دیوتائی تہذیب بربریت کی علامت آخری حصہ
جو مغربی انسانوں کی ’’دیوتائی تسلط ‘‘ کے زیربار ہونے کے باعث اخلاقی حدود وقیود سے مسلسل انکار کا بہترین اظہار ہے
حل اور ناگزیرپہلو: آج ممالک عالم کے سیاسی نظاموں ، معاشی معاہدوں ، عالمی امداد و قرضہ جات کی ڈوریں کچھ اس طرح سے الجھا کر رکھ دی گئی ہیں کہ مذاکرات سمیت سفارتی آداب تک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔
جو مغربی انسانوں کی ''دیوتائی تسلط '' کے زیربار ہونے کے باعث اخلاقی حدود وقیود سے مسلسل انکار کا بہترین اظہار ہے ۔جس کے لازمی نتیجے کے طور پر عالم انسانیت کے پاس انفرادی واجتماعی سطح کے مسائل کے صرف دوہی حل نظر آنے لگے ہیں، اول مادی مفادات کی خاطراخلاقی حدودوقیود سے مبراء ریاستی ومعاشرتی قوانین کا اطلاق تاریخ کا وہ دیوتائی حل کہ جس میں سائرس اعظم کی قبر کے نزدیک الجھی ڈورکو سلجھانے کی خاطر سکندر اعظم نے ایک لمحہ سوچے بغیر تلوار سے اس گرہ کو کاٹ دینے کے عمل سے فراہم کیا تھا۔
جو گرہ اس ڈور کے سرے کو چھپائے ہوئی تھی۔ دوم موجودہ تناظر میں ریاستی سطح پر ایک ہی جنبش اور بغیرکسی شرمندگی کے پرانے معاہدوں کی دہجیاں اڑاکر نئے اور مزید سختی کے حامل معاہدوں کی راہ ہموار کرنا، انفرادی سطح پراورلینڈوجیسے واقعات کا ہونا کرشماتی سطح پر اے پی ایس وکوئٹہ سانحات اس کی چھوٹی مگر بہترین مثالیں ہیں۔
جن کی حقیقی تفصیلات کی روشنی میں تاریخ عالم کا ازسر نومطالعہ کرکے اقوام عالم کے مذاہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی ضرورت اور اسباب کو ظاہر کرنے والے عوامل کی چھان بین کرنے کی مفکرانہ ومدبرانہ تحقیق کی ضرورت کو نظر انداز کرنا شاید اہل دانش کے لیے مشکل مرحلہ ہوگا۔جس میں عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے کی مقبول ترین تہذیب کو شناخت کے لحاظ سے یورپ وامریکی سانچے میں ڈہال کر دیکھنے کی ناگذیریت کو بھی عیاں کرنے کی ضرورت ہے۔
دیوتا، ریاست اور انسان:
تاریخ انسانی کا ہر ایک ورق گواہ ہے کہ جن کو بربریت کا مظاہرہ کرنے اورمادی طور ناقابل شکست ہونے کی بنیاد پر تاریخ میں دیوتا کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی نہ تو مکمل نظام حیات کانظریہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی قوانین ریاست کا کوئی ضابطہ، اخلاقی حدودوقیودعائد کرتا ہو ا نظر آتا ہے چونکہ وہ تو بس انسانی گروہوں پر حکومت کرنا اور اخلاقی حدودوقیود کی عدم پابندی سے ہی خودکودیوتا کہلوانا جانتے ہیں ۔ اس لیے اگر وہ بھی ریاستی قوانین اور اخلاقی حدود و قیود کے پابند بنے تو دیوتا کس طرح مانے جائینگے۔؟
جب کہ اگر ان دیوتاؤں میں سے کسی میں اخلاقی قدریں دکھائی بھی دی جاتی ہیں تو ان قدروں کو گذشتہ یا آنے والے دیوتاؤں کی سنَد ِتصدیق ملنا لگ بھگ ناممکنات میں سے گردانا گیا ہے ۔ ان دیوتاؤں میں یکسانیت نظر آتی ہے تو وہ صرف ان کی بربریت اور خونریزی کی مثالوں کی یکسانیت ہی ہوتی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ دیوتا انسانوں کے بغیر نہیں چل سکتے جب کہ انسان کی خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ دیوتا کے بغیر تو رہ سکتے ہیں لیکن ریاستی و معاشرتی قوانین کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
