڈیکل کا لج کے سارے طلبہ امنڈ آ ئے تھے۔ دوسرے دن عیدالفطر کی نماز کے بعد نشتر پارک سے عوام کا ایک جلوس نکلا جس میں یہ نعرے لگ رہے تھے کہ نذیر عبا سی کے قاتلوں کو قرار سزا دی جائے۔
سامرا جی اور ان کے پر وردوں نے شاید سمجھا تھا کہ نذیر عباسی کو شہید کر نے سے کمیو نسٹ تحریک ختم ہو جائیگی، یہ ان کی بھول تھی ۔ جب کہ چند مہینوں قبل نیپال میں کمیو نسٹ پارٹی بھا ری اکثریت میں ا نتخا با ت میں کا میاب ہو کر اپنی حکو مت بنا لی ۔ ہندوستان کاصو بہ کیرالا میں کمیو نسٹ پارٹی جیت کر اپنی حکو مت قا ئم کر لی ہے۔ ترکی میں با ئیں کے کمیو نسٹوں کو اسی نشستیں حاصل کر کے کا میاب حاصل ہوئی ہے۔
ہنزہ گلت بلتستان سے عوامی ورکرز پارٹی کے نامز د امیدوار کامریڈ بابا جان انتخا بات میں جیت رہے تھے، اس انتخابات کو عدالت نے حکم جا ری کر کے رکوا یا ہے ۔ آسٹریلیا میںبا ئیں بازو کی لیبر پار ٹی حزب اختلاف کے طور پر سامنے آ ئی ہے جب کہ اسپین میں کمیو نسٹ پارٹی نے انتخابات میں تیسری پو زیشن حا صل کر لی ہے چونکہ عا لمی سر ما یہ داری انحطاط پزیری کی شکار ہے اس لیے اس کا متبا دل صرف امداد با ہمی یا کمیو نسٹ نظام میں ہی فراہم کر سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں کسی کو بھی گرفتار کر نیکا قانونی اور آ ئینی طریقہ کار اختیار کر نے کے بجا ئے سا دہ پو شاک میں نا معلوم افراد کسی کو بھی چا ہے اٹھا لے جاتے ہیں اور گم نا می میں وہ لا پتہ ہو جا تا ہے ۔ حال ہی میں کامریڈ واحد بلوچ عمر کورٹ سے کرا چی آ رہے تھے، بس کو روک کر ٹول پلازہ کے نزدیک انھیں چھبیس جو لا ئی دو ہزار سو لہ کو سا دے پو شاک میں نا معلوم افراد اغوا کر کے لے گئے ۔ یہ پتہ نہیںچلا کہ وہ کون تھے ، کیوں لے گئے اور کہاں لے گئے مگر یہ پتہ چل گیا کہ وہ نا معلوم ہاتھ تھے ، جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔
کامریڈ واحد بلوچ نوجوان شی میں کمیو نسٹ پارٹی کے رکن تھے ، انھیں میں خود مطا لعہ کے لیے کتابیں دیا کرتا تھا۔ آخری دنوں میں وہ ' لبز انک' نامی ماہانہ رسالہ بلوچی زبان میں شایع کرتے تھے ، اس کے ایڈیٹر بھی وہ خود تھے۔ یہ ایک ترقی پسند ماہنامہ ادبی رسالہ تھا ۔ ابھی مجھے نہیں معلوم کہ اب بھی وہ شا یع ہو رہا ہے یا نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک مسا ئل سے بھرا پڑا ہے ۔ کراچی میں تو معمولی شا دیوں میں کم ازکم تین چار لا کھ رو پے خرچ ہو جا تے ہیں۔
مگرحال ہی میں پتہ چلا کہ چار سدہ کے پوسٹ آفس کے ریٹا ئرڈ مزدور محمد علی کی دو صاحب زادیوں کی شا دی کے لیے صرف اسی ہزار رو پے کی ضرورت ہے ، یعنی چا لیس ہزار رو پے میں ایک شا دی ہو جا ئیگی ۔ ان بچیوں کے وا لد محمد علی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کو ئی انھیں 03045100742 پر رابطہ کر کے اسی ہزار دے دے تو ان کی دو نوں بچیوں کی شا دی ہو سکتی ہے ۔ صاحب حیثیت افراد بے شک تحقیق کرالیں اس کے بعد مدد کریں ۔ ذرا غورر کریںکہ کرا چی میں شادی کے بچے ہو ئے کھا نے بھی اسی ہزا ر سے زیادہ ہونگے ۔ اتنے پیسے تو پختونخوا کی حکومت چٹکیوں میں دے سکتی ہے ۔ لیکن اس بد قسمت باپ کو عوام سے اپیل کر نی پڑ رہی ہے۔