انسانی تہذیب کے وارث:
اقوام عالم کی معلوم تاریخ میں اکثر انسانی گروہوں (ممالک ) کی تہذیبوں میں ریاستی و معاشرتی قوانین کے محققین کا سلسلہ چند صدیوں کے عرصے تک ہی محیط ملتا ہے ۔ جب کہ بعض تہذیبوں میں اس کا دورانیہ اس سے بھی کم عرصے کا رہ جاتاہے ، یورپ کی نشاط ثانیہ اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ جس میں مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کے نتیجے میں مرتب شدہ قوانین چار صدیوں کے عرصے تک تجرباتی مراحل میں ہونے کے باوجود آج دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔لیکن اگر ہم تاریخ کو صدیوں کے تسلسل میں دیکھیں تو ارض فلسطین پر ہمیں ایک ایسے محقق، مفکر ، منتظم و مدبر حضرت ابراہیمؑ نظر آنے لگتے ہیں کہ جنہوں نے دیوتائی تسلط و بربریت پر مبنی تہذیب نمرود کو شکست دینے کے باوجود قدم قدم پر اپنے انسان ہونے کی گواہی دی۔
1، نار نمرود کو گلزار بناتے وقت 2، اطمینان قلب کی خاطر مابعد المادہ و مابعد الطبیعات کو مسخر کرتے وقت 3، فطرت انسانی کے عین مطابق ریاستی قوانین پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی اساس کی نفی کرتے''من ذریتی'' کے جواب میں ''لاینال عہدالظالمین '' کا غیر متبدل قانون حاصل کرتے وقت 4، پیر سنی میں اولاد نرینہ کے پیدا ہونے کی خوش خبری سنتے وقت اور05عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور آسودگیء مزاج ِانسانی کی خاطر دو تہذیبوں (تہذیب بیت المقدس اور تہذیب خانہ کعبہ ) کی بنیاد ڈالتے وقت عقل وخرد کے تمام پیمانوں پر خود کو انسان ثابت کیا۔
جب کہ ان ؑ کی تقلید و تائید میں حضرت یوسف ؑکو دیوتائیت سے بھی بڑھ کر خدائی تسلط کی عظیم ترین تہذیب فراعین مصر میں اپنے جد امجد ؑکی تحقیقات کو عملی طور پر نافذکر کے صدیوں تک خدائی کے دعویدار رہتے آنے والے انسانوں کے جانشین سے خدائی کی بجائے انسان ہونے کا اقرار کراتے دیکھا جاسکتا ہے۔جب کہ اولاد ابراہیم ؑکے مصر سے انخلاء اور فلسطین میں آباد ہونے کی تاریخ اور اسی تسلسل میں تحقیقات ابراہیمؑ کے مقلدین ومبلغین (انبیائے کرام ؑ)نے ارض فلسطین پرریاستی ومعاشرتی قوانین کے نفاذکے لیے کی جانے والی تمام جدوجہد میں خود کو انسان ثابت کیا۔
جب کہ ذکریاؑ، یحییٰ ؑ،عیسیٰ ؑ کے ارتقائی اظہار میںانھوں نے تو دیوتائی تسلط مانگنے والوں کے ہاتھوں دوٹکڑے ہوکر، ذبح اور مصلوب ہوکر بھی انسان ہونے کو دیوتا پر ترجیح دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ تحقیقات وتہاذیب ابراہیمؑ کے وراثوںکے ہاتھوں Xerxesدیوتا کی تہذیب فارس فتح ہوئی تو وہاں بھی سیاسی حربے کے طور جناب خالدؓ بن ولید سے دیوتائی اوصاف منسوب کیے گئے تو ''مرکز ''نے ان کی سالاری منسوخ کردی۔ اور انھیں ایک سپاہی کی طرح خدمات سرانجام دینے کا حکم دیا گیا۔ اور انھوں نے سپاہی کی حیثیت سے ہی فلسطین کی جنگ میں حصہ لے کر خودکے انسان ہونے کو آشکارا کیا تھا۔