آج کل بچیوں کی شادی اور خواتین کے عام مسائل پر میڈیا پر بات بھی ہو تی ہے اور حکومت نے کچھ قوانین بھی پاس کیے ہیں اور مذید کر نے جا رہی ہے ۔گذشتہ ہفتے سعودی عربیہ کے مفتی اعظم نے کہا کہ ' شوہر اگر بیوی پر ہاتھ اٹھا تا ہے تو دفاع کے طور پر بیوی ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ، اسے پیار محبت سے طے کرنا ہے ' ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ شوہر مارتا رہے اور بیوی پٹتی رہے۔
یہاں پر ایک سوال آ تا ہے کہ ان میں سے درست بات کیا ہے ؟ اس پر ہما ری اسمبلی اور دانشور وں کو اپنی قیمتی اظہار خیال اور رائے دینی چا ہیے۔حال ہی میں کرا چی میں با ئیں بازو کے ایک معروف رہنما جناب معراج محمد خان کے انتقال پر کراچی پریس کلب میں منتظمین نے ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا ۔ جس میں مختلف خیال و فکر کے سیاسی رہنما ؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ٹھیک ہے ، انتقال پر کو ئی بھی کسی کی تعزیت یا اس کی زندگی پر روشنی ڈال سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ معراج محمد خان ساری زندگی مزدوروں، کسانوں ، طا لب علموں ، ترقی پسندوں اور انقلا بی تبدیلیوں کے لیے جدو جہدکرتے رہے ، ان کی موت پر جلسے کے لیے منتظمین کو دا ئیں بازو کے تمام رہنما تو یاد آ ئے لیکن با ئیں بازو کے جو لوگ ساری زندگی ان کے ساتھ مل کر کام کر تے رہے وہ یاد نہ آ ئے ۔ انھیں کمیو نسٹ پارٹی کے رہنما قاضی امداد ، طبقاتی جدوجہد کے رہنما ڈاکٹر لال خان ، سو شلسٹ موومنٹ کے رہنما خا لد بھٹی ، مزدور کسان پارٹی کے رہنما افضل خموش، کمیو نسٹ مزدور کسان پارٹی کے رہنما صوفی عبد الخالق بلوچ یاد نہیں آ ئے۔
اس سے پھر ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ منتظمین کس کی نما یندگی کر تے ہیں ؟ اس میں کو ئی شک نہیں کہ عوام اپنے مسائل سے دو چار ہیں ۔ ہر روز اشیاء خورد و نوش کی قیمتوںمیں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے جیسا کہ چینی ، دال، دودھ، دہی، خشک دودھ ، چا ئے، چاول، لیمو، ادرک، لہسن، گیس، پیٹرول و غیرہ کی قیمتوں میں گرانی غریب عوام کو نڈھال کرچکی ہے، ہمارے روا یتی سیاسی رہنما اور میڈیا مختلف ایشوز پر بحث مبا حثہ تو کر کر تے ہیں لیکن آسمان سے با تیں کر تی ہو ئی مہنگا ئی کے بارے میں کوئی بات نہیں کر تے۔ سر ما یہ دارا نہ نظام کو بر قرار رکھتے ہوئے کو ئی بھی عوامی مسلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس کا متبادل صرف ایک امداد باہمی یا کمیونسٹ معاشرے کی قیام کی ضرورت ہے ۔ جہاں سب مل کر پیداوار کرینگے اور مل کر کھا ئیگے ۔
نذیر عباسی کا ٹینڈو اللہ یار کے ایک غریب گھرا نے سے تعلق تھا ، ان کے والد اسکول ٹیچر تھے ۔ طا لب علمی کے دوران چنے بیچ کر اپنی تعلیمی اخراجات نکالتے تھے ۔ بعد ازاں سندھ نیشنل اسٹو ڈینٹس فیڈریشن کے کارکن اور کچھ ہی عرصے بعد رہنما بن گئے۔ ان کا ور کرز فیڈریشن اور ہاری کمیٹی سے قریبی تعلق تھا اور ان سے مل کر عوام کے حقوق کے لیے جدو جہد کر تے رہے ۔
کامریڈ بیرسٹرسید عبد الو دود ان کا مقدمہ لڑ رہے تھے ۔ دس اگست صبح نوبجے جب میں سندھ ہائی کورٹ پہنچا تو کامریڈ ودود نے ایک انگریزی اخبار مجھے پیش کر تے ہو ئے کہا کہ دیکھو ان لوگوں نے نذیر کو مار دیا ۔ پھر عدالت میں ودود صاحب پیش ہو ئے تو عدالت نے فر مان جا ری کیا کہ نذیر عبا سی دل کا دورہ پڑ نے سے انتقال کر گئے ۔ اس اعلان کے بعد کمرہ عدا لت میں ہی موجود طلبہ اور نوجوانوں نے نعرے لگا ئے ' نذیر ہم شر مندہ ہیں تیرے قا تل زندہ ہیں'۔
اسی دوران مزدور کسان عوامی رابطہ کمیٹی کے تحت ریگل، صدر میں نذیر عباسی کی شہادت پر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا اور ڈاؤ میڈیکل کالج میں این ایس ایف نے سب سے بڑا جلسہ کیا جس میں میڈیکل کا لج کے سارے طلبہ امنڈ آ ئے تھے۔ دوسرے دن عیدالفطر کی نماز کے بعد نشتر پارک سے عوام کا ایک جلوس نکلا جس میں یہ نعرے لگ رہے تھے کہ نذیر عبا سی کے قاتلوں کو قرار سزا دی جائے۔
سامرا جی اور ان کے پر وردوں نے شاید سمجھا تھا کہ نذیر عباسی کو شہید کر نے سے کمیو نسٹ تحریک ختم ہو جائیگی، یہ ان کی بھول تھی ۔ جب کہ چند مہینوں قبل نیپال میں کمیو نسٹ پارٹی بھا ری اکثریت میں ا نتخا با ت میں کا میاب ہو کر اپنی حکو مت بنا لی ۔ ہندوستان کاصو بہ کیرالا میں کمیو نسٹ پارٹی جیت کر اپنی حکو مت قا ئم کر لی ہے۔ ترکی میں با ئیں کے کمیو نسٹوں کو اسی نشستیں حاصل کر کے کا میاب حاصل ہوئی ہے۔
ہنزہ گلت بلتستان سے عوامی ورکرز پارٹی کے نامز د امیدوار کامریڈ بابا جان انتخا بات میں جیت رہے تھے، اس انتخابات کو عدالت نے حکم جا ری کر کے رکوا یا ہے ۔ آسٹریلیا میںبا ئیں بازو کی لیبر پار ٹی حزب اختلاف کے طور پر سامنے آ ئی ہے جب کہ اسپین میں کمیو نسٹ پارٹی نے انتخابات میں تیسری پو زیشن حا صل کر لی ہے چونکہ عا لمی سر ما یہ داری انحطاط پزیری کی شکار ہے اس لیے اس کا متبا دل صرف امداد با ہمی یا کمیو نسٹ نظام میں ہی فراہم کر سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں کسی کو بھی گرفتار کر نیکا قانونی اور آ ئینی طریقہ کار اختیار کر نے کے بجا ئے سا دہ پو شاک میں نا معلوم افراد کسی کو بھی چا ہے اٹھا لے جاتے ہیں اور گم نا می میں وہ لا پتہ ہو جا تا ہے ۔ حال ہی میں کامریڈ واحد بلوچ عمر کورٹ سے کرا چی آ رہے تھے، بس کو روک کر ٹول پلازہ کے نزدیک انھیں چھبیس جو لا ئی دو ہزار سو لہ کو سا دے پو شاک میں نا معلوم افراد اغوا کر کے لے گئے ۔ یہ پتہ نہیںچلا کہ وہ کون تھے ، کیوں لے گئے اور کہاں لے گئے مگر یہ پتہ چل گیا کہ وہ نا معلوم ہاتھ تھے ، جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ کون ہیں۔
کامریڈ واحد بلوچ نوجوان شی میں کمیو نسٹ پارٹی کے رکن تھے ، انھیں میں خود مطا لعہ کے لیے کتابیں دیا کرتا تھا۔ آخری دنوں میں وہ ' لبز انک' نامی ماہانہ رسالہ بلوچی زبان میں شایع کرتے تھے ، اس کے ایڈیٹر بھی وہ خود تھے۔ یہ ایک ترقی پسند ماہنامہ ادبی رسالہ تھا ۔ ابھی مجھے نہیں معلوم کہ اب بھی وہ شا یع ہو رہا ہے یا نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک مسا ئل سے بھرا پڑا ہے ۔ کراچی میں تو معمولی شا دیوں میں کم ازکم تین چار لا کھ رو پے خرچ ہو جا تے ہیں۔