تاریخ کی کیا خوبصورت تشریح ہے کہ اسی معرکے میں فلسطین کی وراثت پر ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کر مارنے والوں نے اپنی مذہبی روایات کی سچائی پرکھنے اور وارثی ابراہیمؑ سے دست بردار ہونے کے لیے فلسطین کے دروازے کی کنجیاں خلیفۃ المسلمین کے حوالے کرنے کی شرط رکھی تھی تو تاریخ نے اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ اس منظر کو قید کردیا کہ وراثت تہذیب انسانی اکے علیٰ و مقدس ترین منصب پر فائز جناب عمر فاروقؓ لاینال عہد الظالمین کے اصول کی تابندہ تصویر بنے شتر سوار غلام کے اونٹ کی رسی پکڑے اس شان سے فلسطین میں داخل ہوئے کہ جیسے دیوتائی تسلط کے خواہاں و متلاشی انسانی گروہوں کو انسانی تہاذیب و تحقیقاتِ ابراہیمؑ سے بے دخلی کی سنَدجاری کی گئی جسے انھوں نے بہ خوشی قبول بھی کرلیا تھا۔
اگر تاریخ کے وسیع النظر طالب علم کو اتنے کھلے شواہد کے باوجود بھی اطمینان قلب کی خواہش چراتی ہے تو صدیوں تک موجودہ مغربی انسانوں کی دیوتائی تسلط پر مبنی تہذیب کا مرکز رہنے والے قسطنطنیہ(استنبول) کے تائی کوپ(محل) میوزیم میں جناب خالدؓ بن ولید اور جناب جعفرؓطیار کی شمشیریں اور ان مغربی انسانوں کے ''آقاؤں'' کو خود سے بے دخل کرنے والی ارض فلسطین پر قابل عمل مساوات کی دعوت بلالیؓ کی شرگت گاہ یعنی مسجد عمرؓملاحظہ کرفرمالیں۔
یا تو شہر علم کے در فاتح خیبر کی جانب سے ضربِ بن ملجم کے جواب میں خود کو کامیاب قرار دیے جانے کے الفاظ کو سمجھیں ،کہ قاتل ہونا ناکامی کی علامت ہے ۔ انسانوں کے لیے انسانی تہذیب ہی بقائے حیات ہے یا پھر دیوتائی بربریت و تسلط عالم انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچا سکتا ہے؟ فیصلہ طالب علم ہی نے کرنا ہے۔
جو مغربی انسانوں کی ''دیوتائی تسلط '' کے زیربار ہونے کے باعث اخلاقی حدود وقیود سے مسلسل انکار کا بہترین اظہار ہے ۔جس کے لازمی نتیجے کے طور پر عالم انسانیت کے پاس انفرادی واجتماعی سطح کے مسائل کے صرف دوہی حل نظر آنے لگے ہیں، اول مادی مفادات کی خاطراخلاقی حدودوقیود سے مبراء ریاستی ومعاشرتی قوانین کا اطلاق تاریخ کا وہ دیوتائی حل کہ جس میں سائرس اعظم کی قبر کے نزدیک الجھی ڈورکو سلجھانے کی خاطر سکندر اعظم نے ایک لمحہ سوچے بغیر تلوار سے اس گرہ کو کاٹ دینے کے عمل سے فراہم کیا تھا۔
جو گرہ اس ڈور کے سرے کو چھپائے ہوئی تھی۔ دوم موجودہ تناظر میں ریاستی سطح پر ایک ہی جنبش اور بغیرکسی شرمندگی کے پرانے معاہدوں کی دہجیاں اڑاکر نئے اور مزید سختی کے حامل معاہدوں کی راہ ہموار کرنا، انفرادی سطح پراورلینڈوجیسے واقعات کا ہونا کرشماتی سطح پر اے پی ایس وکوئٹہ سانحات اس کی چھوٹی مگر بہترین مثالیں ہیں۔
جن کی حقیقی تفصیلات کی روشنی میں تاریخ عالم کا ازسر نومطالعہ کرکے اقوام عالم کے مذاہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کی ضرورت اور اسباب کو ظاہر کرنے والے عوامل کی چھان بین کرنے کی مفکرانہ ومدبرانہ تحقیق کی ضرورت کو نظر انداز کرنا شاید اہل دانش کے لیے مشکل مرحلہ ہوگا۔جس میں عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے کی مقبول ترین تہذیب کو شناخت کے لحاظ سے یورپ وامریکی سانچے میں ڈہال کر دیکھنے کی ناگذیریت کو بھی عیاں کرنے کی ضرورت ہے۔