مگرحال ہی میں پتہ چلا کہ چار سدہ کے پوسٹ آفس کے ریٹا ئرڈ مزدور محمد علی کی دو صاحب زادیوں کی شا دی کے لیے صرف اسی ہزار رو پے کی ضرورت ہے ، یعنی چا لیس ہزار رو پے میں ایک شا دی ہو جا ئیگی ۔ ان بچیوں کے وا لد محمد علی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کو ئی انھیں 03045100742 پر رابطہ کر کے اسی ہزار دے دے تو ان کی دو نوں بچیوں کی شا دی ہو سکتی ہے ۔ صاحب حیثیت افراد بے شک تحقیق کرالیں اس کے بعد مدد کریں ۔ ذرا غورر کریںکہ کرا چی میں شادی کے بچے ہو ئے کھا نے بھی اسی ہزا ر سے زیادہ ہونگے ۔ اتنے پیسے تو پختونخوا کی حکومت چٹکیوں میں دے سکتی ہے ۔ لیکن اس بد قسمت باپ کو عوام سے اپیل کر نی پڑ رہی ہے۔
آج کل بچیوں کی شادی اور خواتین کے عام مسائل پر میڈیا پر بات بھی ہو تی ہے اور حکومت نے کچھ قوانین بھی پاس کیے ہیں اور مذید کر نے جا رہی ہے ۔گذشتہ ہفتے سعودی عربیہ کے مفتی اعظم نے کہا کہ ' شوہر اگر بیوی پر ہاتھ اٹھا تا ہے تو دفاع کے طور پر بیوی ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ، اسے پیار محبت سے طے کرنا ہے ' ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ شوہر مارتا رہے اور بیوی پٹتی رہے۔
یہاں پر ایک سوال آ تا ہے کہ ان میں سے درست بات کیا ہے ؟ اس پر ہما ری اسمبلی اور دانشور وں کو اپنی قیمتی اظہار خیال اور رائے دینی چا ہیے۔حال ہی میں کرا چی میں با ئیں بازو کے ایک معروف رہنما جناب معراج محمد خان کے انتقال پر کراچی پریس کلب میں منتظمین نے ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کیا ۔ جس میں مختلف خیال و فکر کے سیاسی رہنما ؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔
ٹھیک ہے ، انتقال پر کو ئی بھی کسی کی تعزیت یا اس کی زندگی پر روشنی ڈال سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ معراج محمد خان ساری زندگی مزدوروں، کسانوں ، طا لب علموں ، ترقی پسندوں اور انقلا بی تبدیلیوں کے لیے جدو جہدکرتے رہے ، ان کی موت پر جلسے کے لیے منتظمین کو دا ئیں بازو کے تمام رہنما تو یاد آ ئے لیکن با ئیں بازو کے جو لوگ ساری زندگی ان کے ساتھ مل کر کام کر تے رہے وہ یاد نہ آ ئے ۔ انھیں کمیو نسٹ پارٹی کے رہنما قاضی امداد ، طبقاتی جدوجہد کے رہنما ڈاکٹر لال خان ، سو شلسٹ موومنٹ کے رہنما خا لد بھٹی ، مزدور کسان پارٹی کے رہنما افضل خموش، کمیو نسٹ مزدور کسان پارٹی کے رہنما صوفی عبد الخالق بلوچ یاد نہیں آ ئے۔
اس سے پھر ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ منتظمین کس کی نما یندگی کر تے ہیں ؟ اس میں کو ئی شک نہیں کہ عوام اپنے مسائل سے دو چار ہیں ۔ ہر روز اشیاء خورد و نوش کی قیمتوںمیں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے جیسا کہ چینی ، دال، دودھ، دہی، خشک دودھ ، چا ئے، چاول، لیمو، ادرک، لہسن، گیس، پیٹرول و غیرہ کی قیمتوں میں گرانی غریب عوام کو نڈھال کرچکی ہے، ہمارے روا یتی سیاسی رہنما اور میڈیا مختلف ایشوز پر بحث مبا حثہ تو کر کر تے ہیں لیکن آسمان سے با تیں کر تی ہو ئی مہنگا ئی کے بارے میں کوئی بات نہیں کر تے۔ سر ما یہ دارا نہ نظام کو بر قرار رکھتے ہوئے کو ئی بھی عوامی مسلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس کا متبادل صرف ایک امداد باہمی یا کمیونسٹ معاشرے کی قیام کی ضرورت ہے ۔ جہاں سب مل کر پیداوار کرینگے اور مل کر کھا ئیگے ۔