دیوتا، ریاست اور انسان:
تاریخ انسانی کا ہر ایک ورق گواہ ہے کہ جن کو بربریت کا مظاہرہ کرنے اورمادی طور ناقابل شکست ہونے کی بنیاد پر تاریخ میں دیوتا کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی نہ تو مکمل نظام حیات کانظریہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی قوانین ریاست کا کوئی ضابطہ، اخلاقی حدودوقیودعائد کرتا ہو ا نظر آتا ہے چونکہ وہ تو بس انسانی گروہوں پر حکومت کرنا اور اخلاقی حدودوقیود کی عدم پابندی سے ہی خودکودیوتا کہلوانا جانتے ہیں ۔ اس لیے اگر وہ بھی ریاستی قوانین اور اخلاقی حدود و قیود کے پابند بنے تو دیوتا کس طرح مانے جائینگے۔؟
جب کہ اگر ان دیوتاؤں میں سے کسی میں اخلاقی قدریں دکھائی بھی دی جاتی ہیں تو ان قدروں کو گذشتہ یا آنے والے دیوتاؤں کی سنَد ِتصدیق ملنا لگ بھگ ناممکنات میں سے گردانا گیا ہے ۔ ان دیوتاؤں میں یکسانیت نظر آتی ہے تو وہ صرف ان کی بربریت اور خونریزی کی مثالوں کی یکسانیت ہی ہوتی ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ دیوتا انسانوں کے بغیر نہیں چل سکتے جب کہ انسان کی خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ دیوتا کے بغیر تو رہ سکتے ہیں لیکن ریاستی و معاشرتی قوانین کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
انسانی تہذیب کے وارث:
اقوام عالم کی معلوم تاریخ میں اکثر انسانی گروہوں (ممالک ) کی تہذیبوں میں ریاستی و معاشرتی قوانین کے محققین کا سلسلہ چند صدیوں کے عرصے تک ہی محیط ملتا ہے ۔ جب کہ بعض تہذیبوں میں اس کا دورانیہ اس سے بھی کم عرصے کا رہ جاتاہے ، یورپ کی نشاط ثانیہ اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ جس میں مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کے نتیجے میں مرتب شدہ قوانین چار صدیوں کے عرصے تک تجرباتی مراحل میں ہونے کے باوجود آج دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔لیکن اگر ہم تاریخ کو صدیوں کے تسلسل میں دیکھیں تو ارض فلسطین پر ہمیں ایک ایسے محقق، مفکر ، منتظم و مدبر حضرت ابراہیمؑ نظر آنے لگتے ہیں کہ جنہوں نے دیوتائی تسلط و بربریت پر مبنی تہذیب نمرود کو شکست دینے کے باوجود قدم قدم پر اپنے انسان ہونے کی گواہی دی۔
1، نار نمرود کو گلزار بناتے وقت 2، اطمینان قلب کی خاطر مابعد المادہ و مابعد الطبیعات کو مسخر کرتے وقت 3، فطرت انسانی کے عین مطابق ریاستی قوانین پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی اساس کی نفی کرتے''من ذریتی'' کے جواب میں ''لاینال عہدالظالمین '' کا غیر متبدل قانون حاصل کرتے وقت 4، پیر سنی میں اولاد نرینہ کے پیدا ہونے کی خوش خبری سنتے وقت اور05عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور آسودگیء مزاج ِانسانی کی خاطر دو تہذیبوں (تہذیب بیت المقدس اور تہذیب خانہ کعبہ ) کی بنیاد ڈالتے وقت عقل وخرد کے تمام پیمانوں پر خود کو انسان ثابت کیا۔
جب کہ ان ؑ کی تقلید و تائید میں حضرت یوسف ؑکو دیوتائیت سے بھی بڑھ کر خدائی تسلط کی عظیم ترین تہذیب فراعین مصر میں اپنے جد امجد ؑکی تحقیقات کو عملی طور پر نافذکر کے صدیوں تک خدائی کے دعویدار رہتے آنے والے انسانوں کے جانشین سے خدائی کی بجائے انسان ہونے کا اقرار کراتے دیکھا جاسکتا ہے۔جب کہ اولاد ابراہیم ؑکے مصر سے انخلاء اور فلسطین میں آباد ہونے کی تاریخ اور اسی تسلسل میں تحقیقات ابراہیمؑ کے مقلدین ومبلغین (انبیائے کرام ؑ)نے ارض فلسطین پرریاستی ومعاشرتی قوانین کے نفاذکے لیے کی جانے والی تمام جدوجہد میں خود کو انسان ثابت کیا۔
جب کہ ذکریاؑ، یحییٰ ؑ،عیسیٰ ؑ کے ارتقائی اظہار میںانھوں نے تو دیوتائی تسلط مانگنے والوں کے ہاتھوں دوٹکڑے ہوکر، ذبح اور مصلوب ہوکر بھی انسان ہونے کو دیوتا پر ترجیح دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ تحقیقات وتہاذیب ابراہیمؑ کے وراثوںکے ہاتھوں Xerxesدیوتا کی تہذیب فارس فتح ہوئی تو وہاں بھی سیاسی حربے کے طور جناب خالدؓ بن ولید سے دیوتائی اوصاف منسوب کیے گئے تو ''مرکز ''نے ان کی سالاری منسوخ کردی۔ اور انھیں ایک سپاہی کی طرح خدمات سرانجام دینے کا حکم دیا گیا۔ اور انھوں نے سپاہی کی حیثیت سے ہی فلسطین کی جنگ میں حصہ لے کر خودکے انسان ہونے کو آشکارا کیا تھا۔
تاریخ کی کیا خوبصورت تشریح ہے کہ اسی معرکے میں فلسطین کی وراثت پر ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کر مارنے والوں نے اپنی مذہبی روایات کی سچائی پرکھنے اور وارثی ابراہیمؑ سے دست بردار ہونے کے لیے فلسطین کے دروازے کی کنجیاں خلیفۃ المسلمین کے حوالے کرنے کی شرط رکھی تھی تو تاریخ نے اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ اس منظر کو قید کردیا کہ وراثت تہذیب انسانی اکے علیٰ و مقدس ترین منصب پر فائز جناب عمر فاروقؓ لاینال عہد الظالمین کے اصول کی تابندہ تصویر بنے شتر سوار غلام کے اونٹ کی رسی پکڑے اس شان سے فلسطین میں داخل ہوئے کہ جیسے دیوتائی تسلط کے خواہاں و متلاشی انسانی گروہوں کو انسانی تہاذیب و تحقیقاتِ ابراہیمؑ سے بے دخلی کی سنَدجاری کی گئی جسے انھوں نے بہ خوشی قبول بھی کرلیا تھا۔
اگر تاریخ کے وسیع النظر طالب علم کو اتنے کھلے شواہد کے باوجود بھی اطمینان قلب کی خواہش چراتی ہے تو صدیوں تک موجودہ مغربی انسانوں کی دیوتائی تسلط پر مبنی تہذیب کا مرکز رہنے والے قسطنطنیہ(استنبول) کے تائی کوپ(محل) میوزیم میں جناب خالدؓ بن ولید اور جناب جعفرؓطیار کی شمشیریں اور ان مغربی انسانوں کے ''آقاؤں'' کو خود سے بے دخل کرنے والی ارض فلسطین پر قابل عمل مساوات کی دعوت بلالیؓ کی شرگت گاہ یعنی مسجد عمرؓملاحظہ کرفرمالیں۔
یا تو شہر علم کے در فاتح خیبر کی جانب سے ضربِ بن ملجم کے جواب میں خود کو کامیاب قرار دیے جانے کے الفاظ کو سمجھیں ،کہ قاتل ہونا ناکامی کی علامت ہے ۔ انسانوں کے لیے انسانی تہذیب ہی بقائے حیات ہے یا پھر دیوتائی بربریت و تسلط عالم انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچا سکتا ہے؟ فیصلہ طالب علم ہی نے کرنا ہے۔